• 28 جولائی, 2025

بیت اللہ کی مختصر تاریخ (قسط دوم وآخر)

بیت اللہ کی مختصر تاریخ
قسط دوم وآخر

10۔عبداللہ ؓبن زبیر کی تعمیر

اوائل 64ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اور یزید بن معاویہ کے درمیان مسئلہ خلافت کے بارہ میں کشیدگی پیدا ہو چکی تھی یزید نے حصین بن نُمیر کی سرکردگی میں شامی لشکر کو ابن زبیر پر چڑھائی کے لئے بھیجا۔ ابن زبیرؓ نے مکہ میں محصور ہو کر مسجد کے ساتھ پناہ لی، ابن زبیرؓ اور آپ کے ساتھیوں نے کعبہ کے گرد لکڑی کے گھر بنا لئے تھے، جس میں وہ منجنیق کے پتھروں سے اور سورج کی دھوپ سے محفوظ رہتے تھے۔ حصین بن نمیر نے کوہ ابی قبیس اور جبل قعیقعان پر منجنیقیں نصب کر کے ان کے دہانے کعبہ پر کھول دیئے جس سے کعبہ کا غلاف چاک ہو کر رہ گیا۔

ادھر 3 ربیع الاول بروز ہفتہ ابن زبیر ؓ کے ساتھیوں میں سے کسی نے کعبہ کے قریب خیمہ میں آگ جلائی، ہوا شدید تھی چنگاری اڑنے سے خیمے بھی جل اٹھے اور بیت اللہ بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ کعبہ کی دیواریں کمزور پڑ گئیں اس سے اہل مکہ اور اہل شام متفکر ہوئے۔ حصین بن نمیر کا محاصرہ جاری تھا کہ ربیع الآخر میں یزید کی موت کی خبر آئی، ابن زبیرؓ نے شرفاء مکہ کا ایک وفد حصین کے پاس بھیجا جنہوں نے اس سے کعبہ کو نقصان پہنچنے کے بارہ میں گفتگو کی اور کہا کہ تمہارے ’امیر المومنین‘ تو فوت ہو چکے اب کس لئے لڑتے ہو، شام واپس ہو جاؤ، حصین نرم پڑ گیا اور 5ربیع الآخر کو مدینہ کوچ کرگیا۔

اب ابن زبیرؓ نے اشراف قریش سے کعبہ گرانے اور اس کی تعمیر کے بارہ میں مشورہ کیا۔ بعض نے حق میں مشورہ دیا تغیر وترمیم کا، ان میں حضرت جابرؓ بن عبداللہ بھی شامل تھے جو عمرہ کرنے آئے تھے اور مخالفت کرنے والوں میں ابن عباسؓ بھی تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ایسا کرنے سے بعد میں آنے والوں کے لئے کعبہ میں راستہ کھل جائے گا اور اس گھر کی حرمت ختم ہو جائے گی۔ حضرت ابن زبیرؓ نے بالآخر کعبہ کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ ان کی تعمیر کعبہ کے بارہ میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات ’’میں نئی تعمیر میں وہ چیزیں شامل کر دیتا جو اس سے نکال دی گئیں اور میں اس (دروازے) کو زمین سے ملا دیتا اور دو دروازے ایک مشرق اور ایک مغرب کی طرف بناتا اور اس طرح ابراہیمؑ کی بنیادوں پر اسے مکمل کرتا۔‘‘ کے باعث ابن زبیرؓ ازسرنو تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ یزید بن رومان کہتے ہیں کہ میں ابن زبیرؓ کے کعبہ کو گرانے اور تعمیر کرنے کا عینی گواہ ہوں۔ انہوں نے حجر کو اس میں شامل کیا اور میں نے ابراہیمؑ کی بنیادوں کو دیکھا وہ اونٹوں کی کوہان کی طرح (ابھرے ہوئے) پتھروں (کی صورت) میں تھیں۔ جریر کہتے ہیں میں نے (راوی) یزید سے کہا: اس کی جگہ کہاں ہے (یعنی حجر اور ابراہیمی بنیادوں کی) انہوں نے کہا: میں آپ کو دکھاتا ہوں چنانچہ میں ان کے ساتھ حجر میں داخل ہوا تو آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’اس جگہ‘‘۔ جریر کہتے ہیں میں نے اندازہ کیا وہ جگہ حجر سے چھ ہاتھ کے قریب تھی۔

(بخاری کتاب المناسک باب فضل مکۃ)

