• 29 اپریل, 2024

صاحب استطاعت پر حج کرنا فرض ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا

(آل عمران: 98)

ترجمہ: اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ (اس کے) گھر کا حج کریں (یعنی) جو بھی اس (گھر) تک جانے کی استطاعت رکھتاہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
محبت کی حالت کے اظہار کے لئے حج رکھا ہے۔ خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرارِ عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدتِ محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑے کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا۔ سیالکوٹ میں ایک عورت درزی پر عاشق تھی اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی۔ غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہو تا ہے وہ حج میں موجود ہے۔ سر منڈایا جاتا ہے ،دوڑتے ہیں محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے۔ پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعو دؑ جلد 2صفحہ 133)

اس اعتراض کے جواب میں کہ آپ ؑنے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیا فرمایا:
حج کا مانع صرف زادِ راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اللہ حج نہ کرنے کے لئے عذر صحیح ہیں چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز ان میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا۔ عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بد اندیش مکہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جاؤ اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت ﷺ نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو ۔یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اورپھر بار بار حج کے بارے میں اعتراض کرنا۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ ذرہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے حج کی ان لوگوں کو کیوں فکر پڑ گئی۔ کیا اس میں بجز اس بات کے کوئی اور بھید بھی ہے کہ میری نسبت ان کے دل میں یہ منصوبہ ہے کہ یہ مکہ کو جائیں اور پھر چند اَشْرَارُ النَّاس پیچھے سے مکہ میں پہنچ جائیں اور شور قیامت ڈال دیں کہ یہ کافر ہے اسے قتل کرنا چاہئے۔

(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ 415)

نیز فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ پس ہم گنہگار ہونگے اگر دیدہ دانستہ تَھْلُکَۃ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے۔ اور خدا کے حکم کے بر خلاف قدم اٹھانا معصیت ہے ۔حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تَھْلُکَۃ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ415۔416)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں :
حج کے اعمال کِبر و بڑائی کے سخت دشمن ہیں زیب و زینت کو ترک کرنا غرباء کے ساتھ ننگے سر کوسوں چلنا، دنیا داروں ، مَستوں عیاشوں کو کیسی کیسی ہمت بڑھانے کا موجب ہے ۔غرض حج کیا ہے اسلامیوں کو تجربہ کار اور ہوشیار بنانا ہے۔

(فصل الخطاب جلد2صفحہ328)

نیز فرمایا:
اسلام نے بغرضِ کمالِ اتحاد اہلِ اسلام تجویز فرمایا کہ سب لوگ سادہ دو چادروں پر اِکتفا کرکے امیر و غریب یکساں سرسے ننگے کُرتے سے الگ سادہ وضع پر ظاہر ہوں تاکہ ان کی یکتائی اور اتحاد کامل درجے پر پہنچے اس حالت کا نام اِحرام ہے …. زیب و زینت کی پہلی سیڑھی حجامت بنوانا ،بال کٹوانا ہے اور اس کی ان ایام میں ممانعت ہے …پھر اس مسجد میں …. ابراھیمی عبادت کی طرح پر ایک عبادت ہے جسے طواف کہتے ہیں ۔پروانہ وار چند بار الٰہی مسجد کے گرد گھومنا …. پھر صفا اور مروہ کے درمیان بیادگار اُمّ اسماعیل ،ہاجر ہ علیہا السلام چلنا، ہاجرہ کو جب ابراہیم ؑ نے یہاں چھوڑا تو انہوں نے ابراھیم ؑ سے پو چھا تُو ہمیں کس کے سپرد کرتا ہے تو ابراہیم ؑ نے فرمایاخدا کے سپرد اوراُسی کے حکم سے۔ تب ہاجرہؑ نے کہا جاؤ وہ اللہ تعالیٰ ہم کو ضائع نہ کرے گا۔ آخر پیاس کی شدت میں پانی کی جستجو میں جب یہاں دوڑیں تو خدا نے زمزم سے ان کی امداد کی …. پھر عرفات کے میدان میں جانا ایک ضروری فعل حج کا ہے۔ جہاں نہ کوئی پتھر نہ کوئی درخت صرف الٰہی یاد ہے اور اسی سے دعا….پھر حلق ہے جس کی وجہ یہ ہے بہت دن سر کھلا رہاگرد و غبار پڑا ۔عام لوگوں کو سامان سرد ھونے کا اس سے بہتر کیا ہے کہ سر منڈوا دیں یا بالوں کو کٹوائیں۔ ….. مقدسہ کتب میں اجتماع کے لئے ترئی اور ناقوس کی ابدی رسم ہے۔ اسلام نے اس کے بدلے کہیں اذان کے لطیف کلمات اور حج میں لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ۔ حاضر ہوں ،حاضر ہوں اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں ۔تیرا کوئی شریک نہیں ہے میں حاضر ہوں بے شک حمد اور نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے ۔تیرا کوئی شریک نہیں۔

(فصل الخطاب جلد2 صفحہ328)

فرمایا:
تَوَجُّہ اِلیٰ الْقِبْلَۃِ سچ ہے شک نہیں۔ سجدہ پرلے درجے کا عجزو نیاز ہے یہ عمدہ فعل ضرور ہے کسی طرح واقع ہو اور کوئی طرف ہو اس میں مخلوق ہونا ضروری ہے اس لئے شارع نے خود ایک جِہَت مقرر کردی جس میں کئی فائدے ہیں۔

(فصل الخطاب جلد2صفحہ 330)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
پس حج ایک اہم عبادت ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے جب کو ئی شخص مکہ مکرمہ میں جاتا ہے اور مناسک حج کو پوری طرح بجا لاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجا تا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کر نے والے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے جاتے ہیں۔

(تفسیر کبیرجلد6صفحہ33)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒفرماتے ہیں :
سارے ارکانِ حج محبت کے پہلو کونمایاں کرنے والے ہیں۔اور جویاد اس سے وابستہ ہے ۔اس کا تعلق بھی محبت اور عشق سے ہے حضرت ابراہیم ؑ کا عشق اپنے پید ا کرنے والے رب سے اور آپ کی محبت اس آنے والے کے لئے (ﷺ) کہ جن کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپ کوبڑی تفصیل سے دی تھی۔

(خطبات ناصر جلد10ص214)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :
آنحضرت ﷺ کی سنت ہے کہ حج کے دن سے ایک روز قبل نماز عصر کے بعد سے آپ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الحَمْدُ کی تسبیحات اونچی آواز میں پڑھا کرتے تھے اور اگلے اڑھائی یوم آپ ہر نماز کے بعد اسی طرح کیا کرتے تھے۔

(خطبات طاہر جلد 1صفحہ 183)

ہمارے پیارے اِمام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مخالفین احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کس کا حج قبول کر رہا ہے،کس کانہیں ۔حج سے احمدیوں کو روکا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ جن احمدیوں کے دلوں میں حج کرنے کی تڑپ ہے ا ور نہیں جا سکتے، ان کے حج قبول ہورہے ہیں یااس اکثریت کے جو ظلم کرکے پھر حج کرنے چلی جاتی ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 11اکتوبر2013ء)

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کے لئے حج کے راستے کھولتا چلاجائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

سانحہ ارتحال