• 25 جون, 2025

بیت اللہ کی مختصر تاریخ (قسط اول)

بیت اللہ کی مختصر تاریخ
(قسط اول)

تاریخ مکہ

قرآن شریف کے مطابق بیت اللہ وہ پہلا گھر ہے جو مکہ میں لوگوں کی ہدایت کے لئے اور برکت کی خاطر بنایا گیا۔ (آل عمران:97) قرآن کریم میں مکہ اور بکہ دونوں نام مذکور ہیں۔ اصمعی کے نزدیک یہ لفظ عربوں کے قول تمکّکت المخ من العظم سے ماخوذ ہے، جس کے معنے ہڈی سے مغز نکالنے کے ہیں، کیونکہ مکہ فاجر کو اپنے اندر سے نکال دیتا ہے اور بکہ اس لئے کہا گیا کہ یہاں لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی جگہ کے نام ہیں۔ کیونکہ عربی میں میم باء سے بدل جاتا ہے۔ تاہم بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یہ دومختلف جگہوں کے نام ہیں مکہ شہر کا نام اور بکہ کعبہ کا نام ہے یا مکہ کا اطلاق سارے حرم پر اور بکہ صرف مسجد الحرام یا کعبہ پر۔

یہ بھی لکھا ہے کہ مکہ سے مراد لوگوں کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے جہاں طواف کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک مکہ فج روحاء سے تنعیم تک وسیع ہے اور بکہ بیت اللہ سے بطحاء تک محدود۔

مکہ کے اور بھی کئی نام ہیں جن کے معانی و مفہوم سے اس کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ صلاح (نیکی)، ام رحم (رحم کی ماں)، ام زحم (بھیڑ بھری)، الباسہ (شدت والی)، الناسہ (لوگوں والی)۔ اسی طرح مکہ کے دیگر نام بیت العتیق (بیت العقیق)، بیت الحرام (عزت والا گھر)، البلدۃ (شہر)، البلد الامین (امن والا شہر)، المامون (محفوظ)، امّ القریٰ (بستیوں کی ماں)، العرش (تخت شاہی)، القادس (پاک)، الرأس(سر)، البنیّۃ (بنیاد)، الکعبہ (چکور)، بکۃ (بار بار لوٹنے کی جگہ)، النساسۃ (بے آب وگیاہ)۔ الحاطمۃ (جس زمین پر کثرت سے قدم پڑیں)، المقدستہ (پاک) وغیرہ۔

(بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب لمحمود ْ الجزء الاول ص227,228 تفسیر ابن کثیر مطبوعہ دارالطیبہ جلد2 ص78 تاریخ الکعبۃ المعظمہ لحسین عبداللہ باسلامۃص10، 11 مطبعہ الشرقیہ)

یہ بھی کہا گیا کہ مکہ یا بکہ بابلی زبان کا لفظ ہے جس کے معنے البیت یعنی خاص گھر کے ہیں۔ یہ نام عمالقہ نے رکھا تھا۔

(تاریخ الاسلام السیاسی لحسن ابراہیم حسن مطبوعہ دارالجیل ص63)

عرب کا مرکز مکہ تھا اس بستی کی زیادہ قدیم تاریخ کا تو علم نہیں،تاہم یہ پتہ چلتا ہے کہ تعمیر بیت اللہ کے بعد جرہم اور اولاد اسمٰعیل نے اسے بسایا۔ ابتداءً یہ ایک نہایت تنگ، مگر طویل اور بے آب و گیاہ وادی تھی۔ البتہ اس کے فزاری علاقہ میں کڑوا پانی ملتا تھا۔ (جدہ سے اس کا فاصلہ 45 میل ہے) اس سے پہلے یہاں عمالقہ آباد ہوئے۔ حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی وجہ سے جرہم قبیلہ مکہ میں آ کر سکونت پذیر ہوا۔

قرآنی بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑنے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کے ساتھ خانہ کعبہ کی پرانی بنیادوں پر خدا کے گھر کی نئی تعمیر کی تھی۔ (البقرہ:128) حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ تقریباً چار ہزار سال قبل ہے۔ آپؑ عراق کے قدیم شہر بابل اُور میں مبعوث ہوئے۔ آپ حضرت نوحؑ کی اولاد میں سے تھے جب آپ نے توحید کی تبلیغ کی تو بادشاہ وقت اور آپ کی قوم نے مخالفت کی۔ چنانچہ آپ نے عراق سے مصر یاشام کی طرف ہجرت فرمائی۔ مصر کے بادشاہ رقیون یا طوطیس (جو دراصل بابل کا باشندہ تھا) کے ساتھ حضرت سارہ والا واقعہ پیش آیااور اس نے حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم ؑ کے حوالہ کیں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ہاجرہ اس بادشاہ کی بیٹی یا اس کے شاہی خاندان میں سے تھیں۔

(تاریخ ارض القرآن ازسید سلیمان الندوی جلددوم ص41)

حضرت ابراہیمؑ کی بیوی ہاجرہ کے بطن سے اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیلؑ کنعان کے قریب کسی مقام پر پیدا ہوئے (پیدائش باب16 آیت11) اسماعیل عبرانی نام ہے بائیبل اس کے یہ معنی بیان کرتی ہے ’’خداوند نے تیرا دکھ سن لیا‘‘۔ (پیدائش باب16 آیت11) عربی زبان میں بھی اس کے یہی معنی ہیں کہ خدا نے سن لی۔ ابھی آپ بچے تھے کہ ان کی سوتیلی ماں سارہ نے کسی بات پر ناراض ہو کر حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو، جس پر وہ رنجیدہ خاطر ہوئے تو خداتعالیٰ نے ابراہیمؑ سے فرمایا: ’’رنجیدہ مت ہو جیسے سارہ کہتی ہے ویسے ہی کر، اسحاق تیری اولاد ہے مگر مجھے ہاجرہ کے فرزند سے ایک قوم بنانا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے برّاق پر سینکڑوں میل کا سفر کر کے اسماعیل اور ہاجرہ کو حجاز کے اندر وادیٔ بکہ میں آباد کیا جو اس وقت غیر آباد اور ویران وادی تھی۔