بہرحال کعبہ گرایا جانے لگا، مکہ کے کئی لوگ طائف اور منٰی چلے گئے کہ کہیں تخریب کعبہ سے عذاب نازل نہ ہو۔ اس دفعہ بھی کسی نے اس کی عمارت گرانے کی جرأت نہ کی۔ ابن زبیرؓ نے خود یہ کام کیا اور اپنے ساتھ حبشی نوجوانوں کو لگایا تا رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کہ کوئی حبشی کعبہ کو گرائے گا اس طرح ظاہری رنگ میں پوری ہو جائے۔ جب کعبہ گرایا جا چکا تو ابن زبیرؓ کے نام ابن عباسؓ کا پیغام آیا کہ کعبہ کی تعمیر ہونے تک لوگوں کو قبلہ کے بغیر نہ چھوڑو اور لوگوں کے لئے کعبہ کے گرد لکڑیاں نصب کردو اور ان پر پردے لٹکا دو تا لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکیں اور طواف کر سکیں۔ ابن زبیرؓ نے ایسا ہی کیا۔ ابراہیمی بنیادوں پر اشراف قریش کی گواہی لی گئی اور حجر اسود ابن زبیر ؓ نے خاموشی سے رکھوا دیا، ابن زبیرؓ نے 18 کی بجائے 27 ہاتھ بلند دیواریں تعمیر کیں اور نہایت عمدہ کام کروایا۔ آپ نے ایک دروازہ کی بجائے کعبہ کے دو دروازے بنا دیئے اور ابراہیمؑ کی بنیادوں پر اسے مکمل تعمیر کر دیا۔ تعمیر کے بعد ابن زبیرؓ کے ارشاد پر ان کے ساتھیوں نے بطور شکرانہ عمرہ کیا، اور قربانیاں کیں۔ ابن زبیر ؓ خود ننگے پاؤں لوگوں کے ساتھ پیدل نکلے اور مسجد عائشہؓ سے احرام باندھ کر طواف کیا اور سو اونٹ قربانی کے ذبح کئے۔ آپ نے کعبہ کے چاروں ارکان کو بوسہ دیا اور کہا کہ پہلے کعبہ نامکمل تھا اس لئے دو ارکان کو بوسہ دیا جاتا تھا۔ اس روز بڑی کثرت سے غلام آزاد کئے گئے، صدقہ و خیرات کیا گیا، دعوتیں ہوئیں کہ خدا نے ان کو خانہ کعبہ کی تعمیر کی توفیق بخشی۔ 65ھ میں یہ تعمیر مکمل ہوئی تھی۔

(تاریخ الکعبہ صفحہ 67)

11۔حجاّج کی تعمیر

ابن زبیر سے جنگ اور ان کو شہید کرنے کے بعد حجاج نے عبدالملک بن مروان کو لکھا کہ ابن زبیر نے کعبہ میں کچھ زائد چیزیں شامل کر دی ہیں، اس نے سابقہ تعمیر کے مطابق کعبہ کو بنانے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دے دی جس کے مطابق حجاج نے غربی دروازہ بند کر دیا، زائد تعمیر شدہ حصہ گرا دیا، عبدالملک کو بعد میں اس پر ندامت ہوئی اور اس نے حجاج کو لعنت ملامت کی۔ عباسی خلفاء بعد میں عباسی خلفاء مہدی اور ہارون نے جب امام مالکؒ سے کعبہ کو ابن زبیر کی تعمیر کے مطابق کرنے کا فتویٰ پوچھا تو انہوں نے کہلا بھیجا:
’’میں امیر المؤمنین کو خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اس گھر کو بادشاہوں کا کھلونا نہ بنائیں کہ جب چاہا توڑ دیا۔ ایسے میں اس کی عظمت لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گی۔‘‘

یہ بیان مسلم، ازرقی، شرح نووی، ابن کثیر اور ابن حجر سے ملخّص ہے۔

12۔سلطان مراد کی تعمیر

1040ھ میں سلطان مراد نے کعبہ کی تعمیر کی۔ 19رمضان 1039ھ کو مکہ میں طوفانی بارش سے سیلاب آیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ اس روز ایک ہزار آدمی ہلاک ہوا، کعبہ کی بھی شامی دیوار گر گئی اور شرقی غربی دیواروں کو نقصان پہنچا۔ کعبہ کا مال نکلوایا گیا اور شریف مکہ نے علمائے مکہ سے کعبہ کے گرانے اور اس کی تعمیر کا مشورہ لیا۔ انہوں نے کعبہ کے مال سے اس کی تعمیر کا مشورہ دیا۔ شریف مکہ نے اس سلسلہ میں علمائے مکہ کی طرف سے مسودہ تیار کروا کے وزیر مصر کی معرفت سلطان مراد کو بھیجا اور ادھر تعمیر کے انتظامات جاری رکھے کیونکہ حج قریب تھا۔ چنانچہ فوری طور پر عارضی انتظام کر دیا گیا۔ 22ربیع الثانی کو احاطہ کعبہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ 9رجب کو سلطان مراد کے وزیر تعمیرات بھی آئے۔ الغرض جملہ انتظامات کر کے شعبان کے آخر تک تعمیر مکمل ہو گئی۔ غلاف وغیرہ چڑھایا گیا اور یکم ذی القعدہ کو ہفتہ کے روز کعبہ کھول دیا گیا۔ کعبہ کے اندر غربی دیوار پر ایک لوح لگائی گئی جس میں بِسْمِ اللّٰہِ کے بعد رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔ (البقرہ:128) تحریر کیا گیا اور اس کے بعد اس مفہوم کی عبارت تھی:
’’اس بیت العتیق کی تجدید کا شرف سلطان مراد کو آواخر رمضان 1040ھ میں حاصل ہوا‘‘۔

