• 27 اپریل, 2024

اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جماعت احمدیہ کی مخالفت اور احمدیوں کو تکلیفیں پہنچانا کوئی آج کا یا جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ماضی قریب کا قصہ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوی کے ساتھ ہی اس مخالفت کی بنیاد پڑ گئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض قریبی جو دوستی کا دم بھرتے تھے جن کے نزدیک آپ سے زیادہ اسلام کی خدمت کرنے والا اُس زمانے میں اور کوئی پیدا نہیں ہوا تھا، لیکن جب دعویٰ سنا، جب آپ کا یہ اعلان سنا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار مجھے کہا ہے کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ تم ہی ہو، اس زمانے میں بندے کو خدا سے ملانے والے اور خدا کے اس زمانے میں محبوب تم اس لئے ہو کہ آج تم سے بڑھ کر حبیبِ خدا سے محبت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، تم ہی ہو جو وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ: 4) کے مصداق ہو، تو ان سب لوگوں نے جو آپ کو اسلام کا پکا اور سچا مجاہد سمجھتے تھے کہ اس وقت زمانے میں آپ جیسی کوئی مثال نہیں ہے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ سے آنکھیں پھیر لیں بلکہ آپ کو تکالیف پہنچانے اور آپ کی ایذا رسانی کے لئے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر، اُن لوگوں کے ساتھ مل کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں پیش پیش تھے آپؑ کے خلاف قتل تک کے ناجائز مقدمات کروائے اور اُن میں بڑھ بڑھ کر اپنی گواہیاں اور شہادتیں پیش کیں۔ پس یہ مخالفت جس کا آج تک ہم سامنا کر رہے ہیں یہ کوئی جماعت احمدیہ میں نئی چیز نہیں ہے۔ آپؑ کو بذاتِ خود جب آپ کے ساتھ چند لوگ تھے، جیسا کہ مَیں نے کہا، اس ظالمانہ مخالفت سے گزرنا پڑا۔ مقدمے بھی قائم ہوئے۔ پھر آپ کی زندگی میں ہی آپ کے ماننے والوں کو دنیاوی مال و اسباب سے محروم ہونے کی سزا سے گزرنا پڑا۔ بیوی بچوں کی علیحدگی کی سزا سے گزرنا پڑا، یہاں تک کہ اپنے مریدوں میں سے دو وفا شعاروں کی زمینِ کابل میں شہادت کی تکلیف دہ اور بے چین کرنے والی خبر بھی آپ کو سننا پڑی۔ اُن میں سے ایک شہید وہ تھے جو رئیسِ اعظم خوست تھے، جن کے اپنے مرید ہزاروں میں تھے، جو بادشاہ کے دربار میں بڑی عزت کا مقام رکھتے تھے۔ پس آپ کو ایسے وفا شعار، فرشتہ صفت، بزرگ سیرت مرید کی شہادت کی خبر کا صدمہ سہنا پڑا۔ آپ نے اس شہید کی شہادت پر تفصیل سے ایک کتاب ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ لکھی۔ اُس میں اُن کی نیکی، تقویٰ، قبولِ احمدیت اور سعادت اور غیر معمولی ایمانی حالت کا ذکر کرنے کے ساتھ شہادت کے واقعات بھی مختلف خطوط سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اُن کے مریدوں نے لکھے تھے اُن میں سے خلاصۃً لے کر اُن واقعات کا بھی ذکر کیا، اور آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ60)

پھر اُسی کتاب میں آپؑ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان‘‘ (یعنی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف جیسا ایمان) ’’حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں، کیونکہ جب تک انسان کچھ خدا کا اور کچھ دنیا کا ہے تب تک آسمان پر اُس کا نام مومن نہیں‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ60)

پس یہ دعا ہے جو ہر احمدی کو کرنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے عملوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ انبیاء کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اُن پر اُن کے ماننے والوں پر سختیاں اور تنگیاں وارد کی گئیں اور یہاں تک کہ ہمارے آقا و مولیٰ محبوب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کی خاطر میں نے زمین و آسمان پیدا کئے، آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو بھی ان مصائب سے اور تکالیف سے گزرنا پڑا۔ تاریخ اکثر لوگ پڑھتے ہیں پتہ ہے، علم ہے۔ مال، اولاد کی قربانی کے ساتھ سینکڑوں کو جان کی قربانی دینی پڑی۔

پس جب بھی جماعت پر ابتلا کے دور کی شدت آتی ہے انبیاء کی تاریخ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا دور ہمیں استقامت کے نمونے دکھانے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ساتھ ہی اس یقین پر بھی قائم کرتا ہے کہ یہ ابتلا اور امتحان کے دور آئندہ غلبہ کی راہ ہموار کرنے کے لئے آتے ہیں۔ ہمیں ایمان میں ترقی کی طرف بڑھاتے چلے جانے کے لئے آتے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جانے کے لئے آتے ہیں۔ ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے کے لئے آتے ہیں۔ بیشک صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جان، مال، وقت کی قربانیاں اسلام کی ترقی کے راستے میں دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن اسلام کا غلبہ اور فتوحات صرف اس امتحان کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ اُن مسلمانوں کا جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق تھا، دعاؤں کے لئے جس طرح خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے تھے، اور سب سےبڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو رات کو اپنی دعاؤں سے عرش کے پائے ہلا دیا کرتے تھے اُس نبی کی دعائیں جو خدا تعالیٰ میں فنا ہو چکا تھا، جس نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیا تھا، اصل میں اُس فانی فی اللہ کی دعاؤں نے وہ عظیم انقلاب پیدا کیا تھا۔ لیکن کیا اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کی دعاؤں کی قبولیت کے ذریعے اسلام کی تاریخ کا غلبہ اور فتوحات کا زمانہ صرف پچاس ساٹھ سال یا پہلی چند صدیوں کا تھا؟ یقینا نہیں۔ آپؐ جب تا قیامت خاتم الانبیاء کا لقب پانے والے ہیں تو یہ غلبہ بھی تاقیامت آپ کے حصے میں ہی آنا تھا۔ بیشک ایک اندھیرا زمانہ بیچ میں آیا اور گزر گیا لیکن آخرین کے ملنے سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے بعد پھر وہ دور شروع ہونا تھا جس نے اسلام کی ترقی کے وہی نظارے دیکھنے تھے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے دیکھے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے سب سے بڑھ کر اور پھر اُس کے بعد تابعین نے، وہ لوگ جنہوں نے صحابہ سے فیض پایا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے اُن سے فیض پایا، اُن سب کا انحصار سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا، نہ کہ اپنی کوششوں پر، اور اس کے لئے وہ دعاؤں پر زور دیتے تھے، اپنی راتوں کو دعاؤں سے سجاتے تھے۔

پس آخرین کے دور میں تو خاص طور پر جب تلوار کی جنگ اور جہاد کا خاتمہ ہو گیا، دعاؤں کی خاص اہمیت ہے اور اس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ بیشک یہ زمانہ علمی جہاد کا ہے اور براہین اور دلائل کی اہمیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان براہین و دلائل سے جماعت کو لَیس کر دیا ہے اور دنیا کا کوئی دین اسلام کی، قرآن کی عظیم الشان تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اصل یہی ہے کہ علم و براہین بھی تب کام آئیں گے جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اُس کے حضور جھکنا اور دعاؤں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔

(خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جولائی 2021