کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 2
گزشتہ قسط نمبر 1 میں کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے درج ذیل تین امور پر لکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا ہے۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں۔
- نفس کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں۔
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں۔
ان عناوین کے تحت ادارہ الفضل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں دوسری قسط پیش ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے فرائض
• حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سچی توبہ کرو۔ بھلا دیکھو تو سہی اگر بازار سے کوئی دوامثل شربت بنفشہ کے تم لاؤ اور اصل دوا تم کو نہ ملے بلکہ سڑا ہوا پرانا شیرا تم کو دیا جاوے تو کیا وہ بنفشہ کے شربت کا کام دیگا؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح سڑے ہو ئے الفاظ جو زبان تک ہو ں اور دل قبول نہ کرے وہ خدا تک نہیں پہنچتے۔ بیعت کرانے والے کو تو ثواب ہو جاتا ہے مگر کرنیوالے کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بیعت کے معنے ہیں بیچ دینا ۔جیسے ایک چیزبیچ دی جا تی ہے تواس سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔خریدار کا اختیار ہو تا ہے جو چاہے سوکرے ۔تم لوگ جب اپنا بیل دوسرے کے پا س بیچ دیتے ہو توکیا اسے کہہ سکتے ہو کہ اسے اس طرح نہ استعما ل کرنا ؟ ہرگز نہیں۔ اس کا اختیا ر ہے جس طرح چاہے استعمال کرے۔ اسی طرح جس سے تم بیعت کرتے ہو ۔اگر اس کے احکا م پرٹھیک ٹھیک نہ چلو تو پھر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ہرایک دوا یا غذا جب تک بقدر شربت نہ پی جاوے فائدہ نہیں ہوا کرتا ۔اسی طرح بیعت اگر پورے معنوں میں نہ ہو تووہ بیعت نہ ہو گی ۔خدا تعالیٰ کسی کے دھوکہ میں نہیں آسکتا ۔اس کے ہا ں نمبراور درجے مقرر ہیں۔ اس نمبر اور درجہ تک توبہ ہو گی تو وہ قبول کرے گا جہانتک طاقت ہے وہاں تک کوشش کرو پورے صالح بنو۔ عورتوں کونصیحت کرو ۔نماز روزہ کی تا کیدکرو ۔سوائے آٹھ سات دن کے جوعورتوں کے ہو تے ہیں اور جس میں نماز معاف ہے تمام نمازیں پوری پڑھیں اور روزے معاف نہیں ہیں ان کو پھر ادا کریں۔ انہی کمیوں کی وجہ سے کہا کہ عورتوں کا دین نا قص ہے۔ اپنے ہمسایہ اور محلہ والوں کوبھی نیکی کی تاکیدکرو ۔غافل نہ ہو ۔اگر علم نہ ہو تو واقف سے پوچھو کہ خداکیا چاہتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ6-7 ایڈیشن 2016ء)
• ان مختلف امراض اور عوارض کے ذکر پر جو انسا ن کو لاحق ہو تے ہیں فرمایا کہ :
’’اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ چند ایک بیمار یاں ہی انسان کو لاحق کر دیتا مگر دیکھتے ہیں کہ بہت سی امراض ہیں جن میں وہ مبتلا ہوتا ہے۔ اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہو تی ہے تا کہ ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارضات اور امراض میں گھر اہو ا پا کر اللہ تعالیٰ سے ترساں و لرزاں رہے اور اسے اپنی بےثباتی کا ہردم یقین رہے مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھول جاوے اور خدا سے بے پروانہ ہو جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ19 ایڈیشن 2016ء)
• فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہر گزنہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے۔ وہ اُسے خائب وخاسر کرے اور ذلّت کی موت دیوے جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہو تا۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامراد رہا۔ خدا تعالیٰ بندے سے یہ چا ہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشیں اس کے حضور پیش نہ کرے اورخالص ہو کر اس کی طرف جھک جا وے جو اس طرح جھکتا ہے اسے کو ئی تکلیف نہیں ہو تی اور ہر ایک مشکل سے خودبخود اس کے واسطے ر اہ نکلِ آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فر ما تا ہے وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: 3 اور 4)
