• 27 اپریل, 2024

جلسہ ہائے سالانہ جماعت احمدیہ گھانا پر ایک طائرانہ نظر

جلسہ سالانہ وہ بیج ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنے ہاتھ سے لگایا۔ خدا کے فضل سے یہ بیج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ جس کی سرسبز شاخیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جماعت احمدیہ گھانا بھی اس درخت سے باثمر ہے۔ جب سے جماعت احمدیہ کا آغاز ہوا یہاں بھی جلسہ ہائے سالانہ منعقد کئے جاتے رہے ہیں۔ پہلا جلسہ سالانہ 2 تا 4 اگست 1923ء کو Essiam میں منعقد کیا گیا۔ جماعت احمدیہ کا ہیڈ کوارٹر سالٹ پانڈ بن گیا تو پھر یہ جلسے سالٹ پانڈ میں ساحل سمندر کے پاس منعقد ہونے شروع ہوئے۔ 1957ء میں ہونےوالے جلسے کے شرکاء کی تعداد 5 ہزار بتائی جاتی ہے۔

یہ جلسے سالٹ پانڈ میں ساحل سمندر کے قریب ناریل کے فلک بوس درختوں کے نیچے منعقد ہوتے تھےجن کا منظر نہایت پر کیف ہوتا تھا۔یہ وہی سمندر کا کنارہ تھا جہاں 1921ء میں جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب تن تنہاء اترے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 11 فروری 1988ء کو یہیں تشریف لا کر جلسہ سالانہ گھانا کے موقع پر احباب سے خطاب فرمایا تھا۔

جماعت احمدیہ کا ہیڈ کوارٹر اکرا شفٹ ہوا تو مختلف مقامات پر جلسے ہوتے رہے 1991ء اور 1992ء میں انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹرمیں جلسہ منعقد ہوا۔تاہم بعد میں جماعت کی نئی جلسہ گاہ ’’بستان احمد‘‘ نامی میں 1994ء سے جلسے منعقد ہونا شروع ہوئے۔ یہ اراضی 25 ایکٹر پر مشتمل ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں 2004ء میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس شرکت کی اور آپ کے جملہ خطبات و خطابات MTA کے توسط سے دنیا بھر میں سنے اور دیکھے گئے۔

بعد ازاں جماعت احمدیہ نے Winneb کے قریب 453 ایکڑ زمین خریدی جسے باغ احمد کا نام دیا گیا۔ یہاں جلسے منعقد ہونا شروع ہوئے۔ تا حال یہی ہماری جلسہ گاہ ہے۔ 2008ء سے ہونے والے خلافت جوبلی کا پہلا عالمی جلسہ بھی یہیں منعقد ہوا۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس شامل ہوئے۔ MTA نے اس کی خوب ترویج کی۔ اس جلسہ میں افریقہ کے علاوہ دوسرے براعظموں سے بھی ایک کثیر تعداد میں احمدی دوست شامل ہوئے۔

جلسہ کی آمد سے 2 یا 3 ماہ قبل باغ احمد میں وقارعمل شروع ہوجاتا ہے۔ قریبی ریجنز کے خدام رضاکارانہ طور پر باری باری یہاں آتے ہیں اور وقارعمل کے ذریعہ جڑی بوٹیاں کاٹتے اور پورے علاقے کی صفائی کرتے ہیں۔ جب کچھ وقت قریب آتا ہے تو سڑکیں بنتی ہیں اور ان پر پانی کا چھڑکاؤ ہوتا ہے۔ Canopies لگائی جاتی ہیں۔رہائش گاہ تیار کی جاتی ہے اور ان کی صفائی کی جاتی ہے۔

2 سے 3ماہ کے مسلسل وقارعمل سے ایک چھوٹا سا گاؤں تیار کیا جاتا ہے۔ جہاں رہائش، کچن، جلسہ گاہ، مارکیٹ، پارکنگ وغیرہ سب سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ ہر بار حالات کے مطابق جلسہ کا ایک موضوع مقرر کیا جاتا ہے۔ تمام تقاریر کا محور یہی موضوع ہوتا ہے۔

