جمعہ کے دن کی اہمیت وفضیلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے بارہ میں قرآن شریف میں ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ جس کا نام سورۃ الجمعہ ہے۔ اس سورت میں مذکور ہے کہ نماز جمعہ کے وقت اپنے تمام کاروبار بند کر کے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے حاضر ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘
(الجمعہ:10)
جمعہ کا دن مومنوں کے لئے عید کے دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بابرکت اجتماع کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ وسیع پیمانے پر احباب سے ملاقات وتعارف حاصل ہوتا ہے۔ باہمی میل ملاقات سے قومی وجماعتی ضرورتوں کا علم ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں قومی مقاصد کے متعلق غوروفکر کرنے کی طرف توجہ مبذول ہوتی ہے اور باہمی تعاون کے مواقع میسر آتے ہیں۔ خطبہ جمعہ میں کئے گئے وعظ ونصیحت کو سن کرانسان کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہوتا ہے اور اسے رضائے الہٰی کی طرف چلنے کی توفیق ملتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دنوں میں بہترین دن جن میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن ھبوطِ آدم ہوا (یعنی جنت سے نکلے بھی)۔ اور اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان بندہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے عطا کردیتا ہے۔
(ترمذی کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی ترجی فی یوم الجمعۃ)
جمعہ کی اہمیت
ہفتہ کے سات دنوں میں ایک دن کا اسلامی نام جمعہ ہے۔یہ دن مسلمانوں کے لیے عید کا دن ہے۔ اس روز کسی بھی گاؤں، قصبے، شہر اور ان کے مضافات میں رہنے والے مسلمان نہا دھو کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور خوشبو لگا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’یہ دن (جمعہ) عید ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ پر آئے اُسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک کرنا اپنے لئے لازمی کرلو۔‘‘
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ فیھا باب ماجاء فی الزینۃ یوم الجمعہ)
آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے جمعہ کے دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن قرار دیتے ہوئے فرمایا:
اے مسلمانو! اس دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عید بنایا ہے۔ اس روز نہایا کرو اور مسواک ضرور کیا کرو۔
(المعجم الصغیر للطبرانی باب الحاء من اسمہ الحسن)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو جمعہ کے دن نہایا اسی طرح جس طرح جنابت میں نہایا جاتا ہے اور پھر (جمعہ کے لیے) چل پڑا۔ اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی کی اور جو دوسری گھڑی میں چلا، اُس نے گویا ایک گائے کی قربانی کی اور جو تیسری گھڑی میں چلا، اُس نے گویا ایک سینگوں والا میڈھا قربان کیا اور جو چوتھی گھڑی میں چلا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی کی اور جو پانچویں گھڑی میں چلا تو اس نے گویا ایک انڈا قربانی میں دیا۔ جب امام نکلتا ہے تو فرشتے وعظ ونصیحت سننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃبَاب فَضْلُ الْجُمُعۃِ۔ حدیث: 881)
انسان کے اعمال کا دارومدار اُس کے اعمال کے تفاوت کی بناء پر ہے اور اُسی کے مطابق کم یا زیادہ ثواب ملے گا۔ جو شخص جمعہ کے روز زیادہ اہتمام کرے اور جس قدر جلدی جمعہ کے لئے آئے اُسی قدر اس کا قدم قرب الہٰی میں آگے یا پیچھے ہوگا۔ ملائکہ کا وجود نیکی کی تحریکوں میں تقویت کا باعث بنتا ہے۔ پس وعظ ونصیحت اور دعاؤں کی قبولیت کے ان اوقات میں ہرمومن کو فرشتوں کی موجودگی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب جمعہ کا دن ہوتا ہے مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں۔ وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اسی طرح وہ آنے والوں کی فہرست ترتیب وار تیار کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنا رجسٹر بند کردیتے ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب فضل التھجیر یوم الجمعۃ)
حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:
جو شخص جمعہ کے دن نہاتا ہے اور جہاں تک اس کے لئے پاک وصاف ہونا ممکن ہے پاک وصاف ہوتا ہے اور اپنے تیل میں سے تیل لگاتا ہے یا اپنے گھر کی خوشبو میں سے خوشبو لگاتا ہے۔ پھر نکلتا ہے اور دو آدمیوں کے درمیان گھس کر ان کو الگ نہیں کرتا۔ پھر نماز پڑھتا ہے جتنی اس کے لئے مقدر ہو۔ اس کے بعد امام لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے تو وہ خاموشی سے سنتا ہے تو اس کے جو بھی گناہ اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک ہوں ان سے اس کی مغفرت کردی جائے گی۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب اَلدُّھْنُ لِلْجُمُعَۃِحدیث: 883)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو تیل یا خوشبو جیسی ضروریات کو اپنے پاس مہیا رکھنا چاہئے اور ان چھوٹی چھوٹی ضرورت کی چیزوں کو معمولی جان کر لوگوں سے نہیں مانگتے پھرنا چاہئے۔ ایک روایت میں آتا ہے :
وَمَسَّ مِنْ طِیْبِ امْرَأَتِہٖٓ اِنْ کَانَ لَھَا
(ابوداؤدکتاب الطھارۃ باب فی الغسل یوم الجمعۃ)
یعنی وہ اپنی بیوی سے خوشبو لے کر لگائے اگر اس کے پاس ہو۔
پس جمعہ کے روز نہادھو کر، صاف ستھرا لباس زیب تن کر کے، خوشبو لگا کر اوّل وقت میں مسجد پہنچے اور لوگوں کو کسی نوع کی تکلیف میں ڈالے بغیر نفل نماز ادا کرے اور خطبہ کا انتظار کرے اور پوری توجہ سے ہمہ تن گوش ہوکر خطبہ جمعہ سنے تو ان چھوٹے چھوٹے اعمال کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی کثافت کو اس سے دور کردیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا:
اس میں ایک گھڑی ہے جو مسلمان بندہ اس گھڑی کو ایسی حالت میں پائے گا کہ وہ (اس میں) کھڑا نماز پڑھ رہا ہوگا تو وہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگے گا وہ اس کو ضرور دے گا اور آپؐ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ گھڑی تھوڑی سی ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب اَلسَّاعَۃُ الَّتِیْ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ۔ حدیث: 935)
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ رضی اللہ عنہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں فرماتے ہیں:
قبولیت کی اس گھڑی کی تعیین میں بیالیس اقوال مروی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صحیح حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت ہے کہ قبولیت کی گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے اور نماز سے فارغ ہونے کے درمیان ہے۔ (مسلم کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ) اور اس بارہ میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی روایت بھی بہت مشہور ہے کہ وہ گھڑی عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ اس وقت تو نماز جائز نہیں اور ان کی محولہ بالا روایت مین ہے۔ وَھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ یعنی وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے اس کا یہ جواب دیا کہ نماز کا انتظار کرنے والا بھی نماز میں ہی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ یہ جواب سن کر خاموش ہوگئے۔ (فتح الباری جزءثانی صفحہ540) اس سے بعض نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ روایتیں جن میں حدیث نبوی کے الفاظ سے قَآئِمٌ کا لفظ محذوف ہے۔ باعتبار لفظی صحت زیادہ صحیح ہیں۔ ورنہ حضرت ابوہریرہؓ حضرت عبداللہ بن سلام ؓکو لفظ قَآئِمٌ کی طرف توجہ دلاتے۔ کیونکہ کھڑے ہوکر نماز کا انتظار کرنا کوئی معنے نہیں رکھتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کے نزدیک یہ لفظ ثابت شدہ نہیں اور نماز کی انتظار کرنے والا عموماً بیٹھا ہوتا ہے۔ اس لئے صلوٰۃ سے مطلق دعا اور نماز کی حالت مراد ہے۔ عبداللہ بن سلامؓ کی روایت بھی صحیح ہے۔ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ کے الفاظ کی وجہ سے ان کی روایت باعتبار سند کمزور نہیں۔ کیونکہ لفظ ’’قیام‘‘ مجازاً مداومت کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ کے معنے ہوں گے دعا کرتا رہے۔ (فتح الباری جزء ثانی صفحہ534) امام ابن حجر عسقلانیؒ نے مختلف اقوال پر جرح وقدح کر کے آخر میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قبولیت کی گھڑی کا تعلق درحقیقت ہر نمازی کی اپنی معنویات سے ہے جو مختلف اوقات میں فیوض ربانیہ کا مورد بن کر استجابت دعا کی مستحق ہوتی ہیں۔ (فتح الباری جزء ثانی صفحہ542تا543) یہ مذہب صحیح ہے اور اسی کو امام غزالی ؒ اور دیگر اہل اللہ نے قبول کیا ہے۔ (فتح الباری جزء ثانی صفحہ536) قرآن مجید میں اس مبارک گھڑی کو انابت الی اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انابت کے معنیٰ جھکاؤ۔ اس میں مضطرب انسان استجابت دعا سے نوازا جاتا ہے۔
(صحیح بخاری جلد2 صفحہ331تا330۔نظارت نشرواشاعت قادیان۔2006ء)
جمعہ کی فرضیت
قرآن شریف میں نماز جمعہ کی فرضیت سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰﴾
(الجمعہ:10)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:
ہم سب سے پیچھے آنے والے ہیں۔ قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ ہاں اتنی بات ہے کہ ان کو ہم سے پہلے کتاب ملی۔ پھر یہی ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا تھا۔ تو انہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ پس لوگ اس میں ہمارے پیچھے ہیں۔ یہود کا دن کل ہے اور نصاریٰ کا پرسوں۔
(بخاری کِتَابُ الْجُمُعَۃِبَاب فَرْضُ الْجُمُعَۃِ۔حدیث: 876)
بعض فقہاء نے جمعہ کو عیدین کی طرح فرض کفایہ گردانا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ایک حدیث اِنَّ ھٰذَا یَوْمٌ جَعَلَہُ اللّٰہُ عِیْدًا (مصنف عبدالرزاق۔ کتاب الجمعۃ۔ باب الغسل یوم الجمعۃ۔جزء3صفحہ197) ’’یہ وہ دن ہے جسے اللہ نے عید بنایا ہے۔‘‘ سے یہ مسئلہ استنباط کرتے ہیں کہ جمعہ کا دن عید کی طرح ہے جبکہ قرآن کریم اور دیگر احادیث سے صراحتاً جمعہ کی فرضیت ثابت ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک حدیث کے حوالہ سے جمعہ سے متعلق بعض ضروری امور اس کے آداب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’طارق بن شہابؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ: ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے یعنی فرض ہے۔ سوائے چار قسم کے افراد کے یعنی غلام، عورت، بچہ اور مریض۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ) تو ان چار کو چھوٹ دی گئی ہے۔ خاص طورپر بچوں والی عورتیں جن کے بالکل چھوٹے بچے ہیں جن کے رونے یا شور کرنے سے دوسرے ڈسٹرب ہورہے ہوں اُن کی نماز خراب ہورہی ہو، خطبہ سننے میں دقت پیدا ہورہی ہو، ان کے لئے تو بہتر یہی ہے کہ وہ گھر میں ہی رہیں، گھر میں ہی نماز ادا کر لیا کریں۔ یہ جو چھوٹ دی گئی ہے یہ اپنی تکلیف یا مجبوری کے علاوہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے بھی ہے۔ اور پہلے یہاں ذکر ہے غلام کا، غلام تو اس زمانے میں رہے نہیں لیکن بعض دفعہ شیطان نفس میں ڈال دیتا ہے ملازم پیشہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم اس کی کیٹگری میں آگئے۔ وہ اس میں نہیں ہیں، میں واضح کردوں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ چھوٹے بچوں والی عورتوں کو تو جمعہ پڑھانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کے نبی ﷺ نے یہ چھوٹ دی ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور جمعہ کے آداب کے لحاظ سے بھی ضروری ہے۔ جمعہ کا خطبہ جو ہے وہ بھی جمعہ کا حصہ ہے۔ اس لئے اس میں بھی خاموش بیٹھنا ضروری ہے۔ بچوں کے بولنے کی وجہ سے ماں باپ ان کو چپ کرواتے ہیں چاہے وہ آہستہ آواز میں چپ کروارہے ہوں تو ساتھ بیٹھے ہوئے کو پھر بھی تکلیف ہوتی ہے، خاص طورپر عورتوں کی طرف سے کافی شکایتیں آتی ہیں۔ ا س لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ چھوٹے بچے اور ان کی مائیں گھر پر ہی رہیں …… آنحضرت ﷺ نے تو جائز وجہ سے بھی خطبے کے دوران بولنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ: جمعے کے روز جب امام خطبہ دے رہا ہواگر تم اپنے قریبی ساتھی کو اگر وہ بول رہا ہے تو اس کو کہو خاموش ہوجاؤ تو تمہارا یہ کہنا بھی لغو فعل ہے۔ (ترمذی کتاب الجمعۃ باب ماجاء فی کراھیۃ الکلام والامام یخطب) تو دیکھیں یوں خاموش کروانا، بول کے خاموش کروانے کی بھی پابندی ہے اس کو بھی ایک لغوقرار دیا گیا ہے۔ کسی کو بھی چپ کروانا ہوچاہے چھوٹے بچوں کو یا بڑوں کو تو ہاتھ کے اشارے سے چپ کروانا چاہئے …… اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ذمہ داریوں کو اس سلسلے میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 26 نومبر تا 2 دسمبر 2004ء صفحہ8)
جمعہ کب فرض ہوا؟
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ جمعہ مدینہ میں فرض ہوا ہے اور وہ سورۃ جمعہ کی آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ …… سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جمعہ مدینہ میں فرض ہوا ہے۔ اس سلسلہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ رضی اللہ عنہ مذکورہ بالا آیت کریمہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
بعض نے مذکورہ بالا آیت سے جو مدنی سورۃ کی ہے یہ اخذ کیا ہے کہ جمعہ پہلے پہل مدینہ میں فرض ہوا تھا۔ (فتح الباری جز ثانی صفحہ 456) مگر آیت کے الفاظ اس کے متحمل نہیں بلکہ اس کے برعکس سیاق کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جمعہ اس سورۃ کے نازل ہونے سے پہلے بھی پڑھا جاتا تھا اور بعض لوگ اس میں سستی کرتے تھے۔ اس لئے اس میں تاکیدًا نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اذان سن کر فوراً حاضر ہوجایا کریں۔آیت اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ میں اَلصَّلوٰۃِ کا الف لام عَہدی کا ہے جو معہود ذہنی پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی وہ نماز جو لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے اور وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمعہ کے دن کو کون سی نماز ہے جس میں مستعدی کے ساتھ حاضر ہونے کے لئے تاکید کی گئی ہے۔ حضرت کعب ؓ بن مالک سے مروی ہے کہ حضرت اسدؓ بن زرارہ نے ہجرت سے پہلے انصار کو اکٹھا کرکے نماز جمعہ پڑھائی۔ (ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃباب فی فرض الجمعۃ) تفصیل کے لئے دیکھئے: فتح الباری جزء ثانی ص458۔اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے بھی جمعہ پڑھا جاتا تھا۔ مؤرخین اسلام نے صراحت سے ذکر کیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ کی طرف آرہے تھے تو راستے میں ہی جمعہ آگیا اور آپؐ نے بنی سالم بن عوف کی بستی میں جمعہ پڑھایا۔ (تاریخ طبری۔ ذکر ماکان من الامور المذکورۃ فی اوّل سنہ من الھجرۃ جزء ثانی صفحہ7) اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ جمعہ کے نزول سے بہت پہلے آپؐ کو نماز جمعہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں مسلمان جبر وتشدد کا تختہ مشق تھے اور مدینہ منورہ میں وہ آزاد تھے۔ آپ نے حالات کو مدنظر رکھا اور چونکہ اس وقت تک فَاسْعَوْا کا حکم بالصراحت نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لئے مکہ مکرمہ میں تکلیف مالایطاق میں نہیں ڈالا گیا۔