• 27 اپریل, 2024

مکرم چوہدری فضل الدین صاحب

میرے پیارے ابّا جان
مکرم چوہدری فضل الدین صاحب (اوورسئیر)

میرے اباجان 1887ء میں ایک چھوٹے سے گاؤں ’’حمزہ‘‘ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ میرے دادا گاؤں بھر میں چوہدری ’’کالو‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ تمام گاؤں میں بہت عزت و احترام سے پکارے جاتے تھے اور یہ گاؤں میرے دادا کے آباؤ اجداد کا ہی سمجھا جاتا تھا ۔ شادی کے بعد دادا کی پہلی اولاد میرے ابا جان تھے جن کا نام فضل الدین رکھا گیا۔ تین سال کے بعد ایک بیٹی فضل بی بی پیدا ہوئیں وہ ابھی ایک سال کی ہی تھیں کہ دادی وفات پا گئیں ۔ اب اِن دونوں بچوں کو ان کی چچی نے اپنی کفالت میں لے لیا ۔

ابّا جان بتایا کرتے تھے کہ ان کی چچی بہت ہی نیک اور معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ وہ ابا جان کو اپنے ساتھ سلاتیں اور سونے سے پہلے ہمیشہ ایک سبق یاد کرواتیں ’’مَیں جھوٹ کبھی نہ بولوں گا‘‘، ’’مَیں گالی کبھی نہیں دوں گا‘‘۔ ایک صبح میرے اباجان مجھے ملنے چچی کے گھر آئے تو چچی نے کہا میں نے آپ کے بیٹے کو ایک سبق یاد کروایا ہے، سُن لیں۔ لہٰذا میں نے اپنے ابّا کو یہ سبق سنا دیا۔ وہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے۔

’’کہ بیٹا اگر تم یہ سبق ساری عمر یاد رکھنے کا وعدہ کرو اور بے شک سارے گھر کو آگ لگا دو تب بھی مَیں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا‘‘ پھر میرے ابّا نے کس طرح ساری عمر اس سبق کو یاد رکھا اُن کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں۔

1964ء میں مَیں لندن آ گئی اور میرا اپنے ابّا کے ساتھ خط و کتابت کا ایک سلسلہ جاری رہا جو چودہ سال پر محیط ہے۔ آپ مجھے ’’A4‘‘ کے کاغذ پر چار چار صفحوں کا خط لکھا کرتے تھے اور میرے کہنے پر اپنی زندگی کے نادر واقعات مجھے لکھا کرتے ہر ہفتے ایسے ایک خط کا مل جانا میری زندگی کی معراج تھی۔ مَیں نے اپنے باپ کے سینکڑوں خط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ انہی خطوط میں سے مَیں بعض واقعات آپ کو بتاؤں گی۔ ابا جان کی وفات 1979ء میں 92 سال کی عمر میں ہوئی۔ زندگی کے آخری دو ایک سالوں میں وہ مجھے نظر کی بہت کمزوری کی وجہ سے خط نہیں لکھ سکے جس کا مجھے ہمیشہ بہت دُکھ رہتا ہے۔ اباجان کی انگلش اور اُردو دونوں ہینڈرائٹنگز پرنٹ کی حد تک خوبصورت تھیں۔

اب مَیں جو کچھ ورطہ تحریر میں لانے کی کوشش میں ہوں یہ میرے ذہن میں محفوظ یاد داشتیں، یا اباجان کے خطوط میں پڑے ہوئے واقعات یا اُن سے زبانی سنی ہوئی باتیں ہیں۔

ابا جان سنایا کرتے تھے ’’میرے ابا کو بہت شوق تھا کہ مَیں تعلیم حاصل کروں لیکن ہمارے گاؤں کے قریب کوئی اسکول نہیں تھا۔ چند میل کے فاصلہ پر مجیٹھ کے قریب انگریز وں نے ایک اسکول کھولا تھا لیکن وہاں تک چل کر جانا بہت مشکل تھا کیونکہ میری عمر اُس وقت پانچ چھ سال کے قریب تھی ۔ میرے باپ کی اس خواہش کو سن کر میری اکلوتی پھو پھو نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لی کہ وہ مجھے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر اسکول چھوڑ کر آیا کریں گی اور واپس بھی لایا کریں گی ۔ لہٰذا میرا اسکول میں داخلہ کروا دیا گیا ۔ میری پھوپھو بہت صحت مند اور طاقتور تھیں ۔ بہت چھوٹی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں ، اپنے چھوٹے چھوٹے تین بیٹے تھے انہیں گھر چھوڑ کرتقریباً تین چار سال تک یہ ڈیوٹی نبھائی ۔ میرے علاوہ میری تختی اور کتابوں کا بیگ بھی کمر پر لاد لیا کرتی تھیں ۔ دس گیارہ سال کی عمر کو پہنچ کر اب میں خود بھی اُن کے ساتھ پیدل چل لیا کرتا تھا لیکن وہ مجھ سے اتنا پیار کرتی تھیں کہ بار بار مجھے کندھوں پر لاد لیا کرتی تھیں کہ میرا بھتیجا کہیں تھک نہ جائے ۔ پھو پھو مردوں کی طرح بہادر تھیں ۔ گاؤں میں پھو پھو کی بہت عزت تھی جب مَیں نے اسکول سے پرائمری کا امتحان بہت اعلیٰ نمبروں میں پاس کر لیا تو امرتسر کے مشنری اسکول میں میرا داخلہ کروادیا گیا ۔ جس کے ساتھ ہی رہائش کا انتظام یعنی ہوسٹل بھی تھا ۔ میرے ابا نے تعلیم کی خاطر یہ جدائی منظور کر لی ۔ پھو پھو خوش تھیں کہ میرا بھتیجا بڑا آ دمی بنے گا ۔ مَیں نے بہت شوق اور محنت سے دعاؤں کے ساتھ یہاں اپنی تعلیم کا آ غاز کیا ۔ چچی نے چھ سال کی عمر سے پانچ وقت نمازوں کا عادی بنا دیا ہوا تھا اور قرآن کریم ناظرہ بھی انہی کے ساتھ ختم کر لیا تھا ۔ بہت صحیح تلفظ کے ساتھ تلاوت کیا کرتی تھیں ۔ مَیں اپنی کلاس میں ہمیشہ اوّل آ تا ، بلکہ علیحدہ علیحدہ ہر سبجیکٹ میں میری اوّل پوزیشن ہوتی ۔ سات سال کی عمر میں مَیں نے شیخ سعدی کی گلستان، بوستان زبانی یاد کرلی تھی ۔ امرتسر سے چھٹیاں گزارنے گاؤں جایا کرتا ، اسی طرح زندگی کے ماہ وسال گزرتے رہے ۔ اور مَیں ایک صحت مند نوجوان بن گیا ۔