جلسہ تین دن کا ہوتا ہے۔ پہلے دن نماز تہجد با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ جسکے بعد ’ہمارا جلسہ سالانہ از تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘ کے موضوع پر درس ہوتا ہے۔ نماز فجر کے بعد مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب گھانا کے احباب جماعت سے مخاطب ہوتے ہیں جلسہ کے حوالہ سے عمومی ہدایات دیتے ہیں۔

افتتاحی اجلاس میں ہمیشہ ملک کی کوئی اہم سیاسی شخصیت کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے۔ ماضی میں گھانا کے تمام صدران مملکت اور ان کے نائب صدران ہمارے مہمان بن چکے ہیں۔ مکرم امیر جماعت احمدیہ مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آنے والے مہمانوں کا تعار ف کروایا جاتا ہے۔ اس کےبعد ظہر اور عصر جمع کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ایک سیشن ہوتا ہے۔ تیسرا سیشن نماز عشاء کے بعد ہوتا ہے جس میں تلاوت اور نظم کے بعد ایک یا دو تقاریر ہوتی ہیں۔

دوسرا دن عموماً جمعہ کا ہوتا ہے۔ پہلے سیشن کے بعد جمعہ کی تیاری کی جاتی ہے۔ نماز جمعہ کے وقت بڑا ہی پرکشش اور روح پرور نظارہ ہوتا ہے۔ گھانین احباب و خواتین سفید لباس زیب تن کرتے ہیں تا حد نظر سفید رنگ میں ملبوس فرشتوں کا گمان ہوتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کاخطبہ جمعہ سنایا جاتا ہے۔ جس کے بعد مکرم امیرصاحب جماعت گھانا مقامی طور پر خطبہ جمعہ دیتے ہیں اس کےبعد دوسرا اور تیسرا سیشن جاری رہتا ہے۔ تیسرے دن تیسرا سیشن بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جس کی صدارت مکرم امیر صاحب جماعت گھانا کرتے ہیں۔ جنرل سیکرٹری جماعت اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہیں مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ تعلیمی میدان میں سبقت لے جانے والے طلباء کو میڈل پہنائے جاتے ہیں۔ ہر ریجن کے نمائندوں کو سٹیج پر بلا کر اپنی اپنی زبانوں میں نغمات گانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ خوب نعرے لگتے ہیں۔ مکرم امیر صاحب کا خطاب عمومی نصائح پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس سیشن کی اختتامی دعا کے بعد جلسہ کا اختتام ہوتا ہے۔

اگلے روز صبح نماز تہجد باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ نماز فجر کے بعد احباب اپنی اپنی گاڑیوں، بسوں کے ذریعہ اپنے اپنے ریجنز کو عازم سفر ہوتے ہیں۔ بڑا دلکش نظارہ ہوتا ہے۔بسوں کی چھتوں پر سامان باندھا جاتا ہے۔ فلک شگاف نعرے بلند ہور ہے ہوتے ہیں۔آئندہ سال ملنے کی امید کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کیا جاتا ہے۔

جلسہ کی ایک ناقابل فراموش بات” نماز تہجد باجماعت” ہے ایک عجیب پر کیف نظارہ ہوتا ہے۔ ایک جم غفیر رات کے اندھیرے میں اپنے اپنے جائے نماز لئے نماز گاہ کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ اندھیرے میں جلتے ہوئے قمقمے اور بلا کی خاموشی۔ صرف امام کی خوبصورت قراءت سپیکرز کی مدد سے ہر سو پھیلتی ہوئی کانوں میں رس گھولتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ یقیناً فرشتوں کا نزول ہورہا ہے اور وہ ان سر بسجود اللہ کے عاجز بندوں پر رحمتیں نازل کررہے ہیں۔ ایسی پر سوز دعائیں ہیں جویقیناً اللہ کے عرش کو ہلا کر رکھ دیں گی۔