مصنف تاریخ کعبہ کے مطابق کعبہ میں سنگ مرمر کی اور تختیاں بھی اس مضمون کی مرمت یا تعمیر کے بارہ میں لگی ہوئی ہیں جن کی تعداد سات ہے۔

(تاریخ الکعبۃ المعظمۃ ص138 تا 140)

شعائر کعبہ

کعبہ سے تعلق رکھنے والی درج ذیل چیزوں کا بخاری میں ذکر ہے۔ حجراسود، کعبہ کا مال اور خزانہ، کعبہ کا غلاف اور کعبہ کے اندر بتوں کا بھی تذکرہ ہے۔جس کی کسی قدر تفصیل پیش ہے۔

حجر اسود

حجر اسود کے متعلق روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس کا بوسہ لیا اور کہا:
’’میں جانتا ہوں تو محض ایک پتھر ہے جو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا‘‘۔

(کتاب المناسک باب قول اللہ جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام)

حجر اسود کو رکن اسود بھی کہتے ہیں یہ ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے جو کعبہ کے کونے میں شرقی جانب دروازہ کے قریب ہے۔ روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جب کعبہ تعمیر کر رہے تھے تو جبرائیل آسمان سے یہ پتھر لائے تھے اور گردش زمانہ کے باوجود یہ محفوظ رہا، جب جرہم کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی تو وہ حجر اسود ساتھ لے گئے لیکن اونٹ اسے اٹھا نہ سکتا تھا چنانچہ وہ اسے ایک جگہ دبا کر چلے گئے۔ بعد میں قریش کو نشاندہی کی گئی اور انہوں نے اسے واپس لا کر کعبہ میں لگایا۔ ایک دفعہ قرامطی بھی حجر اسود کو چرا کر لے گئے تھے جو بائیس سال بعد واپس آیا۔ قریش کی تعمیر اور ابن زبیر کی تعمیر کے وقت اسے اپنی جگہ پر رکھنے کا ذکر ہو چکا ہے۔ یہ روایت بھی ہے کہ کعبہ کو آگ لگنے سے حجر اسود بھی متاثر ہوا اور اس کے چار ٹکڑے ہو گئے تو ابن زبیرؓ نے اس پر چاندی چڑھا کر ان ٹکڑوں کو جڑوا دیا۔ سلطان مراد کی تعمیر میں بھی اسے چاندی سے جوڑا گیا۔

(تاریخ الکعبۃ المعظمۃ صفحہ 151۔209)

خزانۂ کعبہ

کعبہ کے خزانہ اور مال کے متعلق ابووائل نے روایت کی ہے کہ میں کعبہ میں شیبہ کے ساتھ (کعبہ کی) کرسی پر بیٹھا تھا تو اس نے کہا کہ اسی جگہ پر حضرت عمرؓ بیٹھے تھے اور فرمایا تھا کہ میں نے چاہا کہ کعبہ میں کوئی زرد اور سفید چیز نہ رہنے دوں مگر اسے تقسیم کر دوں۔ میں نے کہا: آپؓ کے دونوں ساتھیوں (آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ اس پر فرمایا: یہ دونوں ایسے وجود ہیں جن کی میں پیروی کرتا ہوں (ورنہ ضرور ایسا کرتا)۔

(بخاری کتاب المناسک باب قول اللہ جعل اللہ الکعبۃ…الخ)

قرطبی کہتے ہیں کہ صفراء و بیضاء (زرد وسفید) سے مراد کعبہ کے زیورات نہیں لیکن شارح بخاری علامہ عینی کے نزدیک اس سے مراد سونا اور چاندی ہے۔ قرطی نے مزید کہا ہے کہ اس سے کعبہ کا خزانہ مراد ہے جو اسے تحائف کے طور پر حاصل ہوتا تھا اور جو اس کی ضرورت و اخراجات سے بچ رہتا وہ جمع کر دیا جاتا لیکن زیورات کعبہ پر وقف تھے۔ خرچ یا تصرف ان میں نہیں کیا جاتا تھا۔ کرمانی کے نزدیک کسوئہ کعبہ سے مراد سونا اورچاندی ہے اورعلامہ عینی کے نزدیک کسوہ سے مراد کعبہ کا تمام مال ہے جن میں کعبہ کا غلاف بھی شامل ہے۔ یاد رہے اَنْ لَّآ اَدَعَ فِیْھَا صَفْرَآءَ وَلَا بَیْضَآءَ والی حدیث امام بخاری ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ کے باب میں لائے ہیں۔

