’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہو ئی تھی۔ اور تمام مقامات کمال آپؐ پر ختم ہو چکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اور اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے۔ آپؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپؐ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمرات تعلیم، غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو۔ خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ، پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ26تا27 جدید ایڈیشن- الحکم 24؍ اپریل 1903ء صفحہ1تا2)