جلسوں کے دوران کچن کا نظارہ اپنی کشش اور جاذبیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ گھانا کا مرکزی کچن مدعو مہمانوں اور مرکزی مہمانوں کے لئے کھانا بناتا ہے تاہم تمام ریجنز اپنا کھانا خود بناتےہیں کچن میں جائیں تو ہر ریجن کی عورتیں پسینہ میں شرابور مگر چہروں پرمسکراہٹ سجائے اپنے کام میں جتی ہوئی ہیں اوراپنے ریجن کے افراد کے لئے کھانا تیار کررہی ہیں۔ کچن جانے والے ان عورتوں کہ اس بے لوث جذبہ ء خدمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

جلسہ کی ایک اور خاص بات حمدیہ نغمات ہیں۔ ان حمدیہ نغمات کا ایک خاص رنگ ہوتا ہے اپنی اپنی لوکل زبانوں میں اللہ اور اس کے رسول اور احمدیت کے حوالہ سے تیار شدہ نغمات گائے جاتے ہیں۔ یہ نغمات پورے پنڈال میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ فلک شگاف نعرہ ہائے تکبیر لگتے ہیں۔ سارے احباب حمدیہ نغمات الاپ رہے ہوتے ہیں۔ یہ نظارہ کچھ ایسا دلکش اور پر کیف ہوتا ہے جس کا بیان شاید میرے الفاظ نہ کر سکیں۔ یہ نغمات سامعین میں ایک جوش اور ولولہ بھر دیتے ہیں۔

جلسہ تو ہے ہی روحانی مائدہ تربیتی اور اصلاحی موضوعات پر محنت سے تقاریر تیا رکی جاتی ہیں۔بہترین مقررین کا انتخاب ہوتا ہے۔ بعض تقاریر کا ساتھ ساتھ رواں ترجمہ ہوتا ہے لیکن بعض دیگر اہم تقاریر کا ایک سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح جلسہ پر آنے والے تمام احباب اس روحانی مائدہ سے مستفید ہوتے ہیں۔

جماعت احمدیہ گھانا کے وہ جلسے جن میں خلفاء احمدیت شامل ہوئے وہ تو جلسہ سالانہ کی تاریخ کا جھومر ہیں۔ ہمارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2008ءکےجلسہ سالانہ گھانا کے افتتاحی خطاب کے موقع پر ساری دنیا کو مخاطب کر کہ گھانین احمدیوں کی بعض خوبیوں کو سراہا۔ آپ نے فرمایا
’’میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ یہ جذبات، وفا اور محبت جو ہر چھوٹے بڑے کے چہرہ پر ہویدہ تھے میرے دل میں نہ صرف آپ کے لئے گہری محبت کا باعث بن گئے بلکہ میں تو دنیا کے دیگر ممالک کے احمدیوں کو بھی کہنے لگ گیا کہ خلافت کے ساتھ محبت کےگر سیکھنا ہیں تو گھانا کے احمدیوں سےسیکھیں۔ اس لئے اے گھانا کے احمدیو! میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہو ں کہ آپ نے خلافت کے ساتھ اپنے پیمان کو پورا کردیا لیکن یاد رہے کہ شیطان ہمیشہ دو تعلقات کے درمیان دراڑیں ڈالنے کو تیار رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اس تعلق کی حفاظت نہیں کی جاسکتی۔‘‘

پھر فرمایا :
’’افریقہ کے ساتھ میرے پہلے تعلق کے باعث میں نے ہمیشہ اہل غانا کی تعریف کی ہے۔ کہا جاسکتاہے کہ میری حیثیت گھانا کے نمائندہ سفیر کی رہی ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مجھے کبھی کسی گھانین سے شکایت نہیں ہوئی۔ میں نے ہمیشہ انہیں شریف النفس اور باوفا پایا ہے۔ اس لحاظ سے آج اگر میں ان کا مداح ہوں تو یہ ان کا حق ہے۔‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 16مئی تا 22 مئی 2008ء ص 11، 12، 16)

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ گھانا کے اخلاص اور محبت میں برکت ڈالے اور اسے خلافت کی ممد و معاون بنائے۔ آمین

(فہیم احمدخادم۔گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021