• 15 مئی, 2025

اردو محاورے

اردو محاورے
از کتاب فتح اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام

وجہ تسمیہ

سیدنا سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انداز تحریر اپنی سلاست، روانی، برمحلگی، تائثر اور انشاءپردازی کے لحاظ سے ادب ، تحریر اور لکھاریوں کے لئے علاوہ پڑھنے والے کے لئے بھی ایک مثال ہے۔ آپ نے مضامین میں روزمرہ بولے جانے والے محاورہ جات کا بھی خوب استعمال کیا ہے اور اب چونکہ دنیا کی تحریر کا انداز جو حضرت سلطان القلمؑ نے ہمیں دیا ہے وہی انداز ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔ حضرت المصلح الموعودؓ نے تحریک فرمائی تھی کہ جماعت کے احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر اپنائیں ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کئے ہیں یا کسی وقت بھی جمع ہوئے ان سے آپ کا ایک خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بھی بالکل جداگانہ ہے اور اس کے اندر اس قسم کی روانی زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طورپر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جارہی ہیں اور یہ انتہا درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہوگی۔ اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں۔‘‘

نیز فرمایا:
’’پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہوجائے۔ پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے۔ آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے۔ آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے۔ آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے۔‘‘

(الفضل 16؍جولائی 1931ء صفحہ5)

اس مضمون کی اقتداء میں یہاں حضرت سلطان القلم نے اپنی کتاب فتح اسلام میں جو محاورے استعمال فرمائے انکا مختصر تعارف اور تفصیل پیش خدمت ہے تاکہ احباب جماعت اپنی روزمرہ بول چال میں ان محاوروں کو استعمال کرکے اس طرح حضور کے بیان فرمودہ الفاظ اور انداز تحریر کو اپنے گھروں اور ماحول میں عام کردیں ۔ اور اسکا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ نوجوان نسل اور بچوں کو انکا علم ہوگا اور انکے لئے آپ علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا محال نہ ہوگا۔

محاورہ کی تعریف

پہلے تو محاورہ کی تعریف پیش ہے کہ محاورہ کیا ہے اور اسکی ضرورت کیوں ہے:
دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ جو اہلِ زباں کی بول چال کے مطابق مجازی یا غیر حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ مثلاً، ’’سر پر چڑھنا‘‘ کے حقیقی معنی ’’سر کے اوپر چڑھنا‘‘ ہیں جب کہ مجازی معنوں میں اس سے مراد ’’گستاخ‘‘ یا ’’بدتمیز‘‘ ہے۔ اسی طرح ’’نو دو گیارہ ہوجانا‘‘ مجازی معنوں میں اسکے معنی ہیں بھاگ جانا، جان چھڑاکر غائب ہوجانا، اگر اسکے لفظی معنوں پر انحصار کریں اور پھر اس سے آگے قیاس کرکے کہیں کہ ’’تین دو پانچ ہونا‘‘ تو یہ غلط ہوگا، کیونکہ ایک تو اہل زبان نے ایسا کہا نہیں دوسرے محاورے کے اپنے قوائد ہیں جو اسکے برخلاف ہیں۔

محاورہ کا مطلب لغت میں ہے بات چیت کرنا۔ محاورہ جات کلام میں فصاحت و بلاغت پیدا کرتے ہیں اور مزاح بھی۔ لمبے چوڑے کلام کو محاورہ مختصراً بیان کرکے ’’دریا کو کوزہ‘‘ میں بند کردیتا ہے۔ اس لئے کہا جائے کہ صحیح علم محاورہ کا ہونا کسی کے بھی کلام کو برمحل، برجستہ، مختصر اور مکمل بنادیتا ہے۔

