• 29 جولائی, 2025

حج، قربانی اور عیدالاضحیہ کا فلسفہ

حج، قربانی اور عیدالاضحیہ کا فلسفہ
ان کے ذریعہ خدا کی رضا اور مخلوق سے محبت و اخوت کا درس ملتا ہے

حج قرآنی ارشاد کی روشنی میں ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ویسے تو ہر دل میں یعنی مومن کے دل میں یہ خواہش ہے کہ وہ بیت اللہ کی زیارت کرےاور اپنے رب العزت کے حضور وہاں پہنچ کر مناجات کرے اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے دعائیں کرے، روضۂ نبویﷺ پر حاضری دے لیکن ہر شخص کے لئے جانا ممکن نہیں ہے مگر ہمارا خدا بڑا ہی رحیم و کریم خدا ہے بڑا بے نیاز ہے اس کے رسول مقبول ﷺ نے یہ فرمادیا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔پس خوشخبری ہو ان مومنوں کو جن کے دل میں وہاں جانے کی تڑپ ہے گھر حالات کی مجبوری کی وجہ سے وہ وہاں نہیں جا سکتے ، انہیں خدا ان کی پاک نیتوں کا ثواب عطا فرما دے گا۔اور کسی لحاظ سے بھی انہیں محروم نہیں رکھے گا۔ ان شاء اللہ

حج

اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینہ یعنی ذوالحجہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ ذوالحجہ کے پہلے دس دن احادیث نبویہ کی روشنی میں بڑے اہمیت کے دن ہیں چنانچہ ایک روایت کے مطابق ان دس دنوں میں بجالائے گے اعمال خدا تعالیٰ کے نزدیک دوسرے دنوں میں کئے گئے اعمال کی نسبت زیادہ محبوب ہیں بلکہ ایک اور حدیث میں آنحضرتﷺ کا یہ فرمان بھی ملتا ہے کہ ان دنوں میں کئے گئے نیک اعمال خدا تعالیٰ کے ہاں بہت عظمت رکھتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کوبہت محبوب اور پسندیدہ بھی ہیں اس لئے ان ایام میں کثرت کے ساتھ تَکْبِیْرَات و تَہْلِیْل اور خدا تعالیٰ کی حمد بیان کرو۔

صحابہ کرامؓ تو ان دنوں میں علیحدگی میں بھی اور پبلک جگہوں پر بھی کثرت کے ساتھ ذکر الٰہی، نوافل اور بلند آواز سے تکبیریں کہتے تھے۔

حج کا فلسفہ اور مقصد

حج کا فلسفہ اور مقصد اور حج کرنے سے جو سبق حاصل کیا جاتا ہے وہ خود قرآن کریم نے بیان فرما دیا ہے چنانچہ یہاں پر اُن آیات کا ترجمہ لکھا جاتا ہے۔

1۔ حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پورا کرو۔ (البقرۃ:197)

یعنی خدا ئی حکم سمجھ کر بجالاؤاور تمہارے مدنظر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ۔اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہو۔اس میں دکھاوا بالکل نہ ہو ورنہ حج کا ثواب ختم ہو جاتا ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حج کے مہینے سب کے جانے بوجھے ہوئے مہینے ہیں پس جو شخص ان میں حج کا ارادہ پختہ کرلے اسے یاد رہے کہ حج کے ایام میں نہ تو کوئی شہوت کی بات نہ کوئی نافرمانی اور نہ کسی قسم کا جھگڑا کرنا جائز ہوگا۔ (البقرہ:198)

پس اگر ان مبارک ایام میں نافرمانی اور جھگڑا نہیں کرنا۔ تو اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیشہ ہی نافرمانیوں اور جھگڑوں سے بچنا ہے۔ ان ایام سے یہ سبق ضرور حاجیوں کو لینا چاہئے۔

3۔ تیسرا سبق یا فلسفہ یہ ہے جو خدا تعالیٰ نے فرمایا اور یہ آیت اوراس کا سیاق و سباق بھی حج والی آیات کے ساتھ یا حج کے احکامات کے ساتھ ہی مل رہا ہے اور وہ یہ ہے

زادِ راہ ساتھ لو اور یاد رکھو!بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقلمندوں تقویٰ اختیار کرو۔ (البقرہ:198)

