حضرت نوح ؑ قوم پر جب عذاب نازل ہوا تو اس نے اس وقت کی معلوم دنیا کے ایک بڑے حصے کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حضرت نوح ؑ کے سیلاب کا واقعہ آج سے پانچ ہزار سال قبل یعنی تقریباً 3 ہزار سال قبل مسیح رونما ہوا۔ سیلاب کے بعد حضرت نوح ؑ کے تینوں بیٹوں، سام، حام، اور یافث کے زریعے دنیا میں موجود نسلوں کا آغاز ہوا۔ موجودہ عرب قومیں سام کی اولاد میں سے ہیں، سیاہ فام نسل کی قومیں ِیعنی حبشی، افریقی، اور ملکِ ہند اور سندھ کے قدیم باشندے، حضرت نوح ؑ کے بیٹے حام کی نسل سے ہیں اس کے علاوہ دیگر، سرخ وسفید نسل کی قومیں جو ہندو، یوروپی لوگ حضرت نوح ؑ کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں سامی نسل کے لوگ دجلہ اور فرات کی وادیوں میں آباد ہوئے۔ عراق کے شمالی علاقے ’اکاد‘ میں پروان چڑھنے والی، قدیم قوموں میں ِآسیرین وبابیلین لوگ آج کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان قدیم قوموں کے علاوہ ایک اور قوم جو ’’سومیری‘‘ نام سے پہچانی جاتی ہے۔ جس کا مسکن اگر چہ عراق کا جنوبی علاقہ ہے، مگر اپنی نسل اور زبان کے اعتبار سے سامی نسل سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ اس نسل کا ارتقاء حضرت نوحؑ سے بھی 500 سال قبل بتایا جاتا ہے۔
اب تک دریافت ہونے والے کھنڈرات کی وجہ سے ماہرین اسے دُنیا کی قدیم ترین تہذیب کہتے ہیں۔
جس کی شناخت سمیری زبان اور میخی رسم الخط سے ہوئی ہے، جو کہ آج تک محفوظ چلی آتی ہے اس تہذیب کی زبان انڈو۔ یوروپی زبانوں کے خاندان سے قطعی مختلف ہے۔ بلکہ اس میں کسی قدر، تورانی، فنش اور ھنگری زبانوں کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فینو ہنگیرین زبان کا خاندان، انڈو۔ یوروپی زبان کے خاندان سے قطعی مختلف ہے۔ اس کے ساتھ توران اس لئے ہے کہ ’’پان تورانی‘‘ تحریک کے دوران، فن لینڈ اور ہنگری نے توران کے ساتھ اپنے تعلق کو تسلیم کر لیا تھا، اصل میں، توران، سے مراد وہ قوم یا ایسی زبان بولنے والی قوم ہے جس میں قدیم ترکی یا ایرانی رنگ پایا جا تا ہو۔
واضح ہو کہ اس تمام زمین سے مراد صرف بابل کی زمین نہیں ہوسکتی جو سغارکے نام سے موسوم ہے۔ پس آیت مذکورہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام وہ قومیں جو زمین میں رہتی تھیں۔ ان کی ایک ہی زبان تھی، اُس وقت تک کہ ان میں ایک گروہ اُن میں سے بابل نہیں پہنچا تھا۔ پھر بابل میں پہنچنے کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کی زبانیں متفرق کر دیں۔ اور زبانوں کااختلاف یوں ڈال گیا کہ بابل کے رہنے والے مختلف ملکوں میں نکال دیئے گئے۔پھر فرماتے ہیں، چونکہ نوح ؑ طوفان کے بعد خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ بہت جلد دُنیا اپنی توالد وتناسل میں ترقی کرے۔ اس لئے اس قادر ِ مطلق نے ایک مدّت تک اُن کو صحت اور امن کی حالت میں چھوڑ دیا تھا۔ تب وہ بہت بڑے اور پھولے اور ایک خارق عادت کے طور پر اُن میں ترقی ہوئی، تب بعض قوموں نے اپنے ملک میں گنجائش کم دیکھ کر سخار کی زمین کی طرف جو بابل کی زمین تھی حرکت کی، اور اس جگہ آکر اس شہر کو آباد کیا اور تمام دُنیا میں میں بولیوں کا تفرقہ پڑنے کا مو جب بنے۔‘‘