جہاں تک کعبہ کے خزانہ کا تعلق ہے اس کے زیورات کے متعلق لکھا ہے کہ سب سے پہلے عبدالمطلب بن ہاشم نے سونے کے دو ہرن (جو زمزم کے کنوئیں سے ملے تھے) کعبہ کو چڑھائے۔ یہ روایت بھی ہے کہ یہ دونوں ہرن ایرانی بادشاہ ساسان بن بابک نے کعبہ کے لئے بطور تحفہ بھجوائے تھے۔ اسی طرح جواہرات، تلواریں اور سونا بھی بھیجا جاتا تھا جو زمزم میں دفن ہوا۔ عرب اور دوسرے بادشاہ بھی کعبہ کو تحفے بھجوایا کرتے تھے جو کعبہ کے کنوئیں میں محفوظ ہوتے تھے۔

اسلامی عہد میں ابن زبیرؓ، عبدالملک بن مروان اور ولید بن عبدالملک کے کعبہ پر مال چڑھانے کا ذکر ہے۔

(تاریخ الکعبۃ المعظمۃ صفحہ 203تا204)

غلاف کعبہ

غلاف کعبہ کے متعلق حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ عاشوراء (دسویں محرم) کو رمضان کی فرضیت سے قبل روزہ رکھا جاتا تھا۔

اسلام سے بہت پہلے کعبہ کو غلاف پہنانے کا رواج تھا۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ تُبّع نے سب سے پہلے کعبہ کو لباس پہنایا، بعض روایات میں پہلا غلاف حضرت اسماعیلؑ کی طرف اور بعض کے مطابق ان کے بیٹے عدنان کی طرف بھی منسوب ہے۔

ان آراء میں تطبیق اس طرح کی گئی ہے کہ اسماعیلؑ نے سب سے پہلے غلاف پہنایا ان کے بعد سب سے پہلے عدنان نے اور یمنی چادریں سب سے پہلے اسعد تُبّع نے پہنائیں۔ پھر جاہلیت میں لوگ غلاف پہناتے رہے۔ ابن ھشام کی روایت ہے کہ اسعد نے ایک خواب کی بنا پر نہایت عمدہ اور بہترین کپڑا کعبہ کو پہنایا۔ تقی فاسی نے قریش کی تعمیر کے وقت یمنی چادریں پہنانے کا ذکر کیا ہے۔ ابن حجر کے مطابق خالد بن جعفر نے پہلی بار ریشم کعبہ کو پہنایا اور دارقطنی کی روایت کے مطابق فتیلہ بن حبان والدہ عباس بن عبدالمطلب نے۔ الغرض عرب اسلام سے قبل غلاف کعبہ کا خاص اہتمام کرتے اس میں فضائل و مفاخر خیال کرتے اور جب بھی جو چاہتا اور جس قسم کا غلاف چاہتا پہناتا۔ غلافوں پر غلاف پہنائے جاتے جب یہ بھاری یا بوسیدہ ہو جاتے تو انہیں اتار لیا جاتا۔ ابن حجر واقدی کی روایت لائے ہیں کہ جاہلیت میں کعبہ کو چمڑے کا غلاف پہنایا جاتا تھا، رسول اللہ ﷺنے یمنی کپڑا پہنایا پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے قبطی کپڑا اور حجاج نے دیباج (ریشم) پہنایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قباطی پہنانے کی بھی روایت ہے۔ ازرقی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشوراء کو خطبہ دیا اور فرمایا یہ عاشوراء کا دن ہے جس میں سال ختم ہوجاتا ہے اور کعبہ کو لباس پہنایا جاتا ہے۔ معاویہؓ کے متعلق رمضان میں قباطی اور عاشوراء کے دن ریشم پہنانے کی روایت ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں غلاف کعبہ مصر میں تیار ہوتا تھا۔ مامون کے زمانہ میں کعبہ کوتین غلاف سال میں پہنائے جانے لگے ان غلافوں یا چادروں پر غلاف دینے والے بادشاہ یا امیر کا نام مع سن کے لکھا ہوتا تھا۔ 160ھ میں خلیفہ مہدی نے حج کیا تو خدام کعبہ نے کہا کہ عمارت کمزور ہے اور غلاف زیادہ اور بھاری ہیں تو مہدی نے صرف ایک غلاف کاحکم دیا۔ 466ھ میں سلطان محمود سبکتگین نے بھورے رنگ کا غلاف چڑھایا۔ اس کے بعد سیاہ غلاف کا طریق چل پڑا۔ نویں صدی میں سیاہ غلاف پر طراز کے علاوہ آیات بھی نقش کی جانے لگیں۔ عباسی خلفاء کے علاوہ مصری بھی کعبہ کو خلعت پہناتے رہے۔ 750ھ سے ملک صالح اسماعیل قلدون نے کعبہ کے ہر سال کے غلاف اورحجرۂ نبوی و منبر نبوی کے ہر پانچ سال بعدغلاف کے لئے مستقل طور پر تین بستیاں وقف کر دیں۔ سلطان سلیمان نے ان میں اضافہ کیا۔ تیرھویں صدی تک یہ وقف رہا، اس کے بعد محمد علی باشا نے یہ وقف توڑا اور حکومت وقت خلعت کعبہ کا اہتمام کرنے لگی۔