(پیدائش باب21آیت12،13۔ تاریخ الخمیس جلد1 ص105)

حضرت ابراہیم ؑ نے ہاجرہ اور ان کے دودھ پیتے بچے اسماعیل کو ایک بڑے درخت کے پاس کعبہ کے نزدیک لا کر چھوڑ دیا۔

اس وقت وادی مکہ میں کوئی ذی روح نہیں تھا۔ پینے کے لئے پانی تک نہ تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے ان کے پاس کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کا بھرا ہوا ایک مشکیزہ رکھا اور انہیں اس بیابان میں چھوڑ کر چل دئیے۔ ہاجرہ یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہوئیں اور حضرت ابراہیمؑ کے پیچھے جا کر پوچھنے لگیں کہ اے ابراہیم! ہمیں اس ویرانے میں جہاں نہ آدم ہے نہ آدم زاد اکیلے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں، یہ فقرہ آپ نے کئی بار دہرایا مگر حضرت ابراہیم ؑ (فرط غم سے) کوئی جواب نہ دے پائے، حضرت ہاجرہ سمجھ گئیں اور بولیں ’’کیا اللہ کے حکم سے ایسا کر رہے ہیں؟‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے اثبات میں جواب دیا، حضرت ہاجرہ فرمانے لگیں: ’’پھر اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا،‘‘ حضرت ابراہیمؑ جب بیوی اور بچے کی نظر سے اوجھل ہوئے تو کعبہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی: رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ (ابراہیم:38)

(بخاری کتاب الانبیاء باب النسلان فی المشی)

ادھر حضرت ہاجرہ پانی پی کر بچے کو دودھ پلاتی رہیں۔ جب پانی ختم ہوا تو ماں بیٹے دونوں کو پیاس محسوس ہوئی۔ یہاں تک کہ اسماعیل شدت پیاس سے تڑپنے لگے۔ حضرت ہاجرہ سے لخت جگر کی یہ حالت کیسے دیکھی جاتی، آپ دوڑ کر قریب ترین پہاڑی صفا پر چڑھیں اور وادی کی طرف دور تک دیکھا کہ کوئی جاندار ہو مگر کوئی نہ تھا، پھر وادی میں اتریں اور قمیص سمیٹ کر دوڑتے ہوئے، تھکی ہاری ہوئی وادی عبور کی، پھر مروہ پہاڑی پر گئیں اور وہاں کھڑے ہو کر حد نظر تک دیکھا مگر کچھ نہ پایا سات مرتبہ صفا ومروہ پر دوڑیں اور چکر لگاتی رہیں۔ مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ آخری دفعہ مروہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنائی دی۔ دیکھا تو زمزم کی جگہ ایک فرشتہ کھڑا پایا۔ اس نے پاؤں یا پر سے جگہ کھودی تو پانی نکل آیا۔ حضرت ہاجرہ پانی کے گرد حوض بنانے لگیں۔ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے ’’خدا ہاجرہ پر رحم کرے اگر وہ پانی نہ روکتیں تو زمزم ایک بہنے والا چشمہ ہوتا‘‘۔ خیر!حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور چلّوؤں سے مشکیزہ بھی بھر لیا اور بچے کو دودھ پلایا۔ تب فرشتے نے حضرت ہاجرہ سے کہا کہ ہلاک ہو جانے کا اندیشہ نہ کر، اس جگہ خدا کا گھر ہے جسے یہ لڑکا اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ (تعالیٰ) اس گھر والوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا، اس وقت کعبہ زمین سے ٹیلے کی صورت میں ابھرا ہوا تھا، سیلاب اسے دائیں اور بائیں اطراف سے نقصان پہنچاتے تھے۔

(بخاری کتاب الانبیاء باب النسلان فی المشی)

الغرض حضرت ہاجرہ اس طرح کچھ عرصہ قیام فرما رہیں۔ یہاں تک کہ یمن کے جرہم قبیلہ کی ایک جماعت کا ادھر سے گزر ہوا انہوں نے بالائی مکہ (نجد کی طرف کے علاقہ) سے کداء کے راستے سے اسفل مکہ (یعنی اس کے نچلے اور نشیبی حصہ) میں آ کر ڈیرے ڈال دیئے۔ وہاں ایک پرندہ اڑتا ہوا دیکھا اور کہا کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے اور ہمارا اس وادی سے جو سابقہ واسطہ ہے اس کے مطابق اس جگہ پانی نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے کچھ آدمی بھیجے تو انہیں پانی مل گیا، واپس آ کر انہوں نے قافلہ کو اطلاع کی۔ وہ سب لوگ بھی پانی پر آگئے، حضرت ہاجرہ پانی پر موجود تھیں۔ قبیلہ والوں نے کہا ’’کیا آپ ہمیں اس پانی کے پاس پڑاؤ کی اجازت دیتی ہیں‘‘۔ حضرت ہاجرہ نے فرمایا: اس شرط پر کہ پانی میں تمہارا کوئی حق ملکیت یا حصہ نہ ہو گا۔ ام اسماعیل کو جرہم قبیلہ کے وہاں آ نے سے دلی مسرت ہوئی کیونکہ آپ آبادی کو پسند کرتی تھیں۔ چنانچہ جرہم قبیلہ کے لوگ وہاں آباد ہو گئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بلا لیا یہاں تک کہ ان کے کافی گھرانے وہاں جمع ہو گئے۔ حضرت اسماعیلؑ کی زبان عبرانی تھی۔ کچھ بڑے ہوئے تو اس قبیلہ سے عربی زبان کا لکھنا پڑھنا سیکھا، آپ لڑکپن میں ہی اہل قبیلہ میں معزز اور محبوب تھے،جوان ہوئے تو آپ کی شادی جرہم قبیلہ کی ایک عورت سے کر دی گئی۔ اس دوران حضرت ہاجرہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت اسماعیلؑ کی شادی کے بعد حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ سے ملنے مکہ آئے، حضرت اسماعیلؑ شکار کے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ نے آپ کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا اور احوال معاش دریافت کئے، عرصہ بعد حضرت ابراہیمؑ دوبارہ تشریف لائے اور بیٹے کی نئی بیوی سے حالات پوچھے تو اس نے حالات کا ذکر کر کے اللہ کی حمد کی۔ انہوں نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ بہونے بتایا گوشت اور پانی۔ تب حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی اے خدا ان کے گوشت اور پانی میں برکت ڈال۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ان دنوں غلّہ نہیں ہوا کرتا تھا اگر ہوتا تو اس کے لئے بھی حضرت ابراہیمؑ دعا فرماتے۔