پس ہر مومن کا زادِ راہ تقویٰ ہونا چاہئے۔حج میں بھی، حج کے لئے بھی اور بعد میں بھی، یہ تو نہیں کہ حج کے موقعہ پر تو تقویٰ بعد میں انسان تقویٰ سے خالی ہو جائے پھر حج کس کام کا؟حج سے یہی تو فائدہ اٹھایا جائے اور حج کے اس فلسفہ اور مقصد کو مدنظر رکھا جائے کہ ہمارے دل میں خدا تعالیٰ کا کس قدر خوف ہے۔خدا تعالیٰ کے احکامات کو صحیح طور پر بجا لانے کی کس قدر تڑپ اور لگن ہے کہاں تک ہم مرضی مولیٰ کو اپنی خواہشات پر ترجیح دے رہے ہیں۔پس اسی کا نام تقویٰ ہے کہ ہر کام کو کرتے ہوئے یہ مدنظر ہو کہ اس کام سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا یا ناراض ہوگا۔اسی کا نام تقویٰ ہے کہ بچتے رہو ان راہوں سے جن سے خدا خوش نہیں ہوتا۔

4۔ چوتھا سبق حج سے متعلق قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے کہ فرمایا:
اعلیٰ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں اُن کے پچھواڑے سے داخل ہو بلکہ کامل اور نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔اور تم گھروں میں اُن کے دروازوں سے داخل ہوا کرو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ (البقرہ:190)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حج کے ساتھ یہ ذکر فرمایا ہے کہ کامیابی ہمیشہ سیدھے طور پر کسی کام کو کرنے سے حاصل ہوتی ہے اگر تم ایسا نہیں کرتے یعنی کسی کام کو کرنے کے لئےصحیح راستہ اور صحیح طریق استعمال نہیں کرتے اور دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے دیواریں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تم کبھی بھی حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور منزل مراد تک نہیں پہنچ سکتے۔پس اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر کام کے لئے صحیح طریق اختیار کیا جائے اور وہ راستے وہی ہیں جو خدائے ذوالجلال والاکرام نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں اور جن راستوں کو ہمارے پیارے ہادیٔ کامل آنحضرتﷺنے اختیار فرمایا ہے اور جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔

5۔پانچواں سبق حج سے اتفاق و اتحاد کا ملتا ہے۔جو لوگ حج پر گئے ہیں یا جن لوگوں کو جانا نصیب نہیں ہوا مگر لوگوں سے ضرور سنا ہوگا اور اگر وہ بھی نہیں تو ٹی وی پر حج کے مناظر ضرور دیکھے ہوں گے کہ حج کے موقعہ پر بیت اللہ شریف میں تمام اطراف ، تمام دنیا ، تمام ملکوں، تمام قوموں سے ہزاروں زبانیں بولنے والے مختلف رنگوں اور نسل سے تعلق رکھنے والے اکٹھے ہوتے ہیں جو نہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔خدائے واحد کے نام پر یہ سب اکٹھے ہوتے ہیں اور اتفاق و اتحاد کا ایک عجیب روح پرور منظر دیکھتے میں آتا ہے، پس حج سے واپس آکر بھی اپنے دلوں کو پاک صاف کرتے ہوئے نفرت، حسد، تعصب کو دور کر کے ایک ہونا چاہئے۔اس کی جگہ اخوت و محبت اور انسانیت سے پیار کرنا چاہئے۔

حج اور قربانی کا ایک اور اہم نکتہ یا فلسفہ

حج کرنے سے جو ثواب حاصل ہوتا ہے وہ بھی ہمارے پیارے ہادیٔ کامل رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان گناہوں سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔ یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے اگر اسے نصیب ہو جائے۔ اور ایک دفعہ جب گناہوں سے پاک صاف ہو جائے تو وہاں میں سے یہ عہد کر کے نکلے کہ آئندہ تا وفات وہ خدا تعالیٰ کے حضور لرزاں و ترساں رہے گا اور نہ کسی کے حقوق مارے گا نہ کسی پر زیادتی کرے گابلکہ اس راہ ہدایت پر پوری طرح عمل کرے گا کہ
’’ہلاکت کی راہوں سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ…اور اسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے ۔ چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا…تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے … تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤجیسے ایک پیٹ میں سے دوبھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جوضد کرتا ہے او ر نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔ خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے ۔بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا اور ہر ایک جو اس کے نام کے لئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گِدّوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دور ہے، ہرا یک ناپاک دل اس سے بے خبر … تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اوراپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو تم سچ مچ اس کے ہو جاؤتا وہ بھی تمہارا ہو جائے‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ12تا13)