(تاریخ الکعبۃ المعظمۃ صفحہ 270)

عاشوراء وہ دن تھا جس دن کعبہ کو پوشاک پہنائی جاتی تھی (کتاب المناسک باب قول اللہ جعل اللہ)۔ دوسری روایت انسؓ بن مالک کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے سر پر ڈھال تھی۔ آپ نے اسے اتارا۔ ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں (استار کعبہ) سے چمٹا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے قتل کر دو (کتاب الجہاد باب قتل الاسیر)۔ امام بخاری نے اس سلسلہ میں کسوۃ الکعبۃ کے عنوان سے باب قائم کیا ہے (جس سے غلاف بھی مراد ہے)۔

(کتاب المناسک باب کسوۃ الکعبۃ)

خانہ کعبہ کے بت

خانہ کعبہ تمام عالم کی ہدایت و برکت کا مرکز بنایا گیا تھا مگر اہل مکہ نے اسے صنم کدہ بنا دیا وہ بت پرستوں کا تیرتھ بن گیا۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول خدا کا جب مکہ میں ورود ہوا تو بیت اللہ کے گرد 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ ان کو ایک چھڑی سے مارتے جاتے اور فرماتے جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ۔ (بنی اسرائیل:82) وَ مَا یُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَ مَا یُعِیۡدُ۔ (سباء :50)

کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا، حق آ گیا اور باطل کوئی چیز پیدا نہیں کرتا اور کسی ہلاک شدہ چیز کو واپس نہیں لا سکتا ہے۔

ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو آپ بیت اللہ میں داخل ہونے سے رک گئے کیونکہ اس میں اصنام تھے۔ آپ کے ارشاد پر ان کو نکالا گیا۔ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کے بت نکالے گئے ان کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ ان مشرکین پر لعنت کرے ان کو معلوم ہے کہ ان دونوں (ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ) نے تیروں سے کبھی قسمت معلوم نہیں کی تھی۔ پھر آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے۔

(کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح فی رمضان)

کعبہ کے اندر عمرو بن لحیّ نے سب سے پہلے بت رکھے تھے۔

چاہ زمزم

پانی کا وہ چشمہ زمزم کہلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے لئے جاری کیا اور جس پر جرہم قبیلہ آکر آباد ہوگیا۔

(بخاری کتاب الانبیاء باب النسلان فی المشی)