حضرت مسیحِ موعود کے اس فرمان سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ، بابل کی تہذیب جو قدیم عراق(عرب) میں شامل تھی قدیم ترین تھی، اور وہاں بولی جانے والی قدیم زبان عربی تھی۔ لہٰذا سو میری زبان بھی اُنہی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ جو بابل کی اصل زبان کے اختلاف کے بعد وجود میں آئی تھی
سومیری، قوم بابائے اردو ایوارڈ یافتہ، ابن ِ حنیف اپنی کتاب ’’دنیا کا قدیم ادب‘‘ میں لکھتے ہیں تاریخی لحاظ سے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،یعنی شمالی، وسطی، اور جنوبی عراق، تاریخی ادوار میں ان تینوں میں سے شمالی کو، اشور، وسطی کو اکاد اور جنوبی کو اکاد کہا جا تا تھا۔ عراق کا جو علاقہ بعد میں ملک بابل کہلایا۔ اس سے قبل وہ سیاسی لحاظ سے شمال میں اکاد، اور جنوب میں سومیر نامی دو ریاستوں پر مشتمل تھا۔عراقی تاریخ کے طویل دور میں وہاں باہر سے بھی آکر مختلف اقوام آباد ہوتی رہیں۔ گویا یہ ملک۔ ازمنۂ قدیم میں متعدد ایسی اقوام کا مسکن رہا ہے۔ جو تاریخ کے اوراق پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کرگئی ہے۔
ان اقوام میں سومیری، سامی، غیر سامی، اکادی، بابلی،اور اشوری شامل تھیں۔ سومیری تہذیب کا آغازآج سے 5500 برس پہلے ہوا تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی عراق کی یہ تہذیب تاریخی دور سے بھی پہلے شروع ہو کر اپنی عروج کی انتہا تک پہنچی، اور تقریباً تین ہزار برس تک تمام دنیا پر اپنی عقل و حکمت کے آثار ڈالتی رہی اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ وہ تمام علاقے جو پرانی عراقی تہذیب کے حامل بنے وہ سب دجلہ فرات کے قرب وجوار میں ہی آباد تھے، دریا کے نواح میں ہونے کی وجہ سے یہ علاقے اکثر سیلاب اور طوفان کی زد میں رہتے تھے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بار بار اُجڑنے اور بسنے کے خوف سے اور سیلاب و افتاد سے بچنے کے لئے، اُنہوں نے مختلف طریقے اور ذرائع نکال لئے تھے، مثلا شہروں کا بے شمار پھیلاؤ۔ باغات کی کاشت، علمی میدان میں سوجھ بوجھ اورترقی، لہٰذا یہ تمام طریقے کار اور ذرائع بار بار کے طوفا ن کو روکنے اور سیلابوں پر بند باندھنے کے لئے بہت مؤثر ثابت ہوئے۔جنوبی عراق کا یہ خطہ جو اپنی تہذیبی بالا دستی کی وجہ سے باقی عراق کے تمام علاقوں پر اثر انداز تھا، سیاسی لحاظ سے بھی مکمل بالا دستی رکھتا تھا، اس خطے اور ا س میں بسنے والی قوم کو 4000قبل مسیح سے لیکر 2000قبل مسیح تک سیاسی بالا دستی رہی، گو کہ بیرونی حملہ آور ہر طرف ا س علاقے کی اُکھاڑ پچھا ڑ میں رہے۔ مگر پھر بھی تہذیب کی ترقی میں فرق نہ آیا۔ آخر کا ر ایک لمبا عرصہ مسلسل ترقیات اور سیاسی بالا دستیوں کے بعد اس خطے ا ور اس قوم کا زوال بابل کے تیسرے خاندان کے زوال کے ساتھ شروع ہو گیا۔
کھدائی کے دوران جب سومیری علاقوں میں، انسانی ڈھانچے اور کھوپڑیاں دریافت ہوئیں۔ تو ماہرین کی را ئے میں وہ آرمینیائی اور بحیرہ روم کی نسلوں کے مرکب نکلے۔
بہت سے سکالر اس بات پر متفق ہیں کہ باقی کی دنیائے قدیم نے سومیریوں سے ہی فنِ تحریر کا خیال اپنایا تھا۔
