• 29 جولائی, 2025

عیدالاضحیہ کے مسائل

نماز عیدکی ادائیگی کا طریق

نماز عید سنت مؤکّدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہاں اگر کسی کی نماز عید رہ جائے تو حنفی اور مالکی مسلک کے مطابق نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی، نہ انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر۔ لیکن اگر کوئی شخص نماز عید میں اس حال میں شامل ہوا ہے کہ امام ایک رکعت پڑھا چکا ہے تو پھر مقتدی اپنی رہ جانے والی رکعت ویسے ہی ادا کرے گا جیسا کہ امام نے ادا کی تھی۔ یعنی امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی رہ جانے والی رکعت مکمل کرے گا اور ویسے ہی تکبیرات بھی کہے گا جیسا کہ امام نے کہی تھیں۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:

مَآاَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا وَ مَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا۔

(بخاری کتاب الاذان باب لا یسعی الی الصلاۃ)

یعنی امام کی جو نماز تمہیں ملے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے مکمل کرو۔

مجلس افتاء کی رائے

’’اگر عید کی ایک رکعت رہ جائے تو مقتدی اپنی رکعت کس طرح ادا کرے گا؟‘‘ یہ معاملہ مجلس افتاء میں پیش ہوا۔ مجلس افتاء نے درج ذیل رائے دی:
’’جو شخص نماز عید میں پہلی رکعت کا رکوع گزرنے کے بعد شامل ہو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام کے ساتھ نہ پڑھی جا سکنے والی نماز کو اسی طرح مکمل کرے گا جس طرح اس نے اس حصہ نماز کو امام کی اقتداء میں ادا کرنا تھا۔‘‘

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 15.07.2000 کو مجلس افتاء کی سفارش کو منظور فرمایا اور اپنے دستخط ثبت فرمائے۔

نماز عید کی تکبیرات

نماز عید کی تکبیرات کے بارہ میں کثیر بن عبد اللہ اپنے والد کے توسط سے اپنے دادا حضرت عمرو بن عوف المزنیؓ سے روایت کرتے ہیں:

اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَبَّرَ فِی الْعِیْدَیْنِ فِی الْاُوْلٰی سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَآئَۃِ وَ فِی الْاٰخِرَۃِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَآئَۃِ۔

(سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب التکبیر فی العیدین)

آنحضرت ﷺ عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرأت سے قبل سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے قبل پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔

تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھی جاتی ہے اور بعد میں سات بار تکبیرات کہہ کر ہاتھ کھلے چھوٹ دیئے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح دوسری رکعت میں سجدہ سے اٹھنے کے بعد پانچ بار تکبیرات کہی جاتی ہیں اور ہاتھ کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

عیدالاضحیہ کے موقع پر کتنے دن تک تکبیرات کہی جانی چاہئیں؟

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ۔

( البقرہ:204)

اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔

ان ’’اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ‘‘ کی تشریح میں حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں:

اَلْأَیَّامُ الْمَعْدُوْدَاتُ: أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ

(بخاری کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام التشریق)

یعنی اس آیت میں ایّام معدودات سے مراد ایّام تشریق ہیں۔

ایّام تشریق سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ ،بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔تشریق کے معنی گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنے کے ہیں۔عید الاضحی کے بعد کے تین ایّام کو اس لئے ایّام تشریق کہا جاتا ہے کیو نکہ ان ایام میں لوگ قربانیوں کا گوشت خشک کیا کرتے تھے تاکہ بعد میں استعمال کیا جاسکے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:

’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یُکَبِّرُ فِیْ صَلَاۃِالْفَجْرِ یَوْمَ عَرَفَۃَ اِلٰی صَلَاۃِ الْعَصْرِ مِنْ اٰخِرِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ حِیْنَ یُسَلِّمُ مِنَ الْمَکْتُوْبَاتِ۔‘‘

(دار قطنی کتاب العیدین حدیث نمبر:27)

حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے آخری ایام تشریق یعنی تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات کہا کرتے تھے۔

مجلس افتاء کی رائے

’’آنحضرت ﷺ اور اکثر صحابہ کے معمول سے نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات ثابت ہیں۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ ، مفتیان سلسلہ احمدیہ اور جماعتی لٹریچر بھی اسی امر کا مصدق ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مؤرخہ 04.07.2001 کو مجلس افتاء کی سفارش کو منظور فرمایا اور اپنے دستخط ثبت فرمائے۔

قربانی کرنے والا ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ بال کٹوائے اور نہ ہی ناخن کٹوائے
صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

’’إِذَا رَأَیْتُمْ ھِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُّضَحِّیَ فَلْیُسِکْ عَنْ شَعْرِہٖ وَأَظْفَارِہٖ۔‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ)

