• 28 جولائی, 2025

حسد ایک روحانی بیماری

حسد کے لغوی معنیٰ کسی دوسرے شخص پرہونے والی نعمت یا اس شخص میں موجود خوبی یا اسکی کامیابی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان کے درپے ہونا ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں مومنین کو تلقین فرماتا ہے کہ تم اللہ کی پناہ مانگو ان لوگوں کے شر سے جو حسد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اور (میں پناہ مانگتا ہوں رب کی) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ (الفلق: 5)

اس آیت کریمہ کے تناظر میں جب حسد کے جذبے کو دیکھا جائے تو یہ ایک منفی جزبہ نظر آتا ہے جو ایک روحانی بیماری کی صورت میں حسد کرنے والے انسان کے دل میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اور حاسد انسان اپنے حسد کرنے کی وجہ سے اپنی ذہن کی منفی توانائی اور اپنی فطرت کی بد نیتی کی وجہ سے جس انسان سے اسکی خوبیوں کی وجہ سے یا اسکے پاس اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی وجہ سے حسد کر رہا ہوتا ہے اس اچھے انسان کی زندگی پر اپنی بدنیتی، اپنے بد فعل اور اپنی بد نظری کی بدولت منفی اثرات ڈال رہا ہوتا ہے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ نظر کا لگنا ایک محاورہ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ مگر اسلامی نقطہء نگاہ سے نظر کا لگنا برحق ہےاور یہی بد نظری ہوتی ہے جو حاسد انسان کے حسد کی وجہ سے کسی دوسرے انسان یا مخلوق کو لگتی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ و علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نظر کا لگنا برحق ہے بد نظر اونٹ کو ہانڈی میں اورانسان کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو مندرجہ بالا آیت کریمہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ تم حسد کرنے والوں کے شر سے بچنے کی دعا کیا کرواور خود کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے شر سے بچنے کی خاطر اللہ کی پناہ میں رکھو۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر حسد نہ کرنے لگو۔

(صحیح بخاری:جلد دوم: حدیث نمبر 1218)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ تعالیٰ بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (قطع تعلق کرے)۔

(صحیح بخاری:جلد سوم: حدیث نمبر 1003)

حضرت ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔

(طبرانی فی الکبیر 7157)

ہر اخلاقی برائی کا اثر سب سے پہلے اس برائی میں مبتلا انسان پر ہوتا ہے جس کی بدولت وہ انسان مثال کے طور پر اگر حسد کرنے کی برائی میں مبتلا ہے تو تو یہ اخلاقی و روحانی بیماری اسکے اپنے ذہن و قلب کے سکون کو برباد کرتی ہے اور پھر اس حاسد انسان کی یہی بے سکونی جب شدت اختیار کر لیتی ہے تو پھر وہی روحانی طور پر بیمار انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں اور معاشرے میں اپنی منفی سوچ اور فعل کی وجہ سے بد امنی کا باعث بنتا ہے۔

ایک حاسد انسان کبھی بھی یہ نہیں مانے گا کہ اس میں یہ اخلاقی و روحانی بیماری موجود ہے مگر ہم ایسے انسان کو اسکی دو خصلتوں کی وجہ سے با آسانی پہچان سکتے ہیں۔ نمبر ایک تو حاسد انسان کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس کرتا ہے اور ناخوش ہوتا ہے اور اسکی دوسری نشانی یہ ہے کہ حاسد انسان اس دوسرے انسان کے نقصان کی تمنا کرتا ہے یا نقصان ہوجانے پر خوش ہوتا ہے۔ اب اگر یہ دو نشانیاں آپ میں موجود ہیں تو جان لیں آپ ایک بہت خطرناک اخلاقی و روحانی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آپکو ہر ممکن سعی و کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنے لئے دعا کرتے ہوئے اس روحانی بیماری سے چھٹکارا حاصل کر سکیں تاکہ آپکی باقی عبادت بھی رائیگاں نہ جائیں۔