جنوبی عراق کے ایک اہم ترین شہر(انوگ)سے اس زمانہ کے رسم الخط کے جو نمونے ملے ہیں، وہ تا حال دنیا میں سب سے قدیم معلوم نوشتے ہیں، اب تک کھنڈرات کی مدد سے جو ماہر ین نے دریافت کئے ہیں ان میں سے اس تہذیب کے صدیوں پرانی تصویری تحریرات ڈھونڈنکالی ہیں، جس سے یہ بات واضح ہے کہ دُنیا میں سب سے پہلے اس قوم نے تصویروں کی مددسے اپنے خیالات کو زبان دی۔ کچھ عرصہ قبل جنوبی عراق کے ایک قدیم تباہ شدہ شہر جو کھنڈر بن چکا ہےپرکی دریافت سے تقریباً ساڑھے چار ہزار برس پرانی تختیوں پرلکھا ہوا ادب دریافت ہوا ہے۔
عراق کی گذشتہ حالت کے بارہ میں جُرجی ذیدان کا تبصرہ
مصنَف جُرجی ذیدان۔ تاریخ تمدن ِ اسلام میں لکھتے ہیں ِ۔ اصطخری نے شہر بصرہ کی ایسی حالت بیان کی ہے، جس کا مطالعہ کرنے سے عقل چکرا جاتی ہے۔ وہ عبارت کچھ یوں ہے۔
بصرہ ایک بہت بڑا شہر تھا جو اہل ِ عجم کے زمانہ میں نہ تھا اُسے صرف اہل ِ عرب نے آباد کیا۔ یہاں کنوئیں وغیرہ کا پانی نہیں ملتا تھا۔ بلکہ یہاں نہریں ہی نہریں ہیں۔بعض اہل ِ اخبار نے لکھا ہے کہ بلال بن ابی بردہ کے زمانہ میں، بصرہ کی نہروں کا شمار کیا گیا تو۔ ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ نہریں گننے میں آئیں تھیں جن میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں چلا کرتیں تھیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مجھے اس مذکورہ تعداد کے سچ ماننے میں کلام تھا۔
یہاں تک کہ میں نے خود ان مقامات کو جا کر دیکھا۔ بعض جگہوں پر صرف ایک تیر (پرتاپ) کی مسافت میں کئی چھوٹی چھوٹی کشتیاں چلتی تھیں، اور ہر ایک نہر کا نا م بھی تھا، جو یا تو اپنے کھدوانے والے کی طرف منسوب ہوتی تھیں ِ یا اس سمت کی جانب جدھر وہ نہر بہنے کے بعد گرتی تھیں۔ یہ حالت تو بصرہ کی تھی۔ اب بغداد کی طرف توجہ کریں۔ جو کہ دار لخلافہ اور دارالسلام تھا۔ اس کی حالت کا بھی اصطخری نے ان الفاظ میں خاکہ کھنچا ہے۔
جیسا کہ خود اس نے اپنے زمانہ یعنی ہجری کی چوتھی صدی میں معائنہ کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے
’’دارالخلافہ کے محلات اور با غات بغداد سے نہر بین کی طرف ایک قطار میں دو فرسخ تک برابر چلے گئے ہیں حتیٰ کہ نہر بین پر جا کر وہاں سے دریائے دجلہ کے کنارے سے اوپر کو ہو جاتی ہے۔ اور پھر سماسیہ کی طرف جو تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہے، دارلخلافہ سے جا ملتی ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے۔ کہ بغداد کوفہ (یا دجلہ فرات) کے درمیان بڑی گنجان آبادی ہے۔ جس میں کچھ تمیز نہیں ہو تی۔ اور دریائے فرات سے پھوٹ پھوٹ کر بہت سی نہریں اس کی طرف آتی ہیں اور سیراب کرتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اصطخری نے بصرہ اور بغداد میں جو کچھ دیکھا۔ وہ سومیری قوم کی تہذہب کی ہی آئینے میں نظر آتا ہے۔ کیونکہ آبپاشی، زراعت،نہروں اور با غات کا سلسلہ سومیری قوم کی تہذیب فن اور معیشت میں بہت بڑا کردار ادا کرتے تھے، جنوبی عراق کی جو حالت اصطخری کے زمانہ میں تھی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے زمانہ میں بھی ان علاقوں کا یہی حال ہو گا۔
سومیری زبان کی دریافت