ظہور مہدی کا انتظار اور اُن کو دیکھنے کی خواہش

میرے ابا ایک مذہبی اور علم دوست انسان تھے ۔ اگرچہ قرآن مجید ناظرہ کے علاوہ کچھ بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن مسیح اور مہدی کی بات ضرور کیا کرتے تھے کہ وہ آنے والا ہے ، مَیں جب کبھی امرتسر کالج سے گاؤں آ تا تو ہل چلا کر اپنے کھیتوں کو پانی ضرور دیا کرتا تھا ۔ ایسے ہی ایک مرتبہ رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد کے بعد میں گدھی پر بیٹھا ہل چلا رہا تھا ، عادتاً دعاؤں میں مصروف تھا کہ مَیں نے ایک غیر معمولی سی روشنی دیکھی ۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا پھر وہ غائب ہو گئی ۔ اُس وقت مجھے اپنے باپ کی بات یاد آئی کہ مہدی آ نے والا ہے ۔ مَیں نے دُعا کی کہ ’’اے اللہ مجھے مہدی ضرور دکھا دینا‘‘
اُس زمانے میں انگریز اکثر جگہوں پر تعمیرات کا کام کروا رہے تھے۔ مَیں بھی جب کسی اونچی عمارت کو بنتے دیکھتا تو جی میں آ تا کہ مَیں بھی کوئی اُونچی عمارت تعمیر کراؤں گا ۔ بلڈنگ انجینئر بنوں گا۔ جب مَیں نے اپنے ابا سے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بخوشی مجھے لاہور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آر کیٹیکٹ میں داخلہ دلوا دیا ۔ میرا دو تین سال کا کورس تھا لہٰذا میں لاہور آ گیا ۔ اُن دنوں رہائش کے لئے سرائیں ہوتی تھیں جن میں معمولی سے اخراجات کے ساتھ لوگ رہ سکتے تھے ۔ ہوٹلوں کی طرح مہنگی نہیں ہوتی تھیں ۔ لوگ اپنا کھانا وغیرہ خود بنا لیتے تھے ۔ لہٰذا میں نے یو نیورسٹی سے کافی دور راوی کے قریب ایک سرائے میں رہنا شروع کر دیا۔ اپنا کھانا پکا کر ٹفن کیریر میں ڈال لیتا اور سائیکل پر سوار ہو کر یونیورسٹی پہنچ جاتا ۔ دوپہر کو کچھ وقفہ ملتا تو اپنا کھانا لے کر نکلتا مال روڈ پر چلتے ہوئے ہائی کورٹ کے بالکل سامنے ایک خو بصورت گھاس والے پلاٹ میں آتا ، یونیورسٹی سے وضو کر کے نکلا کرتا تھا ۔ یہاں پہنچ کر اپنی نماز ظہر و عصر اکٹھی ادا کرتا ، پھر کھانا کھا کر واپس یونیورسٹی لوٹ جاتا ۔ فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا ۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے چند منٹ میں اپنے کلاس روم میں پہنچ جاتا ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی زیارت و ملاقات

زندگی اسی طرح گزرتی چلی جا رہی تھی۔ مَیں اسی گراسی پلاٹ کا عادی ہو چکا تھا ۔ اچانک ایک روز مَیں نے دیکھا کہ انتہائی نورانی چہرے والے ایک بزرگ اُس گھاس والے میدان میں موجود ہیں اور چند اور بزرگ شخصیتیں بھی اُن کے ساتھ ہیں ۔ مَیں بہت دور ہٹ کر بیٹھ گیا ۔ اپنی نمازوں سے فارغ ہو کر کھانا کھایا اور مسلسل اُن سب کو دیکھتا رہا ۔ اُ ٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن کلاس سے لیٹ ہو جانے کے خوف سے اُ ٹھ کر چلا گیا ۔ اگلے دن پھر جب وہاں آیا تو اُس بزرگ شخصیت کو بمع اپنے احباب کے وہاں موجود پایا ۔ اُن سب نے مل کر نماز با جماعت پڑھی اور کچھ وقت آ پس میں محو گفتگو رہے ۔ مجھے اُٹھ کر اُن کی محفل میں جا شریک ہونا خلافِ آ داب لگ رہا تھا لیکن دل تھا کہ اُدھر ہی کھنچا چلا جا رہا تھا ۔ بادلِ نخواستہ اُ ٹھنا پڑا کیونکہ کلاس کا ٹائم ہونے والا تھا ۔ آج تیسرا دن تھا اور مَیں اُس بزرگ شخصیت کو دیکھنے کے لئے بیتاب اُس گراسی پلاٹ کی طرف بھاگ رہا تھا اور دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو آج اُن کے قریب ضرور بیٹھوں گا ، جب میدان میں داخل ہوا تو دُور سے اُ نہیں دیکھ لیا وہ بزرگ ابھی بیٹھے نہیں تھے بلکہ سب لوگ کھڑے تھے مَیں بھاگ کر قریب پہنچا اور ڈرتے ڈرتے السلام علیکم کہہ کر اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھا دیا۔ اُس بزرگ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا ہاتھ تھام لیا بلکہ مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا اور کافی دیر چھوڑا نہیں۔ مَیں اندر ہی اندر خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اور مَیں نے خود کھینچ کر اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔ پھر وہ لوگ بیٹھے تو میں بھی اُن کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ اُن سب نے با جماعت نماز کی تیاری کی تو میں اُن کے ساتھ با جماعت میں نماز شامل ہو گیا۔ ظہر، عصر کی جمع نماز، با جماعت اُن کے ساتھ ادا کی بلکہ اُس بزرگ کی گفتگو بھی سُنی ۔ پھر کھانا کھائے بغیریونیورسٹی کی طرف لوٹا اور راستہ میں یہ سوچتے آرہا تھا کہ آج کل یو نیورسٹی میں مہدی کی آ مد کا بہت شہرہ ہے۔ لوگ اکثر باتیں کرتے ہیں کہ وہ کسی جگہ قادیان میں آ گیا ہے۔ وہ میرا فائنل ایئر تھا اور امتحان قریب تھے، اپنے ابا سے بھی مہدی کے بارے میں سنا ہوا تھا لہٰذا مَیں نے سوچا کہ امتحان سے فارغ ہو کر مہدی کی تلاش میں قادیان ضرور جاؤں گا اگر مہدی مجھے پسند آیا تو اُس کی بیعت کر لوں گا وگر نہ لاہور واپس آکر اِس بزرگ کو تلاش کر کے اُس کی بیعت کروں گا۔ کیونکہ ایسا نورانی چہرے والا بزرگ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ اسی میں امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ پھر اُن بزرگ کو بھی وہاں نہیں دیکھا۔ امتحان کے بعد واپس اپنے گاؤں چلا گیا اور کچھ عرصہ بعد اپنے ابا کو لاہور جانے کا کہہ کر مہدی کی تلاش میں نکلا۔ امر تسر پہنچ کر قادیان پہنچنا آسان کام نہیں تھا یہ سفر کیسے کیسے اور کس طریقے سے طے کیا یہ میرا شوق اور میرا خدا جانتا ہے

