دِل لگاویں جو صنم سے ہم وہ شیدائی نہیں
چَشمِ بِینا حُسن فانی کی تماشائی نہیں!
اِک قَدَح پی کر نہ جس کا تا اَبد رہوے خُمار
اہلِ دِل اس جامِ صہبا کے تمنائی نہیں!
مرغ دل! بچ کر تو رکھیو دامِ اُلفت سے قدم
زُلف کے پھندے میں پھنسنا کارِ دانائی نہیں
اس جہاں میں دوستوں سے کیا رکھے کوئی اُمید
زیرِ گَردُوں پوچھتا بھائی کو یاں بھائی نہیں
اپنی نظروں میں اگر کچھ مردِ میداں ہیں تو وہ
سچ کے کہہ دینے میں جن کو خوفِ رسوائی نہیں!
جوش ہے طاعَت کا دل میں اور عِبادت کےلئے
وائے قسمت! پر مُیَسَّر کُنجِ تنہائی نہیں!
آشناؔ کچھ عشق کا دھندا خدارا چھیڑیئے
صوفیانہ یہ ادا تیری ہمیں بھائی نہیں!
(بخار دل صفحہ22۔23)