رہا یہ سوال کہ مکی سورتوں میں نماز جمعہ کی نسبت کہاں حکم ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جمعہ دراصل ظہر ہی کی نماز ہے۔ پانچ نمازوں کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں اور ان پانچ نمازوں کی فرضیت قرآن مجید سے واضح ہے۔ نماز جمعہ کی باقی خصوصیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح قرآن مجید سے مستنبط فرمائیں یا وحیٔ خفی کی تجلی سے آپؐ کو معلوم ہوئیں۔ جس طرح کہ پانچ نمازوں سے متعلق دوسرے احکام۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ مدینہ والوں نے خود بخود اپنے اجتہاد سے عروبہ کے دن نماز جمعہ تجویز کرلی تھی اور ان کی تجویز کے مطابق حضرت اسدؓ بن زرارہ جیسے جلیل القدر صحابی نے جمعہ پڑھانا شروع کردیا تھا۔ صحابہ کرام ؓ تو معمولی معمولی باتوں میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھے بغیر قدم نہ اٹھاتے تھے۔ چہ جائیکہ شریعت کے احکام میں کمی یا زیادتی۔
(صحیح بخاری جلد2 صفحہ273تا274۔ نظارت نشرو اشاعت قادیان۔2006ء)
نماز جمعہ کا وقت
فقہ احمدیہ میں لکھا ہے:
جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کی نماز کا ہے۔ البتہ امام وقت کی اشد ضروری سفر یا جنگی انداز کی اہم مصروفیت کے پیش نظر چاشت کے بعد اور زوال سے قبل بھی جمعہ پڑھا سکتا ہے۔ نماز جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے۔ یہ نماز تمام بالغ تندرست مسلمانوں پر واجب ہے۔ البتہ معذور، نابینا، اپاہج، بیمار اور مسافر، نیز عورت کے لئے واجب نہیں۔ ہاں اگر یہ شامل ہوجائیں تو ان کی نماز جمعہ ہوجائے گی۔ ورنہ وہ ظہر کی نمازیں پڑھیں۔
(فقہ احمدیہ جلد اوّل (حصہ عبادات) صفحہ161۔ مطبوعہ مئی 2004ء)
نیز لکھا ہے کہ:
قرآن وحدیث میں کہیں ایسا ذکر نہیں کہ جمعہ کے فرض ہونے کے لئے ضروری ہے کہ شہر پختہ ہو اور وہاں مسلمان حکومت ہو۔ اس کے برعکس طبرانی کی حدیث سے ثابت ہے کہ شہر ہو یا گاؤں اگر وہاں نماز پڑھانے والا کوئی ایسا پڑھا لکھا آدمی ہے جو امام بن سکے تو وہاں جمعہ واجب ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ اُمِّ عَبْدِ اللّٰہِ الدَوْسِیَۃِ مَرْفُوْعًا اَلْجُمُعَۃُ وَاجِبَۃٌ عَلٰی کُلِّ قَرْیَۃٍ فِیْھَآ اِمَامٌ وَّ اِنْ لَّمْ یَکُوْنُوْٓا اِلَّآ اَرْبَعَۃٌ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ وَّاِنْ لَّمْ یَکُوْنُوْآ اِلَّا ثَلَاثَۃٌ رَّابِعُھُمُ الْاِمَامُ ۔
(طبرانی وابن عدی بحوالہ نیل الاوطار صفحہ231/3 باب انعقاد الجمعۃ باریعٍ واقامتھا فی القریٰ)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جمعہ ہر اس گاؤں میں واجب ہے جہاں نماز پڑھانے والا امام ہو خواہ مقتدی چار ہوں یا تین۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض علماء نے محض احتیاط کے پیش نظر صرف وجوب کے لئے یہ شرائط بیان کی ہیں کیونکہ جمعہ کے لئے مختلف جگہوں سے بہت سے لوگ جمع ہوتے ہیں اور خاص انتظام کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کوئی اختلاف اور گڑبڑ پیدا نہ ہو۔ اس لئے کسی منتظم ادارہ (خواہ بادشاہت کی صورت ہو یا جمہوری حکومت کی۔ انجمن کی ہو یا شہر کے بااثر لوگوں کی یونین جس کی لوگ باتیں مانیں) کا ہونا ضروری ہے۔ غرض یہ صرف انتظامی ہدایت ہے تاکہ امن عامہ میں کسی قسم کا خلل واقعہ نہ ہو۔ ورنہ یہ کوئی لازمی شرط نہیں کہ اس کے بغیر جمعہ نہ ہوسکے۔ پس اگر بسہولت انتظام ہوسکے اور کسی گڑبڑ کا خطرہ نہ ہو تو جمعہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ شہر ہو یا کوئی گاؤں وہاں حکومت کا کوئی بااقتدار نمائندہ ہو یا نہ ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہمیشہ جمعہ پڑھا ہے۔ خواہ آپ کسی شہر میں ہوتے یا گاؤں میں۔ کیونکہ یہ قرآن کریم کا حکم ہے اور قرآن کے ہر حکم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ عمل کرتے تھے۔