جب جرہم قبیلہ کو خزاعہ نے مکہ سے نکال دیا تو مکہ سے کوچ کرتے ہوئے انہوں نے زمزم میں اپنے اموال دفن کر کے اسے بند کر دیا۔ زمزم کو دوبارہ کھودنے کا سبب حضرت عبدالمطلب کا ایک خواب ہوا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں حجر میں سویا ہوا تھا ایک شخص نے آ کر کہا: ’’طیبہ کھودو‘‘۔ میں نے کہا: وہ کیا؟ دوسرے روز اس نے ’’برۃ‘‘ اور تیسرے روز ’’مضنونہ‘‘ کھودنے کے متعلق کہا۔ آخر چوتھے دن خواب میں اس نے کہا کہ زمزم کھودو۔ اگر تم اسے کھودو گے تو رسوا نہیں ہو گے۔ میں نے پوچھا ’’زمزم کیا ہے۔‘‘ وہ بولا ’’تمہارے جد امجد کی میراث‘‘۔ پھر اس نے کچھ علامات بتائیں عبدالمطلب نے دوسرے روز اپنے بیٹے حارث کو ساتھ لیا اور کدال کے ساتھ اساف اور نائلہ بتوں کے درمیان جہاں قریش بتوں کے لئے قربانیاں چڑھایا کرتے تھے کھدائی کی۔ یہ روایت بھی ہے کہ ایک کوے نے اس جگہ کو کھود کر نشاندہی کی۔ کھودنے پر کنواں نکل آیا۔ جب قریش کو اس بات کا علم ہوا کہ عبدالمطلب کی امید بر آئی ہے تو ان کے پاس آئے اور کہا کہ یہ ہمارے باپ اسماعیل کا کنواں ہے اور اس میں ہمارا بھی حق ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ اس میں شریک کرو۔ عبدالمطلب کے انکار پر انہوں نے جنگ کی دھمکی دی۔ تو آپ نے کہا کہ کوئی ثالث مقرر کر لو۔ بنی سعد بن ھذیم کی کاھنہ جو شام کے قریب رہتی تھی ثالث مقرر ہوئی، عبدالمطلب بنو عبد مناف کے افراد کو اور قریش کے دوسرے قبائل اپنے اپنے کچھ لوگوں کو لے کر چل پڑے۔ حجاز اور شام کے ایک جنگل میں عبدالمطلب کے ساتھیوں کا پانی ختم ہو گیا۔ جاں بلب ہونے لگے تو قریش سے پانی مانگا انہوں نے انکار کیا، ساتھیوں سے عبدالمطلب نے مشورہ کیا تو انہوں نے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنے کا عہد کیا، آپ نے حکم دیا تم میں سے ہر شخص ایک ایک گڑھا کھودے جب تم میں سے کوئی مر گیا تو دوسرا اسے اس میں دفن کر دے گا اس طرح آخری شخص کے سوا سب دفن ہو جاؤ گے اور ضائع ہونے سے بچ جاؤ گے۔ سب نے تعمیل کی۔ پھر عبدالمطلب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمارا اپنے آپ کو اس طرح موت کے سپرد کر دینا بغیر کسی سعی و تلاش کے عاجزی کی دلیل ہے، پس اٹھو اور کوچ کرو، قریش کے دوسرے قبائل سارا تماشہ دیکھ رہے تھے، عبدالمطلب سوار ہوئے، جب اونٹ اٹھا تو اس کے پاؤں تلے سے میٹھے پانی کا چشمہ نکل آیا، عبدالمطلب اور ان کے ساتھیوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا، خود پانی پیا اور مشکیزے بھر لئے، پھر قریش کے قبائل کو بلا کر کہا کہ تم بھی پانی لے لو۔ اللہ نے ہمیں پانی پلایا ہے، آپ کے ساتھیوں نے قریش کو پانی نہ دینے کا مشورہ دیا۔ آپ نے فرمایا: پھر تو ہم ان جیسے ہوئے۔ قریش کے قبائل نے آ کر پانی پیا اور کہا اے عبدالمطلب! ہم زمزم کے بارہ میں آپ سے نہیں جھگڑیں گے، جس خدا نے آپ کو یہ پانی پلایا ہے اسی نے آپ کو زمزم عطا کیا ہے۔ پس اپنے زمزم کے پانی کی طرف کامیاب لوٹے۔ الغرض کاھنہ کے پاس جانے کی بجائے سب واپس لوٹے۔ عبدالمطلب کو کنواں کھودنے پر سونے کے دو ہرن ملے جو جرہم نے دفن کئے تھے کچھ تلواریں اور زرہیں بھی ملیں۔ قریش نے کہا: ان میں ہمارا حق ہے آپ نے کہا آؤ قرعہ اندازی سے فیصلہ کر لیتے ہیں۔ آپ نے دو حصے کعبہ کے، دو اپنے اور دو قریش کے بنائے کہ جس کا حصہ نکلا وہ لے لے گا، قریش نے تسلیم کر لیا، چنانچہ ہرنوں کا قرعہ کعبہ کے نام، اور تلواروں اور زرہوں کا عبدالمطلب کے نام نکلا۔ عبدالمطلب نے تلواریں بھی کعبہ کے دروازے پر لٹکا دیں اور سونے کے ہرنوں سے کعبہ میں سونے کی پلیٹیں لگوائیں۔ یہ پہلا سونا تھا جس سے کعبہ کو آراستہ کیا گیا۔

(سیرت ابن ہشام جز اول ص122، 123ایڈیشن 1937ء) (الکامل فی التاریخ لابن اثیر المجلد الثانی ص12 ایڈیشن 1965 از بیروت)

کعبہ یمانیہ

اہل مکہ (قریش) کو کعبہ کی عظمت و شان اور مذہبی اہمیت کے باعث کئی سیاسی اور تجارتی و اقتصادی فوائد حاصل تھے جو ان کے معاندین خصوصاً نصاریٰ کے لئے حسد کا موجب تھے۔ اس کے علاوہ خود عرب قبائل نے بھی کعبہ کی وجہ سے قریش کی دینی و مالی اہمیت کو دیکھ کر اس کے متوازی معبد بنا لئے تھے۔ ان کو بھی تحائف اور قربانیاں آتی تھیں۔

چنانچہ یمن کے قبائل خثعم اور بجیلہ وغیرہ نے ایک عمارت تعمیر کر کے اس میں بت رکھے جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ اسے کعبہ معظمہ کے مقابل پر کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کا نام دیا گیا۔الخلصہ بھی اس کا نام تھا اور اس کے بڑے بت کا نام ذوالخلصہ تھا۔