(بخاری کتاب الانبیاء باب یزفون النسلان)

جیسا کہ ذکر ہوا حضرت اسماعیل ؑ کی جرہم قبیلہ میں شادی ہوئی تھی ان کی وفات پر بڑے بیٹے نابت کعبہ کے متولی ہوئے پھر تولیت جرہم کے پاس آ گئی۔ ان کا زمانہ 207ق م ہے۔ یہاں تک کہ ان کی حکومت و شوکت دوبالا ہوگئی، لیکن انہوں نے کعبہ کے اموال کا ناجائز استعمال کیا اور اہل مکہ اور وہاں داخل ہونے والوں پر ظلم کیا۔

(تاریخ الاسلام السیاسی ص63)

جرہم اور قطوراء ہر دو چچا زاد بھائی تھے جن کے نام پر ان کے قبائل بنے۔ یہ یمن سے ہجرت کر کے نکلے، جرہم کا سردار مضاض بن عمرو اور قطوراء کا السّمیدع تھا۔ مکہ کے قریب سے گزرے تو یہ جگہ انہیں پسند آئی۔ جرہم نے بالائی مکہ میں قعیقعان مقام پر سکونت اختیار کی اور قطوراء نے زیریں مکہ میں۔ یہ دونوں ان اطراف سے آنے جانے والوں سے عشر وصول کرتے تھے۔ پھر ان دونوں میں جنگ ہو گئی السّمیدع کے قتل کے بعد قطوراء شکست کھا کر صلح پر رضامند ہو گئے۔ جرہم قبیلہ اور اولاد اسماعیل مکہ میں بڑھتے رہے۔ انہوں نے جرہم سے قرابت اور حرم کا لحاظ کرتے ہوئے کوئی مزاحمت نہ کی اور جب وہ زیادہ ہو گئے تو یہاں سے ہجرت کر گئے، کعبہ کے متولی جرہم ہی رہے۔

(سیرت ابن ہشام جلد1 ص111)

واقعہ سیل العرم یعنی یمن کے ڈیم کا بند ٹوٹ جانے کے ہولناک طوفان کے بعد وہاں کا خزاعہ قبیلہ یہاں آ کر آباد ہوا۔ اس نے بنو بکر سے مدد مانگ کر مکہ پر چڑھائی کی اور غالب آئے۔ اس وقت ان کا سردار عمرو بن لحیّ تھا۔ جس کے بعد جرہم قبیلہ نے واپس یمن کی طرف ہجرت کی۔ خزاعہ قبیلہ تین سو سال تک کعبہ کا متولی رہا، قریش اس وقت متفرق تھے، خزاعہ نے بھی کعبہ میں کئی فاسد امور شامل کر دئیے خصوصاً بت پرستی کی ابتداء اور حبل بت کی عبادت۔ ان کا آخری متولی حلیل بن حبشیہ تھا۔

(تاریخ الاسلام السیاسی ص 61,62)

قریش کے جدّ امجد قصّی بن کلاب نے حلیل کی بیٹی سے شادی کی اس کے بطن سے عبدالدار، عبدمناف، عبدالعزی اور عبداء پیدا ہوئے، جب قصّی کی اولاد بڑھی۔ مال زیادہ ہو گیا اور عزت کو چار چاند لگ گئے تو قصّی نے سوچا کہ وہ خزاعہ سے زیادہ کعبہ کی ولایت کا مستحق ہے کیونکہ قریش اسماعیلؑ کی اصل اولاد ہیں۔ اس نے قریش اور بنو کنانہ کے لوگوں سے مشورہ کیا اور خزاعہ کو مکہ سے نکال دینے کی تحریک کی جسے انہوں نے قبول کر لیا اور قصّی کی مدد کی۔ جنگ میں دونوں کے آدمی مارے گئے۔ عمرو بن عون حکم مقرر ہوئے، اس نے کعبہ کی ولایت کا فیصلہ قصّی کے حق میں کیا اور خزاعہ کے مقتولین کی دیتیں اس کے ذمہ ٹھہریں۔ جبکہ قصّی کے مقتولین کی دیتیں معاف کر دی گئیں اور خزاعہ کو مکہ چھوڑنے کا فیصلہ سنایا گیا، اس فیصلہ کے بعد قصّی کعبہ کے متولی ہو گئے انہوں نے قریش کو وہاں جمع کیا اور کعبہ کا جملہ انتظام سنبھال لیا۔

(سیرت ابن ہشام جلد اول ص 111تا 125)