فتح اسلام کا مختصر تعارف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب فتح اسلام جو آپ نے 1891ء میں تصنیف فرمائی تھی۔ یہ مختصر سا کتابچہ (50صفحات پر مشتمل) آپ کی ابتدائی کتب میں شامل ہے۔ آپ نے اس کتاب میں ضرورت اسلام اور اپنے بعثت کے پانچ مقاصد اور مسلمانوں کی حالت زار اور اسکے علاج کے بارے میں تحریر فرمایا نیز خدمت اسلام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عامۃ المسلمین سے اس کام میں بڑھ چڑھ کر شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ اس بیان کی خاطر آپ نے روزمرہ کے مرووّجہ الفاظ اور بکثرت محاورے اپنی اس کتاب میں ارشاد فرمائے۔ درج ذیل مضمون میں آپکی اس تصنیف لطیف میں سے ان بیان فرمودہ محاورے ، انکے عام معنی اور جو مطالب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئے وہ پیش خدمت ہیں:

محاورہ

معنیٰ

اقتباس از فتح اسلام

1۔ سوئے ہوئے شیطان کو جگانا۔

جو بری باتیں اورعادات انسانی نفس میں دبی ہوئی ہوں ان کو ابھارنا اور ان پر عمل کرنا

اس زمانہ کا فلسفہ اور طبیعی بھی روحانی صلاحیت کا سخت مخالف پڑا ہے۔ اُس کے جذبات اُس کے جاننے والوں پر نہایت بد اثر کرنیوالے اور ظلمت کی طرف کھینچنے والے ثابت ہوتے ہیں۔ وہ زہریلے مواد کو حرکت دیتے اور سوئے ہوئے شیطان کو جگادیتے ہیں۔ صفحہ4

2۔ الحاد کے رنگ سے رنگین ہونا۔

کفر یہ عقائد سے اور عمال سے اپنے آپ کو ڈھال لینا۔ اسی طرح کے کام کرنا جیسے کے الحاد کے ہیں

انکے دلوں میں خداتعالیٰ کے وجود کی بھی کچھ وقعت اور عظمت نہیں بلکہ اکثر ان میں سے الحاد کے رنگ سے رنگین اور دہریت کے رگ و ریشہ سے پُر اور مسلمانوں کی اولاد کہلاکر پھر دشمن دین ہیں۔ صفحہ4

3۔ دہریت کے رگ و ریشہ سے پُر۔

خدا کے انکاری خیالات سے اپنے آپ کو پر کرلینا اور صرف انہی خیالات کا ہر چیز میں تصرف ہونا

4۔ جان توڑ کوشش کرنا۔

بہت زیادہ اور خوب کوشش کرنا

اب اے مسلمانو سنو! اور غور سے سنو! کہ اسلام کی پاک تاثیروں کے روکنے کے لئے جسقدر پیچیدہ افترا اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور پُر مکر حیلے کام میں لائے گئے اور اُنکے پھیلانے میں جان توڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں ۔ صفحہ نمبر5

5۔مال کو پانی کی طرح بہانا۔

بے دریغ اور بغیر سوچے سمجھے اپنا مال خرچ کرنا

6۔ طلسم سحر کو پاش پاش کرنا۔

جھوٹے جادوکے اثر کو توڑ کر رکھ دینا

جب تک اُن کے اِس سحر کے مقابل پر خداتعالیٰ وہ پُر زور ہاتھ نہ دکھاوے جو معجزہ قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اُس معجزہ سے اِس طلسم سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرہنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے۔ صفحہ نمبر5

7۔اندھا اندھے کو کیا راہ دکھاوے گا اور مجذوم دوسروں کے بدنوں کو کیا صاف کرےگا۔

جو خود بے بہرہ ہے، بے علم ہے وہ کسی کو کیا ہدایت دے گا۔ جو خود بیمار ہے وہ کسی کو کیسے شفاء دے۔ صفحہ نمبر7

8۔عدالت اٹھ جانا۔

انصاف باقی نہ رہنا ہے۔

صرف رسوم اور عادات کو نیکی سمجھتے تھے اور علاوہ اسکے دیانت اور امانت اور اندرونی صفائی اورعدالت ان میں سے بالکل اٹھ گئی تھی۔ صفحہ نمبر8

