تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت حاجی محمد صدیق صاحب رضی اللہ عنہ ۔ پٹیالہ
حضرت حاجی محمد صدیق صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم اللہ بخش صاحب قوم راجپوت پٹیالہ کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازاً 1867ء میں پیدا ہوئے۔ 1911ء سے لے کر 1947ء تک بسلسلہ ملازمت دہلی میں مقیم رہےاس لیے آپ کے نام کے ساتھ دہلوی بھی لکھا جاتا تھا۔ آپ نے 80 سال کی عمر میں جبکہ آپ بہت ضعیف تھے فریضہ حج بھی ادا کیا اور حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ نہایت متقی، پرہیزگار، عابد زاہد اور صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے، باجماعت نمازوں اور تہجد کا التزام اور ہر آن ذکر و فکر میں مشغول رہنا آپ کا خاص مشغلہ تھا۔ سلسلہ احمدیہ اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی۔
(الفضل 2 فروری 1956ء صفحہ1,5)
اپنی قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں:
’’میں اُس خدائے قہار کی قسم کھا کر مندرجہ ذیل بیان کی صداقت پر اس کی سچائی کے لیے گواہ ہوتا ہوں کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اور جو جھوٹوں پر لعنت وارد کرنے والا ہے۔
غالبًا 1900ء (غالبًا اس لیے کہ مجھے سَن صحیح طور پر یاد نہیں، کچھ کم و بیش بھی ہو سکتا ہے) کا ذکر ہے کہ حافظ نور محمد صاحب کی تبلیغی گفتگو سے متاثر ہوکر مَیں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیعت کا خط تحریر کر دیا اور احمدی ہوگیا لیکن بد قسمتی سے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، عرصہ تو کیا ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ ایک سخت خطرناک ٹھوکر لگی اور وہ یہ کہ احمدی ہوئے مجھے تین ہی دن گزرے تھے کہ بعد نماز مغرب مولوی عبدالصمد صاحب سنوری مرحوم و مغفور سے جن کو موت کے بعد اپنے آقا کی رفاقت کا شرف حاصل ہے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں، حضرت عزیر کی پیشگوئی کے متعلق کچھ ذکر ہو رہا تھا کہ دوران گفتگو میں مَیں نے خیال کیا میں مولوی صاحب پر غالب آگیا ہوں اور یہ کہ حقیقت پیش گوئی کو میں نے پا لیا ہے اور نعوذ باللہ مولوی صاحب غلط تاویلات کر رہے ہیں۔ اس خیال کا آنا ہی تھا کہ جوش میں آکر اور اپنی شامت اعمال کی وجہ سے فسخ بیعت کا زبانی اعلان کر بیٹھا۔ حافظ نور محمد صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو بہت افسوس کرنے لگے انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے حضرت اقدس کو خدا کے لیے نہ کہ کسی طبع دنیاوی کے لیے مانا ہے لہذا اتنی جلدی اچھی نہیں، مجھے استخارہ کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ الٰہی اگر یہ سلسلہ سچا ہے تو مجھے بھی اس میں شامل رہنے کی توفیق دے وگرنہ اس سے محفوظ رکھ۔ حافظ صاحب کا یہ مشورہ مجھے بہت اچھا معلوم ہوا اور میں نے متواتر تین دن تک استخارہ کیا، تیسرے روز جب عشاء کی نماز سے فراغت پا چکنے کے بعد میں گھر گیا اور حسب معمول جا کر سو رہا تو اس شب کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں چارپائی پر چِت لیٹا ہوا ہوں کہ اچانک دو آدمی ظاہر ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو میرے سرہانے کی طرف بیٹھ گیا اور دوسرا پائینتی پر اور ان دونوں نے کوئی مباحثہ عربی زبان میں شروع کر دیا، ان کی یہ مباحثانہ گفتگو جو عربی میں ہو رہی تھی میں اس وقت کچھ ایسا محسوس کر رہا تھا کہ بالکل ایک مادری زبان کے طور پر اسے سمجھ رہا ہوں اور ان کا یہ مباحثہ بہت دیر تک ہوتا رہا اور جو پائینتی پر بیٹھا ہوا تھا وہ اٹھ کر جانے لگا تو مَیں نے اس کا بازو پکڑ کر اس کو روک لیا اور اس سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب سچے ہیں یا جھوٹے؟ اِس پر اُس نے جواب دیا کہ مرزا صاحب سچے ہیں اور میں نے یہ سنتے ہی اس ہاتھ سے اس کو دھکا دیا اور کہا کہ اب آپ جائیے، دوسرا آدمی جو سرہانے کی طرف بیٹھا ہوا تھا، وہیں بیٹھا بیٹھا غائب ہوگیا اور میں فورًا بیدار ہوگیا چنانچہ دوسرے دن میں نے دوبارہ حضور انور کی خدمت میں بیعت کا خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے فرمایا ’’ہم نے آپ کی بیعت قبول کی اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھے۔‘‘