الغرض پانچویں صدی عیسوی میں قریش نے دوبارہ طاقت حاصل کر کے نہایت حکمت عملی کے ساتھ خزاعہ سے ولایت کعبہ واپس لے لی، 440ء میں قصّی بن کلاب نے یہ ولایت سنبھالی، خزاعہ یہاں سے کوچ کر کے مرّ الظہران مقام پر جا کر آباد ہوئے جسے وادیٔ فاطمہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد قریش کا اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا۔

(تاریخ الاسلام السیاسی ص 62,63)

یہ روایت بھی ہے کہ حلیل کی بیٹی حبّٰی (زوجہ قصّی) کے لئے بوقت وفات حلیل نے وصیت کرنا چاہی کہ تولیت کعبہ اس کے سپرد ہو۔ اس نے کمزوری کا عذر کیا تو حلیل نے اپنے بیٹے محترش یا ابو غبشان کے حق میں یہ وصیت کر دی جو ایک کمزور اور شرابی انسان تھا۔ قصّی نے اس سے منصب تولیت ایک مشک شراب کے عوض اس وقت خرید لیا جب وہ سخت نشہ کی حالت میں تھا یا شراب ختم ہو گئی تھی۔ اس پر دونوں قبائل میں جنگ ہوئی اور قصّی کے حق میں فیصلہ ہوا۔

(تمدن عرب (جرجی زیدان) ترجمہ اردو ص 24)

تاریخ کعبہ

کعبہ کا نام اس کے چوکور ہونے کی وجہ سے ہے۔ عرب ہر مربع شکل گھر کو کعبہ کہتے ہیں۔ مقاتل کے نزدیک یہ نام کعبہ کی منفرد تعمیر کے باعث ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین سے بلند ہونے کے باعث کعبہ کہلایا۔ ابن اثیر کے مطابق بیت الحرام کا نام کعبہ اسی وجہ سے رکھا گیا۔ (نہایہ)

کعبہ کی قدیم تاریخ اس ارشاد باری سے ظاہر ہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ … (آل عمران: 97) ترجمہ: یقینا پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بکہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعث ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔ بائبل میں بھی خانہ کعبہ کی عظمت کا ذکر ہے چنانچہ لکھا ہے:
’’اونٹوں کی قطاریں اور مدیان اور عفیفہ کی سانڈنیاں آکر تیرے گرد بے شمار ہوں گی۔ وہ سب سبا سے آئیں گے اور سونا اور لبان لائیں گے اور خداوند کی حمد کا اعلان کریں گے۔ قیدار کی سب بھیڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی نبایوت کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ میرے مذبح پر مقبول ہوں گے اور میں اپنی شوکت کے گھر کو جلال بخشوں گا‘‘۔

(یسعیاہ باب60 آیت7,6)

عیسائی اسے یروشلم پر چسپاں کرتے ہیں مگر اس پیشگوئی کی ساری کی ساری علامات یروشلم کی بجائے خانہ کعبہ کی شان اور عظمت کو ظاہر کرتی ہیں۔

تاریخ کعبہ کے بارہ میں مختلف اقوال مذکور ہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے بھی پہلے یہ گھر بنایا گیا۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے اِنَّ ھٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ الخ یعنی اس شہر کی حرمت اس دن سے ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔

(بخاری کتاب الجزیہ باب اثم الغادر للبر والفاجر)

امام رازیؒ کے نزدیک کعبہ کی اولیت ظاہری اور مادی اعتبار سے نہیں بلکہ دو وجہ سے ہے۔

اول۔ یہ تمام لوگوں کے لئے بطور معبد سب سے پہلے تعمیر کیا گیا یعنی سب سے پہلادینی اجتماعی گھر ہے۔

دوم۔ تمام عالمین کے لئے برکت اور ہدایت کا موجب ہے۔

کعبہ کی تاریخ کے سلسلہ میں ایک روایت حضرت ابوذرؓ کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد تعمیر ہوئی، فرمایا مسجد حرام یعنی بیت اللہ۔ میں نے عرض کیا پھر کون سی فرمایا مسجد اقصیٰ۔ میں نے پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے فرمایا چالیس سال۔

(بخاری کتاب الانبیاء باب یرفون النسلان فی المشی)

حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی ابتداء حضرت ابراہیم ؑ ہی کے ذریعہ ہوئی۔ ایک کی تجدید ہوئی اور دوسرے کی بنیاد رکھی گئی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے ایک بیٹے اسماعیل ؑ کے ساتھ بیت اللہ کی بنیادوں کو بلند کیا تو دوسرے بیٹے اسحاق ؑ کے ساتھ بیت ایل یا بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ جس کے درمیان 40سال کا عرصہ بنتا ہے۔

تعمیر کعبہ یعنی بیت اللہ کے متعلق مختلف اقوال مؤرخین نے بیان کئے ہیں۔ بعض نے تین تعمیرات کا ذکر کیا ہے بعض نے چار بعض نے پانچ بعض نے دس اور بعض نے بارہ۔ اس اختلاف کی وجہ کعبہ کے سنگ بنیاد، اس کی تعمیر اور مرمت کے مابین پیدا ہونے والا اشتباہ ہے۔ جن مؤرخین کے مطابق کعبہ کی تعمیر آج تک چند دفعہ ہوئی اس میں ملائکہ اور حضرت آدمؑ، حضرت ابراہیمؑ، ابن زبیر اور حجاج کی پانچ تعمیرات شامل ہیں۔ اور بارہ تعمیرات کی روایت کے مطابق مندرجہ ذیل بیان کی گئی ہیں۔

  1. ملائکہ کی تعمیر
  2. حضرت آدمؑ
  3. حضرت شیثؑ
  4. حضرت ابراہیمؑ
  5. عمالقہ
  6. جرہم
  7. قصّی
  8. عبدالمطلب
  9. قریش
  10. عبداللہ بن زبیر
  11. حجاج
  12. سلطان مراد