قادیان میں داخل ہوا تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ پوچھتے پو چھتے مسجد پہنچا۔ نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ مَیں نے ایک عمر رسیدہ بزرگ سے پوچھنے کی جرات کی کہ مَیں مہدی سے ملنے آیا ہوں وہ کہاں ملیں گے۔ انہوں نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا کہ اُن کا تو وصال ہو چکا ہے اور تھوڑی دیر میں اُن کے جانشین حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ نماز پڑھائیں گے۔ میرا دل بجھ ساگیا مَیں نے پوچھا کہ ان کی کوئی تصویر نہیں؟ قریب ہی کسی شخص نے میری بات سن کر ایک کتاب پر پرنٹ شدہ ان کی تصویر مجھے دکھائی۔ مَیں نے تصویر کو دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہیں میں لاہور کے ہائی کورٹ کے سامنے والے گراسی پلاٹ میں تین دن مسلسل دیکھا اور ان کے پیچھے نماز ظہر ،عصر ادا کی اور مصافحہ کی سعادت پائی، تو کیا یہی امام مہدی تھے؟ مَیں ان کی بیعت سے محروم رہ گیا۔ غم سے میرا دل گویا پھٹ گیا۔ مَیں ہچکیاں لے کر رونے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ مَیں غم سے بے ہوش ہو جاؤں گا۔ کچھ لوگوں نے میرے اس غم کی وجہ پوچھی تو میں نے تمام روئیداد سنادی۔

اتنی دیر میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ بھی تشریف لے آئے کچھ لوگوں نے میرے اِرد گرد مجھے بےقراری کے عالم میں روتے دیکھا تو وجہ پوچھی۔ کسی نے جلدی جلدی سب کچھ بتا دیا حضرت خلیفہ اوّل ؓ میرے قریب آئے۔ میرے کندھوں پر پیار سے تھپکی دیتے ہوئے مجھے اپنے قریب کر لیا اور کہا ’’میاں روتے کیوں ہو تم تو صحابہ میں شامل ہو‘‘ یہ مثردہ سننے کے بعد میں نماز مغرب میں شامل ہو گیا۔ چند دن قادیان میں ٹھہرا۔

حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کی بیعت

بہت کچھ معلوم کرنے کے بعد حضور اقدس خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی بیعت کی اور خوشی خوشی اپنے گاؤں واپس آیا کہ جلد اپنے ابا کو بتاؤں کہ میں نے امام مہدی کو پالیاہے اور مَیں اُن کے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدی مسلمان ہو چکا ہوں ۔ آپ بھی جلد تیار ہو جائیں مَیں آپ کو قادیان لے چلوں ۔

والد کی سخت مخالفت

باپ نے جب یہ سُنا تو غصہ سے اپنی لاٹھی اٹھائی اور کہا تم کافر ہو کر آگئے ہو۔ جلدی توبہ کرو ورنہ میں مار مار کر تمہارا بُرا حال کر دوں گا۔ مَیں نے کہا ابا! آپ خود ہی تو کہا کرتے تھے کہ امام مہدی آ نے والا ہے۔ اب میں نے ڈھونڈ لیا ہے تو آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ ابا کی ایک ہی رٹ تھی کہ فوراً توبہ کرو۔ مَیں نے زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کو غصے میں جواب دیا کہ آپ جو مرضی کر لیں، مَیں توبہ کرنے والا نہیں۔ باپ نے لاٹھی اُ ٹھا کر مجھے مارنا شروع کیا۔ مار مار کر مجھے لہو لہان کر دیا۔ مَیں اُن کا وہ پیارا اور اکلوتا بیٹا جسے ابا نے کبھی زندگی بھر ڈانٹا بھی نہیں تھا اور آج اس کی یہ درگت تھی کہ دیکھنے والے پریشان ہو رہے تھے۔