آ ئرلینڈ کے ایک ماہرلسانیات ایڈورڈ ہنک نے 1850ء میں پہلی بار یہ دعوٰی کیا کہ میخی یعنی cuneiform رسم الخط جسے اب تک سامی قوم کی ایجاد سمجھا جا تا تھا، یہ ان کی نہیں بلکہ اس کے موجد تو غیرسامی النسل وہ لوگ ہیں جو جنوبی عراق میں سامی قوم سے پہلے آباد تھے۔بعد میں اس خیال کی تصدیق کرنے کو انگریز فوجی نے بہت طویل اور کٹھن مہم سر کی آخر کار اس میں کامیاب ہوا اور دنیا کے سامنے اس خیال کی شہادت پیش کردی۔
ایک دلچسپ قصہ
ایک انگریز فوجی رالنسن ایر ان میں متعین انگریز فوج میں ملازم تھا۔ زبانوں کا ترجمہ کرنا اس کا ذاتی مشغلہ تھا۔ لہٰذا ایران میں فارغ اوقات کے دوران اس نے کچھ قدیم زبانوں میں صدیوں پرانے لکھے ہوئے کتبوں کو پڑھ کر ترا جم کرنے کی کوشش کی۔ ان میں ایک تحریر جو اس کی اصل شہرت کا باعث بنی جو ہمدان کے قریب کوہِ انوند پر ایک بے ستون کے بہت بڑے پتھر پر لکھی ہوئی ہے۔ شہنشاہ (دارا اول) نے یہ تحریریا اسے کتبہ کہہ لیں 615قبل مسیح میں کندہ کروایا تھا۔ دراصل یہ کتبہ جو ایک چھوٹی سی چٹان کی مانند ہے۔اور اپنی ذات میں عجوبہ ہے بادشاہ کی خواہش تھی کہ یہ مجسمہ اس انداز سے بنا کر پہاڑ پر بنا کر ٹکایا جا ئے۔ جہاں وہ انسانی ہاتھوں اور دوسرے مضرات سے محفوظ رہ سکے۔ بادشاہ کی ہی خواہش کے مطابق اس پر تین زبانوں کی تحریرات لکھی گئیں۔ لہذا اس کام کے لئے ایک پہاڑ کی چٹان پر 1200ء مربع فٹ کا ایک قطعہ تیار کروایا گیا۔ کتبہ تیار ہونے کے بعد اس کے نیچے کی چٹان کے حصے کو کاٹ کر بالکل عمودی بنا دیا گیا۔ دیکھنے میں یہ کتبہ زمین سے سینکڑوں فٹ بلند ایک عمودی چٹان نظر آتا ہے۔ ہم سوچ سکتے ہیں پہاڑ کی چوٹی پر اس طریق سے نصب شدہ کتبے کی تحریرات سینکڑوں برس بعدنقل کرنا کتنا کھٹن کام ہوگا۔ مگر یہ انگریز فوجی (رالنسن) اپنی دُھن کا پکا نکلا،اس نے اپنی جان ہزار مشکلوں میں ڈال کر، کبھی مچان بنا کرتو کبھی رسے سے لٹک لٹک کر، اپنی زندگی کو داؤ پر لگایا، اور دو برسوں کی خطرناک محنت کے بعد یہ مہم بہت حد تک سر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1835ء میں اس نے یہ کام شروع کیا اور 1837ء تک دو سو سطریں نقل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اپنی جان جو کھوں میں ڈال کر اس نے اجنبی زبانیں تو نقل کر لیں۔ اب اگلا مرحلہ ان کو پڑھنے اور سمجھنے کا تھا۔ لہٰذا اسکام کے لئے اس نے کلاسیکی دور کے مصنفین اور قرون ِوُسطیٰ کے ماہر ِ ارضیات کی مدد لی اور ان کے تعاون سے ان سطروں کو کئی مقامات سے پڑھنے میں کامیاب ہو گیا، 1193ء تک اس نے یورپ کے دوسرے ماہرین کی میخی (CUNEIFORM) رسم الخط کے بارہ میں کی گئی تحقیقات سامنے رکھ کر آخر کار دوسو کی دوسو سطریں پڑھنے میں کا میاب ہو گیا۔ ان کو پڑھنے کے بعد 1844ء میں وہ دوبارہ باقی ماندہ تحریر نقل کرنے چل پڑا، آخرکار 1848ءتک اس ماہرِ لسانیات نے اس کتبے کی تینوں زبانوں کی نقول اور ترجمہ تیار، کر کے ROYALASIATICSOCIETY کو بھجوادیا۔