جب تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے لے کر اسے چاہئے کہ اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔

حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ کَانَ لَہٗ ذِبْحٌ یَّذْبَحُہٗ فَإِذَآ أُھِلَّ ھِلَالُ ذِی الْحِجَّۃِ فَلَا یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَلَا مِنْ أَظْفَارِہٖ شَیْئًا حَتّٰی یُضَحِّیَ۔‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ)

جو قربانی کرنا چاہے تو ذی الحجہ کا چاند نکلنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔

حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَہٗٓ أُضْحِیَّۃٌ یُّرِیْدُ أَنْ یُّضَحِّیَ فَلَا یَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا یَقْلِمَنَّ ظُفُرًا۔‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ)

جب ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے تو جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو اسے قربانی ذبح کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہیں کٹوانے چاہئیں

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں انکو چاہیئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔ اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہیئے۔ کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔‘‘

(الفضل 22ستمبر 1917ء صفحہ4)

عیدالاضحیہ کا روزہ

حدیث میں ہے:

’’عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی یَطْعَمَ وَلَا یَطْعَمُ یَوْمَ الْأَضْحٰی حَتّٰی یُصَلِّیَ۔‘‘

(سنن ترمذی ابواب العیدین باب فی الاکل یوم الفطرقبل الخروج)

حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ عیدالفطر کے دن بغیر کچھ کھائے پئے عید گاہ نہیں جاتے تھے اور عید الاضحیہ کے دن بغیر کھائے پیئے عید گاہ تشریف لے جاتے تھے یہاں تک کہ نماز پڑھ لی جائے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھا جاتا ہے وہ سنّت نہیں۔ اس کا اعلان کر دیا جائے۔ مگر رسول پاکﷺ کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کر کے کھاتے تھے۔ تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیںکہ کوئی نہ رکھے تو گناہ گار ہو جائے گا۔ یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اور مستحب ہے۔ جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار،بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے تو وہ مکلف نہیں اور نہ رکھنے سے گناہ گار نہیں ہو گا۔مگر یہ باکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقا پوری صاحب نے لکھا ہے ۔ میں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے۔ اور یہ یونہی نہیں بنا لیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے۔ جس پر رسول کریم ﷺ کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے وا لا ثواب پا تا ہے مگر جو نہ کر سکے اسے گناہ نہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد دوم صفحہ263)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آنحضرت ﷺ کا طریق یہ تھا کہ عید کا خطبہ زیادہ لمبا نہیں کیا کرتے تھے اور اس کے بعد جلد قربانی کیلئے گھر روانہ ہو جایا کرتے تھے۔ اس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آپ اس وقت تک روزہ رکھتے تھے جب تک خود اپنی قربانی کے گوشت سے وہ روزہ نہ کھولیں اور اس سنت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ دستور بنا لیا ہے کہ عید کے دن ضرور روزہ رکھتے ہیں اور جب تک فارغ نہ ہوں وہ کچھ نہیں کھاتے لیکن مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ کچھ پہلے کھانا حرام ہو جاتا ہے مگر سنت کا مضمون یہ ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہو، جس دن قربانی کرنی ہو ،اس دن وہ قربانی کے گوشت کے حاصل ہونے سے پہلے روزہ رکھے ……….. تو آنحضرت ﷺ کی سنت حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتی، اس کو غور سے سمجھیں۔ جنہوں نے قربانی کسی اور جگہ کرنی ہو یا بعد میں کرنی ہو ان کیلئے عید والے دن پہلے کچھ کھانا حرام نہیں ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے ،اسلئے یہاں کی جماعت (لندن) نے یہ انتظام فرمایا ہے کہ عید کے معاً بعد ابھی آپ سب کیلئے کچھ نہ کچھ کھانے کیلئے پیش کیا جائے گا۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ 28مارچ 1999ء)

قربانی کی اہمیت

قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر سال عید الاضحیہ کے موقعہ پر قربانی کیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔

’’أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأَضْحِیَّۃِ أَوَاجِبَۃٌ ھِیَ؟ فَقَالَ ضَحَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُوْنَ فَأَعَادَھَا عَلَیْہِ فَقَالَ أَتَعْقِلُ؟ ضَحَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُوْنَ۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علٰی ان الاضحیۃ سنۃ)

ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ کیا عیدالاضحیہ کے موقع پر قربانی کرنی ضروری ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول پاک ﷺ اور مسلمانوں نے قربانی کی۔ اس نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ آپ نے جواب دیا کیا تم سمجھتے نہیں کہ رسول پاک ﷺ اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے۔

’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشْرَ سِنِیْنَ یُضَحِّیْ کُلَّ سَنَۃٍ۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علٰی ان الاضحیۃ سنۃ)