اسی نوعیت کا ایک اہم تاریخی واقعہ عیسائی حاکم ابرہہ کا ہے جس نے یمن میں کعبہ تعمیر کرایا تھا۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ عبدالمطلب کے زمانہ میں زمزم کے مل جانے کے باعث قریش کی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور حبشی اور اردگرد کے دوسرے قبائل مکہ کا قصد کرنے لگے۔ قیصر روم کی طرف سے اس وقت یمن کا گورنر ابرہۃ الاشرم مقرر ہو کر آیا جو حبشی تھا۔ اس نے جب خانہ کعبہ اورقریش کی یہ اہمیت دیکھی تو قیصر روم کو لکھا کہ وہ صنعاء میں ایک گرجا تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اس سے مدد طلب کی۔ اس پر قیصر نے سامان اور کاریگر بھجوائے۔ ابرہہ نے عمارت مکمل کروا کے نجاشی شاہ حبشہ کو لکھا کہ عرب کے حاجی کعبہ کے بجائے یمن کے کلیسا کی طرف مائل ہوں اور قریش کی تجارت صنعاء میں جائے۔ خدام کعبہ کو اس بات سے بہت جوش پیدا ہوا چنانچہ بنی مالک بن کنانہ کا ایک آدمی یمن گیا۔ اس گرجا کی بے حرمتی کی بعض روایات کے مطابق اس میں پاخانہ کیا اور آگ لگادی اور نقصان پہنچایا۔ ابرھۃ الاشرم آگ بگولا ہو گیا اس نے کعبہ معظمہ کو گرا دینے کی قسم کھائی اور ایک لشکر جرار حبشیوں کا تیار کیا جس کے آگے نو ہاتھی تھے۔ بڑے ہاتھی کانام محمود تھا۔ الغرض اس نے کعبہ کا قصد کیا اور مکہ کے قریب مغمّس مقام پر آ کر ڈیرے ڈال دیئے۔ مؤرخ سدیو کے مطابق یہ چالیس ہزار کا لشکر تھا۔ طبری کے مطابق ابرہہ نے یہاں سے ایک حبشی اسود نامی کو مکہ بھیجا جو قریش کے اموال اور عبدالمطلب کے دو سو اونٹ ہانک لایا۔ اس وقت عبدالمطلب قریش کے سردار تھے، قریش کنانہ، ہذیل لڑائی پر آمادہ ہوئے لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر ابرہہ نے حناطہ حمیری کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ میں جنگ کرنے نہیں کعبہ گرانے آیا ہوں اگر تعرض نہ کرو گے تو خون بہانے کی ضرورت نہیں۔ اس پر عبدالمطلب اس کے پاس آئے اور ابرہہ سے کہا: ’’میرے اونٹ واپس کر دو‘‘۔ ابرہہ نے ترجمان کے ذریعہ پوچھا کہ تم مجھ سے دو سو اونٹوں کی بات کرتے ہو اور اپنے باپ دادا کے دینی گھر کو چھوڑتے ہو جسے میں گرانے آیا ہوں۔ عبدالمطلب نے جواب دیا میں تو ان اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک رب ہے جو اس کی حفاظت کرے گا۔ پھر ابرہہ سے تہامہ کا تہائی خراج دے کر واپس جانے کی درخواست کی مگر وہ نہ مانا۔ اس نے حملہ کا ارادہ کیا تو اگلا ہاتھی محمود بیٹھ گیا وہ کعبہ کا رخ نہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس دوران سمندر سے پرندے آئے اور انہوں نے لشکر پر کنکر برسائے جسے یہ کنکر لگتے وہ مر جاتا۔ اس پر وہ شکست خوردہ ہو کر وہاں سے بھاگے۔ ابرہہ کی یہ ناکامی عربوں کی سیاسی زندگی کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور اس سال سے انہوں نے کئی تاریخیں وابستہ کر دیں یہ سال عام الفیل کہلایا۔ بقول مسٹر براؤن:

The years of the elephant marked an epoch in the development of their national life

کہ یہ سال عربوں کی قومی زندگی میں ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ الغرض اس واقعہ سے حرم کعبہ اور قریش مکہ کا احترام دوبالا ہو گیا۔

(تاریخ الاسلام السیاسی الجزء الاول صفحہ 72-73)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک و بت پرستی کے اس گھر کو ختم کرنے کے لئے حضرت جریر ؓ کو فرمایا:
’’کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟‘‘

چنانچہ حضرت جریرؓ احمس قبیلہ کے سو گھوڑ سواروں اور پچاس پیدل مجاہدین کو لے کر یمن گئے اور اس نام نہاد کعبہ کو آگ سے جلا کر منہدم کر دیا۔ جریرؓ جب یمن گئے تو وہاں ایک شخص تیروں سے قسمت معلوم کر رہا تھا اسے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ایلچی یمن میں آئے ہیں اگر تم ان کے قابو آ گئے تو وہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ ابھی وہ تیر چلا رہا تھا کہ جریرؓ آ گئے اور فرمایا یا تو ان تیروں کو توڑ کر اسلام قبول کر لو یا میں تمہاری گردن اتار دوں گا۔ اس نے تیر توڑ دیئے اور کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ جریرؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ذوالخلصہ کے گرانے کی خبر ابو ارطاۃ کے ذریعہ بھجوائی۔ رسول خدا ﷺ نے جریرؓ کے قبیلہ احمس کے گھوڑ سواروں اور پیادوں کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔

(کتاب المغازی باب غزوۃ ذی الخلصہ)

انتظام کعبہ

کعبہ کے انتظام و انصرام اور ہر سال بیت اللہ کا قصد کرنے والے ہزاروں انسانوں کی خدمت کے لئے مختلف قبائل کام کیا کرتے تھے۔جن میں سے سقایہ،رفادہ اور حجابہ قابل ذکر ہیں۔