اس جگہ رزق سے مراد روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزت۔ علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کوضرورت ہے اس میں داخل ہیں۔خدا تعالیٰ سے جو ذرّہ بھربھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہو تا۔ َمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ (الزلزال:8) ہمارے ملک ہندوستان میں نظام ا لدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جا تی ہے وہ اسی لیے ہے کہ خدا سے اُن کا سچاّ تعلقّ تھا اور اگر یہ نہ ہو تا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوں میں ہل چلاتے۔ معمولی کا م کرتے۔ مگر خدا تعالیٰ کے سچّے تعّلق کی وجہ سے لو گ ا ُن کی مٹی کی بھی عزت کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ24 ایڈیشن 2016ء)
نفس کے حقوق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء سوء کے سب وشتم اور ان کی مخالفت کے پیش نظر اپنے اللہ کے حضور عربی زبان میں ایک جامع دُعا کی۔ جس میں نفس اور نفسانی برائیوں سے بچنے اور جوشوں و جذبات پر خداتعالیٰ سے مدد مانگی گئی ہے۔ یہ دعا حضورؑ نے اپنی معرکہ آراء کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج فرمائی ہے۔ جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
ایک جامع دعا
’’اے اللہ! ہمیں ان کے فتنے سے محفوظ رکھ اور انکی تہمتوں سے بری کر اور ہمیں اپنی حفاظت اور بزرگی اور خیر و بھلائی کے ساتھ خاص کرلے۔ اور ہمیں اپنے علاوہ کسی اور کو نہ سونپ دینا اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ایسے نیک عمل کریں جن سے تو راضی ہوجائے ہم تجھ سے تیری رحمت تیرے فضل اور تیری رضا کے طلبگار ہیں۔ اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بہت رحم کرنیوالا ہے۔ اے میرے رب! تو اپنے فضل سے میری قوت بن جا اور میری آنکھوں کا نور اور میرے دل کا سرور اور میری زندگی اور موت کا قبلہ تو ہوجا اور مجھے محبت کا شغف بخش اور ایسی محبت مجھے عطا کر کہ میرے بعد کوئی اور اس محبت میں آگے نہ بڑھ سکے۔ اے میرے رب! میری دعا قبول کر اور میری خواہشیں مجھے عطا کر اور مجھے صاف کردے اور مجھے عافیت میں رکھ اور مجھے اپنی طرف کھینچ لے اور میری خود رہنمائی کر اور میری تائید فرما اور مجھے توفیق بخش اور مجھے پاک کر اور مجھے روشن کردے اور مجھے سارے کا سارا اپنا بنالے اور تو سارے کا سارا میرا ہوجا۔ اے میرے رب! میرے پاس ہر دروازے سے آ اور ہر پردے سے مجھے خلاصی دے دے اور ہر محبت کی شراب مجھے پلادے اور نفسانی جوشوں اور جذبات کے وقت خود میری مددفرما اور جدائی کی ہلاکتوں اور اندھیروں سے میری حفاظت فرما اور آنکھ جھپکنے کے برابر لمحے کیلئے بھی مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کرنا اور مجھے نفسانی برائیوں سے بچانا اور میری رفعت سبھی تیری طرف ہو اور میرا نیچے اترنا بھی تیری طرف ہو اور تو میرے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرے میں داخل ہوجا اور مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو تیرے سمندروں میں تیرتے اور تیرے انوار کے باغات میں پھرتے ہیں اور جو تیری تقدیر کے جاری ہونے پر راضی رہتے ہیں اور میرے دشمنوں کے مابین دوری پیدا کردے۔۔۔۔ اے میرے رب! اپنے فضل اور اپنے چہرے کے نور کے ساتھ تو مجھے اپنا حسن دکھا اور اپنا مصفٰی پانی مجھے پلا اور ہر قسم کے پردوں اور غبار سے مجھے باہر نکال دے اور مجھے ان لوگوں میں سے نہ بنا جو تاریکی اور پردوں میں اوندھے ہوگئے اور برکات اور ہر قسم کے نور اور روشنی سے دور ہوگئے۔ اور اپنی ناقص عقل اور الٹی کوشش کے سبب سے نعمتوں کے گھر سے ہلاکت کے گھر کی طرف لوٹ گئے اور مجھے اپنی ذات کی خالص اطاعت عطا کر اور اپنے حضور میں دائمی سجدوں کی توفیق بخش اور ایسی ہمت دے جس پر تیری عنایت کی نظریں اتریں اور مجھے وہ شے عطا کر جو تو اپنے مقبول بندوں میں سے کسی خاص فرد کے سوا کسی کو عطا نہیں کرتا اور مجھ پر ایسی رحمت نازل کر کہ جو تو اپنے محبوب بندوں میں سے کسی منفرد وجود کے سوا کسی پر نہیں اتارتا۔ اے میرے رب! میری ہمتوں اور میری کوشش اور میری دعا اور میرے کلام کی وجہ سے دین اسلام کو زندہ کردے اور اس کی آب و تاب، حسن اور خوبروئی واپس لوٹا دے اور ہر دشمن اور اس کے تکبر کو توڑ کر رکھ دے۔ اے میرےرب! مجھے دکھا کہ تو کیسے مردے زندہ کرتا ہے مجھے ایسے چہرے دکھا جو ایمانی صفات ساتھ رکھتے ہوں اور ایسے نفوس عطا کر جو حکمت یمانی کے حامل ہوں اور ایسی آنکھیں دکھا جو تیرے خوف سے روتی ہوں اور ایسے دل دکھا جو تیرے ذکر کرنے پر کانپ جاتے ہوں اور ایسی صاف فطرت دکھا جو حق اور راہ راست کی طرف رجوع کرنے والی ہو۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ5-6)
