حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام میں بتایا:
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
اور اللہ تعالیٰ اپنا یہ وعدہ اپنے فضلوں، تائیدات اور سچی گواہیوں و برکات کے ساتھ سال بسال پورا کرتا رہا اور ایسے مواقع دیتا رہا کہ افراد جماعت اور مربیان ہجرت کر کے دنیا کے مختلف علاقوں میں جا کر جماعت کے پودے لگاتے رہے۔ الحمدللہ
اسکینڈے نیوین علاقے بھی دنیا کا ایک کنارہ کہلاتے ہیں جس میں پانچ ممالک شامل ہیں آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک، سویڈن اور ناروے۔ یہ علاقے نور ڈک علاقے بھی کہلاتے ہیں کیونکہ یہ دنیا کے شمالی یعنی نارتھ اور سخت ٹھنڈے علاقے اور دنیا کا کنارہ کہلائے جانے والا خطہ ہیں۔ اور ناروےایک ایسا ملک ہے جہاں ایسے شہر اور مقامات موجود ہیں جو دنیا کا آخری کنارہ یعنی End of The World کہلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مہدی علیہ السلام سے کیے وعدے کو پورا کرتے ہوئے 1956 ءمیں محترم کمال یوسف صاحب کو اس علاقے کا مشنری انچارج بنا کے اتارا۔
اس زمانے میں یہ ممالک یورپین ممالک کے مقابلے میں پسماندہ سمجھے جاتے تھے۔ معیشت کی بھی کوئی حیثیت نہ تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے یہ یورپ کے گاؤں ہوں۔ لیکن اللہ نے مہدی کی جماعت کے ایک فرد کے آنے سے اس خطہ کو بھی زندگی اور دنیا کے قریب کر دیا۔
مذہبی اعتبار سے یہ لوگ خدا پہ یقین رکھتے ہیں۔ قومی مذہب عیسائیت ہے لیکن پرانے زمانے میں لوگوں نے ہفتے کے سات دن سات خداؤں کے نام پہ رکھے تھے۔ اور ہر روز اس نام کے خدا کی عبادت کرتے تھے۔ اب اس طرح عبادت تو نہیں کرتے۔ لیکن ہفتے کے دنوں کے نام انہیں خداؤں کے نام پہ ہیں۔ ان ممالک کے شہری ایک دوسرے کے ہمسائے ہونے کے ناطے ایک جیسے بھی ہیں۔ اور ایک دوسرے کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ہمارے ملکوں میں جیسے سکھوں اور پٹھانوں کے لطیفے مشہور ہیں۔ بالکل ایسے ناروے اور سویڈن کے شہری بھی ایک دوسرے کے نام سے لطیفے بناتے، سناتے اور چھیڑتے ہیں۔
یہ لوگ ہر مذہب کی عزت کرتے ہیں اور اس سے بھی پہلے انسان کی عزت کرتے ہیں۔ غیر ملکیوں سے ملتے ہوئے شروع میں احتیاط کرتے ہیں۔ لیکن جب دوست بن جائیں تو بہت ہی اچھے اور مددگار دوست ثابت ہوتے ہیں۔ دوسروں کی ثقافت اور کھانوں کو پسند کرتے۔ مذہب کو بھی سنتے، سمجھتے اور عزت کرتے ہیں۔ یورپ اور دوسرے ملکوں کی نسبت ان ممالک میں زندگی گزارنے کا لائحہ عمل بالکل قرآن کے مطابق ہے۔ سوائے شادی سے پہلے تعلقات رکھنے کے اور شراب پینے کے یہ لوگ حد سے زیادہ ایماندار، سچے، انصاف پسند، اپنے ملک اور قرابت داروں کے ساتھ کر صاف و شفاف ہوتے ہیں۔اور کبھی بھی ظلم اور زیادتی نہیں کرتے۔
یہ نہیں کہ جرائم نہیں ہوتے یا سارے ہی فرشتے ہیں،لیکن چونکہ قانون اس قدر سخت ہیںاور ان پہ عمل کرنے کے لیے ہر شہری برابر کا سزا وار ہے اس لیے جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی بھی جرم کرنے، چوری کرنے اور کرپشن کرنے سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر ساری زندگی جیل میں کوئی نہیں گزارنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہاں اسلام کی آمد ہوئی تو ان لوگوں نے اسے بھی برا نہیں سمجھا اور کھلے دل سے کمال یوسف صاحب اور دوسرے احمدی احباب کو خوش آمدید کہا۔ اُس وقت خود اخبار والوں کو فون کر کے انٹرویو بھی دئے جا سکتے تھے۔ لہٰذا یہی طریقہ اپنایا گیا اور اپنا تعارف اور جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کو متعارف کرانے کے لیے اخبار کا سہارا لیا گیا اور اللہ نے اس میں جماعت کی مدد کی۔
اس سے پہلے اسکینڈے نیوین ممالک میں جمال ناصر اور خمینی والا اسلام سنا جا چکا تھا۔ اور اسرائیل کے ہاتھوں ان کی شکست بھی دیکھ چکے تھے۔ اور کچھ کُردی ملا آکر اپنا اسلام پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے بہت سے طلبا ہمارے مربیان کے پاس اس قسم کے سوال کرتے تھے:
کیا اگر مسلمان جوتے پہنے ہوئے مر جائے تو وہ جنت میں نہیں جا سکتا ؟یا یہ کہ پہلا عیسیٰ بن مریم بن باپ کے پیدا ہوا تھا تو کیا اب آنے والا مسیح مرد سے پیدا ہوگا۔ اور تبھی کُردی ایسی شلواریں پہنتے ہیں جو نیچے سے بند ہوتی ہیں کہ اگر اچانک عیسیٰ پیدا ہو جائے تو وہ گرے نہ؟ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ
احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا نفوذ
ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ ستمبر2012ء میں تاریخ احمدیت کا ایک ورق شامل اشاعت ہے جس میں سکینڈے نیویا میں احمدیت کے آغاز اور فروغ کا طائرانہ جائزہ لیا گیا ہے۔
1932ء میں حضرت مصلح موعود ؓنے ایک کشف میں دیکھا کہ ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور ہنگری کے ممالک احمدیت کے پیغام کے منتظر ہیں۔ 7؍اگست 1956ء کو مکرم سیّد کمال یوسف صاحب کی تبلیغ کے نتیجے میں گوٹن برگ سویڈن کی ایک سعید روح کو قبول احمدیت کی توفیق ملی جن کا نام Mr Erickson تھا۔ اُن کا اسلامی نام سیف الاسلام محمود رکھا گیا اور بعد ازاں انہیں سوئٹزرلینڈ کے اعزازی مبلغ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔
مکرم سیّد کمال یوسف صاحب 14؍جون 1956ء کو سویڈن پہنچے تھے۔ بعد ازاں 28؍اگست 1958ء کو آپ اوسلو چلے گئے اور پھر ڈنمارک میں بھی تبلیغ کا آغاز کر دیا۔
ڈنمارک میں پہلی مسجد
ڈنمارک کے پہلے احمدی مکرم عبد السلام میڈیسن صاحب تھے جنہوں نے 1960ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے قرآن کریم کا ڈینش زبان میں ترجمہ کرنے کا آغاز کیا۔ یہ ترجمہ 1967ء میں شائع ہوا۔ ڈنمارک کی پہلی مسجد ’’مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن‘‘ تھی جو سکینڈے نیویا کی بھی پہلی مسجد تھی اور یہ مکمل طور پر احمدی خواتین کی مالی قربانی سے تعمیر ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 2؍جولائی 1967ء کو اس مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’مسجد خدا کا گھر ہے اور یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کی مساجد کے دروازے ہر مذہب اور ہر فرقے کے اُس شخص کے لیے کھلے ہیں جو خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتا ہے۔‘‘
(الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 31 جولائی 2020ء)
سویڈن میں حقیقی اسلام کا نفوذ اور مسجد کی تعمیر
جماعت احمدیہ ناروے کے رسالہ ’’الجہاد‘‘ مارچ 2007ء میں مکرم مولانا منیر الدین احمد صاحب سابق مبلغ ناروے و سویڈن نے اپنی بعض خوشگوار یادیں بیان کی ہیں۔
