• 29 اپریل, 2024

غزل

اٹھا کے روح مگر چھوڑ کر مَیں من اپنا
مَیں کن کے ہاتھ میں دے آیا ہوں وطن اپنا
کوئی بہار کا جھوٹا ہی مژدہ لے آئے
خزاں رسیدہ ہے مدت سے اب چمن اپنا
کسے خبر ہے کہاں کس کے گھر کو آگ لگی
کہ اپنے آپ مَیں سب شہر ہے مگن اپنا
ہر ایک سمت مَیں ہے آگ، سو وہ شعلہ بیاں
دکھا گیا سر منبر کمال فن اپنا
تو کیا اتار دیا جائے اب لباس خلق
بدل رہا ہے زمانہ جو پیرہن اپنا
رہے گا میری ضرورت کو بھی یہ ناکافی
کسی کے کام نہ آیا اگر یہ دھن اپنا
میں تنگ گلیوں سے گزرا تو یاد آئے بہت
کشادہ دل، کھلی بانہیں، کھلا صحن اپنا
کوئی تو تار ہے الجھی ہوئی وہیں پہ ابھی
کھلا جو دفتر اشعار دفعۃً اپنا
جو لخت لخت ڈبویا گیا لہو میں وطن
تو سر بہ سر ہے شرابور یہ بدن اپنا

(فاروق محمود لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2021