اس تحقیق سے اب ماہرین کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ اب تک تمام وہ نشانات جو اہل ِ علم، ماہر ِ لسانیات، اور ماہر ِ آثار ِ قدیمہ اور کھنڈرات کی مدد اور محنت سے حاصل ہوچکے ہیں ان سب کی روشنی میں عراق کی بہت قدیم ترین قوم اور تہذیب کے بارہ میں ایک مکمل تصویر اُبھر کر سامنے آگئی۔ جو کچھ اس طرح تھی کہ جنوبی عراق میں بسنے والی قدیم ترین قوم کا نام، سومیر، تھا۔ 17جنوری 1896ء کا دن قدیم اقوام کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جہاں ایک علمی نشست میں جیولس اوپٹ نے انکشاف کیا کہ سامیوں قبل عراق میں ایک ’سومیری‘ نام کی قوم آباد تھی۔
سومیری قوم کی اہم خصوصیات
قدیم عراق کی کھدائی سے دریافت ہونے والی ان تحریرات سے سومیری قوم کی چند ایک ممتاز خصوصیات ہمارے سامنے آئی ہیں۔مثلاً،میخی یا پیکا نی طرزِ تحریر کے موجد تھے اُنہوں نے وسیع پیمانے پر ایک بہت ترقی یافتہ ادب تخلیق کی رزمیہ کہانیاں، اساطیر،نوحے، اقوال ِ حکمت ودانشمندی، کہاوتیں الف لیلوی افسانے، یہ تمام ادب سومیری قوم کا ہی رہین ِ منت ہے۔ پروفیسر سیموئل این کریمر کہتا ہے، کہ آج کی تہذیب کے متعدد اہم خدوخال کے سوتے سومیری قوم اور سومیر سے ہی پھوٹے تھے۔ آج کا فلاسفر ہو یا استاد،مؤرخ ہو یا شاعر قانون دان ہو یا مصلح، مدبر ہو یا سیا ست دان،ماہرِِتعمیر ہو یا سنگتراش،مجسمہ ساز ہو ں یا پیکر تراش۔ کسی نہ کسی طرح ہر کسی نے سومیری تہذیب کا اثر ضرور لیا ہے۔
اس کھدائی کے عمل کے دوران ایک قدیم شہر، ’’اُر‘‘ نام کا نکلا جو کہ حضرت ابراہیم ؑ کی جائے پیدائش بتائی جا تی ہے۔اس شہر کی کھدائی سے، شاہی لوگو ں کی قبروں سے، بربط اور چنگ بنے ہوئے دریافت ہوئے، کھنڈرات سے مٹی ہزار ہا الواح ملی ہیں۔ جن پر مختلف نوعیت اور موضو عات پر فنی عبارتیں لکھی ہو ئی تھیں، ان کودیکھ کر لکھنے کا طریق کچھ اس طرح سمجھ آ تا ہے کہ۔ چکنی مٹی سے تختی بنا لی جا تی ہوگی، پھر گیلی گیلی تختی پر قلم سے لکھ دیا جا تا ہو گا، اور بعد میں تختی کو آگ میں پکا کر، تختی اور تحریر کو محفوظ اور مضبوط بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک ماہرین ِ آثار ِ قدیمہ کی محنت ِ شاقہ سے نکالی ہوئی الواح میں سے استنبول اور فلا ڈلفیا کی یونیورسٹیوں کے عجائب گھروں میں دوہزار سے زائد الواح ترجمے کا انتظار کر رہی ہیں۔
1961ء تک صرف پانچ سو الواح ترجمے کے لئے پڑی ہیں۔ ان تراجم کو پڑھ کر ماہرین ِ لسانیات کی رائے ہے کہ عراق کا ادب، دنیا کا سب سے قدیم ادب ہے، اور ان کی تحریرات، خیالا ت اور نظریات دنیا کے قدیم ترین ہیں۔
ان کی تحریرات اور کھنڈرات سے اس قوم کی بہت سی ایجادات کا بھی علم ہوا ہے۔
سومیری قوم کی ایجادات
کمھار کا چاک، گاڑی کا پہیہ، کاشت کاری کا ہل، بادبانی کشتی، محراب، ڈاٹ،گنبد،جواہر تراشی، کیل کی جڑائی، دھات کا ٹانکا، کندہ کاری، اور مرصع کاری بھی اسی قوم نے شروع کی تھی، ان کے کھنڈرات سے اینٹیں بنانے والا سانچہ بھی دریافت ہوا ہے۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم عمارتیں بنانے کی بہت شوقین تھی۔ چار ہزار برس پرانی تختیوں کی تحریر سے ترجمہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ، ان تحریرات میں زرگر،جواہر تراش، لوہار، چرم ساز، کپڑاصاف کرنے والے اور ٹوکری بنانے والے کا ذکر موجود ہے۔
بابلی تحریک حضرت مصلحِ موعو دکی نظر میں