یہ امر بے شک درست ہے کہ جمعہ کے وجوب کے لئے بعض ایسی شروط ہیں کہ جن کے بغیر جمعہ صحیح نہیں ہوتا۔ مثلاً جمعہ کے لئے جماعت ایک ایسی شرط ہے کہ اس کے بغیر جمعہ درست نہ ہوگا۔ ایک شخص (فردواحد) کے لئے جمعہ کا پڑھنا درست نہیں۔ وہ جمعہ کی بجائے ظہر پڑھے اس کے علاوہ بعض اور بھی مناسب شرائط ہیں جو وجوب جمعہ کا باعث بنتی ہیں لیکن ان میں سے بعض کے فقدان کے باوجود اگر کوئی جمعہ پڑھے تو اس کا جمعہ فرض کی صورت میں ادا ہوگا اور وہ ظہر کے قائمقام بنے گا۔ مثلاً عورت، مریض، مسافر اور غلام پر جمعہ واجب نہیں لیکن اگر وہ جمعہ پڑھیں تو ان کی طرف سے یہ بحیثیت فرض ادا ہوگا اور ان کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ وہ اس کے بعد ظہر کی نماز بھی پڑھیں۔
(فقہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ166-164۔ مطبوعہ جون 2004ء)
نماز جمعہ کا طریق
سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی پہلی اذان دی جائے۔ امام جب خطبہ پڑھنے کے لئے آئے تو دوسری اذان کہی جائے۔ پہلے خطبہ میں تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب موقع ایسی زبان میں ضروری نصائح کی جائیں جس کو لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہو۔ اس خطبہ میں لوگوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اس کے بعد ایک دو منٹ کے لئے خطیب خاموش ہوکر بیٹھ جائے۔ پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ عربی کے مقررہ مسنون الفاظ میں پڑھے۔ دونوں خطبے توجہ سے سننے چاہئیں۔ ان کے دَوران میں بولنا جائز نہیں۔ البتہ ضرورت پر ہاتھ یا اُنگلی کے اشارے سے کسی کو متوجہ کیا جاسکتا ہے ہاں امام اگر کوئی بات پوچھے تو جواب دینا چاہئے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد اقامت کہہ کر دو رکعت نماز باجماعت اد ا کی جائے۔ نماز میں قرأت بالجہر ہو۔خطبہ پڑھنے والا ہی نماز پڑھائے البتہ اگر کوئی اشد مجبوری ہوتو امام وقت کی ہدایت پر کوئی دوسرا شخص بھی نماز پڑھا سکتا ہے۔ جمعہ کی نماز سے پہلے اور بعد چار چار رکعت نماز سنت پڑھی جائے۔ بعد میں چار کی بجائے دو رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔
خطبہ کے دَوران میں پہنچنے والے شخص کے لئے مناسب ہے کہ وہ صفوں کو پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش نہ کرے۔ اگر وہ چاہے تو جلدی جلدی دو رکعت نماز سنت ادا کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے آخری قعدہ میں شامل ہوتو وہ بھی دو رکعت پوری کرے کیونکہ اتحاد نیت کی وجہ سے رکعتوں کی تعداد اتنی ہی رہے گی جتنی امام نے پڑھی ہیں البتہ ثواب ضرور کم ہوگا۔ جمعہ کی نماز کی کوئی قضاء نہیں۔ اگر وقت کے اندر جمعہ نہ پڑھا جاسکے تو پھر ظہر کی نماز پڑھی جائے۔
(فقہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ162۔ مطبوعہ مئی 2004ء)
خطبہ ثانیہ کے مسنون الفاظ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نُوْمِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ۔ وَ نَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ نَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ عِبَادَ اللّٰہِ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ اُذْکُرُ اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ وَادْعُوْہُ یَسْتَجِبْ لَکُمْ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ)