آپ لکھتے ہیں کہ ’’میں سویڈن کے شہر گوٹن برگ پہنچا جہاں ہمارا مرکز ایک کرایہ کی عمارت میں تھا۔ مکرم کمال یوسف صاحب سے چارج لیا۔ 1973ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ گوٹن برگ تشریف لائے تو حضور کی رہائش کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا۔ کچھ افراد نے بیعت بھی کی۔ حضور کی شخصیت پُر اثر اور نورانی چہرہ دیکھ کر لوگ بڑے متاثر ہوئے اور اس بات کا اظہار بھی کیا کہ ہم نے ایسی نورانی صورت کبھی نہیں دیکھی۔ اس موقع پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ سویڈن میں مسجد کی تعمیر کے لئے زمین حاصل کی جائے۔ سو زمین حاصل کرنے کیلئے کوشش شروع کر دی گئی۔ سویڈن کی مسجد کے لئے میونسپل کمیٹی کی طرف سے ایک پلاٹ ہمیں الاٹ ہوگیا تو حضورؒ نے فرمایا کہ نقشہ وغیرہ تیار کر والو، میں خود آ کر بنیاد رکھوں گا۔ 1974ء کے حالات کی وجہ سے حضور جلدی تشریف نہ لا سکے۔ 1975ء میں حضور تشریف لائے اور سویڈن کی مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر سرکاری نمائندے بھی آئے اور اخباری نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اخباروں میں خوب چرچا ہوا کہ سویڈن میں پہلی مسجد بن رہی ہے جو کہ جماعت احمدیہ بنا رہی ہے۔ تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ یہ خبر پڑھ کر ایک سویڈش دوست مشن ہاؤس میں آئے اور جماعت کے بارہ میں معلومات حاصل کیں۔ پھر لٹریچر پڑھ کر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ حضور نے ان کا نام جعفر تجویز فرمایا۔ پھر وہ مشن ہاؤس میں باقاعدہ آنے لگے، نماز سیکھی اور باقاعدگی سے ادا کرتے۔ وصیت بھی کردی اور چندہ ادا کرنے لگے۔ بعض پمفلٹس کا ترجمہ بھی کیا۔ بچوں کے لئے ایک با تصویر کتابچہ بھی تیار کیا اور اسے شائع کر کے ہر گھر میں پہنچایا۔ جب صومالیہ میں قحط پڑا تو وہ ریڈ کراس کی طرف سے وہاں جا کر خدمت خلق کرتے رہے۔ واپس آکر بھی صومالیہ کی مدد کے لئے کوشاں رہے۔ اسی سلسلہ میں ایک حادثہ میں شہادت پائی۔ احمدیوں نے جنازہ پڑھا اور اجازت لے کر اسلامی طریق پر قبرستان میں تدفین کی گئی۔ اگلے سال جب حضورؒ مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تو ان کی قبر پر جاکر بھی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
مسجد کی بنیاد رکھے جانے کے بعد تعمیر کے لئے ایک فرم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایک سال میں تعمیر مکمل ہوئی۔ مسجد کا نام حضورؒ کے نام پر مسجد ناصر تجویز ہوا۔ صد سالہ جوبلی فنڈ سے تعمیر ہوئی اور یہ رقم حضور نے لندن سے بھجوائی جو کہ 10 لاکھ سویڈش کراؤن تھی۔ 1976ء میں حضور پھر سویڈن تشریف لائے اور مسجد کا افتتاح فرمایا۔‘‘
جماعت احمدیہ ناروے کی پہلی مسجد
’’اوسلو میں نور احمد صاحب بولستاد نارویجن احمدی تھے جو کہ نوجوانی میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں احمدی ہوئے تھے۔ نہایت مخلص احمدی ہیں۔ جب مسجد کے لئے کوشش کی تو اوسلو میں موقع کی زمین نہ مل سکی۔ البتہ ایک مناسب عمارت کا پتہ لگا کہ بک رہی ہے۔ کسی وقت یہ بلغاریہ کی ایمبیسی تھی۔ حضورؒ سے اجازت لے کر یہ عمارت خریدی۔ اس کے لئے رقم بھی صد سالہ جوبلی فنڈ سے حضورؒ نے عطا فرمائی۔ اس فنڈ سے قائم ہونے والی یہ دوسری مسجد تھی۔ تاہم حضورؒ نے ہدایت فرمائی کہ عمارت کے لئے رقم میں نے دے دی ہے۔ اب اسے مسجد کی ضروریات کے لئے ڈھالنا اور رد و بدل کرنا احباب جماعت کا کام ہے، اس کا خرچہ بھی مقامی جماعت کرے۔ چنانچہ میں نے جماعت میں تحریک کی کہ اس مقصد کے لئے ہر کمانے والا ایک ماہ کی آمد ادا کرے۔ احباب جماعت نے تعاون کیا اور رقم مہیا کر دی۔ اوسلو میں عبد الغنی صاحب آف کھاریاں عمارتی کام کے ماہر ہیں، ان کی سرکردگی میں وقار عمل کر کے عمارت کو مسجد کی ضروریات کے لئے تیار کر لیا گیا۔ اور حضورؒ کی خدمت میں افتتاح کے لئے درخواست کی گئی نیز اس کا نام مسجد نور تجویز کر کے حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے لکھا گیا جو کہ حضورؒ نے منظور فرما لیا۔ یہ نام رکھنے کی تین وجوہات میرے ذہن میں آئیں جو کہ میں نے حضورؒ کی خدمت میں تحریر کر دیں۔ اول یہ کہ نور کا لفظ نارویجن زبان میں بھی ہے۔ جس کے معنی شمال کے ہیں۔ مسجد نور کا مطلب یہ ہوا کہ شمالی علاقہ کی مسجد۔ ناروے کا علاقہ ہے بھی شمال میں گویا یہ مسجد اس لحاظ سے اسم بامسمّٰی ہوئی۔ دوسرے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا اسم گرامی نور الدین تھا اس نسبت سے بھی یہ نام مناسب ہے۔ تیسرے یہ کہ سب سے پہلے نارویجن دوست جو احمدی ہوئے ان کا نام حضرت مصلح موعودؑ نے نور احمد رکھا تھا۔ چنانچہ حضورؒ نے اس نام کی منظوری دے دی۔‘‘
(جماعت احمدیہ ناروے کے رسالہ ’’الجہاد‘‘ مارچ 2007ء میں مکرم مولانا منیر الدین احمد صاحب سابق مبلغ ناروے و سویڈن کی بعض خوشگوار یادیں)
ناروے میں اسکینڈے نیویا کی دوسری اور سب سے بڑی مسجد کی تعمیر
ناروے کی جماعت کی بڑھتی ہوئی تعداد کے حساب سے کافی سالوں سے ایک بڑی مسجد کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ زمین بھی لی جاچکی تھی۔ لیکن کچھ ملکی اور تعمیری رکاوٹوں کی وجہ سے یہ کام رکا ہوا تھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 2005ء میں اسکینڈے نیویا کے دورے پہ ناروے بھی آئے اور ناروے میں قیام کے دوران حضور نے 23ستمبر 2005ء میں اپنے خطبہ میں ناروے کی جماعت کو حضرت محمد ﷺ اور آپؐ کے صحابہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے صحابہ کی شاندار مالی قربانی کی مثال دیتے ہوئے اس مسجد کے لیے مالی قربانی کی تحریک کرتے ہوئے ا سے مکمل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ اور فرمایا:
’’میں نے آپ میں سے مردوں، عورتوں، بچوں، نوجوانوں کی اکثریت کے چہرے پر اخلاص و وفا کے جذبات دیکھے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے اخلاص و وفا میں کمی ہے۔ یا کسی سے بھی کم ہیں۔ بعض ذاتی کمزوریاں ہیں۔ اُن کو دور کریں ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھیں۔ مضبوط ارادہ کریں اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر مدد فرمائے گا‘‘
پھر فرمایا :
’’یاد رکھیں اگر یہ موقع آپ نے ضائع کر دیا تو آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کی کئی مساجد اس ملک میں بن جائیں گی لیکن احمدیت کی آئندہ نسلیں اس جگہ سے گزرتے ہوئے آپ کو اس طرح یاد کریں گی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جماعت کو مسجد بنانے کا موقع میسر آیا۔ لیکن اس وقت کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اور یہ جگہ ہاتھ سے نکل گئی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ دن آئے جب آپ کو تاریخ اس طرح یاد کرے۔‘‘
اس خطبے کو روتے ہوئے سنا گیا۔ اور نماز میں دعائیں کی گئیں اور نماز کے بعد صدر لجنہ کے سامنے عورتوں کے زیوروں کے ڈھیر لگ گئے اور ہر لجنہ اپنے آقا کی آواز پہ لبیک کہتی ہوئی اس دن اپنا ہر زیور مسجد کے لئے دے کے گئی۔ اور جس کا زیور گھر تھا اس نے اسی وقت اسے دینے کا وعدہ لکھ دیا اور بچوں نے اپنی جمع پونجی دے دی۔ خدام نے وعدے لکھوائے اور اوور ٹائم لگا کے لاکھوں کرونر جمع کر کے مسجد کے لیے ادا کئے۔