جب مَیں نے بار بار توبہ کرنے سے انکار کیا تو ابا نے میرے جوتے، کپڑے اُتروا لئے اور صرف ایک بڑی چادر میری طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ یہ لو اور فوراً گھر سے نکل جاؤ۔ مجھے مجبوراً گھر سے نکلنا پڑا۔ مَیں نے اپنی پیاری، اکلوتی پھو پھو کے گھر جا کر پناہ لی، وہ بھی میرا یہ حال دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں۔ اپنے بیٹوں میں سے کسی کے کپڑے مجھے پہنائے، کھانا وغیرہ کھلایا، مجھے گلے لگایا بہت روئیں کہ بیٹا ابا کا کہا مان لو، ان کے بیٹوں نے بھی یہی مشورہ دیا۔ مَیں کچھ دن پھو پھو کے گھر چھپا رہا ۔ پھر ہمت کر کے باپ کے پاس آیا اور امام مہدی کے بارے میں بتانا چاہا لیکن انہوں نے پھر اپنی لاٹھی اٹھالی، مجھے بہت مارا لیکن اتنی سختی سے نہیں کہ خون نکلے، پھر سے گھر سے نکلنے کا حکم سنادیا۔ مَیں مجبوراً پھر نکل گیا۔ ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے بعد پھر باپ کو سمجھانے کےلئے گیا کہ شاید اب اُن کا دل نرم ہو گیا ہو اور میری بات سُن لیں لیکن اس مرتبہ انہوں نے چند ایک تھپڑ مارنے کے بعد آخری حکم سنا دیا کہ نکل جاؤ اور پھر مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ گاؤں میں بھی بات مشہور ہو گئی تھی اور سب طرف سے یہ آوازیں آرہی تھیں کہ چوہدری کالو کا بیٹا فضل الدین کافر ہو گیا ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ اب گاؤں میں میرا ٹھہرنا نا ممکن تھا۔ پھو پھو نے مجھے کچھ رقم دی اور کہا کہ بیٹا! کہیں نکل جاؤ۔ زندگی ہوئی تو پھر ملیں گے اب میں تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔

گھر بدری

مَیں نے ایک بیگ خریدا اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں اس میں رکھیں۔ مجیٹھ پہنچ کر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ پیدل چلنا شروع کر دیا ، کوئی منزل نہیں تھی، دن کے وقت نمازوں کے اوقات میں نمازیں پڑھ لیتا، کہیں سے کچھ نہ کچھ لے کر کھا لیتا اور چلتا رہتا۔ راتوں کو کہیں نہ کہیں اللہ کی زمین پر آرام کر لیتا۔ کہیں نہ کہیں لوگ مزدوری کرتے نظر آتے تو ان کے ساتھ مل کر مزدوری بھی کر لیتا۔ انگلش حکومت تھی، انگریزوں کا زمانہ تھا۔ راستے پُر امن تھے کوئی ڈر نہیں تھا۔ کہیں بیٹھ کر اللہ سے باتیں کرتا اور دعاؤں کے سہارے پھر آگے چل پڑتا۔ بہت دنوں کے پیدل سفر کے بعد سوچا کہ وہ رستہ اختیار کروں جو ملتان لے جائے، اس زمانے میں ملتان بے شمار اولیاء اللہ کی قبروں اور مزاروں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ مَیں بھی وہاں پہنچ کر کسی ولی اللہ کے مزار پر اپنے لئے دعا کرنی چاہتا تھا۔ آخر چلتے چلتے مَیں وہاں پہنچ گیا۔ کچھ دن وہاں ٹھہرا، دعائیں بھی کیں لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جاؤں۔ بہت جگہوں پر محنت مزدوری کر کے کچھ رقم جمع کر لی۔ ایک دن ریلوے اسٹیشن پر آیا کہ اب بذریعہ ٹرین واپس امرتسر چلتا ہوں اسٹیشن پر ایک شخص کو انگلش اخبار بیچتے دیکھا تو اس سے اخبار خریدلی اور پڑھنے لگا۔ اچانک نظر پڑی ایک صفحے پر پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کے نتائج درج تھے۔ آرکیٹیکٹ کے طلباء کے ناموں کی لسٹ پر نظر پڑی تو میرا نام بھی ان میں درج تھا اور مَیں فرسٹ ڈویثرن میں کامیاب ہو گیا تھا۔ میں نے وہیں شکرانے کا سجدہ کیا اور واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

کامیابیوں کی طرف پہلا قدم

اگلے دن اپنے لئے بہترین کوٹ ، پینٹ اور جوتے خرید لئے ، اپنے قلم سے انگلش میں ملازمت کے لئے درخواست لکھی اور ساتھ وہ اخبار لیا جس میں میرا رزلٹ چھپا ہوا تھا۔ پوچھتے پچھاتے وہاں جا پہنچا جہاں انگریز افسروں کے بڑے بڑے دفاتر تھے ۔ بغیر سوچےسمجھے ایک انگریز افسر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔ چپراسی نے دروازہ کھولا ، مجھے بہترین کوٹ، پینٹ میں ملبوس دیکھ کر بغیر کچھ کہے اندر جانے کی اجازت دے دی ۔ اندر ایک گراں ڈیل ، خوبصورت انگریز کرسی پر براجمان تھا ۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور آ نے کی وجہ پوچھی ، انگلش زبان پر مجھے کافی عبور تھا ، مَیں نے اسے بتایا کہ میں یہاں کا باشندہ نہیں صرف ضرورت مند ہوں حال ہی میں میرا رزلٹ آ ؤٹ ہوا ہے ، مَیں نے اخبار اس کے سامنے رکھی اور ملازمت کے لئے لکھی ہوئی درخواست بھی سامنے رکھ دی ۔ اس نے دوبارہ حیرت سے مجھے سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھا اور پوچھا یہ درخواست تم نے خودلکھی ہے ؟ مَیں نے جواب دیا سر اگردرست نہیں تو اسے پھاڑ دیں مَیں دوبارہ لکھ دیتا ہوں ۔ اس نے کہا نہیں! ایسی بات نہیں تم نے بہت اچھی لکھی ہے اور تمہاری رائٹینگ بہت خوبصورت ہے ۔ اس وقت جاؤ کل پھر اسی وقت میرے پاس آ نا۔ مَیں دُعاؤں میں مصروف رہا اور اگلے دن پھر وہاں پہنچ گیا ۔ میری سروس کا آ رڈر لکھا جا چکا تھا، اور مجھے محکمہ M.E.S میں بہترین ملازمت مل چکی تھی جسے مَیں نے اسی ہفتے جوائن کر لیا۔ تنخواہ بھی بہت معقول تھی ۔ رہنے کے لئے وقتی طور پر ایک جگہ کرایہ پر لے لی۔ زندگی معمول پر آ گئی لیکن گھر اور باپ کی یاد جینے نہیں دے رہی تھی ۔ کچھ ماہ محنت سے کام کیا ، کافی رقم جمع ہو گئی ۔ اس دوران باپ کو کوئی خط نہیں بھیجا ۔ آخر دو ہفتے کی چھٹی لےکر باپ کے پاس جانے کا ارادہ کیا ۔