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺ مدینہ کے دس سالہ قیام میں قربانیاں کیا کرتے تھے۔

’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ لَہٗ سَعَۃٌ وَّلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص توفیق کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری (عید کی) نماز کی جگہ کے قریب نہ آئے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’یَآ أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ عَلیٰ کُلِّ أَھْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ أُضْحِیَّۃً۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)

اے لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال ایک قربانی واجب ہے۔

’’عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَآ أَرَادَ أَنْ یُّضَحِّیَ اشْتَرٰی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْ ئَیْنِ فَذَبَحَ أَحَدَھُمَا عَنْ أُمَّتِہٖ لِمَنْ شَہِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ وَشَہِدَ لَہٗ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْاٰخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّعَنْ اٰلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب اضاحی رسول اللّٰہ ﷺ)

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺ جب قربانی کرنا چاہتے تو آپ دو ایسے مینڈھے خریدتے تھے جو موٹے، سینگوں والے اور خصی ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک آپ اپنی امت کی طرف سے اور دوسرا اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ذبح کرتے تھے۔

مذکورہ بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وہ شخص جواستطاعت رکھتے ہوئے قربانی کا جانور پال کر یا خرید کر قربانی کر سکتا ہے اسے ضرور قربانی کرنی چاہیئے۔

آنحضرت ﷺ مدنی زندگی میں ہر سال قربانی کیا کرتے تھے حالانکہ مدنی زندگی کے ابتدائی سال انتہائی تنگی کے تھے ۔

قربانی کی فضیلت

قربانی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:

’’مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ھِرَاقَۃِ دَم فَطِیْبُوْا بِہَا نَفْسًا۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ)

ابن آدم کا یوم النحر کے دن خون بہانا اللہ کو بے حد محبوب ہے ………….. سو تم یہ قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔

آنحضرتﷺ سے قربانیوں کی حکمت کے بارہ میں سوال ہوا۔سنن ابن ماجہ میں یہ واقعہ یوں درج ہے:

’’قَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھٰذِہِ الْأَضَاحِیُّ؟ قَالَ سُنَّۃُ أَبِیْکُمْ إِبْرَاھِیْمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ)

ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ نے آنحضورﷺ سے پوچھا حضور! ان قربانیوں کا مقصد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے، صحابہ نے پھر پوچھا حضور! ان قربانیوں سے ہمیں کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔

قربانی کے مسائل

کس کس جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے؟

قربانی کیلئے اونٹ، گائے، بھینس، بکری، مینڈھا ،دنبہ اور بھیڑ قربانی کئے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

’’وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ۔‘‘

(الحج:35)

اور ہم نے ہر امت کیلئے قربانی کا طریق مقرر کیا تاکہ وہ اللہ کا نام اس پر پڑھیں جو اس نے انہیں مویشی چوپائے عطا کئے ہیں۔

قرآن کریم نے عید الاضحیہ کے موقع پر ’’بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ‘‘ کی قربانی کا حکم دیا ہے اور سورۃالانعام آیت نمبر143 تا 145 میں دنبہ، بکرا، اونٹ اور گائے کو اَنْعَام قرار دیا گیا ہے۔ قربانی کیلئے نر اور مادہ دونوں قسم کے جانور قربان کئے جا سکتے ہیں۔

فقہاء کی اکثریت نے ’’اَلْجَامُوْسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِِ۔‘‘ بھینس کو گائے کی ایک قسم قرار دے کر بھینس کی قربانی کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

قربانی کے جانورکا بے عیب ہونا

آنحضرت ﷺ نے قربانی کے جانور کیلئے درج ذیل شرائط بیان فرمائی ہیں:

’’لَا یُضَحَّی بِالْعَرْجَآءِ بَیِّنٌ ظَلَعُہَا وَلَا بِالْعَوْرَآءِ بَیِّنٌ عَوَرھَا وَلَا بِالْمَرِیْضَۃِ بَیِّنٌ مَرَضُہَا وَلَا بِالْعَجْفَآءِ الَّتِیْ لَا تُنْقِیْ۔‘‘

(ترمذی ابواب الاضاحی باب مالا یجوز من الاضاحی)

آنحضرتﷺ نے فرمایانہ قربانی کی جائے ایسے لنگڑے جانور کی جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور نہ ایسے کانے جانور کی کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو اور نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری عیاں ہو، اور نہ ایسے دبلے جانور کی کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں حکم دیا :

’’أَنْ لَّا نُضَحِّیَ بِمُقَابَلَۃٍ وَّلَا مُدَابَرَۃٍ وَّلَا شَرْقَآءَ وَلَا خَرْقَآءَ۔‘‘