کچھ احباب نے تو اپنے گھر تک بیچ دئے اور کرائے کے گھر میں آ گئے اور اس طرح پانچ سال کی ان تھک محنت اور مالی قربانیوں سے یہ مسجد تیار ہوئی جو اسکینڈے نیوین ممالک کی سب سے بڑی مسجد بنی اور اس جماعت نے اپنے خلیفہ کی اطاعت میں ایک ہوکے یہ ثابت کر دیا کہ آنے والی نسلیں ہمیشہ اس جماعت کی یہ قربانی یاد رکھیں گی جس نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ الحمدللہ۔ اور جس کے بننے کے دوران اس پہ پتھراؤ بھی ہوا اور شیشے بھی توڑے گئے۔ دھمکیاں بھی ملیں۔ اور نقصان بھی پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ملکی انتظامیہ اور اللہ کی مدد نے اور اللہ کی اس فدائی جماعت کے جذبے نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسکو مکمل کیا اور آج یہ ناروے میں اوسلو کی عمارتوں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے اور جس کا افتتاح پھر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے ستمبر 2011ء میں کیا اور پندرہ دن اس خوبصورت مسجد کے خوبصورت گیسٹ ہاؤس میں رہ کے احباب جماعت کو مہمان نوازی کا موقع بھی دیا بچوں سے کلاس میں ملاقات بھی کی اور اپنے پانچ سال پہلے کے دئے گئے خطبے کے اثر اور اسکے ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ
اس کے بعد سے اس مسجد میں ہر سال جلسے۔ اجتماع۔ ورزشی مقابلے۔ امن سیمینار اور ہر طرح کے جماعتی پروگرام ہوتے رہے اور پھر 2018 ء میں نور ڈک جلسہ کی میزبانی کا شرف بھی ملا۔ فَا لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
اسکینڈے نیوین ممالک میں باقاعدہ جلسوں کا آغاز
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آغاز خلافت میں 28جولائی 1982ء کو دورہ یورپ کیا اور ناروے، سویڈن، ڈنمارک، بھی تشریف لے گئے۔
اس وقت یہاں اسکینڈے نیویا جماعت کی پہلی مجلس شورٰی کا انعقاد عمل میں آیا اور پھر باقاعدہ ان تین ملکوں میں جماعت احمدیہ کی روایات کے مطابق سالانہ جلسے منعقد ہونے لگے اور مختلف جماعتی عہدیدار خلیفہ وقت کی اجازت سے ان کا نمائندہ بن کے جلسے کی صدارت کرتے۔ مہمان خصوصی ہوتے اور خلیفہ وقت کا پیغام بھی پڑھ کے سنایا جاتا۔
ان جلسوں کی وجہ سے ان پانچوں ممالک اور یورپ اور یوکے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی احمدی احباب۔ مہمان اور انہی ملکوں کے سیاستدان۔ پادری اور عام شہری بھی شامل ہوتے اور جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کو قریب سے دیکھتے اور لٹریچر پڑھتے،لے کے جاتےاور رابطے بڑھتے۔
اس کے ساتھ ہی ان جلسوں کی سب سے بہترین روایت لنگر خانے کے آلو گوشت اور دال چاول سے بھی مستفید ہوتے۔ یعنی یہ جلسے اللہ کے مہدی کی برکات سے روحانی اور جسمانی مائدہ کا کام دیتے رہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
براہین احمدیہ حصہ چہارم میں درج ہے کہ 1884ء میں آپ کو خدا تعالی کی طرف سے یہ الہام ہوا :
یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
یعنی تیرے پاس دور دراز سے لوگ آئیں گے اور تیری امداد کے لئے تجھے دور دراز سے سامان پہنچیں گے حتی کہ لوگوں کی امداد اور اموال و سامان کے آنے سے قادیان کے راستے گھس گھس کر گہرے ہو جائیں گے۔
حضرت مرزا بشیر احمدؓ اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں ان الہامات کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ الہام اس وقت کا ہے جب کہ قادیان میں کسی کی آمد و رفت نہیں تھی اور قادیان کا دور افتادہ گاؤں دنیا کی نظروں سے بالکل محجوب و مستور تھا۔‘‘
(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ31)
اور اسکینڈے نیویا میں دور دراز سے آنے والے احمدیوں اور وہاں کے رہنے والوں نے یہ الہام اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا ان جلسوں میں شروع شروع میں تعداد بے شک کم ہوتی تھی۔ کیونکہ احمدی پاکستانی مہاجر بھی کم تھے۔ لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور خلیفہ وقت کے بھی یوکے شفٹ ہو جانے کے بعد احمدی احباب کا رخ بھی ان ممالک کی طرف ہوگیا۔ اور سن اسّی اور نوّے کی دہائی میں خلیفہ وقت کی اجازت اور حکم سے احمدی احباب کی ایک کثیر تعداد یہاں ہجرت کر کے آتی رہی اور طلبا بھی تعلیم حاصل کرنے آتے رہے۔ اور جماعت احمدیہ حقیقی ا سلام کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اور آخر ملکی قانون نے بھی جماعت احمدیہ کو احمدیہ مسلم جماعت کے نام سے رجسٹر کر لیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
اور اس طرح ہم نے اپنی آنکھوں سے اللہ کا وعدہ پورا ہوتے دیکھا کہ کس طرح اللہ نے اپنے مہدی کی تبلیغ، نام اور جماعت کو خلافت کی برکت سے دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
جماعت احمدیہ سویڈن کے جلسہ جات اور پہلے اسکینڈے نیوین جلسے کی میزبانی کا شرف اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا پہلا جلسہ
جماعت احمدیہ سویڈن میں بھی سالانہ جلسہ ہائے جماعت کا باقاعدہ آغاز تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ لیکن سویڈن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ کے فضل سے خلیفہ کی موجودگی میں پہلے اسکینڈے نیوین جلسے کی مہان نوازی کی۔ اور پانچوں ملکوں اور دیگر یورپین ممالک سے بھی آئے ہوئے مہمانوں کے کھانے پینے اور رہائش کے انتظامات کئے اور اللہ کے فضلوں کے وارث بھی بنے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام ’’یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘ کو ایک بار پھر اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا۔ کہ وہاں سارے اللہ کے مہدی علیہ السلام کے نام پہ اکٹھے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا میں مصروف ہونے کےلئےآئے تھے۔ اور دنیا کے کناروں تک تبلیغ پہنچا رہے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
حضور کے جلسے سے خطاب کے کچھ اقتباس پیش خدمت ہیں:
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد، تعوذ اور قرآنی آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج اللہ تعالی کے فضل سے سکینڈے نیوین ممالک کو (جو مجھے بتایا گیا ہے اسکے مطابق) پہلا جلسہ ہے جو، دنیا کے لیے بتا دوں کہ اکٹھا ایک جگہ تینوں ممالک کا یعنی ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کا مشترکہ ہو رہا ہے۔ تینوں ممالک سے آپ لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان جلسوں کے قیام کا ایک بہت بڑا مقصد افراد جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بلند کرنا اور اپنے ماننے والوں کو ایک خدا کی حقیقی پہچان کروا کر انکو اسکے سامنے جھکنے والا، اسکی عبادت کرنے والا اور اسکے حکموں پر عمل کرنے والا بنانا تھا۔ اور آپ ؑ نے اپنی آمد کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ جیسا کہ آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لیے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اسکی پاک ہدایت کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اسکی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں۔‘‘