والد صاحب کی بیعت اور جماعت میں شمولیت

بہت دعاؤں کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ باپ سے ملا ،عزیزو اقارب سے ملا، باپ نے پیار سے گلے لگایا ۔ مہدی کی کوئی بات نہ اُ نہوں نے کی نہ مَیں نے۔ رات کو سونے سے پہلے مجھے کہا کہ فضل الدین! مجھے قادیان لے چلو ، مَیں خود جا کر دیکھنا چاہتا ہوں ۔ مَیں نے دل میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دو ایک روز ہی میں باپ کو لے کر قادیان پہنچ گیا ۔ میرے ابا نے بہت سے لوگوں سے بات چیت کی بلکہ بہت سے لوگوں کو دوست بھی بنا لیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر جاکر متعدد بار دعا بھی کی۔ احمدیت کی نعمت کو پاکر اور بیعت کی سعادت حاصل کر کے واپس گاؤں چلنے کو کہا۔ ہم دونوں واپس آ گئے ۔ ہم دونوں پر لوگوں کی انگلیاں اُٹھنے لگیں ۔ابا تو چونکہ گاؤں کی معزز شخصیت تھے اس لئے ان کے منہ پر تو ابھی لوگ کچھ نہیں کہتے تھے لیکن مجھ پر تو آتے جاتے کافر کافر کے آوازے کسے جاتے تھے ۔ عزیزو اقارب بولنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ لہٰذا مَیں واپس اپنے کام پر آ گیا ۔ کچھ عرصہ بعد میری تبدیلی ہوگئی اور ملتان سے مجھے فر نٹئیر کے علاقہ ’’تخت بھائی‘‘ بھیج دیا گیا جہاں محکمہ آر کیو لو جی کل کے تحت کام ہو رہا تھا۔ کچھ کھنڈرات دریافت ہوئے تھے اور مہاتما بدھ کے مجسمے برآمد کئے جارہے تھے۔ یہ 1912ء کی بات ہے ۔ میرا دل بہت اداس تھا۔ مَیں نے ’’تخت پائی‘‘ کی ایک پہاڑی کی بلند چوٹی پر بیٹھ کر ایک نظم کہی ۔

شاعری

مکرم چوہدری فضل الدین بہت اچھے شاعر بھی تھے ۔ اردو، فارسی اور ہندی پوربی زبان میں بہت اچھے اچھے اشعار کہتے تھے ۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق میں ایک طویل نظم بھی لکھی جن کے دو اشعار درج ذیل ہیں :

قادیان کی یاد میں

؎میرے پیا دیدار دکھاوت ہیں
میں تو گئی دیدار سے بالکل ہی
ناہیں دوش سیاں تجھے دیوت ہوں
رہی غیر کے سنگ خود مل جل ہی

یعنی: اے میرے محبوب! تُوتو اپنے جلوے دکھا رہا ہے ۔ میں خود ہی اتنی دور آ گئی ہوں کہ تیرے جلوں سےمحروم ہوگئی ہوں۔ اے میرے محبوب! اس بات کا ذمہ دار تو نہیں مَیں خود ہی یہاں غیر لوگوں میں آ گئی ہوں ۔ غیروں سے مل جل کر رہنے لگی ہوں ۔

؎پڑی بھنور میں غوطے کھاوت
ہوں، ندی نفسِ امارہ ٹھاٹھت ہے
تری آس ہی پار کرے مولا، ناہیں
’’نیا‘‘ یہاں اور نہ ’’پُل‘‘ ہی

یعنی: نفس ِ امارہ کی ندی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی بہہ رہی ہے اور اس میں غوطے کھارہی ہوں ۔ بھنور میں پھنسی ہوئی ہوں ۔اے اللہ! تجھ ہی سے امید ہے وگرنہ پار جانے کے لئے یہاں نہ کوئی کشتی ہے اور نہ پُل۔ خشکی، تری کے دونوں رستے موجود نہیں ۔

میرے ابا جان نوجوانی کی عمر سے ملازمت اختیار کر کے 1939ء تک محکمہ M.E.S سے ہی وابستہ رہے مختلف شہروں میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ اباجان کی پہلی شادی اپنے گاؤں کے رشتہ داروں میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی اور تین بیٹوں سے نوازا ۔ دوسری شادی اس وقت کی جب آپ مردان میں تھے ۔ یہ میری امی تھیں ،ہم چار بھائی اور تین بہنیں تھیں ۔

1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اباجان ملٹری میں بھرتی ہو کر چلے گئے ۔اس وقت آپ جالندھرچھاؤنی میں رہتے تھے ۔ ملٹری میں جانے کے بعد آپ ہمیشہ برما اور آسام کی طرف ہی رہے جہاں جنگ اپنے عروج پر تھی ۔ 1945ء میں جنگ ختم ہونے کے بعد ہمیں اپنے حالات سنایا کرتے تھے کہ کن کن مشکلات سے گزرے ہیں ۔ ایک واقعہ بیان کرتی ہوں ۔