اب ان تعمیرات کی کسی قدر تفصیل بیان کی جاتی ہے۔

1۔ ملائکہ کی تعمیر کعبہ

ازرقی نے بیان کیا ہے کہ حضرت امام علی بن حسین ؒسے طواف کعبہ کے دوران کسی نے پوچھا کہ اس گھر کے طواف کی ابتدا کب، کیسے اور کس طرح ہوئی انہوں نے بتایا کہ ملائکہ کے قول اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا (البقرہ:31) پر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا۔ فرشتے عرش سے چمٹ کر تضرع کر کے عفو کے طالب ہوئے اور عرش کا طواف کیا، پھر اللہ نے عرش کے نیچے ایک عظیم الشان ’بیت المعمور‘ بنایا اور فرشتوں نے اس کا طواف کیا پھر اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے لئے زمین میں اسی قسم کا گھر بناؤ اور اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کو بھی حکم دیا کہ اس گھر کا طواف کریں۔ یہ روایت بھی ہے کہ فرشتوں نے یہ گھر پیدائش آدمؑ سے دو ہزار سال قبل بنایا تھا۔

(تاریخ الکعبہ ص19)

2۔ حضرت آدمؑ کی تعمیر کعبہ

ازرقی کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو جنت سے زمین پر بھیجا تو انہوں نے شکایت کی کہ میں فرشتوں کی آواز نہیں سن پاتا، جواب ملا اس کا باعث تیرا گناہ ہے اور ارشاد ہوا کہ میرے لئے ایک گھر بنا اس کا طواف کر اور میرا ذکر کر۔ آدم ؑمکہ پہنچے اور جبرائیل کی مدد سے یہ گھر تعمیر کیا۔آپ نے پانچ پہاڑوں لبنان، طور سیناء ، طور دینا، جودی اور حراء کے پتھر استعمال کئے۔ ابن جریر کے بقول بیت اللہ کی بنیادیں آدمؑ نے رکھی تھیں۔ جنہیں ابراھیم ؑ نے اٹھایا۔ تقی الفاسی نے بیہقی میں حضرت عبداللہؓ بن عمرو کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ نے جبرائیل ؑ کو آدمؑ اور حوّاء کی طرف بھیجا کہ میرے لئے گھر بناؤ۔ جبرائیل ؑ نے نقشہ بنایا، آدم ؑ زمین کھودنے اور حوّا مٹی ڈھونے لگیں۔ تعمیر کے بعد طواف کا ارشاد ہوا کہ آپ لوگوں میں سب سے پہلے ہو اور یہ گھر سب سے پہلا گھر ہے پھر کئی قومیں گزریں، حضرت نوحؑ نے اس کا حج کیا، ابن کثیر نے یہی روایت لی ہے۔

(البدایہ والنہایہ جلد1 ص158)

امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ آدمؑ نے زمین میں وحشت و بیابانی کی شکایت کی تو اللہ نے کعبہ بنانے کا حکم دیا۔ طوفان نوحؑ کے وقت کعبہ کے نشانات اور آثار محو ہو گئے اور پھرپوشیدہ رہے یہاں تک کہ حضرت جبرائیلؑ نے حضرت ابراہیمؑ کو اس کی اطلاع دی۔

(تاریخ الکعبہ ص23)

3۔ حضرت شیثؑ کی تعمیر

ازرقی کی روایت ہے کہ آدمؑ نے بیت اللہ کی جگہ پر مکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خیمہ لگایا تھا، ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت شیثؑ نے مٹی اور پتھر سے یہ گھر تعمیر کیا شاید اسی لئے بعض مؤرخین نے حضرت شیثؑ کو پہلی دفعہ کعبہ تعمیر کرنے والا ذکر کیا ہے، اور اگر حضرت آدمؑ کی تعمیر مٹی پتھر سے تھی تو اس کے خراب ہو جانے کے بعد حضرت شیثؑ نے اسے دوبارہ تعمیر کیا ہوگا۔

(تاریخ الطبری جلد1 ص102 دارالکتب العلمیہ بیروت۔عیون الاثر لابن سید الناس جلد1 ص77 بیروت۔ تاریخ الکعبہ ص28)

4۔ حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر بیت اللہ

حضرت ابراہیمؑ شام سے اپنے بیٹے اسماعیل اور بیوی ہاجرہ کے ساتھ نکلے۔ ان کو براق پر سوار کیا، جبرائیل ؑ رہنما تھے، مکہ پہنچے۔ جبرائیل ؑ نے بیت اللہ کی طرف اشارہ کیا جو ایک ابھری ہوئی سرخ رنگ کی بلند جگہ تھی اور ڈھیلے پڑے ہوئے تھے اور ہاجرہ سے کہا اسے ابراہیم اور اسماعیل تعمیر کریں گے۔ چنانچہ آدمؑ کی ان بنیادوں پر حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کی۔ جب حضرت ابراہیمؑ تیسری مرتبہ مکہ تشریف لائے۔ حضرت اسماعیلؑ زمزم کے قریب بڑے درخت تلے تیر درست کر رہے تھے۔ ملاقات، آداب فرزندانہ اور شفقت پدرانہ کے بعد آپؑ نے بیٹے سے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے‘‘۔ اسماعیل ؑ نے عرض کی آپ کے رب نے جو حکم فرمایا ہے اسے بجا لائیے۔ ابراہیم ؑ نے پوچھا ’میری مدد کرو گے‘ اسماعیلؑ نے اثبات میں جواب دیا، تب ابراہیم ؑ نے فرمایا: ’’اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر تعمیر کروں‘‘۔