حسد کا الٹ رشک کرنا ہوتا ہے۔ رشک کرنا روحانی بیماری نہیں بلکہ یہ نیک جذبہ ایک انسان کے روحانی و اخلاقی طور پر صحتمند ہونے کی علامت ہوتا ہے۔ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے لیکن رشک میں وہ نعمت محسود (جس سے حسد کیا جائے)سے چھن جانے یا اس نعمت کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے۔

یاد رکھیں منفی جذبات ہمارے جسمانی و روحانی نظام پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور مثبت جذبات ہمارے جسمانی و روحانی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ایک خاص نقطہ ذہن نشین کر لیں کوئی بھی دل میں پیدا ہونے والا جذبہ اسوقت تک گناہ یا ااخلاقی و روحانی بیماری نہیں ہے جب تک یہ ایک پختہ جذبے کی صورت میں دل میں گھر نہ کر لے اور حسد کی تعریف پر پورا نہ اترے۔ ہاں اگر کسی دوسرے انسان کی ترقی دیکھ کر اسکے حالات اپنے سے بہتر دیکھ کر اس جیسا بننے کی تڑپ دل میں پیدا ہو اور ترقی کی خواہش دل میں جنم لے تو اس سے معاشرے میں ایک مثبت مقابلے کی دوڑ میں آپ شامل ہوں گے آپکی یہ تمنا تب حسد نہیں کہلاے گی۔ بلکہ مسابقت کی طلب کی یہ مثبت سوچ اور دوڑ جسے رشک کہا جاتا ہے ایک ترقی پذیر معاشرے کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔

حسد کی اصطلاح رشک کے معنوں میں بھی احادیث نبوی میں وارد ہوئی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں بیان ہوا ہے :
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حسد (رشک) صرف دو چیزوں پر جائز (مستحسن) ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔

(صحیح بخاری: جلد اول: حدیث نمبر 1324)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حسد (رشک) صرف دو شخصوں پر (مستحسن) ہے، ایک اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسرآتا تو میں بھی اسے اسی طرح صرف کرتا۔

(صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 18)

اسکا مطلب یہ ہے کہ دینی امور میں رشک کرنا ایک مستحسن عمل ہے کیونکہ اس سے دینی میدان میں مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے اور انسان روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو پانے کی نہ صرف دل میں تڑپ پیدا کرتا ہے بلکہ ان بلند درجوں اور مراتب کو پانے کی کوشش اپنی عبادت کے ذریعے کرتا ہے۔

ایک حاسد انسان اپنا علاج خود کر سکتا ہے بشرطیکہ اسکو پہلے یہ ادراک حاصل ہو کہ وہ حسد کی روحانی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔ جب بیماری کی تشخیص ہو جائے تو علاج کرنا اتناہی آسان ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے مرحلے پر حاسد انسان کو اپنی منفی سوچ کو بدل کر مثبت کرنا ہوگا۔

آئیے اب سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ہماری سوچ (منفی یا مثبت) ہمارے اپنے اوپر اور ہمارے اردگرد موجود دوسرے افراد پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔

یاد رکھیں آپکی سوچ، آپکی سوچ سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ آپکے ساتھ زندگی میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ آپکی سوچ یا دوسروں کی سوچ جو وہ آپکے بارے میں رکھتے ہیں کی وجہ سے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ آپکو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ آپکی بدلتی طبعی حالتوں پر آپکی سوچ اور عقائد کبھی تو امرت بن کے آپکے ذہن اور جسم کو تندرست کر دیتے ہیں اور کبھی غلط سوچ اور عقیدہ زہر قتل بن کے آپکی تندرستی کو بیماری میں بدل دیتے ہیں ساتھ ہی ارد گرد رہنے والے لوگ بھی اس منفی سوچ کی تباہ کاری کا شکار بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ عقیدے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ جو آپکے مذہبی عقائد ہیں بس وہی عقیدے کی تعریف میں آتے ہیں بلکہ ہر وہ علم جو آپکو حاصل ہو چکا ہے جسے صحیح مان کر (ہو سکتا ہے یہ علم غلط بھی ہو) آپ نے اسے اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہے اسے عقیدہ کہا جا سکتا ہے۔