اس کے بعد احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک نظارہ دکھایا گیا کہ بہت ساری بھیڑیں ہیں جو ایک لائن میں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں اور آواز آتی ہے
قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ
(الفرقان :78)
اور ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ تم کیا ہو، آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہونا۔ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔
(تلخیص رویا از الحکم مؤرخہ 17 اگست 1901 صفحہ1)
’’پس ہمیں چاہیے کہ ہم وہ بے فائدہ بھیڑیں نہ بنیں کہ جن کی خدا کو کچھ بھی پرواہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ان مقربوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جن کے آنکھ، کان، ہاتھ، اور پاؤں خدا تعالیٰ ہوجاتاہے۔ جن کی خاطر خدا تعالیٰ لڑتا ہے۔ جن کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے۔ ہمارا ہر فعل ایسا ہو جو خدا کی رضا حاصل کرنے والا ہو۔ اسکے لیے جیسا کہ پہلے بتایا ہے محنت کی بھی ضرورت ہے، کوشش کر کے عبادتیں کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اسکی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس کا فضل مانگتے ہوئے عبادتوں کی طرف توجہ کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے، فرمائے گا ان شاء اللہ۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا شرط یہ ہے کہ خالص ہو کر اسکی عبادت کی جائے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد سوم۔ خطبہ جمعہ 16ستمبر 2005ء)
جماعت احمدیہ ناروے کے سالانہ جلسہ جات اور پہلے نور ڈک جلسے کی میزبانی
ناروے میں سالانہ جلسہ کا باقاعدہ آغاز 1987ء میں ہو گیا تھا۔ پھر 1992ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒجب ایک جلسے کے موقع پہ خود موجود تھے تواس وقت پھر سویڈن اور ڈنمارک سے بھی احمدی اور مقامی احباب نے اس میں شمولیت کی اور پھر لجنہ کا بھی الگ سیشن پہلی بار ہوا۔ لیکن پھر کسی مجبوری کی بنا پہ بند ہوگیا۔ لیکن اب 2002ء سے مستقل لجنہ بھی ہر جلسے میں اپنا الگ سیشن منعقد کرتی ہے۔ اور اپنی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
25؍جون 1993ء میں ایک بار پھر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ناروے تشریف لائے اور نارتھ ناروے کا بھی دورہ کیا تو وہاں قطب شمالی میں نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا۔
ناروے کی جماعت کے اب تک اللہ کے فضل سے 33 جلسے ہو چکے ہیں۔ اور اس جماعت کو اللہ کے فضل اور حضور ایدہ اللہ کے ارشاد کے مطابق پہلے نورڈک جلسے کی مہمان نوازی کا شرف ملا۔ جس میں پانچوں ملکوں کے امرا ء، مربیان، احمدی اور مقامی احباب نے شرکت کی۔ اور جلسے کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی۔ اس کی بھی مختصر رپورٹ پیش خدمت ہے:-
ناروے میں پہلے نورڈک جلسہ سالانہ کا بابرکت اور کامیاب انعقاد
منعقدہ مؤرخہ21 تا 23 ستمبر 2018ء بمقام اوسلو۔ ناروے
نورڈک ممالک معاشرتی اور ثقافتی، مذہبی اور علاقائی زبانوں کے لحاظ سے کئی پہلوؤں سے باہمی اشتراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے باسیوں اور حکومتوں کے تعلقات بھی صدیوں پر محیط چلے آتے ہیں۔ 1397 تا 1523۔ Kalmarunionen نامی ایک معاہدہ کے تحت ناروے، سویڈن، اور ڈنمارک بشمول فن لینڈ اور آئس لینڈ، کی حکمرانی ایک ہی بادشاہ کے تابع رہی۔
جماعتی لحاظ سے سکینڈے نیوین ممالک میں تبلیغ اسلام و احمدیت کا باقاعدہ آغاز جرمنی مشن کی نگرانی میں 1956ءمیں ہوا۔ اس ابتدائی دور میں ایک ہی مبلغ سلسلہ سکینڈے نیوین ممالک کے مشنری انچارج کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ جماعتی لحاظ سے سکینڈے نیوین ممالک کے احمدی احباب کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے اور تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی تجربات سے مستفیض ہونے کے لئے 1990ءکی دہائی تک تمام ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات اکٹھے منعقد ہوتے رہے۔ تاہم بعد میں یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ البتہ 2005ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد سکینڈے نیوین ممالک کے پہلے تاریخی دورہ کے موقع پر پہلا سکینڈے نیوین جلسہ سالانہ گوٹن برگ میں منعقد ہوا۔ جس میں ازراہ شفقت حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خود شرکت فرمائی اور خطاب سے نوازا۔
امسال نورڈک ممالک کے امرائے کرام مکرم مامون الرشید صاحب امیر جماعت احمدیہ سویڈن، مکرم محمد زکریا خان صاحب امیر و مشنری انچارج ڈنمارک، مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ناروے اور مکرم عطاء الغالب صاحب صدر جماعت احمدیہ فن لینڈ نے مشترکہ جلسہ کو از سر نو جاری کرنے کے لئے اتفاق رائے سے یہ تجویز کیا کہ آئندہ سے نہ صرف سکینڈے نیویا بلکہ نورڈک ممالک ہر تین سال کے بعد اپنا ایک مشترکہ جلسہ منعقد کیا کریں جس کی مہمان نوازی باری باری مختلف ممالک کریں۔ نیز یہ کہ پہلا نورڈک جلسہ سالانہ ناروے میں منعقد ہو۔ چنانچہ امرائے کرام کی طرف سے یہ تجویز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بغرض منظوری پیش کی گئی جسے حضور نے ازراہ شفقت منظور فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے اس میں آئس لینڈ کو بھی شامل کر لیا گیا۔
حضور انور کی منظوری کے بعد امرائے کرام کے باہمی مشوروں سے جلسہ کے تمام انتظامات کا طریق کار اور پروگرام تشکیل پایا۔ جس میں جلسہ کے قریباً ہر شعبہ میں پانچوں ممالک کے رضاکاران نے حصہ لیا۔ اسی طرح اس موقع پر تلاوت قرآن کریم، منظوم کلام اور علمی تقاریر میں بھی ہر ملک کی نمائندگی کو مدّ نظر رکھا گیا۔ البتہ بعض شعبہ جات جیسے ٹرانسپورٹ اور رہائش میں خدمات کی توفیق ناروے جماعت کو ملی۔ فَجَزَ اہُمُ اللّٰہُ
اختتامی خطاب و دعا
بعد ازاں مکرم مولانا اظہر حنیف صاحب نے اپنے اختتامی خطاب میں جلسہ سالانہ کی اہمیت اور برکات پر روشنی ڈالی۔ نیز قادیان اور ربوہ میں منعقد ہونے والے جلسوں میں اپنی شمولیت کے حوالہ سے بعض دلچسپ اور ایمان افروز واقعات بھی بیان کئے۔ آپ نے شاملین جلسہ کو توجہ دلائی کہ وہ حضور انور کے تمام خطبات کو باقاعدہ اور توجہ سے سننے کی عادت ڈالیں۔ نیز جلسہ کے ان بابرکت ایّام میں جو روحانی ماحول میسر آیا اور جو علمی اور روحانی برکات حاصل کی ہیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تاکہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں کا وارث بن سکے جو آپ نے شاملین جلسہ کے لئے کی ہیں۔ آخر میں آپ نے اجتماعی دعا کرائی جس کے ساتھ یہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
