• 28 اپریل, 2024

جانور کی قربانی ، تقویٰ اختیار کرنے کا دوسرا نام ہے

جونہی کوئی اہم مذہبی ، سیاسی موقع قریب آتا ہے تو دوست احباب کی طرف سے ان سے متعلقہ وڈیوز اور آڈیوز سوشل میڈیا پر عام ہو جاتی ہیں۔ عیدالاضحی جوبڑی عید کہلاتی ہےاور اس موقع پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد میں جانور ذبح کئے گئے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے شعائراللہ سے قرار دیا ہے اس لئے اس حوالہ سے کسی طرح کا مذاق درست نہیں لیکن ٹی وی پر ڈراموں اور دیگر پروگرامز میں شعائر اللہ یعنی عزت و تکریم والی شے کو بالائے طاق رکھ کر خوب مذاق اڑایا جاتا ہے اور بعض مسخرے مختلف کرتب کرکے لوگوں کو خوب ہنساتے اور قربانی کے جانوروں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔

میرے ایک دوست نے گزشتہ سال کی ایک وڈیو بھجوائی اور مجھے فون کر کے کہا اس سال بھی یہ کاروبار پاکستان میں نظر آرہا ہے اور وہ ہے گاڑیوں کی طرز پر قربانی کے جانوروں کو صاف ستھرا کرنے کے لئے ’’سروس اسٹیشنز‘‘ کا قیام۔ جہاں قربانی کے جانوروں کو تیز پریشر کے پانی کے ساتھ شیمپو اور دیگر detergent سے دھویا جاتا ہے ۔ جس طرح گاڑیوں کی سروس کی جاتی ہے اس طرح جانور کو مَل مَل کر صاف کیا جاتا ہےاور آج کل یہ کاروبار عام ہے۔

اگر آج کل کرونا وائرس کے حوالہ سے اس عمل کو دیکھاجائے تو کسی حد تک اس کے جائز ہونے کے دلائل دئیے جا سکتے ہیں کہ وائرس سے پاک و صاف جانور اپنے گھر لے کر جائیں۔ لیکن اگر نمائش کی وجہ سے اور واہ واہ کروانی مقصود ہے تو یہ درست نہیں ہے۔

قربانی کا جانور صرف ذبح کرنا مقصود نہیں ۔ اس کے اندر جو اسباق پنہاں ہیں ۔ ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ اصل میں جانور کو دھونا مقصود نہیں ، حقیقت میں تو اپنے دلوں کو تمام بُرائیوں ، بدیوں اور آلائشوں سے دھونا مقصود ہے ۔ تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر جانور کا خون بہانا سود مند ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے :

؎جسم کو مَل مَل کر دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں
دل کو جو دھو وے وہی ہے پاک نزد کردگار

حضرت جنید بغدادی ؒ کی ایک دفعہ ایک ایسے شخص سے ملاقات ہو گئی جو حج کر کے واپس آرہا تھا ۔ آپ نے اس حاجی سے کچھ سوالات کئے کہ جب تم یہ یہ منسک حج ادا کر رہے تھے تو کیاتم نے یہ یہ نیت باندھی تھی۔ جیسے جب تو نے منیٰ میں قربانی کی تو کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ جس طرح بکرے کی گردن پر چھری پھیری ، کیا تونے اپنی منایا یعنی خواہشات نفسانیہ کے گلے پر چھری پھیرنے کی نیت کی تھی۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے تو کوئی ایسی نیت نہیں باندھی۔ آپؒ نے حاجی سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ تمہارا یہ عمل بھی نہ ہوا۔

پس اس اہم اسلامی رکن کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ سے خوف، ڈراور تقویٰ اللہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ قربانی کرنے والا تسبیح و تحمید کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے کہ اللہ تعالیٰ وہ تمام مقاصد حاصل کرنے کی توفیق دے۔ جس کی خاطر اسے قربانی کی توفیق اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔ وہ اپنے نفس کو مارنا ہے۔ جس نے نفس کی قربانی کر دی اس نے حقیقی معنوں میں قربانی کے فلسفے کو پالیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