حضرت مصلحِ موعود سورہ الشعراء کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بابل میں بسنے والی اقوام کے خواص اور دوسری دُنیا پر ان کے تمدن کے پڑنے والے اثر کے بارہ میں، فرماتے ہیں۔
کہ جس طرح آرین، رومن اور ایرانی ثقافت نے متمدن دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔ اور سابق نظاموں کی جگہ ایک نیا نظام قائم کردیا اسی طرح بابلی تحریک جس کے بانی قوم ِ عاد سے تعلق رکھنے والے تھے اس نے بھی دنیا کے کلچر اور تہذیب پر نہایت گہرا اثر ڈالا اور اس تحریک کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر اپنی حکومت کھو بیٹھے اور اس کی جگہ دوسری اقوام نے لے لی۔ مگر ان کو شکست دینے والے ان کے فلسفہ سے آزاد نہ ہوسکے۔ یہ تحریک چونکہ انتہائی قدیم تحریک ہے۔
اس لئے موجودہ زمانہ میں اس کے آثار بہت کم ملتے ہیں۔ وہ قرآنی بیانات کی صداقت اور اس کی عظمت کو روشن کر دیتے ہیں۔
عراق کا تابناک ماضی
الغرض گذشتہ کئی صدیوں سے، یہ سر زمین یعنی عراق دُنیا میں خوبصورتی، علم وفضل حکمت و دانشمندی۔ ہوش رُبا طلسماتی محلات کی آرائش و زیبائش، شعرو سخن، الف لیلوی قصے۔ کوہ قاف کے حیرت کدے۔ بابل کے باغات اور دیگر مختلف قسم کے حسن و جمال کا گہوارہ رہی ہے۔ اسی سر زمین نے دُنیا کے سامنے انواح واقسام کے معاشی وسماجی، تہذیبی، ثقافتی اور علمی مناظر رکھے ہیں۔
حالانکہ عراق ایک ایسی سر زمین گنی جا تی ہے جس کی شان وشوکت تباہ وبرباد کرنے کے لئے بار بار مختلف اقسام کے طوفان ان پر نازل ہوئے۔ بغداد (عروس البلاد) کی لائبریریاں جو علم وفضل کی نادر کتا بوں سے پُر تھیں۔ جن سے مغرب ومشرق سے آنے والے اپنے علم کی پیاس بجھا تے۔ مگر بغداد کے ساتھ ساتھ بہنے والے دجلہ و فر ات جس کی فرحت بخش ہوائیں عراق کے طول و عرض کو معطر کئے رکھتی تھیں۔ مگر بیرونی دُنیا سے اس کی یہ تابناکی دیکھی نہ گئی، اور وہ علم حاصل کرنے والے نہیں بلکہ، اس کے کتب خانے جلانے کے لئے حملہ آور بن کر آئے، اور اس حسین ملک کو بار بار تہس نہس کر دیا۔ منگولیا سے آنے والے ہلاکو اور چنگیز خان نے یہی کتب خانے جلا کر راکھ کر دئے، اور ان کی راکھ سے ان عظیم اور قدیم دریاؤں کا پانی اپنے شہر کی تقدیر کی طرح سیاہ ہو گیا۔
بلندوبالا عمارتیں بنانے والی قوم کی کھوپڑیو ں سے مینار بنائے گئے۔ باربار اس قوم کے ساتھ اس قسم کا سلوک ہوتا ہے۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد سینہ بہ سینہ چلنے والی، صلاحیتیوں اور خداداد استعدادوں کے اثرات اس خون آلود مٹی کو پھر زرخیز کر دیتے ہیں۔ مسئلہ سوچ طلب ہے کہ، قدرت نے اس خطے میں کوئی خاص بات ضرور رکھ چھوڑی ہے، کہ دور و نزدیک کے ممالک کی نظریں اس کی ترقی پر لگی رہتی ہیں۔ یہاں ترقی ہو رہی ہو یا نہ، مگر باہر کی دُنیا کے دلوں پر اس کے تابناک ماضی کا ایسا رُعب ودبدبہ بیٹھا ہوا ہے کہ گھبرا گھبرا کر اس کی جا سوسی کرتی اور پلٹ پلٹ کر حملے کرتی، اور ڈھو نڈ ڈھونڈ کر کھوج نکالتی اور ناکردہ جرائم کو اشتہار بنا بنا کر افسانے گھڑتی ہے، آخرکوئی نہ کوئی جادو اس کوہ قاف کی سر زمین میں ضرور غیر قوموں کے لئے ایک سوال بنا ہوا ہے۔۔۔۔
(نبیلہ رفیق فوزی۔ناروے)