آپ ؑنے مقام کا پتھر رکھا اور اس پر کھڑے ہوئے، آپؑ تعمیر کرتے جاتے تھے اور اسماعیل ؑ آپؑ کو پتھر پکڑواتے تھے اور دونوں دعا کر رہے تھے رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (البقرہ:128) اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرمالے۔ یقینا تو بہت سننے والا اور بہت علم رکھنے والا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کعبہ کی چار دیواری کی تعمیر مکمل کر لی۔ حضرت ابراہیم ؑنے حجر کو بیت اللہ میں شامل کیا، اس سے پہلے وہ اسماعیلؑ کی بکریوں کا باڑا تھا۔ آپ نے پتھر ایک دوسرے پررکھ کر تعمیر کی اور چھت نہیں بنائی تھی۔ البتہ دروازہ بنایا تھا اور دروازے کے پاس اندر کی طرف ایک کنواں بھی کھودا تھا جو کعبہ کے مخزن (خزانہ رکھنے کی جگہ) کے طور پر تھا۔ تعمیر بیت اللہ کے بعد جبرائیلؑ نے ابراہیمؑ کو مناسک حج سکھلائے۔ دونوں باپ بیٹا عبادات حج بجا لائے۔ بعد میں حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ حضرت اسحاق ؑ اور سارہ نے بھی بیت المقدس سے آ کر حج کیا۔ وہ پھر شام لوٹ گئے اور وہیں وفات پائی۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کے مشرق اور مغرب میں دو دروازے لگائے تھے۔ جس کے تختے (کواڑ) بعد میں تبّع حمیری نے لگوائے۔ تقی الفاسی کے مطابق بیت اللہ گول تھا اور دو رکن یمانی موجود تھے۔ چار رکن بعد میں بنے۔

(تاریخ الکعبہ ص31)

یہ روایت بھی ہے کہ کعبہ کی تعمیر میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے جرھم قبیلہ سے مدد مانگی جو اس وقت بیت اللہ کے اردگرد آباد تھے چنانچہ انہوں نے کعبہ کی تعمیر میں مدد کی۔

(انساب الاشراف للبلاذری ص 8)

5۔ عمالقہ کی تعمیر

ازرقی نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا تعمیر کردہ کعبہ گر گیا تو عمالقہ نے اسے تعمیر کیا، مؤرخ طبری کی بھی یہی رائے ہے۔ اگرچہ بعض روایات میں ابراہیمؑ کے بعد عمالقہ سے پھر جرہم کی تعمیر کا ذکر ہے لیکن یہ اختلاف ان دونوں قبائل میں جنگوں اور یکے بعد دیگرے مکہ پر برسراقتدار آنے کے باعث ہے۔

( تاریخ الکعبہ ص44)

6۔ جرہم کی تعمیر کعبہ

واقدی کی روایت ہے کہ کعبہ مکہ کے اوپر کی طرف سے سیلاب آنے کے باعث گر گیا تو جرہم قبیلہ نے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیادوں پر اسے پھر تعمیر کیا اور اس کے دروازوں پر تالے لگائے اور کئی نئی باتیں اس میں شامل کردیں۔

مؤرخ مسعودی نے ’مروّج الذھب‘ میں لکھا ہے جرہم اور عمالقہ کی جنگ ہوئی اور ولایت کعبہ عمالقہ کے پاس چلی گئی پھر جرہم کے پاس آئی اور یہ تین سو سال متولّی کعبہ رہے۔

سھیلی نے ’روض الانف‘ میں لکھا ہے کہ جرہم کے زمانہ میں ایک شخص نے کعبہ کے مال کی چوری کی۔ وہ اس خزانے والے کنوئیں میں داخل ہوا تو اوپر سے پتھر گر پڑا جس نے اسے روک لیا۔ آخر اسے نکالا گیا اور مال لے لیا گیا۔ پھر اللہ نے اس خزانہ کی حفاظت کے لئے ایک اژدھا بھیجا جس کا سر بکروٹے کے سر کی طرح تھا۔ سفید پیٹ اور سیاہ پشت تھی۔ وہ کعبہ کے کنوئیں میں پانچ سو سال رہا۔ واللہ اعلم (تاریخ الکعبہ ص45) ممکن ہے یہ تعمیر محض مرمت کی حد تک محدود رہی ہو۔

7۔ قصّی کی تعمیر کعبہ

رسول اللہ ﷺ کے جدّ امجد قصّی بن کلاب کے ذریعہ جب تولیت کعبہ قریش میں آئی توانہوں نے کعبہ کو گرا کر ایسی تعمیر کی کہ اس سے پہلے ایسی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے دوْم کی عمدہ لکڑی سے چھت ڈالی اور کھجور کی شاخیں استعمال کیں۔ یہ تعمیر بھی ابراہیمی بنیادوں پر تھی۔

( تاریخ الکعبہ ص48)

8۔ عبدالمطلب کی تعمیر

صرف ایک مؤرخ تقی الفاسی نے عبدالمطلب کی تعمیر کعبہ کابھی ذکر کیا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ مجھے عبداللہ بن ملک مرجانی کی ایک تحریر ملی ہے کہ جدّ نبی نے قصّی کے بعد قریش کی تعمیر سے قبل کعبہ کی تعمیر کی۔ مصنف تاریخ الکعبہ نے اس روایت کو محل نظر اور وہم قرار دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تعمیر بھی محض مرمت کی حد تک محدود ہو کیونکہ کعبہ کو سیلابی بارشوں سے نقصان پہنچنا ایک امر مسلّم ہے۔

(تاریخ الکعبہ ص49)

9۔ قریش کی تعمیر

علامہ ابن حجر کہتے ہیں کہ جاہلیت میں کعبہ چٹان نما پتھروں سے بنا تھا، مٹی کا گارا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے اس حلقہ کی طرح دو رکن تھے۔

