• 28 اپریل, 2024

امراض ٹھیک کیوں نہیں ہوتے؟

ہمارے امراض ٹھیک کیوں نہیں ہوتے؟

یہ سوال ہم میں سے اکثر کےذہان میں پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنی بیماریوں کا علاج مختلف جگہوں سے کروا کروا کر تھک جاتے ہیں، لیکن درد بڑھتا ہی گیا جُوں جُوں دوا کی کے مصداق بنتے ہیں۔

ناچیز اس سوال پر ایک عرصے سے غور کر رہا تھا چنانچہ اس سلسلے میں آخری زمانے کے روحانی و جسمانی طبیب و مسیحا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے فیض حاصل کرکے کچھ تحریر کیا ہے جو دوستوں سے شیئر کر رہا ہوں۔

امراض چاہے روحانی ہوں یا جسمانی انکے علاج اور ان سے شفاء کیلئے ہم محتاج ہیں مسیح پاک علیہ السلام کے، جنہیں اللہ نے آخری زمانے میں مسیحا بناکر بھیجا۔

سردار رشید قیصرانی صاحب نے کیا خوب کہا ہے :

؎ تمہاری نبضیں ہمارے دم سے
جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا
کہ لکھنے والے نے لکھ دیا ہے
مریض تم ہو طبیب ہم ہیں

امراض ٹھیک کیوں نہیں ہوتے؟

اس کی بنیادی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مرض کی صحیح طرح تشخیص نہیں ہوتی، اور اگر ٹھیک تشخیص ہوجائے تو بسا اوقات طبیب کو اس مرض کے مطابق دوائی نہیں ملتی اور اگر دوائی اور علاج کی صورت نکل ہی آئے تو ہم ڈاکٹر یا طبیب کی ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کرتے، نہ ہی ہم پرہیز کرتے ہیں، یعنی ایسی چیز یا ایسے عمل سے اجتناب نہیں کرتے جو ہمارے لئے نقصان دہ ہے، اور نہ ہی ہم پوری پابندی سے دوائی استعمال کرتے ہیں،

اور اگر مندرجہ بالا باتوں کے باوجود ہم مرض سے چھٹکارا نہیں پاتے تو پھر اللہ تعالیٰ سے ہی علاج کروانا چاہیئے، اور عرض کریں کہ یااللہ تُو ہی میرا اصل طبیب ہے کیونکہ تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے، تو بہتر جانتا ہے کہ مجھ میں کیا نقص اور خرابی ہے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے ٹھیک کردے۔ آمین۔

طاعون اور ہیضہ وغیرہ وباؤں کے ذکر پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا:
’’بد قسمت ہے وہ انسان کہ ان بلاؤں سے بچنے کے واسطے سائنس، طبعی یا ڈاکٹروں وغیرہ کی طرف توجہ کرکے سامان تلاش کرتا ہے اور خوش قسمت ہے وہ جو خداتعالیٰ کی پناہ لیتا ہے اور کون ہے جو بجز خدا تعالیٰ کے ان آفات سے پناہ دے سکتاہو؟ اصل میں یہ لوگ جو فلسفی طبع یا سائنس کے دلدادہ ہیں ایسی مشکلات کے وقت ایک قسم کی تسلی اور اطمینان پانے کے واسطے بعض دلائل تلاش کرلیتے ہیں اور اس طرح ان وباؤں کے اصل بواعث اور اغراض سے محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے پھر بھی غافل ہی رہتے ہیں۔ ہماری جماعت کے ڈاکٹروں سے میں چاہتاہوں کہ ایسے معاملات میں اپنے ہی علم کو کافی نہ سمجھیں بلکہ خداکا خانہ بھی خالی رکھیں اور قطعی فیصلے اور یقینی رائے کا اظہار نہ کردیا کریں۔ کیونکہ اکثر ایسا تجربہ میں آیا ہے کہ بعض ایسے مریض ہیں جن کے حق میں ڈاکٹروں نے متفقہ طور سے قطعی اور یقینی حکم موت کا لگا دیا ہوتا ہے ان کے واسطے خدا کچھ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ وہ بچ جاتے ہیں۔ اور بعض ایسے لوگوں کی نسبت جو بظاہر اچھے بھلے اور بظاہر ڈاکٹروں کے نزدیک ان کی موت کے کوئی آثار نہیں نظر آتے خدا قبل از وقت ان کی موت کی نسبت کسی مومن کو اطلاع دیتا ہے۔ اب اگرچہ ڈاکٹروں کے نزدیک اس کا خاتمہ نہیں مگر خدا کے نزدیک اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آجاتا ہے۔