نماز کی برکت

اباجان بتاتے تھے کہ برما بارڈر پر جنگ اپنے زورں پر تھی ۔ روزانہ وقت بے وقت بمباری ہوتی اور سینکڑوں انڈین فوجی موت کا شکار ہو جاتے۔ ایک روز ہمیں اپنے علاقے کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ کیمپنگ کا آرڈر ملا۔ میرے انڈر کام کرنے والے کچھ مسلمان سپاہی پیدل مارچ کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا ۔ مَیں نے سب سے کہا کہ یہاں رُکتے ہیں اور نماز پڑھ کر آگے چلیں گے ۔ ایک دم سائرن بج گیا اور دشمن کے جہاز آ سمان پر منڈلاتے نظر آنے لگے۔ مَیں نے نماز شروع کر لی اور کچھ ساتھی میرے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے اور باقی یہ کہہ کر آگے بھاگ گئے کہ یہ نمازی آج ہمیں مروا دیں گے ۔ دشمن نے ہمارے سروں پر سے گزر کر کچھ آ گے جاکر بم گرائے ۔ اور پھر اُن کے جہاز غائب ہو گئے ۔ ہم اطمینان سے نماز ختم کر کے جب آ گے پہنچے تو دیکھا کہ ہمارے وہ ساتھی جو ہمیں چھوڑ کر بھاگ آئے تھے سب موت کا شکار ہو چکے تھے۔ ہم سب نے جو اللہ کے فضل سے بچ گئے تھے اپنے ساتھیوں کی میتوں کو زمین میں دفن کیا اور آگے چل پڑے ۔

1945ء میں خدا کے فضل و کرم سے اباجان کے دو بڑے بیٹوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ اباجان کے پاس اس جنگ میں جیتے ہوئے بے شمار میڈل اور تمغے تھے۔ ۔ الحمد للہ ، اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو کیسے کیسے نواز ہوا ۔

قادیان میں قیام

اباجان جنگ ختم ہونے کے بعد واپس آ ئے تو حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو ملنے قادیان گئے اس وقت ہم تین بہن بھائیوں کا بہت بچپن کا زمانہ تھا۔ حضور نے اباجان کو یہ خدمت سونپی کہ آپ قادیان آ جائیں اور ٹاؤن کمیٹی قادیان کے ساتھ وابستہ ہو کر تعمیر کا کام کروائیں اور اپنا پرائیویٹ تعمیر کا کام بھی کر لیا کریں۔ لہٰذا اباجان ہم سب کو لے کر 1946ء میں قادیان آ گئے۔ ہمیں اپنے باپ کی قربت نصیب ہوئی۔ جس گھر میں ہم رہ رہے تھے وہ کرایہ کا بہت بڑا مکان تھا لیکن پھر بھی ابا نے اسے بہت اچھی طریقے سے ڈیکوریٹ کر لیا۔ سب سے پہلے اپنی لائبریری کے لئے ایک کمرہ مخصوص کیا تھا جس میں تھوڑے ہی وقت میں سینکڑوں کتابیں الماریوں میں نظر آنے لگیں۔ مجھے ابا کا یہ کمرہ بہت پسند تھا۔ میرے ابا ایک علم دوست انسان تھے۔ قادیان آ کر بہت سے احمدیوں کے گھروں کی تعمیر کروائی۔ خوبصورت بلڈنگ بنوائیں۔ بہر حال دیکھتے ہی دیکھتے 1946ء ختم ہو گیا اور 1947ء میں پاکستان وجود میں آ گیا۔ ہمیں قادیان سے نکلنا پڑا۔ پاکستان آ کر ہمارا پیارا مرکز تعمیر ہونا شروع ہوا تو اباجان حضور اقدس خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پہنچ گئے سر زمین ربوہ کا سروے ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ جس کے شروع کرنے کی اولین سعادت میرے اباجان فضل الدین صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نصیب ہوئی۔

( تاریخ احمدیت جلد13 صفحہ133)

ربوہ کی تعمیر میں خدمات

اس کے بعد میرے اباجان نے ربوہ کی تعمیر میں اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ گزارا۔ سب سے پہلے کچی آبادی تعمیر کروانے میں تو زیادہ حصہ ان کا رہا اس کے بعد بڑی بڑی عمارات تعمیر کروائیں۔ مجھے یاد ہے کہ شدید گرمی میں سائیکل پر سوار ہو کر عمارتوں کے سروے پر نکل جایا کرتے تھے۔ 77 سال کی عمر تک ایسی ہی محنت کی پھر تعمیر کا کام چھوڑ دیا اس طرح ربوہ کے سب سے پہلے اوورسئیر ہونے کی سعادت میرے اباجان کو نصیب ہوئی۔ الحمد للہ۔

1947ء کو قادیان میں میرے اباجان نے ایک خواب دیکھا کہ وہ ایک کیلا چھیل رہے ہیں اور اس کے اندرجو ایک باریک سی جھلی ہوتی ہے اُسے نوچ کر اُتارنا شروع کرتے ہیں تو زمین پر ڈھیر لگ جاتا ہے لیکن جھلی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ آپ نے یہ خواب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ حضور کی طرف سے جواب آیا کہ آپ زندگی میں ایک ایسا کام کریں گے جو ’’Everlasting‘‘ ہوگا ۔ پاکستان آنے کے بعد حضور اقدس کی خدمت میں پہنچنے سے پہلے لاہور میں آپ دن کا اکثر حصہ جائے نماز پر بیٹھے کچھ سوچتے رہتے تھے ۔ ایک شام آپ بہت خوش نظر آئے اور ہم سب کے پوچھنے پر ہمیں بتایا کہ جوخواب میں نے قادیان میں دیکھا تھا اس کی تعبیر مجھے مل گئی ہے وہ اس طرح کہ خواب میں جھلی ، کیلا کے اندر سے نکلی تو جب دعا کے ساتھ میں لفظ ’’کیلااندر‘‘ پر غور کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے لفظ کیلنڈر بتایا۔ اب مَیں ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا کیلنڈر ایجاد کروں گا جو Everlasting ہوگا ۔ پھر میرے اباجان نے انتہائی محنت سے وہ کیلنڈر تیار کیا جس کے بارے میں یعنی ’’فضل عمر ہجری شمسی تقویم (چودہ کیلنڈر)‘‘ کے متعلق تاریخ احمدیت جلد نہم صفحہ 25تا26 پر ریویو چھپ چکا ہے۔ گویا کیلنڈر تاریخی بن گیا ہے جس کی وجہ سے میرے ابا کا نام تاریخی حیثیت کا حا مل ہے ۔ انہی صفحات پر کلینڈر کی تعریف کے بارہ میں لکھا ہے ’’ایک نہایت کٹھن، دُشوار، محنت شاقہ اور دیدہ ریزی کے بعد فضل عمر ہجری شمسی کے نام سے ایک مستقل تقویم شائع ہوئی اور اس مشقت طلب کام کا بیڑا اوورسئیر فضل الدین کمبوہ نے اُٹھایا۔ اس کیلنڈر میں عیسوی تاریخوں کو ہجری تاریخوں میں بدلنے اور ہجری تاریخوں کو عیسوی تاریخوں میں بدلنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ اور یہ طریقے ہمیشہ کے لئے ہیں۔‘‘