ا س جلسہ سالانہ میں نورڈک کے پانچوں ممالک سے 1602 کی تعداد میں مردو خواتین نے شرکت کی توفیق پائی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔
(الفضل 23 اگست 2019ء۔ رپورٹ ازنعمت اللہ بشارت۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل ڈنمارک)
جلسہ ہائے جماعت احمدیہ ڈنمارک
یوں تو جماعت احمدیہ ڈنمارک کے سالانہ جلسوں کا انعقاد 1992ء سے شروع ہو چکا تھا لیکن اس وقت انکے ستائیسویں جلسہ سالانہ کی رپورٹ اور حضور کا پیغام پیش خدمت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ڈنمارک کا جلسہ سالانہ مؤرخہ 29؍ اور 30؍ جون 2019ء بروز ہفتہ و اتوار مسجد نصرت جہاں اور اس سے ملحق نئے تعمیر کردہ کمپلیکس میں منعقد ہوا۔ جلسہ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین اور مردوں کے لیے عارضی طور پر ٹینٹ بھی نصب کروائے گئے۔ اسی طرح جلسہ کے انعقاد سے قبل تیاری اور مسجد کے ماحول کی تزئین و آرائش کی گئی جس کے لیے تمام ذیلی تنظیموں نے اپنے اپنے مفوضہ کاموں کی انجام دہی کے لیے کئی وقار عمل بھی کیے۔
جلسہ سالانہ کا پہلا روز افتتاحی اجلاس
29؍ جون بروز ہفتہ صبح ساڑھے گیارہ بجے کا وقت جلسے کے افتتاحی اجلاس کے لیے مقرر تھا۔ تاہم اس میں شمولیت کے لیے احباب جماعت اور کارکنان کی آمد صبح دس بجے ہی شروع ہو چکی تھی اور رجسٹریشن ڈیسک نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ وقت مقررہ پر مکرم محمد زکریا خان صاحب امیر و مشنری انچارج ڈنمارک کی صدارت میں جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ڈاکٹر رضاء المحسن صاحب نے کی اور مکرم ڈاکٹر اظہر احمد صاحب نے ڈینش زبان میں ان آیات کا ترجمہ پیش کیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال بھی حضور انور کی طرف سے جلسہ سالانہ ڈنمارک کی مناسبت سے ایک خصوصی پیغام موصول ہوا تھا۔ مکرم امیر صاحب نے تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور انور کا یہ خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا اور احباب جماعت سے درخواست کی کہ وہ حضور انور کے اس پیغام پر حقیقی معنوں میں کار بند ہوں تا کہ جلسہ سالانہ کی برکات سے صحیح معنوں میں مستفیض ہو سکیں۔
حضور انور کے اس بابرکت پیغام کے بعد مکرم مصوّر احمد چیمہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام بعنوان ’’وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو‘‘ ترنم سے پیش کیا۔ اس نظم کے بعد مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب ڈنمارک نے جلسہ سالانہ کی برکات کے موضوع پر افتتاحی تقریر کی۔ آپ نے تمام شاملین کو اس بابرکت جلسہ کے ایام میں تمام تقاریر غور سے سننے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر مکرم امیر صاحب نے اجتماعی دعا کروائی۔
اجلاس دوم
ریفریشمنٹ اور نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد جلسہ کے دوسرے اجلاس کی کارروائی مکرم چوہدری منیر احمد صاحب کی صدارت میں تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوئی جو مکرم خاور احمد طاہر صاحب نے کی۔ اس کا ڈینش ترجمہ مکرم سید زکی شاہ صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ بعد ازاں حضور انور کے خصوصی پیغام کا ڈینش ترجمہ مکرم فلاح الدین ملک صاحب مبلغ سلسلہ نے پیش کیا۔ اس اجلاس میں تین تقاریر پیش کی گئیں جو ڈینش زبان میں تھیں۔ پہلی تقریر مکرم عماد الدین ملک صاحب نے ’ہستی باری تعالیٰ تخلیق کائنات میں‘ کے عنوان پر کی، دوسری تقریر مکرم سید فاروق شاہ صاحب نے ’اطاعت نظام اور اس کی اہمیت‘ کے موضوع پر کی اور اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم فلاح الدین ملک صاحب مبلغ سلسلہ کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا ’ہستی باری تعالیٰ قصص انبیاء میں‘۔ اس کے بعد مکرم رفیع احمد چیمہ صاحب اور عزیزم رانا فراز احمد صاحب نے منظوم کلام پیش کیا۔
جلسہ سالانہ کا دوسرا روز
اجلاس سوم
امسال حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت مکرم مولانا لئیق احمد منیر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی کی منظوری بطور مہمان مقرر عطا فرمائی تھی۔ جلسہ کا یہ تیسرا اجلاس آپ کی صدارت میں مؤرخہ 30 جون کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو مکرم افتخار احمد صاحب نے پیش کی۔ اس کا ڈینش ترجمہ مکرم معیز احمد چیمہ صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ تلاوت کے بعد مکرم صدر مجلس نے حضور انور کا پیغام اس اجلاس میں بھی پڑھ کر سنایا۔
مکرم فلاح الدین ملک صاحب مبلغ سلسلہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے چند اشعار ترنم کے ساتھ پیش کیے جس کے بعد اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم خاور احمد صاحب کی تھی جس کا عنوان تھا ’مالی قربانی اور اس کا فلسفہ‘۔ ازاں بعد مکرم محمد اکرم محمود صاحب مبلغ سلسلہ نے ‘اطاعت نظام اور اس کی اہمیت’ کے موضوع پر ایک نہایت مدلل تقریر کی۔
مکرم شیراز احمد صاحب نے کلام محمود سے چند اشعار پیش کیے جس کے بعد مکرم چوہدری منیر احمد صاحب نے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون میں بطور سکول ٹیچر اپنی خدمات پیش کرنے کی توفیق پا چکے ہیں اپنی تقریر میں سیرالیون میں جماعت احمدیہ کے قیام کی تاریخ اور جماعتی خدمات کے بارے میں معلومات اور اس ضمن میں بعض ایمان افروز واقعات پیش کیے۔
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم مولانا لئیق احمد منیر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی کی تھی۔ آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق العباد کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ آپ کی تقریر کے بعد یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا جس کے بعد ریفریشمنٹ اور نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے لیے وقفہ تھا۔
اختتامی اجلاس
نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد تین بجے دوپہر مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب ڈنمارک کی صدارت میں اختتامی اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ مکرم ڈاکٹر حافظ رضاء المحسن صاحب نے قرآن کریم کی تلاوت مع اردو ترجمہ پیش کرنا جس کا ڈینش ترجمہ مکرم عماد الدین ملک صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ اس موقع پر مکرم امیر صاحب ڈنمارک نے حضور انور کا خصوصی پیغام ایک بار پھر پڑھ کر سنایا۔ ازاں بعد مکرم مصوّر احمد چیمہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام سے چند اشعار ترنم کے ساتھ پیش کیے۔