علم طب یونانیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا مگر مسلمان چونکہ مؤحد اور خدا پرست قوم تھی، انہوں نے اسی واسطے سے اپنے نسخوں پر ہوالشافی لکھنا شروع کردیا۔ ہم نےاطباء کے حالات پڑھے ہیں۔ علاج الامراض میں مشکل امر تشخیص کو لکھا ہے۔ پس جو شخص تشخیص مرض میں ہی غلطی کرے گا وہ علاج میں بھی غلطی کرے گاکیونکہ بعض امراض ایسے آذق اور باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔پس مسلمان اطباء نے ایسی دقتوں کے واسطے لکھا ہے کہ دعاؤں سے کام لے۔ مریض سے سچی ہمدردی اور اخلاص کی وجہ سے اگر انسان پوری توجہ اور درد دل سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر مرض کی اصلیت کھول دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غیب مخفی نہیں۔

پس یاد رکھو کہ خداتعالیٰ سے الگ ہو کر صرف اپنے علم اور تجربہ کی بناء پر جتنا بڑا دعویٰ کرے گا اتنی ہی بڑی شکست کھائے گا۔ مسلمانوں کو توحید کا فخر ہے۔ توحید سے مراد صرف زبانی توحید کا اقرار نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ عملی رنگ میں حقیقتاً اپنے کاروبار میں اس امر کا ثبوت دے دو کہ واقعی تم مؤحد ہو اور توحید ہی تمہارا شیوہ ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر ایک امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس واسطے خوشی کے وقت الحمدللہ اور غمی اور ماتم کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ کہہ کر ثابت کرتا ہے کہ واقع میں اس کا ہر کام میں مرجع صرف خداہی ہے، جو لوگ خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر زندگی کا کوئی حظ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی زندگی بہت ہی تلخ ہے کیونکہ حقیقی تسلی اور اطمینان بجز خدا میں محو ہونے اور خدا کو ہی ہر کام کا مرجع ہونے کے حاصل ہوسکتا ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی تو بہائم کی زندگی ہوتی ہے اور وہ تسلی یافتہ نہیں ہوسکتے۔ حقیقی راحت اور انہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو خدا سے الگ نہیں ہوتے اور خدا تعالیٰ سے ہر وقت دل ہی دل میں دعائیں کرتے رہتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم طبع جدید۔ صفحہ314،214)

فرمایا:
’’طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے۔ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے لیکن یادرکھو کہ مؤثر حقیقی خداتعالیٰ ہی ہے۔ اسی کے فضل سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بیماری کے وقت چاہیے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے۔ بعض وقت اللہ تعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلا دیتا ہے۔ اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر ایک بڑا احسان کرتا ہے، کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتا دیتا ہے۔ یہ اس کا فضل ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5، طبع جدید صفحہ54،53)

نیز فرمایا:
’’بیماریوں میں جہاں قضا مبرم ہوتی ہے وہاں تو کسی کی پیش ہی نہیں جاتی اور جہاں ایسی نہیں وہاں البتہ بہت سی دعاؤں اور توجہ سے اللہ تعالیٰ جواب بھی دے دیتا ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشابہ مبرم ہوتی ہے اس کے ٹلا دینے پر بھی خداتعالیٰ قادر ہے۔ یہ حالت ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ تحقیقات بھی کام نہیں دیتیں اور ڈاکٹر بھی لاعلاج بتا دیتے ہیں مگر خداتعالیٰ کے فضل کی یہ علامت ہوتی ہے کہ بہتر سامان پیدا ہوجاویں اور حالت دن بدن اچھی ہوتی جاوے ورنہ بصورت دیگر حالت مریض کی دن بدن ردی ہوتی جاتی ہے اور سامان بھی کچھ ایسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اکثر ایسے مریض جن کے لئے ڈاکٹر بھی فتویٰ دے چکتے ہیں اور کوئی سامان ظاہری زندگی کے نظر نہیں آتے۔ ان کے واسطے دعاکی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو معجزانہ رنگ میں شفا اور زندگی عطا کرتا ہے گویا کہ مردہ زندہ ہونے والی بات ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 طبع جدید صفحہ538)

(حکیم لقمان احمد سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جولائی 2021