یہ کوئی افسانوی باتیں نہیں آ ئیںآپکو یہ سب نقاط میڈیکل سائنس کے حوالے سے سمجھاتا ہوں۔ کوشش کرونگا کہ یہ مشکل مضمون آسان زبان میں بیان کروں کیونکہ یہی وہ نقاط ہیں جن کو اگر آپ سمجھ جائیں گے تو نہ صرف آپ خود بلکہ آپکے ارد گرد رہنے والے بھی آپ کے اس علم سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

اگر انسانی جسم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے جائیں اور جو سب سے چھوٹا ٹکڑا ہوگا جس کے بعد مزید تقسیم ممکن نہ ہو اسے سیل (خلیہ) کہتے ہیں۔ سائنسدانوں کے ایک بڑے گروہ جو ڈارون کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں، کا خیال تھا کہ سیل میں موجود نیوکلس میں پائے جانے والے جینز زندگی کو کنٹرول کرتے ہیں مگر مائیکرو بائیولوجی کی جدید تحقیقات نے جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے اسکے مطابق ہماری زندگی کو ہمارے سیل کنٹرول نہیں کر رہے بلکہ ہماری زندگی ان سیلز کے باھر سے کنٹرول ہو رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیلز میں موجود جینز میں مختلف پروٹینز بنانے کے طریقے (کوڈ) تو لکھے ہوۓ ہیں مگر ان جینز کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں سوا ئے اسکے کہ یہ لائبریری میں پڑی کتابیں ہیں جو خود کچھ نہیں کرسکتیں جب تک کوئی محرک انھیں کھول نہ لے اور ان میں لکھے طریقے پر عمل کر کے نئی پروٹین جن سے ملکر میرا اور آپکا جسم بنا ہے،نہ بنائے۔

اب آپ ان سب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں (سیلز) کو جو اوپر آپ نے تیار کیے ہیں واپس جوڑنا شرو ع کردیں تو تقریباً 3 ٹریلین سیلز کو اکٹھا کر کے ایک جیتا جاگتا انسان بن سکتا ہے۔ اور یہ تمام سیلز جو پروٹینز بنا رہے ہیں انکے مجموعے کو آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ پروٹینز ہیں جن میں مثبت اور منفی چارج پیدا ہونے کی وجہ سے ہم مختلف حرکات و سکنات کرتے ہیں جیسا کہ اٹھانا بیٹھنا، سونا جاگنا، سانس لینا، کھانا پینا،چلنا پھرنا وغیرہ وغیرہ۔ زندگی کا دارومدار انہی پروٹینز کے صحیح یا غلط طور پر بننے میں ہے۔ ان سب باتوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ سیل کے مرکزہ میں پڑے ہوئے جین (کتاب) کو ’محرک‘ نے کیسے پڑھا ہے اور ان ہدایات کو پھر کیسے عملی جامہ پہنایا ہے۔

یاد رکھیں جینز سے پروٹینز بننے کا عمل ایک بیرونی محرک کا محتاج ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے آپ اپنے کمرے میں لگے سوئچ کو دباتے ہیں تو کمرے میں لگا بلب روشن ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جینز کو اگر آپ سوئچ سمجھ لیں اور ایک پروٹین کو کمرے میں لگا ہوا بلب جو کے آپکی انگلی کی حرکت کی مدد کے بغیر روشنی نہیں دے سکتا۔ اور اس سارے عمل میں آپکی انگلی محرک ہے۔اب اس عملی مثال کو اپنے سیلز میں موجود جینز اور پروٹین کے تعلق کو سمجھنے میں استعمال کریں تو صورتحال یہ ہو گی کہ ایک بیرونی محرک کی مدد سے سوئچ (جین) آن ہوا اور اسکے نتیجے کے طور پر بلب (پروٹین بن گیی) روشن ہوگیا۔ اسی طرح ہمارے سیلز میں جینز بیرونی محرکات کی مدد سے آن اور آف ہوتے ہیں جن کی مدد سے پرو ٹینز بن کر جسم میں تعمیری یا تخریبی عمل پیدا کرتی ہیں۔ تعمیری اس لیے کہ اگر پروٹین صحیح بنی ہے اور تخریبی اس لیے کہا کہ اگر پروٹین غلط بنی ہے۔ صحیح یا غلط پروٹین بننے کا دارومدار دو باتوں پر ہوتا ہے۔