پس الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ کے پاک مسیح کی دعا کے مطابق میں اس وقت سے لے کر اب تک ثابت قدم رہا اور جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہر قسم کے فتنے سے مجھے محفوظ رکھا۔‘‘
(بشارات رحمانیہ جلد اول صفحہ208تا209 از عبدالرحمٰن مبشر)
آپ مزید فرماتے ہیں:
’’میں نے حضور کی زیارت 1905ء میں قادیان حاضر ہو کر کی اور مسجد مبارک میں حضور کے ہاتھ پہ دستی بیعت کی، اس کے بعد میں نے دیکھا کہ بیعت کے بعد میری کیفیت یہ ہوگئی کہ جس سوسائٹی میں بیٹھنے سے میں لذت محسوس کرتا تھا اب وہاں پر بیٹھنے سے دل بے حد متنفر ہوگیا اور پھر ان لوگوں کو بھی جو کہ اُس بری سوسائٹی والے تھے انھیں نیکی کی تلقین کرنے لگا اور نمازوں میں لذت اور خشوع خضوع کی حالت پیدا ہوگئی۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضور سیر کو تشریف لے جا رہے تھے، میں بھی ساتھ تھا میں نے عرض کیا کہ اَلتَّحِیَّات میں جو انگلی اٹھائی جاتی ہے اس کا اصل باعث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے آکر عرب کی کایا کو پلٹا تھا اس لیے یہ جو پانچ وقت نماز کے لیے مقرر ہیں یہ اُس وقت عربوں کے شراب پینے کے اوقات مقررہ تھے، آپؐ نے ان سے شراب چھڑا کر نماز رکھ دی۔ یہ جو انگلی اَلتَّحِیَّات میں اٹھائی جاتی ہے اس کا نام سَبَّابَۃٌ ہے جو سَبَّ سے نکلا ہے عرب لوگ گالی دینے کے وقت اسے اٹھایا کرتے تھے مگر آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ اس انگلی کو گالی دینے کے موقع پر نہیں بلکہ کلمۂ شہادت پڑھتے وقت اٹھاؤ۔
ایک دفعہ سیر کے دوران میں فرمایا کہ چاند سورج کو گرہن لگنا ہماری صداقت کی دلیل ہے، اس پر میں نے عرض کیا کہ حضور اس دفعہ بھی چیت کے مہینہ میں سورج اور چاند کو اکٹھا گرہن ہے، حضور نے فرمایا نہیں، ہماری مراد اس گرہن سے ہے جو رمضان کے مہینے میں مقدر تھا۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہ جلد15 صفحہ1-3)
آپ کی قادیان آمد کا ذکر اخبار بدر 17 اگست 1905ء صفحہ7 پر موجود ہے۔ آپ نے 29 جنوری 1956ء کو بروز اتوار بعمر تقریبًا 90سال کراچی میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 3933) ہونے کے جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ قطعۂ صحابہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ خیر النساء بیگم صاحبہ نے 31؍اکتوبر 1960ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 6119) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ (وفات: 13 اپریل 1967ء) بیان کرتے ہیں:
’’…. محترمہ خیر النساء صاحبہ عمر قریباً 74 سال اس بزرگ صحابی کی بیوی تھیں جن کا نام حاجی محمد صدیق صاحبؓ دہلی والے مشہور آ رہا ہے، ان کی نسبت نہ معلوم دہلی سے کس طرح ہوگئی کیونکہ حقیقتاً ان کی جائے پیدائش محلہ ڈہک بازار پٹیالہ تھی جہاں انھوں نے چالیس سال سے کچھ زیادہ وقت اپنی زندگی کا گذارا جہاں ان کو احمدیت نصیب ہوئی، جہاں ان کو روحانی حیات نصیب ہوئی، جہاں ان کو وہ سجدے نصیب ہوئے جن کے نتیجہ میں بے حد برکات انہیں حاصل ہوئیں، ان کو تضرعات کی بدولت اول اول ایک معمولی سے روزگار کی جو دہلی میں تھا خوشخبری نصیب ہوئی جو ان کے لیے زندگی بخش ثابت ہوئی، دہلی میں پہنچ کر اس قدر فراخی نصیب ہوئی کہ وہ وہیں کے ہوگئے اور دہلوی کہلانے لگ گئے۔