• پھر دُعا کرتے ہوئے اپنے اللہ سے التجا کرتے ہیں:
’’ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے تو ہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا‘‘
(البدر جلد2 صفحہ30)
• ’’ایک جانور آج کل کے مو سم میں شام کے بعد مسجد مبارک کے شہ نشین احباب پر حملہ کیا کرتا ہے اس کے متعلق فرمایا کہ:
کو ئی ایسی تد بیر کی جا وے کہ ایک دفعہ یہ اس جگہ پکڑا جا وے پھر ہم اسے چھوڑہی دینگے مگر ایک دفعہ پکڑا جا نے سے اتنا تو ضرور ہو گا کہ پھر وہ کبھی آئندہ اس جگہ اس طرح حملہ کر نے کا ارادہ نہ کریگا۔
ہر جانور کا یہ قاعدہ ہے اور اس کے اندر ایک خاصیت ہے کہ جس جگہ سے اسے ایک دفعہ ٹھو کر لگتی ہے اور مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اس جگہ کا پھر وہ کبھی قصد نہیں کرتا مگر صرف انسان ہی ایک ہے جو باوجود اشرف المخلوقات ہو نے کے ان پرندوں وغیرہ سے بھی گرا ہوا ہے کہ جہاں سے اسے مصائب پہنچتے ہیں اور ضرر اور نقصان اٹھاتا ہے اس کی طرف بھا گنے کا حریص ہو تا ہے ہوشیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نا فرمانی کو ترک کرتا ہے بلکہ جذبات نفس کا مطیع ہو کر پھر اسی کام کو کرنے لگتا ہے جس سے ایکبار ٹھو کر کھا چکا ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ53-54 ایڈیشن 2016ء)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
• فرمایا کہ :
’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔ وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ (البقرہ: 229) کہ جیسے مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں، بعض لوگوں کا حال سنا جاتاہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں گالیاں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سےبرتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔
چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ121 ایڈیشن 2016ء)
• فرمایا: ’’خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجا آوری پورے طور پر بجا لانی چاہیئے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ124 ایڈیشن 2016ء)
• فرمایا:
’’عبادت اور احکام ِالہٰی کی دو شاخیں ہیں۔ تَعْظِیْم لَْامْرِاللّٰہِ اور ہمدردی مخلوق۔ مَیں سوچتا تھا کہ قرآن شریف میں تو کثرت کے ساتھ اور بڑی وضاحت سے ان مراتب کو بیان کیا گیا ہے مگر سورۃ فاتحہ میں ان دونوں شقوں کو کس طرح بیان کیا گیا ہے مَیں سوچتا ہی تھا کہ فی الفور میرے دل میں یہ بات آئی کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ سے ہی یہ ثابت ہو تا ہے یعنی ساری صفتیں اور تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں جو رب العالمین ہے یعنی ہر عالم میں، نطفہ میں، مضغہ وغیرہ میں سارے عالموں کا رب ہے۔ پھر رحمٰن ہے پھر رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے اب اس کے بعد اِیَّاکَ نَعۡبُدُ جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت۔ رحمانیت۔ رحیمیت۔ مالکیت یوم الدین کی صفات کا پرتو انسان کو اپنے اندر لینا چا ہیئے کیونکہ کمال عابد انسان کا یہی ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَ خْلَاقِ اللّٰہِ میں رنگین ہو جاوے پس اس صورت میں یہ دونوں امر بڑی وضاحت اور صفائی سے بیان ہو ئے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ 129 ایڈیشن 2016ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام ارشادات پر کماحقہٗ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
(ابو سعید)