وفات سے چار سال پہلے

1975ء کو ایک خط میں مجھے لکھا۔ پیاری بیٹی ! مَیں تمہارے خط کا جواب جلدی نہیں دے سکا کہ مَیں کتاب ’’واقعات اسلامی کی حقیقی تاریخ‘‘ کا مسودّہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی اجازت سے لکھ رہا تھا جو فضل عمر فاؤنڈیشن کے صدر ہیں۔ ساتھ ہی لکھا کہ مَیں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کتاب ’’تحدیث ِ نعمت‘‘ کی پروف ریڈنگ بھی کی تھی۔

بیعت کر لینے کے بعد پہلا الہام

’’ھُوَ ا لرَّ حْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ۔ مَیں نے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بے شمار نشانات دیکھے ہیں ۔ ایک مرتبہ مردان میں جبکہ M.E.S میں کام کرتے ہوئے مجھے 20 سال گزر چکے تھے میرا ایک انگریز ساتھی ترقی کرتے ہوئے میجر جنرل کے عہدے پر پہنچ چکا تھا ۔ میرے ریکارڈ سے بہت اچھی طرح واقف تھا لیکن ہندو اوورسئیر ز ہمیشہ میرے دشمن رہے کیونکہ میں انہیں رشوت لینے سے منع کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ پر قادیان گیا ہوا تھا انہوں نے میرے خلاف اسکیم بنائی اور میرے آفس سے سر کاری سامان کی چند مشینیں کم کروادیں جن کی قیمت اس وقت کے مطابق ہزاروں ہزار روپیہ تھی۔ مَیں نے واپس آ کر مشینوں کو کم پایا تو S.D.O کو رپورٹ کی وہ بھی ہندو ہی تھا لیکن میرا قدر دان تھا تفتیش شروع ہوئی۔ لمبا وقت لگا ، بے شمار پیشیاں ہوئیں کوئی نتیجہ نہ نکلا ۔ سب کا خیال تھا پکڑا جاؤں گا ۔ آخر مسلمان تھانے دار سرور خان میرے ہندو S.D.O سے ملا اور کہا کہ آپ کا اوور سئیر فضل الدین شریف آدمی ہے اسے کہو یہ ہندو اوورسئیر کا نام لگا دے جس پر سب شبہ بھی کر رہے ہیں ۔ میرے ساتھ کام کرنے والے ماتحت ستّر لوگ مل کر گم شدہ سامان کی قیمت ادا کرنے کو تیار تھے ۔ مَیں نے اُن کو تسلی دی گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ تعا لیٰ پر توکل ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر ایک دن چار انگریز افسروں کا بورڈ بیٹھا ۔ گھنٹی بجی مجھے اندر بلایا گیا ۔ صدر نے مجھ سے سوال کیا کہ، کیا تمہارا کوئی گواہ ہے کہ تم نے خود یہ کام نہیں کیا؟ اور کیا تمہیں کسی پر شبہ ہے؟ مَیں نے جواب دیا نہ تو میرا کوئی گواہ ہے اور نہ کسی پر شبہ ہے ۔ میرا انگریز میجر جنرل غصے میں کرسی سے اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور بورڈ کے انگریز افسروں کو مخاطب کر کے کہنے لگا ’’کیا تم نے کبھی کوئی بے وقوف آدمی دیکھا ہے‘‘ اس اوور سئیر فضل الدین کو دیکھو۔ ہم اسے چھوڑنا چاہتے ہیں اور یہ خود پھنستا ہے۔ اور مجھے انتہائی غصہ میں کہا ’’Get Out of the room‘‘ کمرے سے نکل جاؤ۔ مَیں چپکے سے باہر آگیا ۔اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ اس مقدمے کا کیا بنا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بری کر کے باہر نکال دیا بعد میں برسوں وہاں کام کیا ہر شخص مجھے عزت اور احترام سے دیکھتا تھا۔ پیارے خدا کی شان نظر آتی ہے وہ کیسے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور بڑی سے بڑی آفت کو ایک پھونک سے اڑا دیتا ہے۔