1۔ جین میں لکھی ہدایات درست ہیں یا نہیں (موروثی بیماریوں کی وجہ یہی غلط ہدایات والے جینز ہوتے ہیں جو ایک انسان کو اپنے آبا و اجداد سے ملتے ہیں، اور ایسے جینز صرف پانچ 5% کے قریب ہیں)

2۔ بیرونی محرک کی کیفیت

جیسا کہ اوپر بتایا ہے کہ 3ٹریلین انفرادی سیلز ملکر ایک انسان کا جسم بناتے ہیں مگر یہ سیلز کا اتنا بڑا مجموعہ اگر آزادانہ طور پر کام کرے تو جسم کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے ہر سیل اپنی مرضی کرتا پھرے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انکو جس عضو کے تابع کیا ہے اسے دماغ کہتے ہیں (یہاں سے آپکو نظام خلافت کی افادیت کا بھی پتہ چل سکتا ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے اور رسول پاک صلی اللہ و علیہ وسلم نے اس نظام کو مومنوں کی جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت دی ہے اور کیوں اسلام میں انفرادیت کے بجائے اجتماعیت اور خاص طور پر اس میں مرکزیت پر زور دیا ہے۔ اور خلافت کا نظام مومنین کی جماعت کے لیے دماغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دماغ میں پیدا ہونے والے سگنلز جو برق رفتاری سے سیلز کے مرکزے تک پیغام پھنچاتے ہیں تاکہ ایک خاص وقت میں صرف وہی جینز آن یا آف ہوں جنکی پروٹینز کی اس وقت ضرورت ہے اور ایک وقت میں دماغ ایسے کئی سگنلز جسم کے مختلف حصوں میں پہنچا رہا ہوتا ہے اور کئی تعمیری یا تخریبی عوامل ظہور پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو چلا نے کے لئے دو نظام مرئی (آنکھوں سے نظر آنے والے) اور غیر مرئی (جن کو آنکھوں سے دیکھا نہ جاسکے) نظام ساتھ ساتھ رکھے ہوئے ہیں جیسے ہمارا جسمانی نظام اور روحانی نظام۔ مرئی نظام جیسے ہمارا جسم اور اس میں موجود اعضا ہیں دماغ بھی اسی مرئی نظام کا حصہ ہے۔ میڈیکل سائنس آج تک صرف مرئی نظام کو خاتم النظام مان کر اسی پر تجربات کر کے ادویات کے اثرات کا مشاہدہ کرتی رہی ہے اور اسے ہی بیماریوں سے تندرستی کی حالت میں لانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ مگر اپنی اس کوشش میں اسے جہاں کچھ حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے وہاں پر وسیع پیمانے پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے غیر مرئی نظام کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ہے۔

جہاں پر دماغ ہمارے مرئی نظام کا حصہ ہے وہاں پر ہمارا ذہن غیر مرئی نظام کا حصہ ہے۔ ہمارے ذہن میں ہمارے ماحول کی بدولت بیرونی سگنل کے ذریعے ہماری سوچ پیدا ہوتی ہے جسے دماغ الیکٹریکل سگنلز میں بدل کر نروس سسٹم کے ذریعے ہمارے سیلز میں موجود جینز کو ارسال کرتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ ہمارا ذہن کئی دوسرے سگنلز بھی رسیو کر رہا ہوتا ہے جو ہمارے ماحول میں موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ پر تعفن بدبو دار ماحول میں سے گزر رہے ہیں تو ہمارا ذہن اسی ماحول کے مطابق سگنل دماغ کو دے گا اور انکی وجہ سے پھر جو جینز آن ہونگے وہ نقصاندہ پروٹینز بنائیں گے اور ہم میں بیماری کی علامات پیداہونے لگیں گیں اور اس کے برعکس اگر ہم ایک صحت افزا مقام پر ہوں جہاں پھول خوشبو سر سبزو شاداب موسم ہو تو ہمارا ذہن وہ سگنل ہمارے دماغ کو دے گا جس کی بدولت جو پروٹینز ہمارے سیلز بنائیں گے وہ ہمیں تندرست و توانا رکھیں گیں۔