(ترمذی ابواب الاضاحی باب مایکرہ من الاضاحی)

کہ ہم نہ قربانی کریں ایسے جانور کی جس کا کان سامنے سے کٹا ہو اور یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو اور یا جس کا کان چرا ہو اور جس کے کان میں سوراخ ہو۔

سنن نسائی کی روایت میں ’’وَلَا بَتْرَآءَ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں جس کے معنے ہیں کہ جس جانور کی دُم کٹی ہو اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔

(نسائی کتاب الضحایا باب المقابلۃو ھی ما قطع طرف اذنھا)

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ ایسے جانور کی قربانی کی جائے جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :

’’عَنْ عَلِیٍّ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُّضَحَّی بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ۔‘‘

(ترمذی ابواب الاضاحی باب فی الضحیۃ بعضباء القرن والاذن)

قربانی کا جانور اگر خرید کے بعد عیب دارہوجائے تو بھی جائز ہے:

اگر کوئی شخص قربانی کیلئے مندرجہ بالا شرائط کے مطابق جانور خریدتا ہے اور خرید نے کے بعد اس میں کوئی عیب ظاہر ہو جاتا ہے یا پیدا ہوجاتاہے تو ایسے شخص کو آنحضرتﷺ نے اسی جانور کی قربانی کرنے کی اجازت دی ہے،چنانچہ حدیث میں آتاہے:

’’عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ ابْتَعْنَا کَبْشًا نُّضَحِّیْ بِہٖ فَأَصَابَ الذِّئْبُ مِنْ أَلْیَتِہٖ أَوْ أُذُنِہٖ فَسَأَلْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنَا أَنْ نُّضَحِّیَ بِہٖ۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب من اشتری اضحیۃ فاصابہا عندہ شیء)

حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے قربانی کیلئے ایک مینڈھا خریدا ۔پھر بھیڑیا اس کے سرین یاکان میں سے کچھ حصہ کھا گیا۔ ہم نے اپنا یہ معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے ہمیں اسی (عیب زدہ) جانور کی قربانی کرنے کا ارشاد فرمایا۔

قربانی کے جانور کا خصی ہونا اسے عیب دار نہیں بناتا

آنحضورﷺ قربانی کیلئے خصّی جانور لینا پسند کرتے تھے،چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:

’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَآ أَرَادَ أَنْ یُّضَحِّیَ اشْتَرٰی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْئَیْنِ۔‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب اضاحی رسول اللّٰہ ﷺ)

آنحضرت ﷺ جب قربانی کرنے کا ارادہ کرتے تو دوسینگوں والے موٹے تازے خصّی مینڈھے خریدتے جن کی آنکھوں پر سفید اور سیاہ نشان ہوتے تھے۔

حضرت ابو رافعؓ بیان کرتے ہیں:

’’ضَحَّی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجِیَّیْنِ خَصِیَّیْنِ۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل تتمہ مسند الانصارحدیث ابی رافع۔حدیث 23860)

آنحضرت ﷺ دو خصّی چِت کبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قربانیاں دو جو بیمار نہ ہوں ’دبلی نہ ہوں‘ بے آنکھ کی نہ ہوں ’کان چری نہ ہوں‘ عیب دار نہ ہوں ’لنگڑی نہ ہوں۔‘‘

(الحکم، 24 مارچ 1903ء صفحہ3)

پھر فرمایا:
’’جس کا پیدائشی سینگ نہ ہو وہ بھی جائز ہے۔ ہاں جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو یا کان چیرا ہوا ہو وہ ممنوع ہے۔‘‘

(بدر، 23 جنوری 1908ء صفحہ10)

پھر فرمایا:
’’قربانی میں دو برس سے کم کوئی جانور نہیں چاہئے، یہی میری تحقیق ہے۔ (2) جس کے سینگ بالکل نہ ہوں وہ جائز ہے۔ (3) خصی جائز ہے۔ (4) مادہ بھی جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ چھترا قربانی دیتے جس کا منہ ’آنکھیں’ پیٹ ’پاؤں سیاہ ہوتے۔ جو بالکل دبلا ہو وہ جائز نہیں۔ اگر جانور موٹا ہو’ خواہ اسے خارش ہو تو بھی اسے جائز رکھا ہے۔ (5) لنگڑا مناسب نہیں۔’’

(بدر جلد9 نمبر10 ۔۔۔۔ 30 دسمبر 1909ء صفحہ1 تا 3)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5؍ اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیہ میں فرمایا:
’’قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے ، لنگڑا نہ ہو بیمار نہ ہو ،سینگ ٹوٹا نہ ہو یعنی سینگ بالکل ہی ٹوٹ نہ گیا ہو ۔ اگر خول اوپر سے اتر گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے ۔ کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد دوئم صفحہ73)