مکرم امیر صاحب ڈنمارک نے اپنی اختتامی تقریر میں حضرت صاحبزادہ سیّد عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی اور شہادت کے واقعات کے حوالہ سے بتایا کہ شہداء کے خون اور قربانیوں کی بدولت ہی جماعت کی زندگی ہے اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم جماعتی ترقی اور غلبہ اسلام کے لیے ہر بڑی سے بڑی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ اور خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر لبیک کہنے والے اور اس میں بھر پور حصہ لینے والے ہوں۔ آپ نے نوجوان نسل کو خاص طور پر توجہ دلائی کہ وہ جماعتی کاموں میں بھر پور حصہ لیں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کریں۔ آپ نے بتایا کہ اصحاب بدر کے ایمان افروز واقعات جو حضور انور اپنے خطبات جمعہ میں بیان فرما رہے ہیں ان سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے دور اوّل میں نوجوان قربانیوں کے ہر میدان میں پیش پیش تھے۔
جلسے کے اختتام پر محترم امیر صاحب نے اجتماعی دعا کروائی۔ اور تمام شاملین جلسہ و کارکنان جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ الحمد للہ کہ جلسہ کی حاضری نہایت خوش کن رہی۔ جرمنی، سویڈن اور برطانیہ سے بھی بعض مہمانان کرام اس جلسہ میں شامل ہوئے۔
(رپورٹ: نعمت اللہ بشارت۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل ڈنمارک)
جماعت احمدیہ ڈنمارک کے جلسہ سالانہ 2019ء کے موقع پر حضرت امیر المومنین کا خصوصی پیغام
الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ ڈنمارک کو 29تا 30 جون 2019ء اپنا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ا ٓپ کے جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب و کامران کرے اور شاملین جلسہ کو اس کی روحانی برکات سے پوری طرح مستفیض ہونے کی توفیق دے۔ آمین
اس جلسہ میں شاملین کے لیے میرا پیغام ہے کہ آپ میں سے ہر فرد جماعت کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ نے اس زمانہ کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر تھی اور جسے آنحضرت ﷺ نے سلام بھیجا ہے۔ ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے۔ اس اعزاز کی قدر کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور قدر یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کی کوشش کریں جن پر چلنے کے لیے اس جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے جن باتوں کا ہم سے عہد لیا ہے ان کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی سعی کریں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر احمدی سے یہ توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، لڑائی جھگڑا، ظلم، خیانت، فساد اور بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے۔ بعض لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اس کو شرک کے برابر ٹھہرایا ہے۔ اس لیے اس کو معمولی نہ سمجھیں اور سچائی کو اختیار کریں۔ پھر آپس کے جھگڑے اور لڑائیاں ختم کریں اور اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ اس کی بہت ضرورت ہے۔ رنجشیں مٹائیں، دوریوں کو ختم کریں اور ایک وجود کی طرح بن جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شرائط ِ بیعت رکھی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ نفسانی جوش کے تحت نہ زبان سے نہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں دینی۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے اور خالص خدا کے لیے ہو جانا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اورخوش خورہوں بلکہ خداتعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا کے لیے ہی ہو جاتے ہیں۔
پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو۔ نہ پہلے امر کی طرف۔ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو اور اس کو مقدم کر لو۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ597-596)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرماتے ہوئے جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع رکھنے کے لیے خلافت کے نظام کو جاری فرمایا ہے اور قیامت تک جاری رکھنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔ آپ نے ایک عہد بیعت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا اور ایک آپؑ کے بعد آپ علیہ السلام کے نام پر خلیفۃ المسیح سے کیا ہے جسے ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بیعت بیچ دینے کا نام ہے یعنی اپنی خواہشات، تمام تر خواہشات اور جذبات کو خد ا تعالیٰ کے حکموں پر قربان کرنے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا عہد ہے۔ پس خلافت سے کامل وفا اور اطاعت کا تعلق رکھیں۔ بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت ہو اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔ اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی اطاعت کی تلقین کرتے رہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ خلافت کی اطاعت میں نظام جماعت کی اطاعت بھی اہم بات ہے۔ اس کے بغیر نہ نیکیاں ہیں اور نہ عہد کی پابندی ہے۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی نظام جماعت ہی ہے۔ اگر خوبصورتی سے دور ہٹ گئے تو ہم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت سے تو ہمارا وفا کا تعلق ہے لیکن جماعتی نظام سے اختلاف ہے۔ ایسے لوگ یاد رکھیں کہ جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہوا ہے اس لیے نظام جماعت کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جماعتی نظام سے جوڑیں۔ اپنی اپنی تنظیموں سے جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے۔ ایم ٹی اے اس کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ ہر گھر میں ایم ٹی اے دیکھنے کا انتظام ہونا چاہیے۔ کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ ایم ٹی اے سنیں اور دیکھیں۔ میرے خطبات سنانے کا انتظام کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کا فرمانبردار بنائے تا کہ آپ اللہ کے فضلوں کے وارث بنیں جو اللہ تعالیٰ نے خلافت اور نظام جماعت کی اطاعت کے ساتھ وابستہ کیے ہیں۔ آمین
فن لینڈ میں جلسوں کا قیام
1987 کے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے پہلی دفعہ فن لینڈ میں احمدیت کے قیام کا اعلان فرمایا اور محترم سید کمال احمد یوسف صاحب مبلغ انچارج ناروے اور مخلص داعیان الیٰ اللہ کے 2 دوروں کا ذکر فرمایا جن کی کوششوں سے 15 افراد نے احمدیت اسلام میں شمولیت اختیار کی۔
