• 29 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 5)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 5

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے فرائض ؟

بیعت لینے کے بعد حضرت حجۃ ﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی :
’’ہر ایک شخص جو میرے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس کی بیعت کی کیا غرض ہے؟ کیا وہ دنیا کے لئے بیعت کرتا ہے یا اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے؟ بہت سے ایسے بدقسمت انسان ہوتے ہیں کہ اُن کی بیعت کی غایت اور مقصود صرف دنیا ہوتی ہے ورنہ بیعت سے اُن کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی یقین اور معرفت کا نور جو حقیقی بیعت کے نتائج اور ثمرات ہیں ان میں پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے اعمال میں کوئی خوبی اور صفائی نہیں آتی۔ نیکیوں میں ترقی نہیں کرتے۔ گناہوں سے بچتے نہیں۔ ایسے لوگوں کو جو دنیا کو ہی اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں یا د رکھنا چاہیئے کہ

؏ دُنیا روزے چند آخر کار با خداوند

یہ چند روزہ دنیا تو ہر حال میں گزر جاوے گی خواہ تنگی میں گزرے خواہ فراخی میں۔ مگر آخرت کا معاملہ بڑا سخت معاملہ ہے وہ ہمیشہ کا مقام ہے اور اس کا انقطاع نہیں ہے۔ پس اگر اس مقام میں وہ اسی حالت میں گیا کہ خدا تعالیٰ سے اس نے صفائی کر لی تھی اور اﷲ تعالیٰ کا خوف اس کے دل پر مستولی تھا اور وہ معصیت سے توبہ کر کے ہر ایک گناہ سے جس کو اﷲ تعالیٰ نے گناہ کرکے پکارا ہے بچتا رہا تو خدا کا فضل اس کی دستگیری کرے گا اور وہ اس مقام پر ہوگا کہ خدا اس سے راضی ہوگا اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگا۔ اور اگر ایسا نہیں کیا بلکہ لاپرواہی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی ہے تو پھر اس کا انجام خطرناک ہے ا س لئے بیعت کرتے وقت یہ فیصلہ کر لینا چاہیئے کہ بیعت کی کیا غرض ہے اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ اگر محض دنیا کی خاطر ہے تو بے فائدہ لیکن اگر دین کے لئے اور ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے تو ایسی بیعت مبارک اور اپنی اصل غرض اور مقصد کو ساتھ رکھنے والی ہے جس سے ان فوائد اور منافع کی پوری امید کی جاتی ہے جو سچی بیعت سے حاصل ہوتے ہیں۔ ایسی بیعت سے انسان کو دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور حقیقی توبہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور اس سے پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے جیسے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ (البقرہ:223) یعنی اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں۔ توبہ حقیقت میں ایک ایسی شے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر ایک پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے جو اس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے۔ یہی باعث ہے جو آنحضرت ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ یعنی توبہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں۔ اس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بیجا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے اُن کو معاف کر دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صُلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہوتا ہے۔ پس اگر اس نے خدا تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کی ہے تو اسے چاہیئے کہ اب اپنے گناہوں کا نیا حساب نہ ڈالے۔ اور پھر اپنے آپ کو گناہ کی ناپاکی سے آلودہ نہ کرے بلکہ ہمیشہ استغفار اور دعاؤں کے ساتھ اپنی طہارت اور صفائی کی طرف متوجہ رہے اور خداتعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کی فکر میں لگا رہے اور اپنی اس زندگی کے حالات پر نادم اور شرمسار رہے جو توبہ کے زمانہ سے پہلے گزری ہے۔

انسان کی عمر کے کئی حصے ہوتے ہیں اور ہر ایک حصہ میں کئی قسم کے گناہ ہوتے ہیں مثلاً ایک حصہ جوانی کا ہوتا ہے جس میں اس کے حسب حال جذبات کسل و غفلت ہوتی ہے۔ پھر دوسری عمر کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ جس میں دغا، فریب، ریاکاری اور مختلف قسم کے گناہ ہوتے ہیں۔ غرض عمر کا ہر ایک حصہ اپنی طرز کے گناہ رکھتا ہے۔

پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور وہ توبہ کرنے والے کے گناہ بخش دیتا ہے اور توبہ کے ذریعہ انسان پھر اپنے رب سے صلح کر سکتا ہے۔ دیکھو انسان پر جب کوئی جرم ثابت ہو جائے تو وہ قابلِ سزا ٹھہر جاتا ہے جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَنۡ یَّاۡتِ رَبَّہٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۔ الآیۃ (طٰہٰ:75) یعنی جو اپنے رب کے حضور مجرم ہو کر آتا ہے اس کی سزا جہنم ہے وہاں وہ نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے۔ یہ ایک جُرم کی سزا ہے اور جو ہزاروں لاکھوں جرموں کا مرتکب ہو اس کا کیا حال ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص عدالت میں پیش ہو اور بعد ثبوت اس پر فرد قرار داد جرم بھی لگ جاوے اور اس کے بعد عدالت اس کو چھوڑ دے تو کس قدر احسان عظیم اس حاکم کا ہوگا۔ اب غور کرو کہ یہ توبہ وہی بریّت ہے جو فرد قرارداد جرم کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ توبہ کرنے کے ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔

اس لئے انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھے کہ کس قدر گناہوں میں وہ مبتلا تھا اور اُن کی سزا کس قدر اس کو ملنے والی تھی جو اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معاف کر دی۔ پس تم نے جو اَب توبہ کی ہے چاہئے کہ تم اس توبہ کی حقیقت سے واقف ہو کر ان تمام گناہوں سے بچو جن میں تم مبتلا تھے اور جن سے بچنے کا تم نے اقرار کیا ہے۔ ہر ایک گناہ خواہ وہ زبان کا ہو یا آنکھ کا یا کان کا۔ غرض ہر اعضاء کے جدا جدا گناہ ہیں۔ اُن سے بچتے رہو۔ کیونکہ گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے۔ گناہ کی زہر وقتًا فوقتًا جمع ہوتی رہتی ہے اور آخر اس مقدار اور حد تک پہنچ جاتی ہے جہاں انسان ہلاک ہو جا تا ہے۔ پس بیعت کا پہلا فائدہ تویہ ہے کہ یہ گناہ کے زہر کے لئے تریاق ہے۔ اس کے اثر سے محفوظ رکھتی ہے اور گناہوں پر ایک خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔

دوسرا فائدہ اس توبہ سے یہ ہے کہ اُس توبہ میں ایک قوت و استحکام ہوتا ہے جو مامور من ﷲ کے ہاتھ پر سچے دل سے کی جاتی ہے۔ انسان جب خود توبہ کرتا ہے تو وہ اکثر ٹوٹ جاتی ہے۔ بار بار توبہ کرتا اور بار بار توڑتا ہے۔ مگر مامور من ﷲ کے ہاتھ پر جو توبہ کی جاتی ہے جب وہ سچے دل سے کرے گا تو چونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوگی وہ خدا خود اسے قوت دے گا اور آسمان سے ایک طاقت ایسی دی جاوے گی جس سے وہ اس پر قائم رہ سکے گا۔ اپنی توبہ اور مامور کے ہاتھ پر توبہ کرنے میں بھی فرق ہے کہ پہلی کمزور ہوتی ہے دوسری مستحکم۔ کیونکہ اس کے ساتھ مامور کی اپنی توجہ، کشش اور دعائیں ہوتی ہیں جو توبہ کرنے والے کے عزم کو مضبوط کرتی ہیں اور آسمانی قوت اُسے پہنچاتی ہیں جس سے ایک پاک تبدیلی اس کے اندر شروع ہو جاتی ہے اور نیکی کا بیج بویا جاتا ہے جو آخر ایک باردار درخت بن جاتا ہے۔

پس اگر صبر اور استقامت رکھو گے تو تھوڑے دنوں کے بعد دیکھو گے کہ تم پہلی حالت سے بہت آگے گذر گئے ہو۔

غرض اس بیعت سے جو میرے ہاتھ پر کی جاتی ہے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ بخشے جاتے ہیں اور انسان خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق مغفرت کا مستحق ہوتا ہے۔ دوسرے مامور کے سامنے توبہ کرنے سے طاقت ملتی ہے اور انسان شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے۔ یاد رکھو اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ کیونکہ دنیا تو گذرنے کی جگہ ہے وہ تو کسی نہ کسی رنگ میں گذر جائے گی۔

؏ شبِ تنور گذشت وشبِ سِمور گذشت

دنیا اور اس کے اغراض اور مقاصد کو بالکل الگ رکھو۔ ان کو دین کے ساتھ ہر گز نہ ملاؤ کیونکہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور دین اور اس کے ثمرات باقی رہنے والے۔ دنیا کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر آن اور ہر دم میں ہزاروں موتیں ہوتی ہیں۔ مختلف قسم کی وبائیں اور امراض دنیا کا خاتمہ کر رہی ہیں۔ کبھی ہیضہ تباہ کرتا ہے۔ اب طاعون ہلاک کر رہی ہے۔ کسی کو کیا معلوم ہے کہ کون کب تک زندہ رہے گا۔ جب موت کا پتہ نہیں کہ کس وقت آجاوے گی۔ پھر کیسی غلطی اور بیہودگی ہے کہ اس سے غافل رہے اس لئے ضروری ہے کہ آخرت کی فکر کرو جو آخرت کی فکر کرے گا اﷲ تعالیٰ دنیا میں بھی اس پر رحم کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اس کے اور اُس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے اس لئے پہلے مومن بنو۔ اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں۔ دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ، نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ و استغفار میں مصروف رہو۔ نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دُکھ نہ دو۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو ﷲ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کردے گا۔ عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو۔ پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ۔ ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عمل درآمد کرنا تمہارا کام ہے۔

پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے۔ نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہو اور حضور قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو۔ عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجاوے کہ کیا پڑھتا ہے اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لئے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے مگر اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیئے کہ نماز کو اپنی زبان ہی میں پڑھو، نہیں! میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو۔ ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے۔ نماز دعا ہی کا نام ہے۔ اس لئے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو۔ نیک انسان بنو ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو۔‘‘

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ278-282)

نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

** آریہ لوگ جو توبہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ پر میشر صرف توبہ کرنے سے گناہ بخشتا ہے اور ان بد اعمالیوں کے نتائج نہیں ملتے جو اس نے کئے اس لئے یہ انصاف سے بعید ہے۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:
’’ان لوگوں کو توبہ کی حقیقت کا علم نہیں۔ توبہ اس بات کا نام نہیں ہے کہ صرف منہ سے توبہ کا لفظ کہہ دیا جا وے بلکہ حقیقی توبہ یہ ہے کہ نفس کی قربانی کی جا وے جو شخص تو بہ کرتا ہے وہ اپنے نفس پر انقلاب ڈالتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ مر جاتا ہے۔ خدا کے لئے جو تغیر عظیم انسان دکھ اُٹھا کر کرتا ہے تو وہ اس کی گذشتہ بداعمالیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ جس قدر ناجائز ذرائع معا ش کے اس نے اختیا ر کئے ہوئے ہو تے ہیں ان کو وہ ترک کرتا ہے۔ عزیز دوستوں اور یاروں سے جدا ہو تا ہے۔ برادری اور قوم کو اسے خدا کے واسطے ترک کرنا پڑتا ہے جب اس کا صدق کمال تک پہنچ جاتا ہے تو وہی ذات پاک تقا ضا کرتی ہے کہ اس قدر قربانیاں جو اس نے کی ہیں وہ اس کے اعمال کے کفارہ کے لئے کافی ہوں۔

اہل اسلام میں اب صرف الفاظ پر ستی رہ گئی ہے اور وہ انقلاب جسے خدا چاہتا ہے وہ بھول گئے ہیں اس لئے انہوں نے توبہ کو بھی الفاظ تک محدود کر دیا ہے لیکن قرآن شریف کا منشایہ ہے کہ نفس کی قربانی پیش کی جاوے مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ (الاحزاب:24) دلالت کرتا ہے کہ وہ تو بہ یہ ہے جو انہوں نے کی اور مَنْ یَّنْتَظِرُ بتلاتا ہے کہ وہ یہ توبہ ہے جو انہوں نے کر کے دکھلانی ہے اور وہ منتظر ہیں۔

جب انسان خدا کی طرف بکلی آ جاتا ہے اور نفس کی طرف کو بکلی چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا دوست ہو جاتا ہے تو کیا وہ پھر دوست کو دوزخ میں ڈال دے گا ؟ نَحْنُ اَوْلِیَآءُ اللّٰہِ سے ظاہر ہے کہ احباء کو دوزخ میں نہیں ڈالتے۔‘‘

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ292-293)

**’’صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہو گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا (التوبہ:82) کہ ہنسو تھوڑا اور روؤبہت۔ مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں۔اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رو رہا ہے وہی روتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز ونیاز سے خد ا کے آستانہ پر گر پڑے تاکہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے۔ جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں۔ اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ ہنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں ہے۔اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے۔‘‘

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ308)

** ’’ہمارے کام کا وہ انسان ہو سکتا ہے جبکہ ایک مدّت اور نہیں تو کم از کم ایک سال ہماری مجلس میں رہے اور تمام ضروری امور کو سمجھ لیوے اور ہم اطمینان پا جاویں کہ تہذیب نفس اسے حاصل ہو گئی ہے۔ تب وہ بطور سفیر وغیرہ کے یورپ وغیرہ ممالک میں جا سکتا ہے۔ مگر تہذیب نفس مشکل مرحلہ ہے۔ پہاڑوں کی چو ٹیوں پر چڑھنا آسان مگر یہ مشکل۔ دینی تعلیم کے لئے بہت علوم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ طہارت قلب اَور شے ہے۔ خدا ایک نو ر جب دل میں پیدا کردیتا ہے تو اس سے علوم خود حا صل ہوتے جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ327)

بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

بار ہا دیکھا گیا اور تجربہ کیا گیا ہے کہ جب کو ئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ملال کا موجب ہوتا ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اُسے طلاق دے دی جاوے گی۔

سنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا تھا :
’’جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جا تا ہے تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے۔‘‘

ایسا ہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اول بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے سا تھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جا وے۔اس پر حضر ت اقدس کو بہت سخت ملال ہوا اور فرمایا کہ:
’’مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے۔‘‘

چنانچہ دوسرے دن پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ:
’’وہ صاحب اپنی نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اول کو دیویں وہی اسے دیویں۔ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب اِدھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لو نڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اول کا دست نگر کر کے نہ رکھا جا وے۔‘‘

ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گذر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصول اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اول کو جو صدمہ ہوا اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو اُنہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی۔ اس پر حضرت اقدس نے نا راضگی ظاہر فرمائی۔ چنانچہ اس خاوند نے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے۔

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ175تا176)

**’’اگر کوئی غریب آدمی سلام کرتا ہے تو بھی بُرا مناتے ہیں۔ ایسا ہی عورتوں کا حال ہے کوئی چھوٹی عورت آوے تو چاہئے کہ بڑی کو سلام کرے۔ یہ دو ٹکڑے شریعت کے ہیں حق اﷲ اور حق العباد۔ آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گذارا۔ اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی۔ حضرت ابو بکر ؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوا کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا۔ غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا کہ جب آپ فو ت ہو گئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابو بکر ؓ فو ت ہو گیا۔ اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوالے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہوا کہ فوت ہو گیا۔ (یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کہ کسی حالت میں بھی حلوا نہ پہنچے۔) دیکھو کس قدر خدمت تھی۔ ایسا ہی سب کو چاہئے کہ خدمتِ خلق کرے۔

ایک با دشاہ اپنا گذارہ قرآن شریف لکھ کر کیا کرتا تھا۔

اگر کسی کوکسی سے کراہت ہو وے اگر چہ کپڑے سے ہو یا کسی اور چیز سے ہو تو چاہئے کہ وہ اس سے الگ ہو جاوے مگر رو بروذکر نہ کرے کہ یہ دل شکنی ہے اور دل کا شکستہ کرنا گناہ ہے۔ اگر کھانا کھانے کو کسی کے ساتھ جی نہیں کرتا تو کسی اور بہانہ سے الگ ہو جاوے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا (النور:62) مگر اظہار نہ کرے۔یہ اچھا نہیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پا س تلاش کرو۔ اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خا ندان بڑا ہے۔‘‘

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ204)

** ’’غرباء نے دین کا بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ بہت ساری با تیں ایسی ہو تی ہیں۔ جن سے امراء محروم رہ جا تے ہیں وہ پہلے تو فسق وفجور اورظلم میں مبتلا ہو تے ہیں اور اس کے مقابلہ میں صلاحیت تقویٰ اور نیاز مندی غرباء کے حصہ میں ہو تی ہے۔ پس غرباء کے گر وہ کو بدقسمت خیال نہیں کرنا چاہئے بلکہ سعادت اور خدا کے فضل کا بہت بڑا حصہ اس کو ملتا ہے۔

یاد رکھو حقوق کی دو قسمیں ہیں ایک حق اﷲ دوسرے حق العباد۔

حق اﷲ میں بھی امراء کو دقت پیش آتی ہے اور تکبر اور خودپسندی ان کو محروم کر دیتی ہے۔ مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُرا معلوم ہو تا ہے۔اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اﷲ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہو تی ہیں۔ اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خا ص خا ص خدمتوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لئے طیار رہتا ہے۔وہ پاؤں دبا سکتا ہے، پانی لا سکتا ہے، کپڑے دھو سکتا ہے یہاں تک کہ اُس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقعہ ملے تو اس میں بھی اُسے دریغ نہیں ہوتا۔ لیکن امراء ایسے کاموں میں ننگ وعار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حا صل کرنے سے روک دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پا نچ سو برس اوّل جنت میں جاویں گے۔‘‘

(ملفوظات ایڈیشن 2018ء۔ جلد پنجم صفحہ202تا203)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مندرجہ بالا ارشادات میں بیان تعلیم پر کما حقہٗ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

باقی ان شاء اللہ آئندہ

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021