قربانی کے جانور کی عمر

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا:

’’لَا تَذْبَحُوْٓا إِلَّا مُسِنَّۃً إِلَّآ أَنْ یَّعْسُرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جَذَعَۃً مِّنَ الضَّأْنِ۔‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب سن الاضحیۃ)

کہ قربانی صرف دوندے جانور کی کرو۔ دوندا ملنا مشکل ہو تو دنبہ جو ابھی جذع ہو قربانی کر سکتے ہو۔
حضرت ابو کباشؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’جَلَبْتُ غَنَمًا جُذْعَانًا إِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَکَسَدَتْ عَلَیَّ فَلَقِیْتُ أَبَاھُرَیْرَۃَ فَسَأَلْتُہٗ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ نِعْمَ الْأُضْحِیَّۃُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ قَالَ فَانْتَہَبَہُ النَّاسُ۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب فی ا لجذع من الضان فی الاضاحی)

میں چھ چھ ماہ کے دُنبے مدینہ قربانی کے موقع پر فروخت کرنے کیلئے لے گیا لیکن وہ نہ بک سکے۔ پھر میری ملاقات حضرت ابو ہریرہؓ سے ہو گئی تو میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بہترین قربانی چھ ماہ کی بھیڑ کی ہے۔ ابو کباشؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر لوگوں نے میری بھیڑوں کو ہاتھوں لیا۔

حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں:

’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْطَاہُ غَنَمًا یَّقْسِمُہَا عَلٰٓی أَصْحَابِہٖ ضَحَایَا فَبَقِیَ عَتُوْدٌ أَوْ جَدْیٌ فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِہٖٓ أَنْتَ قَالَ وَکِیْعٌ اَلْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ یَکُوْنُ ابْنَ سِتَّۃِ أَوْ سَبْعَۃِ أَشْہُرٍ۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب فی الجذع من الضان فی الاضاحی)

آنحضرت ﷺ نے مجھے کچھ بکریاں دیں کہ وہ ان کو صحابہ میں تقسیم کر دوں۔ ان میں سے ایک بکری رہ گئی جو عَتُوْدٌ یا جَذَعَۃ تھی۔ میں نے اس کا ذکر حضور ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم خود اس کی قربانی کرو …….. وکیع کہتے ہیں کہ جَذَعٌ اس بھیڑ کو کہتے ہیں جس کی عمر چھ ماہ یا سات ماہ ہو۔ (عَتُوْدٌ بکری کے اس بچے کو کہتے ہیں جوایک سال کا ہو چکاہو)

اونٹوں میں مُسِنَّ یا مُسِنَّۃ اسے کہتے ہیں جو پورے پانچ سال کی عمر کا ہو اور چھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ گائے اور بیل میں مُسِنَّۃ اسے کہتے ہیں جو پورے دوسال کی عمر کا ہو تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ بکرے اور دنبہ میں مُسِنَّۃ وہ ہے جو اپنی عمر کا پورا ایک سال گزار کر دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ لہذا ان جانوروں میں قربانی کے لئے جانور کا مُسِنَّۃ ہونا ضروری ہے۔

دنبہ کے جَذَعَۃ کی نسبت علماء میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ایک سال، بعض کے نزدیک چھ ماہ اور بعض کے نزدیک سات ماہ کا بچہ جَذَعَۃ کہلاتا ہے۔

امام ابو عبیدؒ اپنی تصنیف ’’کتاب الاموال‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مسّن یا مسّنہ وہ بیل یا گائے ہے جس کے دو اگلے دانت نکل آئے ہوں اور یہ عمل تیسرے برس میں ہوتا ہے۔‘‘

(کتاب الاموال جلد دوم صفحہ130)

’’فقہ السنّۃ‘‘ کے مصنف امام السیّد السابق جانوروں کی عمر کے بارہ میں لکھتے ہیں:

’’أَنْ یَّکُوْنَ ثَنِیًّا إِذَا کَانَ مِنْ غَیْرِ الضَّأْنِ أَمَّا الضَّأْنُ فَإِنَّہٗ یُجْزِءُ مِنْہُ الْجَذَعُ فَمَا فَوْقَہٗ وَ مَا لَہٗ سِتَّۃُ أَشْہُرٍ وَکَانَ سَمِیْناً۔
وَالثَّنِیُّ مِنَ الْاِبِلِ مَالَہٗ خَمْسُ سِنِیْنَ وَمِنَ الْبَقَرِ مَا لَہٗ سَنَتَانِ وَمِنَ الْمَعْزِ مَا لَہٗ سَنَۃٌ تَآمَّۃٌ فَہٰذِہٖ یُجْزِءُ مِنْہَا الثَّنِیُّ فَمَا فَوْقَہٗ۔‘‘