ہمارا ذہن ہمارے دماغ سے 40 گنازیادہ تیز رفتاری سے کام کرتا ہے۔ ہمارا دماغ ہمارے ذہن کے سامنے بالکل ایک بچے کی طرح ہے جسے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھانا پڑتا ہے اب آپکو سمجھ آ رہا ہوگا کہ ہماری سوچ جس کا اصل منبع ہمارا ذہن ہوتا ہے اور ہمارا ماحول اور ان سے پنپنے والے عقائدہمارے جسمانی اور طبعی افعال پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔

ڈاکٹربروس لپٹن مائیکرو با ئیولو جسٹ اور سٹم سیلز ریسرچ سائنٹسٹ تھے 15 سال کے قریب ہونے کو آئے جب انہوں نے اپنی میڈیکل کی لائن کو خیر آباد کہہ کر مکمل طور پر اپنی ریسرچ کی بنیاد پر اس بات کے قائل ہو گئے کہ ہمارے جسم دماغ اور ذہن سے باہر کوئی ایسی شے ہے جو نہ صرف ہمیں بلکہ کائنات کے سارے نظام کو کنٹرول کرتی ہے موصوف اس غیر مرئی شے کو انرجی کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ روحانیت پر یقین نہیں رکھتے اور اس غیر مرئی ہستی کو اللہ تو بالکل بھی نہیں کہتے کیونکہ سائنسدان جو ٹھہرے۔ انہوں نے اپنی ریسرچ سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری سوچ اور ہمارے عقیدے ہمارے سیلز پر اثر انداز ہوکر ہمیں تندرست اور ہمیں بیمار کرنے کی اصل وجہ ہیں نا کہ ہمارے جینز ایسا کرتے ہیں۔ 5% سے بھی کم جینز ایسے ہیں جن میں خرابی کو ایسی بیماریوں کا پیش خیمہ کہا جاتا ہے جن کا ابھی علاج دریافت نہیں ہو سکا جیساکہ ملٹیپل سکلوروسس، ذیابیطس ٹائپ 1، ڈاون سنڈروم وغیرہ باقی 95% جینز وہ ہیں جن کو اگر صحیح سوچ کے ساتھ درست رکھا جائے تو ہم بیماریوں سے بغیر ادویات کے بچ سکتے ہیں۔

ہماری سوچ کو جو شے پیدا کرتی ہے اگر اسے سگنل کا نام دیا جائے تو آپکو سمجھنے میں مزید آسانی ہو گی کہ جس ماحول میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں اس میں پیدا ہونے والے سگنلز ہماری سوچ کی راہ ہموار کرتے ہیں اور جس کی مدد سے ہمارے دماغ کے راستے سے ہمارے جسم میں مثبت یا منفی تبدیلیاں پیداہوتی ہیں۔ مثبت تبدیلی ہمیں تندرست رکھتی ہے اور منفی تبدیلی ہمیں بیمار کرتی ہے۔

یہ سگنلز ہمیں نا صرف اپنے ارد گرد کے ماحول سے ملتے ہیں بلکہ ہماری خوراک بھی اندرونی طور پر ایسے ہی سگنلز جسم میں موجود سیلز کو براہ راست دیتی ہے جس سے ہم تندرست یا بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ برے ماحول میں رہنے سے منفی سگنلز اور اچھے ماحول میں رہنے سے کارآمد مثبت سگنلز ہمارے سیلز کو ملتے ہیں اور پھر اسی تناظر میں ہمارا جسمانی نظام پنپتا ہے۔ آپ خود سوچیں ایک عطر فروش کے پاس بیٹھنے والے کے کپڑوں سے عطر کی خوشبو آنے لگتی ہے اور ایک کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس بیٹھنے والے کے پاس سے ویسی ہی بدبو آنے لگتی ہے۔