9۔ مچھر چھانتے اور اونٹ کو نگل جاتے ہیں۔

یہ حضرت عیسؑیٰ کا قول ہے کہ معمولی باتوں میں تو بہت احتیاط کرتے ہو مگر اہم اور بڑی باتوں کو نظر انداز کردیتے ہو۔

ہمارے اکثر علماء بھی اُس وقت کے فقیہوں اور فریسیوں سے کم نہیں۔ مچھر چھانتے اور اونٹ کو نگل جاتے ہیں۔ صفحہ نمبر9

10۔دم بھرنا۔

ہر وقت کسی کی تعریف کرنا، محبت کا دعویٰ کرنا

۔۔اور عجیب ہیں انکی زبانیں کہ باوجود سخت بیگانہ ہونے دلوں کے آشنائی کا دم بھرتی ہیں۔اسی طرح یہودیت کی خصلتیں ہر طرف پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ صفحہ نمبر9

۔۔ اور باقی حواری جو دوستی کا دم بھرتے تھے بھاگ گئے۔ صفحہ نمبر16

11۔جگرخون نہ ہونا۔

دلی صدمہ ہونا ،ہمت ٹوٹنا،جگر کاتحلیل ہونا۔

۔۔ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارےجگر خون نہ ہوجائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کےلئے نہ کھودیں اور اعزاز اسلام کےلئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں۔ صفحہ نمبر10

12۔ کاغذ کے گھوڑے دوڑانا۔

تحریریں ادھر اُدھر بھیجنا کاغذی کاروائی کرنا مگر عملی کام سے پرہیز کرنا۔

۔۔یہ مہم عظیم اصلاح خلائق کی صرف کاغذی گھوڑے دوڑانے سے روبراہ نہیں ہوسکتی۔ اسکے لئے اِسی راہ پر قدم مارنا ضروری ہے جس پر قدیم سے خداتعالیٰ کےپاک نبی مارتے رہے۔ صفحہ نمبر19

13۔پانی کی طرح خون بہانا۔

بہت مشقت کرنا، سخت محنت کرنا

۔۔ہر دم دنیا میں غرق رہنے والے محبوب حقیقی سے ایسا تعلق پکڑ گئے کہ اسکی راہ میں پانی کی طرح اپنے خونوں کو بہادیا۔ یہ دراصل ایک صادق اور کامل نبی کی صحبت میں مخلصانہ قدم سے عمر بسر کرنے کا نتیجہ تھا۔

صفحہ 21۔ 22

14۔پیشانی سے داغ دھونا۔

ذلت کی وجہ کو دور کرنا۔

۔۔تا اسلام کی روشنی عام طور پر دنیا میں پھیل جائے اور حقارت اورذلت کا سیہ داغ مسلمانوں کی پیشانی سے دھویا جائے۔ صفحہ نمبر23

15۔ نیلے پیلے ہوجانا۔

بے حد غضبناک ہونا، بہت غصہ کرنا۔

اگر ان مسجدوں میں جا کر آپ امامت کا ارادہ کیا جائے تو وہ جو امامت کا منصب رکھتے ہیں از بس ناراض اور نیلے پیلے ہوجاتے ہیں۔ صفحہ نمبر26

16۔ دام تزویر کے نیچے دبا لینا۔

دھوکہ سے جال میں پکڑ لینا

۔۔وہ تھک گئے اور درماندہ ہوگئے اور نابکار دنیا نے اپنے دام تزویر کے نیچے انہیں دبالیا۔ صفحہ نمبر40

17۔ تا تریاق از عراق آوردہ شودمارگزیدہ مردہ شود۔

جب تک زہر کا تریاق عراق سے آئےگا اس وقت تک سانپ کا ڈسا مرجائے گا۔

اور شاید مدت دراز کی تحصیل علمی کے بعد اصل مقصود کے کچھ ممد بھی ہوسکیں مگر تاتریاق از عراق آوردہ شودمارگزیدہ مردہ شود۔ سو جاگو اور ہوشیار ہوجاؤایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ۔ صفحہ نمبر42