یہ بزرگ بڑی جوانمرد ہستی تھی جو ہستی باری تعالیٰ کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتی تھی، ان کی دلفگار آہوں نے نہ صرف اپنے لیے برکات کو کھینچ لیا بلکہ وہ ہمارے جیسے ناچیزوں کے لیے بھی سبق آموز بنیں۔
مرحومہ اسی محلہ کی لڑکی تھیں جس محلہ میں ہمارا گھر تھا اور یہ اپنی چھوٹی عمر میں ہماری پھوپھی صاحبہ حضرت رحیم النساء صاحبہ کے ہاں قرآن کریم پڑھنے کے لیے آیا کرتی تھیں گویا ہماری پھوپھی صاحبہ سے قرآن کریم پڑھا تھا اور ہمارے خاندان سے احمدیت کا مخفی اثر ان کی روح پر پڑ گیا تھا۔ ادھر مکرم حاجی محمد صدیق صاحب بھی اسی محلہ میں رہتے تھے اور بسا اوقات ہمارے خاندان کے سب سے پرانے احمدی حضرت بھائی محمد یوسف صاحب جن کی بیعت 1894ء کی تھی مناظرہ کرتے رہتے تھے اور احمدیت کی مخالفت میں بہت کچھ زور لگایا کرتے تھے، ایک بار ان کی بحث ہمارے پھوپھا صاحب حکیم رحمت اللہ صاحب سے ہوگئی، ان کے ساتھ مناظرہ میں حاجی صاحب سے کچھ گستاخانہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں نکل گئے، ہمارے پھوپھا صاحب سے جو نہایت شریف اور نجیب انسان تھے اور لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور رہنے والے تھے، غصہ کی وجہ سے نہ رہا گیا، انہوں نے جناب حاجی صاحب کے ایک طمانچہ مارا۔ مجھے یاد ہے کہ اس واقعہ کو کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ جناب حاجی صاحب حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے۔
حضرت حاجی صاحب ہمارے پھوپھا صاحب سے تربیت یافتہ تھے اور ان کی مرحومہ بیوی ہماری پھوپھی صاحبہ کی زیر تربیت رہی۔ جب آں مرحوم پہلی بار قادیان آئے تو ہمارا چھ اشخاص کا قافلہ تھا
(1) مولوی عبداللہ صاحب عربی پروفیسر
(2) مکرم حافظ نور محمد صاحبؓ سیکرٹری جماعت پٹیالہ
(3) مکرم حاجی محمد صدیق صاحب
(4) مکرم محمد افضل صاحب
(5) مکر م خدا بخش صاحب
(6) خان حشمت اللہ طالب علم۔
مذکورہ بالا نام 17؍ اگست 1905ء کے بدر میں درج ہیں۔
اسی کے قریب زمانے میں ان کی شادی مرحومہ سے ہوئی، شادی کے وقت مرحومہ اور ان کے والدین احمدیت کے سخت مخالف تھے مگر حاجی صاحب کی تضرعات نے وہ کرشمہ دکھلایا کہ ماں باپ نے لڑکی حاجی صاحب کے ساتھ بیاہ دی۔ شادی ہوگئی ایک طرف اخراجات کی تنگی، دوسری طرف بیوی کی طرف سے احمدیت کے خلاف ایذا رسانی، سلسلہ کے اخبار اور کتابیں جلا ڈالتی تھیں لیکن حاجی صاحب نے لا متناہی سختیاں جھیلیں اور اُف تک نہ کی اور قریبًا پانچ چھ سال اس جوان مردی میں گذارے، آخر اللہ تعالیٰ وہ دن لے آیا کہ ان کی بیوی نے بصدق دل احمدیت کو قبول کرلیا اور پھر وہ اخلاص کا نمونہ دکھلایا جو قابل رشک نمونہ تھا اور خود ہی احمدی نہیں بنیں بلکہ چھ بچوں کی بھی ایسی اعلیٰ تربیت کی کہ احمدیت کے عاشق بن گئے۔
اس جوڑے کو جہاں مال ملا، جہاں نیک اولاد ملی وہاں حج بھی نصیب ہوگیا، ان کی اس خوش بختی کے پیش نظر جہاں ہمیں اپنی بے بضاعتی نظر آتی ہے وہاں شکر بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دو بزرگوں کی خدمت کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ ہر دو پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی اولاد پر بھی فضل و رحم کا سلسلہ جاری رکھے، آمین۔‘‘
(الفضل 10؍ نومبر 1960ء صفحہ4)
اولاد میں چار بیٹےمکرم شیخ حفیظ الٰہی صاحب، مکرم شیخ عبدالرحمٰن صاحب، مکرم شیخ محمد رمضان صاحب، مکرم شیخ احمد دین صاحب (وفات 21 جون 1965ء۔ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اور تین بیٹیاں تھیں۔
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)