اگر آپ کیمیکلز سے آلودہ ماحول میں رہیں گے تو یہ کیمکلز کے سگنلز آپکی سوچ پر منفی اثرات مرتب کریں گے جو کہ طرح طرح کی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ غصہ، لڑائی جھگڑے اور حسد کی روحانی بیماری میں مبتلا ہونا یہ سب وہ سگنلز ہیں جو ہماری سوچ پر منفی رنگ میں اثر انداز ہوتے ہیں اسکے برعکس پیار محبت انسانوں کی خدمت کرنے کے عوامل ہماری سوچ پر مثبت اثرات ڈالکر ہمیں تندرست زندگی کا ضامن بناتے ہیں۔ جسطرح ہمارے ذہنی نظام کا براہ راست اثر ہمارے جسمانی نظام پر پڑتا ہے اسی طرح ہمارے جسمانی نظام کا براہ راست اثر ہمارے ذہنی اور روحانی نظام پر پڑتا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک نے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ ایسی مجلس میں سے آپکو ایسے سگنلز ہی ملیں گے جو آپکو نا صرف روحانی طور پر تندرست رکھیں گے بلکہ جسمانی طور پر بھی صحت مند رکھیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ظاہری صفائی اور طہارت کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ ایسا کرنے سے ہمار ا ذہن بھی پاکیزہ اور مثبت سگنلز ہمارے دماغ کے ذریعے ہمارے سیلز کو بھیجے تاکہ ہمارے جسمانی اور روحانی نظام تندرست و توانا رہ سکیں۔ یاد رکھیں ہماری روح ایک مسافر ہے اور ہمارا جسم ایک کار ہے۔ کار میں بیٹھا مسافر تب ہی اپنی منزل مقصود پر بحفاظت پہنچے گا جب کار اندرونی و بیرونی نقائص سے پاک ہو گی۔ آپ اپنی سوچ اور عقائد کو جتنا مثبت رکھیں گے تو اس کار میں موجود مسافر اسی قدر خوش و خرم رہ کر اپنی منزل ‘‘نفس مطمئنّہ’’کی جانب بڑھتا رہے گا۔

اب جبکہ آپکو علم ہوگیا کہ ہماری اچھی یا بری سوچ ہمارے ذہنی اور طبعی رویوں کی آئینہ دار ہوتی ہے اب اس تناظر میں حسد کی بیماری کو سامنے رکھتے ہوے ایک حاسد انسان کے لیے کچھ علاج کے طریقے تجویز کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اگر آپ حسد کی بیماری میں مبتلا ہیں تو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جن نعمتوں پر دل میں حسد ہے ان پر اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو بھی مل جائیں اگر وہ اسبا ب و علل کے قانون کے تحت ممکن ہیں یعنی ناممکن چیزوں کی خواہش سے ذہن مزید پراگندگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور پھر وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کریں۔ اسکے بعد اپنے نفس کو جبراََ غیر کی نعمتوں کی جانب التفات سے روکیں اور ان وسوسوں پر خاص نظر رکھیں۔ تب خاص طور ساتھ ساتھ ہی جس سے حسد کیا جائے کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کو ان تما م امور میں مزید کامیابیاں دے جن پر آپ کو حسد ہے۔ اور اس انسان سے محبت کا اظہار کریں اور اس سے مل کر دل سے خوشی کا اظہار کریں۔ اگر جیب اجازت دے اور ممکن ہو تو جس سے آپ کو حسد ہے اسکے کے لئے کچھ تحفے تحائف کا بندوبست بھی کریں۔ اگریہ سب عمل کر کے پھر بھی افاقہ نہ ہو تو جس سے آپ کو حسد ہے اس سے مل کر اپنی کیفیت کا کھل کر اظہار اس سے کردیں اور اس سے اپنے حق میں دعا کے لئے کہیں۔

اللہ سب کو اس روحانی بیماری سے محفوظ رکھے – آمین

(ثاقب رشید۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2021