رَبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۷﴾ اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۸﴾
(سورۃ نوح:27۔28)
ترجمہ:
(اور نوح نے کہا) اے میرے ربّ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے۔ یقیناً اگر تُو ان کو چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور بدکار اور سخت ناشکرے کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گے۔
یہ حضرت نوح عليه السلام کی دشمنوں کے خلاف دعا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے خدائی حکم کے مطابق کامل طور پر اپنی قوم کو خدائے حق کا پیغام پہنچایا اور انکے مسلسل انکار پر انہیں سمجھایا۔ مگر وہ انکار ومخالفت سے باز نہ آئے۔ جب حضرت نوحؑ کو یہ یقین ہوگیا کہ اب یہ قوم بات نہ مانے گی اور تباہی ہی انکا مقدر ہے تو آپؑ نے انکے خلاف یہ دعا کی۔ چنانچہ آپ نے خدائی حکم کے مطابق کشتی تیار کی اور اپنے متبعین کے ساتھ اس میں سوار ہوگئے۔ اللہ نے آپؑ کو اور آپ کے ماننے والوں کو محفوظ رکھا اور مخالفوں کی خلاف آپ کی دعاؤں کو سنتے ہوئے انہیں تباہ کردیا۔
(مرسلہ:مریم رحمٰن)