اس قیام کے بعد 2000ء تک جب فن لینڈ میں باقاعدہ صدارت کا قیام عمل میں آیا تب تک گنتی کے 2۔4 افراد ہی موجود تھے اور جب خاکسار 2006ء میں فن لینڈ پڑھنے کے لیے آیا تو اُس وقت ہم پورے فن لینڈ میں کم و بیش صرف دس لوگ ہوتے تھے اور اکثر مختلف شہروں میں پڑھ رہے تھے۔
خاکسار 2006ء میں جب یوئینسو شہر میں جب پڑھنے کے لیے آیا جس کی سرحد ایک طرف سے روس کے ساتھ ملتی ہے۔ یہاں پڑھائی کا ایسا زبردست نظام دیکھ کر پڑھنے کا ایسا دل کرتا تھا کہ مزہ ہی آ گیا۔ دن یونیورسٹی میں اور شامیں لائیبریریز میں گزرتیں، ویک اینڈ پر اکثر اگر گرمیاں ہوں تو دوستوں کی معیت میں ٹریکنگ، سائیکلنگ اور فارسٹ ایکسپلوریشن کے لیے چل پڑتے اور سردیوں میں باربی کیو، گیٹ ٹو گیدر یا مختلف کلچر اور مذاہب کے لوگوں سے ملنے اور بات چیت میں صرف ہوتا۔ مختلف لوگوں کو جاننے اور مختلف کلچرز اور مذاہب والوں سے گفتگو اور ان کو اپنے مذہب اسلام اور احمدیت کے بارے میں بتانے کا ایسا چسکا پڑا کہ شاموں کو لائیبریریز میں گزارنے والے وقت کو ان پر قربان کر دیا۔
اُس وقت خاص طور پر اسلام کے بارے میں بہت کم علمی پائی جاتی تھی اور اکثر کلاس فیلوز احمدیہ اسلام کے بارے میں جان کر بہت حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ بہرحال ان دلچسپیوں میں اور پڑھائی میں احمدیوں سے ملنے کا واحد وقت عیدین ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا 2006ء میں اُس وقت ہم پورے فن لینڈ میں کم و بیش صرف دس لوگ ہوتے تھے اور اکثر مختلف شہروں میں پڑھ رہے تھے۔ ایسے میں نماز عید کے لیے راتوں کو سفر کر کے ہیلسنکی پہنچنا اور وہاں اپنے لوگوں سے مل کر ایسا دلی سکون ملتا تھا جس کی مثال نا پید ہے۔ اس دور میں ہم بیٹھ کر فن لینڈ میں احمدیت کی ترقی کی باتیں کر کے اور جلسہ سالانہ اور اجتماعات اور نماز سینٹر کے قیام اور مربی صاحب کی آمد وغیرہ کے بارے میں اور نا جانے کس کس مستقبل کی باتیں کر کے دل خوش کیا کرتے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ِ کہ اتنی جلد ان ترقیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دل اللہ کی حمد اور اس کی قدرت پر جھوم اٹھتا ہے۔ آہستہ آہستہ اور سال بہ سال اور احمدی بھائی پڑھائی کے لئے فن لینڈ آتے رہے اور یہ کارواں کب اتنا بڑا بن گیا کہ پتا ہی نہ چلا۔ مجھے یاد ہے 2010ء میں پہلی نیشنل مجلس عاملہ کے انتخاب و منظوری کے بعد جب 2011ء میں یہ فیصلہ ہو ا کہ ہم اپنا پہلا جلسہ سالانہ منعقد کریں گے توہر ایک کے چہرے پر اتنی خوشی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ اُس وقت کے نیشنل صدر جماعت مکرم احمد فاروق قریشی صاحب نے حضور انور کی خدمت میں جلسہ کی منظوری کے لیے لکھا اور حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے 2011ء میں عید الاضحی سے ایک روز قبل پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ خاکسار جو نیشنل جنرل سیکریٹری کے طور پر خدمت کر رہا تھاکو اس تاریخی جلسہ پر صدر صاحب کی زیر قیادت افسر جلسہ سالانہ کے طور خدمت سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت مشنری انچارج سویڈن مکرم آغا یحییٰ خان صاحب کو بطور نمائندہ کے اس جلسہ میں شمولیت کی منظوری عطا فرمائی۔ مکرم و محترم سید کمال احمد یوسف صاحب سابق مشنری انچارج سکینڈینیویا جن کی محنت و قربانیوں نے فن لینڈ میں احمدیت کی بنیاد رکھی تھی کو بطور خصوصی مہمان جلسہ سالانہ پر مدعو کیا گیا۔ صدر صاحب کی معیت میں سب نے مل کر ہر ایک کام انجام دیا، ہم نے سفید کپڑے پر کاغذ کے پرنٹس سے جلسہ سالانہ لکھا اور ایک چھوٹے سے کرایہ کے ہال میں ہم نے اپنا پہلا جلسہ کیا۔
جلسہ سالانہ کی وسعت اور تدریجی موازنہ
جب فن لینڈ کی چھوٹی سی جماعت جو کہ 95 فیصد نوجوانوں پر مشتمل تھی کو اللہ تعالیٰ نے 2011ء میں پہلا جلسہ سالانہ منعقدکرنے کی توفیق عطا فرمائی تو وہ دن خاص خوشی کا حامل تھا تمام جماعت کے ممبران میں عجیب سی خوشی تھی کہ وہ دن آ گیا ہے جس کا برسوں سے انتظار تھا۔ یہ جلسہ اس لحاظ سے خاص ہے کہ اس جلسے میں کیا عہدے دار، کیا افسر اور کیا غیر عہدے دار سب نے اتنے خلوص اور محنت سے اس میں شمولیت کی اورمختلف شعبہ جات میں ڈیوٹیاں دیں کہ جوباہمی یگانگت اور بھائی چارہ کی عمدہ مثال تھی۔ جس کاذکراس موقع پر محترم سید کمال احمد یوسف صاحب (سابق مشنری انچارج سکینڈے نیویا ) اور محترم آغا یحییٰ خان صاحب نے بھی کیابلکہ اس جلسہ کے بعد بھی کئی بار ذکرخیرکیا۔ اس وقت یہ جلسہ صرف ایک روز کا تھا اور اس مقصد کے لیے وہی ہال کرائے پر لیا گیا جو کہ عموماً عید کے لیے لیا جاتا ہے۔ جلسہ سے پہلے سب نے مل کر وقار عمل کے ذریعہ ہال کو تیار کیا اور اس میں وقار عمل کر کے لجنہ کے حصے کے لیے پارٹیشن تیار کی۔ شاملین کی کل تعداد 75 تھی۔
اس جلسے کہ بعد حوصلہ اور ٹریننگ بھی بڑھ گیا اور اگلے سال دوسرا جلسہ سالانہ 2012ء ایک مقامی ہوٹل کے 2 ہال کرائے پر حاصل کر کے وہاں کیا گیا۔ اس جلسے پر ڈیوٹیوں کی تقسیم میں بہتری آئی اور تقاریر اور نظموں اور تلاوت کے لیے تیاری کروائی گئی جس کی وجہ سے معیار پہلے سے بہتر رہا، اس جلسے پر پہلی دفعہ بیک گراؤنڈ بینر ڈیزائن کروا کے پرنٹ کروایا گیا جبکہ پچھلے جلسہ پر پیپر پنٹینگ پر اکتفا کیا گیا تھا۔ کھانے کا انتظام باہر کے ریستوران سے ہی کیا جاتا رہا جبکہ تقسیم کا کام احسن طریق پر جاری رہا۔ اس جلسے پر مردوں کے علاوہ خواتین کی رہائش کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔
2013ء میں جماعت کو تیسرا جلسہ سالانہ کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور اس جلسے میں حاضری کی طرف خاص توجہ کی گئی جس کا نمایاں اثر جلسہ سالانہ پر نظر آیا، ٹرانسپورٹ اور رہائش کے شعبوں میں بہتری آئی اور ممبران کو موٹیویٹ کیا گیا جس پر بہت لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں، کاموں کی تقسیم کار میں مزید بہتری آئی، نیز اس جلسہ پرانگلش ترجمہ کے لیے ایف ایم ریڈیو کا استعمال پہلی دفعہ کیا گیا، بہت سے عارضی میٹرس اور گدے رہائش کے لیے حاصل کئے گئے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے انفارمیشن پیکج جماعت کے لیے تیار کر کے بھجوایا گیا۔