میرے اباجان ایک خط میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ مجھے عزت کی زندگی دے گا اور عزت کی موت دے گا۔ مَیں نے مسیح زمان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ آپ کی اقتداء میں ظہر، عصر کی جمع نمازیں ادا کی ہیں اور ایک مختصر بات چیت نبوت پر سنی ہے۔ مَیں اپنی لاکوں کی ’’کمبوہ‘‘ قوم میں سے سب سے پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا۔ پھر میرے والد صاحب ، چچا اور دادا نے احمدیت قبول کی اس کے بعد دیگر رشتہ داروں نے مردم شماری کے لحاظ سے بڑوں ، چھوٹوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر جاتی ہے ۔ جنہوں نے میرے ذریعہ بیعت کی ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں کچھ عرصہ مَیں نے امرتسر میں پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ میں بھی ملازمت کی اس زمانہ میں اس محکمے میں ہندوؤں کا بہت زور تھا ۔ انگریز آفیسر ز صبح 10 بجے سے چار بجے تک کام کرتے تھے ۔ میرے کمرے کی چابی میرے پاس ہوتی تھی ۔ مَیں صبح آ ٹھ بجے آ جاتا اور کام شروع کر لیتا اور ایک گھنٹہ نماز کے لئے بچا کر قریبی مسجد میں نماز کے لئے چلا جاتا۔ واپس آ کر 4 بجے تک کام کرتا ۔ ہندو ہیڈ کلرک مجھے نماز کے لئے جاتے دیکھ کر انگریز ایس ۔ڈی۔او سے میری غیر حاضری کی رپورٹ کرتا رہتا۔ حالانکہ میں دوسروں کی طرح سات گھنٹے کام کرتا تھا۔ ایک دن انگریز ایس۔ڈی۔او۔ نے مجھے کام پر نہ دیکھا تو اسے ہندو کی بات پر یقین آ گیا اگلے دن یہ آفیسر گرمیوں کی چھٹیوں کے لئے پہاڑ پر جانے والا تھا ۔ ہندو نے مجھے نوٹس دلوا دیا کہ اب انہیں میرے کام کی ضرورت نہیں اور مجھ سے چارج لے کر اسی ہندو کے کسی رشتہ دار کو دیا جائے ۔ جب مجھے نوٹس ملا تو اس میں کسی شخص کا نام نہیں لکھا گیا تھا جسے میں چارج دیتا ۔ نوٹس کے ذریعہ سے کوئی مجھے کام سے نہ نکال سکا ۔ مَیں اپنے کام پر آتا رہا اور ساتھ ہی دوسری جگہ محکمہ ایم۔ای۔ایس میں ملازمت کے لئے درخواست دے چھوڑی ۔ جب ایک ماہ بعد انگریز واپس آیا تو مجھے دیکھ کر حیران ہوا کہ تم گئے نہیں ؟ مَیں نے کہا:
سر! کس کو چارج دیتا کسی کانام نہیں لکھا گیا تھا۔ اس دوران دوسری جگہ میری درخواست منظور ہو چکی تھی اور ملازمت کا انتظام مکمل تھا۔ انگریز آفیسر ناراض تو ہوا ، میری تنخواہ مجھے دے دی لیکن میری سروس کا سر ٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا ۔ میں وقتاً فوقتاً اس کے آفس میں جاکر اپنی پہلی سروس کے سر ٹیفکیٹ کا مطالبہ کرتا رہا ۔ ایک روز وہ مجھ پر بہت بگڑا۔ کہنے لگا میں تمہیں ایسا بُرا سر ٹیفکیٹ دوں گا جو تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔ مَیں نے جواب دیا سر! آپ جو دل چاہے لکھیں اگر اچھا ہوا تو رکھ لوں گا اور اگر بُرا ہوا تو آپ کے سامنے پھاڑ کر آپ کی انگیٹھی میں ڈال کر چلا جاؤں گا ۔ بہر حال میری پہلی سروس کا سرٹیفکیٹ مجھے لینا ضروری ہے ۔ اس انگریز آفیسر نے غصہ سے مجھے دیکھتے ہوئے خوبصورت A4 کا پیپر پکڑا اور لکھتا چلا گیا ، مَیں اس دوران دعا میں مصروف رہا اس نے میری محنت ، میری ایمانداری، پابندی وقت، کام میں مہارت غرضیکہ جو کچھ بھی کسی ملازم کی تعریف میں لکھا جا سکتا ہے سب کچھ خوبصورت رائٹینگ میں لکھتے لکھتے پورا پیپر بھر دیا اور سائن کر کے اپنی مہر لگا ئی اور میرے حوالے کر دیا۔ مَیں تھینک یو کہہ کر اُٹھ گیا اور اپنے دشمنوں کو وہ سرٹیفکیٹ دکھا یا وہ سب شرمندہ اور حیران رہ گئے۔ مجھے اچھا سر ٹیفکیٹ بھی مل گیا ، تنخواہ بھی مل گئی اور اچھی ملازمت بھی مل گئی الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو کبھی ذلیل نہیں ہونے دیتا ۔ مَیں نے زندگی میں جو کام بھی کیا ایمانداری سے کیا۔

جالندھر چھاؤنی میں اباجان نے ایک چھوٹا سا دوکمروں کا مکان جس کے آگے برآمدہ اور بڑا ساصحن تھا، خرید کر جماعت احمدیہ کے نام رکھا ہوا تھا وہاں نماز باجماعت ہوتی تھی ۔ جمعہ کی نماز ہوتی اور کبھی کبھی جلسے بھی ہوتے ، مختلف مذاہب کے لوگوں کو جمع کر کے سیر ت النبیؐ کے جلسے کروایا کرتے تھے اکثر میں ساتھ ہندو سیٹھ شامل ہوتے ۔

میرے ابا جان ایک درویش صفت انسان تھے ۔ مَیں اپنے پیارے ابا کے لئے جتنا بھی لکھوں کم ہے ۔ جس دن ابا کی وفات کی خبر ملی ساری رات سو نہیں سکی ۔ ہاتھ میں کاغذ قلم پکڑے اس طرح سے بیٹھی کہ گویا ابا کو خط لکھ رہی ہوں ۔ جب بہت تھک گئی تو قلم کو جنبش ہوئی اور مندرجہ ذیل اشعار صفحہ قرطاس پر آ گئے ۔ چند شعر لکھتی ہوں :

؎ رات تاریک ہے افسردہ ہوں تنہائی ہے
ڈھیروں خط باپ کے سینے سے لگا رکھے ہیں
جانتی ہوں تری پاکیزہ و سادہ سی حیات
تھی اگر کچھ تو فقط خدمتِ دیں کے جذبات
تیری اولاد بھی ہو اس میں برابر کی شریک
مجھ کو بھی اس کا ہے احساس یقیناً ہر دم

اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں۔ اللہ میرے والدین کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں آخرت کی حسنات سے نوازے۔ اللہ اُن پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ اللہ ہمیں بھی توفیق عطا فر مائے کہ ہم اُن کی بتائی ہوئی نصیحتو ں پر عمل کر سکیں۔ آمین ثم آمین۔

(طیبہ شہناز کریم ۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2021