یعنی ہرقسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس لئے ہم اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اور اس سے مدد چاہتے ہیں اور اس کی مغفرت کے طالب ہیں۔ اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر توکل کرتے ہیں۔ اور ہم اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کے بَد نتائج سے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اُسے کوئی بھی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کی گمراہی کا وہ اعلان کرے اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے یہ درسِ توحید ہمیں دیا اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اے اللہ کے بندوتم پر اللہ رحم کرے۔ وہ عدل اور انصاف کا حکم دیتا ہے۔ اور قریبی رشتہ داروں سے اچھے سلوک کا ارشاد فرماتا ہے اور بے حیائی، بُری باتوں اور باغیانہ خیالات سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں اس بناء پر نصیحت کرتا ہے کہ تم میں نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا۔ اُسے بلاؤ وہ تمہیں جواب دے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یاد کرنا سب سے بڑی نعمت ہے۔
(ترجمہ از فقہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ163۔نظارت نشرواشاعت قادیان)
خطبہ جمعہ کی اہمیت
رسول اللہ ﷺ کے متعدد ارشادات سے علم ہوتا ہے کہ خطبہ جمعہ نماز جمعہ کا ہی حصہ ہے اور اسے بہت غور اور توجہ سے سننا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر نماز جمعہ کی اہمیت وفضیلت اور برکات بیان فرمائیں اور اس کے آخر پر فرمایاکہ جب امام نکلتا ہے تو فرشتے اپنے کاغذ لپیٹ کر خطبہ سننے لگ جاتے ہیں۔گویا فرشتوں کا خطبہ سننے میں مشغول ہونا اس بات کی علامت ہے کہ خطبہ جمعہ کو بہت غور اور تدبر سے سنا جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو ملائکہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر لکھتے ہیں جو پہلے آتا ہے، اس کا پہلے اور سویرے جانے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے۔ پھر اس شخص کی جو ایک گائے کی اور پھر اس کی جو ایک مینڈھے کی۔ پھر اس کی جو مرغی کی قربانی کرتا ہے۔ پھراس کی جو انڈے کی قربانی کرتا ہے۔ پھر جب امام نکلتا ہے تو وہ اپنے کاغذ لپیٹ لیتے ہیں اور غور سے نصیحت سنتے ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃبَاب اَلْاِسْتِمَاعُ اِلَی الْخُطْبَۃِ حدیث: 929)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اگر تم اپنے ساتھی سے جمعہ کے وقت جبکہ امام لوگوں سے مخاطب ہو کہو چپ رہو تو تم نے بھی لغو بات کی۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعۃبَاب اَلْاِنْصَاتُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ حدیث: 934)
رسول اللہﷺ کاایک اور ارشادِ مبارک ہے:
جس نے عمدگی سے وضو کیا، پھر جمعہ کے لئے آیا، امام کے قریب ہوکر بیٹھا اور خاموشی اور توجہ سے خطبہ سنا تو اس کے اس جمعہ اور پچھلے جمعہ کے درمیان کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے بلکہ تین دن زیادہ کے بھی اور جو کنکروں سے کھیلتا رہا اس نے لغو کام کیا۔
(ترمذی ابواب الجمعہ باب فی الوضوء یوم الجمعہ)
جمعہ اور درود شریف
جمعہ کے روز کثرت کے درود شریف پڑھنے کی بہت فضیلت و برکات بیان ہوئی ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جائے گا۔
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تفریع ابواب الجمعۃ)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی حوالہ سے فرماتے ہیں:
’’تو دیکھیں یہاں بھی جمعہ کی اہمیت درود کے حوالے سے بتائی گئی ہے اور درود آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو شفاعت کا حق عطا فرمایا ہے۔ پھر یہ جمعہ کا درود ہی ہے اگر ہم بھیجیں گے تو آپ کو پیش ہوکر ہمارے کھاتے میں جمع ہوتا چلا جائے گا۔ بلکہ ہر وقت درود بھیجنا چاہئے ور جمعہ پہ خاص طور پر۔ تویہ جمعہ کے دن کی اہمیت بناتے کے لیے ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 26 نومبر تا2 دسمبر 2004ء صفحہ6)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنے تمام حکموں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم راضی اور خوش ہوجائے۔ آمین
(ظہیر احمد طاہر ۔ جرمنی)