2014ء کا جلسہ سالانہ کئی لحاظ سے نئے پہلو لیے ہوئے تھا، اس جلسے سے پہلے ہمارے اپنے مبلغ سلسلہ حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیے اور مکرم مصور احمد شاہد صاحب بطور مربی سلسلہ فن لینڈ تعینات ہو گئے تھے۔ نیز اس جلسہ سالانہ پر پہلی دفعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا خصوصی پیغام جماعت احمدیہ فن لینڈ کے نام ارسال فرمایا نیز محترم آغا یحییٰ صاحب کو بطور اپنا نمائندہ کے بھجوایا۔ نو منتخب نیشنل صدر مکرم عطا الغالب صاحب کی زیر قیادت جلسہ کے پروگرام اور تقاریر کے معیار میں مزید اضافہ ہوا اور اس جلسہ میں پہلی بار غیر احمدی وغیر مسلم مہمانوں کے لیے ایک سیشن مختص کیا گیا اور اس میں لوگ اپنے اپنے تبلیغی رابطے لے کر آئے جو کہ بعد میں فن لینڈ میں پیس سمپوزیم کی ابتدا ثابت ہوا۔ اس پیغام کے ایک حصہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔ ’’سیدنا حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جلسوں کی غرض و غایت یہ بیان فر مائی ہے کہ تقویٰ میں ترقی ہو۔ دل بکلّی آخرت کی طرف جھک جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔پس آ پ جو اس جلسہ کے لئے ہی سفر کر کے آئے ہیں۔آپ ان اغراض و مقاصد کو اپنے پیش نظر رکھیں۔ ایّام جلسہ میں دین کا علم حاصل کریں۔ نیک ماحول کے زیر اثر رہ کر رو حانیت میں ترقی کرنے کی کو شش کریں۔اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھیں۔ عبا دتوں کے معیار کو بڑھائیں اور اس معیار پر لانے کی کو شش کریں جو معیار اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے چاہا ہے۔‘‘
2015ء کا جلسہ کاموں اور پریکٹس کے لحاظ سے بہت ہی شاندار رہا اس جلسہ میں بہت سے شعبہ جات کی صحیح پریکٹس ہوئی، پہلی بار مہمانوں کے لیے 2 دنوں میں 2 دفعہ کا کھانا خود ضیافت کی ٹیم نے بنایا اور کھانا پکانے کے لیے چولہے خریدے گے۔ حاضری کا معیار بہت اچھا رہا اور رضاکارانہ طور پر پیش کرنے کا جذبہ لوگوں میں بڑھا۔ جلسہ کے دنوں میں فن لینڈکی تاریخ سے متعلق ایک انٹرویو سیشن بھی خاکسار کو ارینج کرنے کا موقع ملا جس میں سابق نیشنل صدر صاحب فن لینڈ، نیشنل صدر صاحب فن لینڈ، مربی صاحب سلسلہ فن لینڈ، محترم سید کمال احمد یوسف صاحب ناروے، مکرم مبلغ انچارج صاحب سویڈن اور شمس صاحب سویڈن شامل تھے۔ اس سے پہلے اسی نوعیت کا انٹرویو سیشن 2014 ء کے جلسہ میں بھی خاکسار کو تاریخ محفوظ کرنے کے سلسلے میں ارینج کرنے کی توفیق ملی تھی۔
2015ء کے جلسہ پر بھیجے گے پیغام کے ایک حصہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بے حد فضل اور احسان ہے کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد خلافت کے نظام کو جاری فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم اس نظام سے منسلک رہیں اور اس نعمت عظمٰی سے چمٹے رہیں۔ اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اپنے تقویٰ میں ترقی کے لیے خلافت سے خود بھی وابستہ ہوں اور اپنی اولادوں کو بھی اس سے وابستہ رہنے کی تلقین کریں اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کریں۔‘‘
2016ء کے جلسہ کے لیے پھر ایک نئی جگہ لی گئی جس کی وجہ سے پلاننگ بہت مختلف رہی اور بہت اچھی پریکٹس رہی۔ دونوں دنوں کے لئے کھانا خود تیار کیا گیا، ٹرانسپورٹ اور رہائش کے شعبے میں مزید بہتری لائی گئی۔ اس جلسہ سالانہ پر بھی جماعت کی خوش قسمتی رہی کہ حضور انور نے ہمیں اپنے پیغام سے نوازا۔
2016ء کے جلسہ پر بھیجے گئے اس پیغام کے ایک حصہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کے فیض کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے خلافت کے سلسلہ کو قائم فرمایا ہے۔ عبادات اور تقویٰ میں ترقی کے لیے اس روحانی نظام سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔ آ پ خلافت سے وا بستگی سے ہی روحانی کامیابیوں کے حاصل کر نے والے ہوں گے۔ خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق بنانے اور اطاعت کے معیار کو بلند کرنے کیلئے کو شش اور جدو جہد کر تے رہیں۔ خلیفہ وقت کے خطبات خود بھی سنیں اور اپنی اولاد کو بھی سنائیں۔ خلافت سے گہری محبت ہونی چاہیے اور اطاعت کا مثالی رشتہ قائم ہو نا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ آ پ سب کو خلافت احمدیہ کا سچا مطیع و فرمانبردار بنائے۔ اللہ تعالیٰ آ پ کو اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔ آمین‘‘
2017ء کا جلسہ اپنے انتظامات اور میچورٹی کی وجہ سے ایک بہت ہی آرگنائزڈ ایونٹ تھا، ہال کو مطلوبہ وقت پر واپس کرنا تھا جس کی وجہ سے بھر پور کوشش کر کے تمام کارکنان و افسران نے وائنڈ اپ میں حصہ لیا اور برادرانہ سپرٹ سے وقت پر بہترین حالت میں ہال واپس کر دیا۔ اس جلسہ میں 217 لوگ شامل ہوئے جن میں 100 خدام و انصار، تقریبا60 لجنہ اور 40 سے زائد بچوں نے شرکت کی ان کے علاوہ 6 ملکوں سے مختلف مہمانان بھی شامل ہوئے۔2011ء میں پہلے جلسہ سے2017ء میں ساتویں جلسہ تک 7 سال کے قلیل عرصہ میں جلسہ کے شاملین کی تعداد 75 سے بڑھ کر 217 تک جا پہنچی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
2017ء کے جلسہ پر الحمد اللہ ایک بار پھر ہمیں اپنے آقا اور حضور کی طرف سے پیغام موصول ہوا، اس پیغام کے ایک حصہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’پس یہ اصل تقویٰ کی راہیں ہیں جو قرآن کریم کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ہمارے لئے بیان فرمائی ہیں۔ پہلے نفس امارہ کے برتن کو صاف کریں۔ جب یہ صاف ہو جائے تو اس میں نیکیاں ڈالیں۔ بلند مراتب قرب الٰہی ان باتوں کے بعد ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر احمدی کو نیکیوں اور زہد میں بڑھنے کی توفیق دے۔ اللہ آپ کو اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔ خلافت احمدیہ جو حضرت مسیح موعود کے فیض کو جاری رکھنے کے لئے قیامت تک قائم کی گئی ہے اس سے کامل وفا کا تعلق پیدا کریں۔ اس سے آپ کی ہدایت کے سامان پیدا ہوں گے۔ خلافت کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنے گی۔‘‘
2018ء میں نارڈک ممالک کا اکٹھا جلسہ سالانہ ناروے منعقد ہوا نیز 2019ء کا جلسہ سالانہ فن لینڈ بھی ہر جلسہ کی طرح برکتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھتے ہوئے اور اس حیثیت کو دیکھتے ہوئے جو کہ پہلے جلسہ سالانہ میں تھی اور اب جس مقام پر پہنچ گئی ہے، دل حمد کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ان برکات سے حصہ لینے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ تمام خدمت گزاروں کی خدمت قبول فرمائے اور ان کو اپنا بنا لے۔ آمین
(مرسلہ طاہر احمد)
آئس لینڈ میں احمدیت کا نفوذ
آئس لینڈ میں پہلی دفعہ اشاعت اسلام کے لئے مئی 1969ء میں مبلغ گئے۔ اور انہوں نے خود جگہ مقرر کر کے اخبار میں اعلان کیا تو اس دن دو سو لوگ حقیقی اسلام احمدیت کا یہ پیغام سننے کے لیے جمع ہو گئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
وہاں پہ چونکہ ویسے ہی آبادی بہت کم ہے۔ اس لیے اس وقت جماعت کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا لیکن اب کچھ 5سال سے وہاں جماعت قائم ہو چکی ہے۔ اور آئس لینڈ شہری بھی مہدی کی بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔
لیکن چونکہ تعداد کم ہے اس لیے صرف سالانہ جلسے نہیں ہوتے۔ باقی تبلیغی اور جماعتی کام باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ اور امیر اور مربی کی بھی تعیناتی ہو چکی ہے۔
(امۃ القدوس قدسیہ۔ ناروے)