پس حج کے فلسفہ میں ان باتوں کو یاد رکھ کر ۔ پھر ساری عمر ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔

عیدالاضحیہ یہی نہیں ہے کہ انسان عید کی نماز پڑھ لے اور پھر قربانی کرے اورعزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ دعوت اڑا لے۔گوشت تو انسان عام دنوں میں بھی کھا لیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا۔جو بات خدا کو پہنچتی ہے وہ تمہارا تقویٰ ہے اور یہ کہ کس قدر تم اپنے ہوائے نفس کو ذبح کرتے ہو اور خدا کو مقدم رکھتے ہو۔

ایک اور بات کہہ کر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور دراصل اس عید سے اور قربانیوں سے جوا یک اور خاص سبق ہمیں ملتا ہے وہ تربیت اولاد کا ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور حضرت ہاجرہؑ نے اپنے بچے حضرت اسماعیلؑ کی تربیت کی کہ وہ خدا کے لئے اپنے آپ کو قربان کرانے کے لئے تیار ہوگیا اور چھوٹی عمر ہی سے اس نے ایسا تعلق خدا سے باندھا کہ وہ خدا کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہوگیا۔ اس طرح ہم بھی خدا کی رضا کی خاطر بچوں کے اندر خدا کی محبت پیدا کریں۔انہیں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار کریںاور سب سے بڑی بات اور جس کا اہم تقاضا اس وقت ہے وہ یہ ہے کہ انہیں دین سکھائیں۔

حضرت اسماعیلؑ کو دین کس نے سکھایا۔خدا سے محبت کرنا کس نے سکھایا۔ان کی بزرگ والدہ اور بزرگ والد، ہر دو نے اپنا عملی نمونہ پیش کیا اور درست تربیت فرمائی۔ جس کی وجہ سے وہ تینوں خدا کے حضور مقبول ٹھہرے اور قیامت تک کے لئے ان کی قربانیوں کو ایک نمونہ اور مشعل راہ ٹھہرادیا گیا اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور بچوں کی تربیت کریں۔اس زمانے میں جبکہ مادی دور ہے اور سب دنیاداری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور دنیاداری میں کامیابی کے خواہاں ہیں۔ والدین اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برت رہے ہیں جو کہ تربیت اولاد ہے۔

حضرت ہاجرہ ؑ جس طرح حضرت اسماعیلؑ کی جسمانی زندگی کو بچانے کیلئے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگیں اور چکر لگائے کبھی ناہموار زمین پر تو کبھی پہاڑی کی چوٹی پر بے سرو سامانی کے عالم میں وہ ہر کام بھول گئیں مگر بچے کی جان بچانے کے لئے ہر تکلیف گوارہ کر لی۔ اور خدا کو ان کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ نہ صرف پانی کا چشمہ وہاں سے نکال دیا بلکہ قیامت تک کے لئے آپ کی اس ادا کو سنت بنا کر محفوظ کر دیا کہ ہرا یک حج پر جانے والا اس طرح دوڑے۔اسی طرح چلے ، اسی طرح پہاڑی پر چڑھے۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ماں کو اپنے بچوں کی روحانی زندگی بچانے کیلئے بہت تگ و دو کی ضرورت ہے، بہت قربانیوں اور ان تھک محنت کی ضرورت ہے۔ ماؤں کے لئے یہ سب سے بڑا جہاد ہے کہ ان کے بچے باخدا بچے بن جائیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ماؤں کے دلوں میں حضرت ہاجرہؑ والا دل دھڑکے اور وہی لگن ان کے دلوں میں ہو۔ خدا کرے ہماری مائیں اس بات کو سمجھ جائیں۔

(مولاناسید شمشاد احمد ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

سانحہ ارتحال