18۔ عشر عشیر نہ ہونا۔

بالکل بھی حصہ نہ ہونا۔بلکہ ایک ذرہ کا بھی حصہ نہ ہونا۔

پس کمال افسوس کی جگہ ہے کہ جس قدر تم رسمی باتوں اور رسمی علوم کی اشاعت کے لئے جوش رکھتے ہو اس کا عشر عشیر بھی آسمانی سلسلہ کی طرف تمہارا خیال نہیں۔ صفحہ نمبر42

19۔ گذشتنی اور گذاشتنی امور۔

ناپائیدار۔ گزرجانے والے کام اور وہ کام جن کو ترک کردینا مناسب ہو۔

کیا بدقسمتی ہے کہ ایک بڑے امراہم سے تم قطعاًغافل اور آنکھیں بند کئے بیٹھے ہواور جو گذشتنی گذاشتنی امور ہیں انکی ہوس میں دن رات سر پٹ دوڑ رہے ہو۔ صفحہ نمبر44

20۔ دن رات سرپٹ دوڑنا۔

ہر وقت صرف اس کے لئے ہی کوشش کرنا

چند مشکل الفاظ جو دیگر محاوروں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں ان کے مطالب بھی پیش خدمت ہیں:

اُستخوان فروشی۔

فوت شدہ آباء کے نام پر عزّت چاہنا۔

قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کو دنیا میں پھیلانا بے شک عمدہ طریق ہے مگر رسمی طور پر اور تکلف اور فکر اور خوض سے یہ کام کرنا اور اپنا نفس واقعی طور پر حدیث اور قرآن کا مورد نہ ہونا ایسی ظاہری اور بے مغز خدمتیں ہر ایک باعلم آدمی کرسکتا ہے اور ہمیشہ جاری ہیں۔ ان کو مجددیت سے کچھ علاقہ نہیں یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے نزدیک اُستخوان فروشی ہے اس سے بڑھ کر نہیں۔ ص نمبر7

دل میں ڈالنا۔

خدا کی طرف سے القاء ہونا۔ کسی بات کا دل میں پیدا کرنا۔

بلکہ انبیاء نہایت سادگی سے کلام کرتے اور جو اپنے دل سے ابلتا تھا وہ دوسروں کے دل میں ڈالتے تھے۔ ۔۔۔ اور انکی گفتگو میں الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے تھے۔ سو یہی قاعدہ یہ عاجز ملحوظ رکھتا ہے اور واردین اور صادرین کی استعداد کے موافق اور انکی ضرورتوں کے لحاظ سے اور انکے امراض لاحقہ کے خیال سے ہمیشہ باب تقریر کھلا رہتا ہے۔ صفحہ نمبر17

آتش حسد اندر ہی اندر انکو کھاگئی۔

حسد کی آگ انکے اعمال کو بھسم کرگئی۔

افسوس ہزار افسوس اس زمانہ کے اکثر مولویوں پر کہ آتش حسد اندر ہی اندر ان کو کھا گئی۔ صفحہ نمبر20

بضاعت مزجاۃ۔

معمولی حیثیت اور آمدن۔

کیا ان اخراجات پر غور کرنے سے یہ تعجب کا مقام نہیں کہ اس بضاعت مزجاۃ کے ساتھ کیوں کر تحمل ان مصارف کا ہورہا ہے۔ صفحہ نمبر29

حِصْنِ حَصِین۔

مضبوط اور محکم قلعہ۔

اس زمانہ کا حِصنِ حَصِین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ صفحہ نمبر34

جھک جھک بک بک نظر اٹھانے کی فرصت نہیں۔

بیہودہ بکواس اور ناحق کا شوروغل بہت مصروف ہونا۔

تمہارے تمام اوقات عزیز دنیا کی جھک جھک بک بک میں ایسے مستغرق ہورہےہیں کہ تمہیں دوسری طرف نظر اٹھانے کی فرصت نہیں۔ صفحہ نمبر43

(شیخ آدم سعید۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2021