(فقہ السنۃ جلد اول صفحہ738)

ترجمہ: قربانی کا جانور دوندا ہونا چاہئے جبکہ وہ بھیڑ کے علاوہ ہو۔ جہاں تک بھیڑ کا تعلق ہے تو یہ جذع یا اس سے زیادہ عمر کا کافی ہے ۔جذع وہ ہے جس کی عمر چھ ماہ ہو اور وہ موٹا تازہ ہو ۔اور اونٹوں میں سے دوندا وہ ہے جس کی عمر پانچ سال ہو اور گائیوں میں دوندا وہ ہے جس کی عمر دو سال ہو اور بکریوں میں دوندا وہ ہے جس کی عمر پوری ایک سال ہو۔ پس یہ دوندا ہونے کے لحاظ کفایت کرے گا یا اس سے زیادہ عمر کا ہو۔

امام شوکانی ؒ اپنی تصنیف نیل الاوطار میں قربانی کے جانور کی عمر کے بارہ میں لکھتے ہیں:

’’(إلَّا مُسِنَّۃً) قَالَ الْعُلَمَآءُ الْمُسِنَّۃُ ھِیَ الثَّنِیَّۃُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مِّنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ فَمَا فَوْقَہَا وَھٰذَا تَصْرِیحٌ بِأَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الْجَذَعُ وَلَا یُجْزِئُ إِلَّآ إذَا عَسُرَ عَلَی الْمُضَحِّی وُجُوْدُ الْمُسِنَّۃِ۔‘‘

(نیل الاوطار کتاب الھدایا والضحایاباب السن الذی یجزی فی الاضحیۃ ومالا یجزی)

(سوائے ’’مسنہ‘‘ کے علماء نے کہا ہے کہ مسنہّ اونٹوں، گائیوں اور بکریوں میں سے 2سال یا اس سے بڑے جانور کو کہتے ہیں۔ یہ بات اس امر کی صراحت ہے کہ ’’الجذع‘‘ کی قربانی کی جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ قربانی کرنے والے کے لیے مسنّہ پانا مشکل ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’علماء کا اختلاف ہے کہ دو برس سے کم کا بکرا اور ایک برس سے کم کا دنبہ جائز ہے یا نہیں؟ اہل حدیث تو اسے جائز نہیں رکھتے مگر فقہا کہتے ہیں کہ دو برس سے کم ایک برس کا بکرا بھی جائز ہے اور دنبہ چھ ماہ کا بھی۔ مومن اس اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘

(بدر 23/جنوری 1908ء صفحہ10)

پھر فرمایا:
’’قربانی میں دو برس سے کم کوئی جانور نہیں چاہئے، یہی میری تحقیق ہے۔‘‘

(بدر۔ 30دسمبر 1909ء صفحہ1 تا 3)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5 اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیہ میں فرمایا:
’’قربانی کے جانور کے لیے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دو سال کے ہوں۔ دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جا سکتا ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد دوئم صفحہ73)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ قربانی کے مسائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ قربانی میں دو برس سے کم کوئی جانور نہیں چاہئے ،یہی میری تحقیق ہے۔

اب وہ جس مینڈھے کا ذکر تھا وہ ایک سال کا تھا ۔اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا تھا کہ اس کی تمہیں اجازت ہے مگر آئندہ سے یہ دوسروں کو اجازت نہیں ہوگی۔ پس اب قانون یہی ہے کہ جانور کم سے کم دو برس کا ہونا چاہئے۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 23فروری 2002ء)

فقہ احمدیہ (عبادات) میں قربانی کے جانور کی عمر کے بارہ میں لکھا ہے:
’’اونٹ تین سال، گائے دو سالہ اور بھیڑ بکری وغیرہ ایک سال کی کم ازکم ہونی چاہئے۔ دنبہ اگر موٹا تازہ ہو تو چھ ماہ کا بھی جائز ہے۔‘‘

(فقہ احمدیہ ۔عبادات صفحہ182)

قربانی کے جانور میں حصوں کی تقسیم

ایک بکرے یا بھیڑ میں ایک سے زیادہ حصہ دار نہیں ہوتے۔ البتہ گائے یا بیل میں سات اور اونٹ میں سات یا دس حصہ دار ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ الْبَدَنَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ وَّالْبَقَرَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ۔

(مسلم کتاب الحج باب الاشتراک فی الھدی واجزاء البقرۃ والبدنۃ کل منہماعن سبعۃ)

حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرتﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے سال اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے قربان کی۔

’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَی فَاشْتَرَکْنَا فِی الْبَقَرَۃِ سَبْعَۃً وَّفِی الْبَعِیْرِ عَشَرَۃً۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب فی الاشتراک فی الاضحیۃ)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحیہ آگئی ۔پس ہم گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔

قربانی کے گوشت کی تقسیم

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

’’فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ‘‘

(الحج:37)

توا ن میں سے کھاؤ اور قناعت کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اور سوال کرنے والوں کو بھی۔

’’فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ‘‘

(الحج:29)

اس قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج ناداروں کو بھی کھلاؤ۔

ابتداء اسلام میں مسلمانوں کی مالی حالت کمزور تھی اور وہ محتاج بھی تھے۔ اس لئے آنحضورﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا تھا۔

اسی طرح ایک دفعہ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں کچھ بادیہ نشین نماز عید کی ادائیگی کیلئے مدینہ آگئے۔ وہ غریب اور نادار لوگ تھے۔ ان کی آمد کی وجہ سے آنحضورﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا ۔ (تاکہ ان نادار اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاسکے) بعد میں آپﷺ نے قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔

حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’لَا یَأْکُلُ أَحَدُکُمْ مِّنْ لَحْمِ أُضْحِیَّتِہٖ فَوْقَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب فی کراھیۃ اکل الاضحیۃ فوق ثلثۃ ایام)

تم میں سے کوئی شخص اپنی قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھائے۔

’’عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ لِّیَتَّسِعَ ذُوْالطَّوْلِ عَلٰی مَنْ لَّا طَوْلَ لَہٗ فَکُلُوْا مَا بَدَا لَکُمْ وَأَطْعِمُوْا وَادَّخِرُوْا۔‘‘

(ترمذی کتاب الاضاحی باب ماجاء فی الرخصۃ فی اکلہا بعد ثلاث)

حضرت سلیمان بن بریدہؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا تا کہ استطاعت والے لوگ اپنے سے غریب لوگوں پر کشادگی کریں لیکن اب تم جس طرح چاہو کھا بھی سکتے ہو، لوگوں کو کھلا بھی سکتے ہو، اور ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔

صحیح مسلم میں اس واقعہ کی تفصیل یوں درج ہے:

’’عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ لُحُوْمِ الضَّحَایَا بَعْدَ ثَلَاثٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِیْ بَکْرٍ فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لِعَمْرَۃَ فَقَالَتْ صَدَقَ سَمِعْتُ عَائِشَۃَ تَقُوْلُ دَفَّ أَھْلُ أَبْیَاتٍ مِّنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ حَضْرَۃَ الْأَضْحٰی زَمَنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوْا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوْا بِمَا بَقِیَ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَالِکَ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ النَّاسَ یَتَّخِذُوْنَ الْأَسْقِیَۃَ مِنْ ضَحَایَاھُمْ وَیَجْمُلُوْنَ مِنْہَا الْوَدَکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاکَ؟ قَالُوْا نَہَیْتَ أَنْ تُؤْکَلَ لُحُوْمُ الضَّحَایَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ إِنَّمَا نَہَیْتُکُمْ مِّنْ أَجْلِ الدَّآفَّۃِ الَّتِیْ دَفَّتْ فَکُلُوْا وَادَّخِرُوْا وَتَصَدَّقُوْا۔‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث فی اوّل الاسلام وبیان نسخہ واباحتہ الی متی شاء)

عبداللہ بن واقدؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں آنحضرتﷺ نے تین دن کے بعد قربانیوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا ۔عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں میں نے اس بات کا ذکر عمرۃؓ سے کیا۔ وہ کہنے لگیں عبداللہ نے درست بات کہی۔ میں نے حضرت عائشہؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں عید کی نماز پڑھنے کیلئے کچھ لوگ بادیہ نشینوں میں سے آگئے ۔آنحضورﷺ نے فرمایا (قربانیوں کے گوشت) تین دن کیلئے رکھ لو اور باقی صدقہ کردو۔ (یعنی ان میں تقسیم کردو) بعد میں یوں ہوا کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیں بناتے اور چربی پگھلاتے ہیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا تو کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا آپ نے ہمیں قربانیوں کے گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایاہے ۔تب آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں صرف ان کمزور آجانے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا ۔پس اب تم کھاؤ اور ذخیرہ بھی کرو اور صدقہ وخیرات بھی کرو۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال ہوا کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے یا نہیں؟

فرمایا:
’’قربانی کا گوشت غیر مُسلم کو بھی دینا جائز ہے۔‘‘

(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ83 بحوالہ فقہ المسیح صفحہ447)

قربانی کا وقت نیز قربانی کتنے دن تک کی جاسکتی ہے

قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے اور بعض روایات کے مطابق ایام تشریق (13ذی الحجہ) تک رہتاہے۔ ایام تشریق 11، 12 اور 13ذی الحجہ ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَۃِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہٗ وَأَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنَ۔‘‘