1۔سقایہ

یعنی حج کے ایام میں حاجیوں کے لئے پانی کا انتظام۔ مکہ میں پانی کی قلت اور آدمیوں کی کثرت کے باعث اس امر کا خاص انتظام کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ کام بنو ہاشم میں تھا۔حضرت عباسؓ اس کی نگرانی فرماتے تھے۔ یہ لوگ زمزم سے پانی نکال کر کعبہ کے قریب حوضوں میں جمع کر لیتے۔ رات کو حوض بھر لیتے تا مسافروں کو دقت نہ ہو۔ یہ حوض ہاشم نے بنوائے تھے۔

ابن عمیر سے روایت ہے کہ عباسؓ بن عبدالمطلب نے رسول اللہ ﷺ سے منٰی کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی۔ ان کے سپرد حجاج کو پانی پلانے کی ڈیوٹی تھی رسول خدا نے اجازت دے دی۔ اسی طرح حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس جگہ تشریف لائے جہاں پانی پلایا جاتا تھا اور آپ نے پانی طلب فرمایا: حضرت عباسؓ نے اپنے بیٹے فضل سے کہا کہ اپنی والدہ سے پانی لا کر دو، رسول اللہ نے پھر فرمایا کہ ’’مجھے پانی پلاؤ‘‘۔ حضرت عباسؓ نے عرض کی حضور! لوگ اس پانی میں ہاتھ ڈالتے ہیں فرمایا: ’’پلا دو‘‘ [حضرت عباسؓ نے ڈول حضور کو پکڑا دیا۔ حضور ؐنے پانی نوش فرمایا۔ پھر آپ ’زمزم‘ پر تشریف لے گئے وہاں عباس کے خاندان کے لوگ زمزم سے پانی نکال رہے تھے۔ فرمایا: تم نیک کام کر رہے ہو، یہ خدمت بجا لاتے رہو اور اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غلبہ حاصل کر کے یہ خدمت لے لیں گے تو میں اتر کر اپنے کندھوں پر رسی رکھتا اور تمہارے ساتھ پانی نکالتا۔

(بخاری کتاب الحج باب سقایۃ الحاج)

حضرت اسماعیل ؑ کے بعد تولیت مکہ ان کے بیٹے نابت پھر جرہم اور پھر خزاعہ کے پاس رہی۔ لیکن ان ایام میں کوئی منظم انتظامات کا ذکر نہیں ملتا۔ جب تولیت کعبہ قصّی کے ذریعہ قریش میں آئی تو انہوں نے حاجیوں کے انتظامات کے سلسلہ میں تین شعبے قائم کئے۔ سقایہ، رفادہ اور حجابہ۔

2 ۔رفادہ

یعنی ایام حج میں غریب حاجیوں کی اعانت کا انتظام۔ اس کام کے لئے قریش ہر سال چند جمع کرتے۔ یہ کام بنو نوفل میں تھا اور حارث بن عامر کے سپرد تھا۔

3۔حجابہ

یعنی کعبہ کی دربانی اور کلیہ برداری کا انتظام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بنو عبدالدار میں تھا اور عثمانؓ بن طلحہ کے سپرد تھا یہ تینوں کام قصّی نے اپنی زندگی میں اپنے پاس رکھے تھے۔

(سیرت ابن ہشام جلد1 صفحہ 129تا 130)

ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضرت اسامہؓ قصواء اونٹنی پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ بلالؓ اور عثمانؓ بن طلحہ ساتھ تھے۔ بیت اللہ کے پاس آپ نے اونٹنی بٹھائی اور عثمان ؓسے کہا: چابی لاؤ، وہ چابی لے آئے۔ آپ کے لئے دروازہ کھولا گیا۔ آنحضرت ﷺ، اسامہؓ، بلالؓ اور عثمانؓ بن طلحہ اندر گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ آپ دن کا کافی حصہ وہاں رہنے کے بعد باہر آئے۔

(بخاری کتاب الحج باب حجۃ الوداع)

زھری سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو جب چابیاں لینے حضور نے بھیجا تو انہوں نے غیر معمولی تاخیر کر دی حضور اس کے منتظر تھے اور پسینہ سے شرابور تھے۔ آپ نے پوچھا: اس نے دیر کیوں کر دی۔ ایک آدمی دوڑ کر ان کے گھر گیا تو اس نے دیکھا اس کی والدہ چابیاں نہ دیتی تھی اور کہتی تھی کہ اگر آج ان لوگوں نے تم سے چابیاں لے لیں تو پھر کبھی واپس نہ آ ئیں گی۔ بصد مشکل اس نے چابیاں دیں۔ حضورؐ نے کعبہ کھولا۔ فارغ ہو کر چابیاں حضرت عثمانؓ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ ہمیشہ کے لئے تمہارے سپرد کرتا ہوں اور میں یہ تمہارے حوالے نہیں کر رہا اللہ نے تمہیں سونپی ہیں‘‘۔

(فتح الباری جلد8 صفحہ14)

(ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2021