زہری کی روایت ہے کہ کعبہ کے خادم کے آگ جلانے سے شرارے اڑے جو غلاف کعبہ پر پڑے اور وہ جل گیا قریش اسے گرا کر تعمیر کرنے کے بارہ میں خوفزدہ تھے۔

ابن اسحاق کی روایت ہے کہ سیلاب کے باعث کعبہ کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے تھے، دوسرے کچھ لوگوں نے کعبہ کا خزانہ بھی چرایا جس سے قریش کو کعبہ کی از سر نو تعمیر اور اس پر چھت ڈالنے کا خیال پیدا ہوا مگر احتراماً وہ اسے گرانے سے ہچکچاتے تھے۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک رومی جو ساحل عدن کے ساتھ تجارت کیا کرتا تھا، کشتی پر مال تجارت لارہاتھا کہ مکہ کی بندرگاہ ’شعیبہ‘ (جدّہ کا پرانا نام ہے) پر اس کی کشتی ٹوٹ گئی قریش کو علم ہوا تو ولید بن مغیرہ قریش کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر کشتی کی لکڑی خریدنے گئے انہیں معلوم ہوا کہ رومی قافلہ میں ایک بڑھئی بھی ہے تو وہ اسے بھی ساتھ لائے اور رومی تاجر سے یہ سودا ہوا کہ اس کا مال تجارت اور قافلہ قریش کے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام لے جایا جائے گا اور اسے مکہ میں بھی مال بیچنے کی اجازت ہو گی نیز اس سے عْشر وصول نہیں کیا جائے گا اس کے عوض تاجر نے کشتی کی لکڑی قریش کو دے دی۔ رومی نجار کانام باقوم تھا اس نے معمار کا کام کیا اور مکہ کے ایک قبطی شخص نے جو بڑھئی کا کام کرتا تھا، تعمیر کے لئے سامان تیار کیا، لکڑی مکہ آنے پر اعلان کیا گیا کہ ہم اپنے رب کا گھر تعمیر کریں گے، سب لوگوں نے تعاون کا عہد کیا، ابووھب بن عمرو مخزومی نے کہا اے قبیلہ قریش! کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال کمائی شامل کرنا، کنچنی کی کمائی، سودی رقم یا کسی پر زیادتی کر کے حاصل کیا ہوا مال اس میں شامل نہ کرنا۔

تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں سامنے کے حصہ کی تعمیر کے بارہ میں اختلاف ہوا کہ یہ مقدس فرض کون سعادت مند انجام دے ، امیّہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ کعبہ کے چار حصے مقرر کر لو اور قبائل کی بھی چار حصوں میں تقسیم کر لو پھر قرعہ اندازی سے طے کر لوکہ کون سا حصہ کون تعمیر کرے۔ چنانچہ کعبہ کے اندر حبل بت کے سامنے قرعہ اندازی ہوئی اور اس تقسیم پر سب راضی ہو گئے۔

جب تعمیر کے جملہ انتظامات مکمل ہو گئے تو کعبہ کو گرانے کا نازک مسئلہ درپیش آیا۔ قریش نے کعبہ کا تمام مال، زیورات اور حضرت ابراہیمؑ کے قربانی والے مینڈھے کے سینگ نکال کر ابو طلحہ عبداللہ بن عبدالعزی کے پاس رکھے۔ حبل بت کو باہر نکالا گیا۔ جب کعبہ کو گرانے لگے تو خزانہ کی حفاظت کرنے والا اژدھا کنوئیں سے نکل آیا۔ چنانچہ سب لوگ ہٹ کر مقام ابراہیمؑ پر آ گئے۔ اس پر ولید بن مغیرہ نے قریش سے کہا کہ کیا تمہیں کعبہ کے گرانے میں اصلاح مدّ نظر نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا پھر اصلاح کرنے والوں کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔ تب انہوں نے دعا کی کہ ’اے خدا اگر اس گھر کے گرانے میں تیری رضا ہے تو اس اژدھا کو ہم سے ہٹا دے۔ چنانچہ قضائے آسمانی سے عقاب نما پرندہ نمودار ہوا، اژدھا کعبہ کی دیواروں پر منہ کھولے کھڑا تھا، پرندے نے اسے سر سے پکڑا اور اچک کر لے گیا۔ ولید نے کہا: اللہ تمہارے فعل سے راضی ہے اور اس نے تمہاری حقیر پونچی کو قبول فرمایا ہے۔ پس اب اسے گرادو، قریش کو پھر بھی اس کے گرانے میں تامّل ہوا۔ ولید نے پھر وہی خطبہ دہرایا کہ تم تو محض اصلاح چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا کون اس کی چھتّ پر چڑھ کر اسے گرانے کی جرأت کرے؟ ولید نے کہا میں پہل کرتا ہوں چنانچہ وہ کدال لے کر دیوار پر چڑھ گیا اسی روز اس نے دونوں رکن گرالئے، قریش نے کہا ہمیں اندیشہ ہے کہ اس پر عذاب نازل ہو گا، دوسرے روز ولید صحیح سلامت کام پر آیا تو قریش اس کے ساتھ مل کر کام کرنے پر راضی ہوئے۔ انہوں نے ابراہیمی بنیادوں تک کعبہ کو گرا دیا، کعبہ کے رکن کی بنیاد میں ایک پتھر ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا، کعبہ کے کنوئیں سے بھی شتر مرغ کے انڈے کے برابر دو محظوطے ملے۔ ایک مکتوب کی عبارت کچھ اس طرح تھی:
’’یہ اللہ کا عزت والا گھر ہے اور اس میں رہنے والوں کا رزق عبادت ہے۔ اس کے اہل میں سے کوئی اس کی بے حرمتی نہیں کرے گا ’’یعنی اس کی حرمت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گا۔‘‘