(بخاری ابواب العیدین باب کلام الامام والناس فی خطبۃ العیدواذا سئل الامام عن شیء وھویخطب)

جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کیا تو اس نے اپنے کھانے پینے کیلئے ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد ذبح کیا تو اس نے اپنی قربانی پورے طور پر ادا کی اور مسلمانوں کے طریق کے مطابق عمل پیرا ہوا۔

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَلْیُعِدْ۔‘‘

(بخاری ابواب العیدین باب الاکل یوم النحر)

جس نے نماز عید سے پہلے اپنا قربانی کا جانور ذبح کیا تو وہ دوبارہ قربانی کرے۔

آنحضرت ﷺ کا ارشا د ہے:

’’کُلُّ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل۔ حدیث نمبر16798، دارقطنی کتاب الاشربہ وغیرھا باب الصید والذبائح والاطعمہ وغیر ذالک)

ایّام تشریق کے تمام ایّام میں قربانی کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

’’وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ‘‘

(البقرہ:204)

اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔

ان ایّام معدودات کی تشریح میں حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں:

’’وَالْأَیَّامُ الْمَعْدُوْدَاتُ، أَیَّامُ التَّشْرِیْقِ۔‘‘

(بخاری کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام التشریق)

یعنی اس آیت میں ایّام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں۔

ایام تشریق سے مراد ذی الحجہ کی 11، 12 اور 13 تاریخ ہے۔ تشریق کے معنیٰ گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنے کے بھی ہیں۔ عیدالاضحیہ کے بعد کے تین ایّام کو ایّام تشریق اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ ان ایام میں قربانیوں کا گوشت خشک کیا جاتا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ سے سوال ہوا کہ قربانی عید کے بعد کتنے دن تک جائز ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک 13 تاریخ تک اور فقہاء کے نزدیک 12 تاریخ تک، کس پر عمل کرنا چاہیے؟

فرمایا:
’’قربانی ہمارے نزدیک 12تار یخ تک جائز ہے ہاں فقہاء نے 13 تاریخ بھی رکھی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تامل میں ضرور اس امر میں کچھ فرق ہوا ہے۔‘‘

(الحکم۔ 10 فروری 1905ء صفحہ11)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5؍ اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیہ میں فرمایا:
’’قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیکن اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحب کا بھی اور بعض اور بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینے میں قربانی ہو سکتی ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد دوئم صفحہ 73)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قربانی تو تین دن چلتی ہے ……… بعض لوگ جنہوں نے چوتھے دن قربانی کرنی ہے وہ چار دن بھوکے رہیں (یہ ارشاد عید کے دن روزہ کے بارہ میں تھا)۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ 28مارچ 1999ء)

کیا وفات یافتہ افراد کی طرف سے عید الاضحیہ کے موقع پر قربانی کرنا جائز ہے اگر جائز ہے تو کس شرط کے ساتھ؟

آنحضرت ﷺ عید الاضحیہ کے موقع پر اپنی طرف سے اور اپنی امت کے نادار افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے ۔ آنحضرت ﷺ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ عید الاضحیہ کے موقع پر فوت شدہ یا زندہ افراد کی طرف سے قربانی دینا جائز ہے بشرطیکہ قربانی کرنے والا خود اپنی طرف سے بھی عید الاضحیہ کے موقع پر قربانی دے ۔ حدیث میں آتاہے:

’’عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہٗ کَانَ یُضَحِّیْ بِکَبْشَیْنِ أَحَدُہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالْاٰخَرُ عَنْ نَّفْسِہٖ فَقِیْلَ لَہٗ فَقَالَ أَمَرَنِیْ بِہٖ یَعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَآ أَدَعُہٗٓ أَبَدًا۔

(سنن الترمذی کتاب الاضاحی باب فی الاضحیۃ بکبشین ،ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیہ عن المیت)

حضرت حنشؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ دودنبے قربان کیا کرتے تھے ایک آنحضرت ﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے ۔ ان سے اس بارہ میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے قربانی کی تاکید فرمائی تھی اس لیے میں اس نصیحت کو نہیں چھوڑتا۔

کیا احمدی غیر از جماعت کے ساتھ مل کر عید الاضحیہ کے موقع پر گائے یا بیل میں حصہ ڈال سکتے ہیں؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے سوال پیش کیا کہ کیا ہم غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلاً گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو۔ اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کر سکتے ہو اور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو پھر تم پر قربانی فرض بھی نہیں۔ وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ شامل ہو ۔خدا پر توکل کرو۔‘‘

(بدر14فروری 1907ء صفحہ8 بحوالہ فقہ المسیح صفحہ236تا237)

(فضل احمد ساجد ۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2021