؎نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا یہ سامان دمار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اصل حکمت یہ ہے کہ یہ قربانی تمہیں ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کی طرف لے جائے اور ہر قربانی میں تم ترقی کرو۔ اور جب تقویٰ میں ترقی ہو گی تو یہی چیز پھر اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ اس کے بندے اپنے نفس کی قربانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کریں اور اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کریں۔ آج کے دور میں پہلے سے بڑھ کر اس بات کے ادراک کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نفس کی قربانی دے کر یہ دونوں قسم کے حقوق ادا کریں……….. اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ دلوں کے تقویٰ کو بھی جانتا ہے اور قربانیوں کی نیت کو بھی جانتا ہے۔ اگر عمل صالح نہیں، حقوق کی ادائیگی نہیں، تکبر دلوں میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی پھر یہ قربانی قبول نہیں ہوتی۔ یہ بڑے خوف کا مقام ہے اور ہر وقت ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ عید الاضحی، 22 اگست 2018ء)

پھر ایک اور موقع پرحضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس ہمیشہ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے اور تقویٰ کی روح سے کی گئی قربانی خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور اس ظاہری قربانی میں دل میں تقویٰ رکھنے والے کا یہ اظہار ہے اور ہونا چاہیے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوں اور جس طرح یہ جانور جو انسانوں کے مقابلے میں بہت معمولی چیز ہیں اس لیے ان کی قربانی دی جا رہی ہے، ایک ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لیے قربان کیا جا رہا ہے اسی طرح میں بھی اس قربانی سے سبق لیتے ہوئے اپنے سے اعلیٰ چیز کے لیے، اعلیٰ مقاصد کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا۔ میں اس قربانی سے یہ سبق لے رہا ہوں کہ میں جو عہد کرتا ہوں اور کر رہا ہوں کہ جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ہے اس کو ہر حال میں پورا کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ میرے کسی فعل میں دنیا داری اور نفس کی ملونی نہیں ہو گی۔ پس یہ عید قربانی ہمیں اگر ہمارے فرائض، ہماری ذمہ داریاں اور عہد دلانے والی نہیں تو یہ ایسی عید ہے جو ہم صرف ایک ظاہری میلے کی طرح منا رہے ہیں۔ یہ عید ہم میں تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن رہی۔ یہ عید ہمیں قربانیوں کی اہمیت کا احساس نہیں دلا رہی۔ یہ عید ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کر رہی۔ یہ عید ہمیں اپنے عہد کو پورا کرنے کا احساس نہیں دلا رہی۔ صرف ہم نے قربانی کی اور بھیڑ، بکری یا گائے بھی ذبح کر کے خود بھی اس کا گوشت کھایا اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی کھلایا تو یہ سب بے فائدہ ہے اگر اس میں قربانی کی روح نہیں۔ فائدہ تو تبھی ہے جب ہم اپنے عہدکو پورا کرنے والے بنیں۔ اپنی گردنیں خدا تعالیٰ کے آگے رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور پھر احمدی مسلمان بنایا ……………. یہ ظاہری قربانیاں ہماری روح کو جھنجھوڑنے کے لیے ہیں، یہ سمجھانے کے لیے ہیں کہ جس طرح یہ ادنیٰ چیز تمہارے لیے قربان ہو گئی اسی طرح ایک حقیقی مومن کی شان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے۔ اپنے جسم کو بھی قربانی کے لیے تیار کرو اور روح کو بھی۔ اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند کرو۔ اسی تقویٰ کے بلند معیار کے حصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اس سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے ’’اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانی ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔‘‘ فرمایا کہ ’’جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘

(خطبہ عید الاضحی، 12 اگست 2019ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تقویٰ کی روح کو قائم کرتے ہوئے اس کے حضور ظاہری قربانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی قربانی بھی پیش کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہو سکیں جن کے لئے یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۸﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۹﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۳۰﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۱﴾ کی خوشخبری ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2021