اسی طرح رکن میں سریانی زبان کی ایک عبارت لکھی ہوئی ملی۔ جو پڑھی نہ جاتی تھی۔ ایک یہودی نے پڑھ کر سنائی: ’’میں اللہ ہوں، بکہ کا مالک۔‘‘

(ابن ہشام جلد1ص195)

اس قسم کی اور بھی کئی تحریرات ملنے کا بھی ذکر ہے۔

کعبہ کو گرانے کے بعد تعمیر شروع ہوئی تو خرچ کم پڑ گیا چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ابراہیمؑ کی بنیادوں سے ہٹ کر چھوٹی عمارت بنا لی جائے چنانچہ انہوں نے کعبہ کے درمیان بنیاد ڈالی اس پر حجر اسود کا حصہ تعمیر کیا اور اس کے پیچھے حجر اسودمیں چھ ہاتھ جگہ چھوڑ دی۔ کعبہ کا دروازہ بلند اور مضبوط بنایا گیا تاکہ اس میں سیلاب کا پانی داخل نہ ہو۔ نیز دروازہ تک سیڑھی سے چڑھا جائے اور اس طرح بغیر اجازت کوئی اندر داخل نہ ہو سکے گا۔ تعمیر کرتے ہوئے جب رکن تک پہنچے اور حجر اسود کے رکھنے کا وقت آیا تو اس متبرک پتھر کے رکھنے کے بارہ میں قبائل نے اختلاف کیا اور نوبت جنگ تک پہنچنے لگی۔ تب ابوامیّہ نے کہا کہ کل جو شخص اس راستہ سے سب سے پہلے آئے گا یا اس مسجد کے دروازہ سے سب سے پہلے داخل ہو گا اسے حکم تسلیم کیا جائے گا۔ دوسرے روز رسول اللہ ﷺ باب شیبہ سے سب سے پہلے داخل ہوئے۔ قریش نے مسجد کے دروازہ پر رسول اللہ ﷺکو وہاں پاکر کہا: ’’یہ امین ہے ہم اس کے فیصلہ پر راضی ہیں‘‘ آپ نے قضیہ سنا اور فرمایا: ایک کپڑا لاؤ۔ وہ سفید چادر لائے، رسول اللہ ﷺنے اسے بچھا کر اس پر وہ ’پتھر‘ رکھا اور قریش کے چاروں قبائل میں سے ایک ایک آدمی بلایا، ان لوگوں نے چادر کے کونوں سے پکڑا اور حجر اسود کو دیوار تک لے گئے۔ رسول اللہ خود دیوار پر چڑھے۔ حجر اسود آپ تک پہنچایا گیا اور آپ نے دست مبارک سے اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا۔

اس تعمیر میں کعبہ کی اونچائی کو 9 ہاتھ کی بجائے 18 ہاتھ کر دیا گیا۔ چھت مسطّح بنائی گئی اور چھ ستون دو قطاروں میں لگائے گئے۔ ستونوں پر انبیاء کی تصاویر بنائی گئیں۔ امکان ہے یہ تصاویر باقوم رومی عیسائی معمار نے بنائی ہوں گی۔ کعبہ کو یمنی چادروں سے غلاف پہنایا گیا اور مال واپس رکھا گیا۔ قریش کی تعمیر اور حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر میں 2645سال کا فاصلہ ہے۔ قریش کعبہ کو سوموار اور جمعرات کو کھولا کرتے۔ کعبہ کے دربان مقرر تھے وہ جسے چاہتے اندر جانے دیتے۔

(تاریخ الکعبہ ص49)

احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل قریش کی تعمیر کعبہ اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کی تعمیر کا ذکر ہے۔ قریش کی تعمیر کے بارہ میں حضرت جابرؓ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو حضرت عباسؓ اور رسول اللہ ﷺ پتھر ڈھونے لگے۔ عباسؓ نے بھتیجے (رسول اللہﷺ) سے کہا: اپنی تہ بند کندھے پر رکھ لیں ایسا کرنے پر آنحضرت ﷺ (مارے شرم کے) زمین پر گر پڑے، آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں اور فرماتے تھے میری چادر مجھے دے دو۔ چنانچہ آپ نے دوبارہ چادر باندھ لی۔

(بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب بنیان الکعبہ)

اس تعمیر کے متعلق آنحضرت ﷺنے حضرت عائشہ ؓسے فرمایا، کیا تجھے معلوم ہے تیری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو انہوں نے ابراہیمؑ کی بنیادوں سے ہٹ کر اسے چھوٹا کر دیا، دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ حجر کے حصہ کی دیواریں بیت اللہ میں شامل ہیں۔ فرمایا: ہاں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی، قریش نے ان کو بیت اللہ میں شامل کیوں نہیں کیا تو فرمایا ’’تیری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا۔‘‘ آپؓ نے عرض کی اس کا دروازہ بلند کیوں ہے۔ فرمایا: تیری قوم نے ایسا کیا ہے تاکہ جسے چاہیں داخل ہونے دیں جسے چاہیں روک لیں اور اگر تیری قوم نئی نئی جاہلیت سے نہ آئی ہوتی تو میں یہ دیواریں کعبہ میں شامل کر دیتا لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ ان کے دل اسے عجیب سمجھیں گے کہ میں بیت میں (حجر کی) دیواروں کو شامل کر دوں اور اس کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دوں۔ نیز فرمایا ’’میں نئی تعمیر میں وہ چیزیں شامل کر دیتا جو اس سے نکال دی گئیں۔ اور میں اس (دروازے) کو زمین سے ملا دیتا اور دو دروازے ایک مشرق اور ایک مغرب کی طرف بناتا اور اس طرح ابراہیمؑ کی بنیادوں پر اسے مکمل کرتا‘‘۔

(بخاری کتاب المناسک باب فضل مکہ و بنیانھا)

(حافظ ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

سانحہ ارتحال