• 27 اپریل, 2024

نیک کاموں کی تخم ریزی کیسے ہو سکتی ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسجد بننے سے ہماری ذمہ داری پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جہاں ہم نے عبادتوں کے حق ادا کرنے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات کی پابندی کی طرف بھی توجہ کرنی ہے۔ پہلے سے بڑھ کر توجہ دینی ہے ورنہ ہم مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریاکاری، عُجب، خود بینی، تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفاتِ رذیلہ ترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وغیرہ صفات حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اُٹھ گئے ہیں۔’’ توکّل، تفویض وغیرہ سب باتیں کالعدم ہیں۔‘‘ یعنی دنیا داری پر انحصار اور اپنی بڑائی تکبر وغیرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل کم ہے۔ دنیا کے خداؤں کی طرف توجہ زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرف توجہ کم ہے۔ عبادت کے حق بھی ادا نہیں کئے جاتے اور جو کام اللہ تعالیٰ نے سپرد کئے ہیں، جن نیکیوں کا حکم دیا ہے اُن پر توجہ بالکل بھی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کس طرح ہو سکتے ہیں؟ کس طرح یہ حق ادا کر سکتے ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو۔‘‘

(البدرجلد 3نمبر10 مورخہ 8مارچ1904ء صفحہ3)

یعنی ان نیک کاموں کی تخم ریزی ہو۔ خدا کا یہ ارادہ کس طرح ہے؟ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا ہے۔

پس ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں دنیا داری سے ہٹ کر خالص ہونا ہو گا اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، تب ہی مسجد بنانے کا ہمارا مقصد پورا ہو گا۔ عبادتوں کے ساتھ اپنے اعمال کی درستی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ جو یہ کرے گا وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ کہ ’’اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخمریزی ہو‘‘ یہ نرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ طبیعتوں میں یہ انقلاب اس تخم ریزی سے پیدا ہوئے۔ آج سے ایک سو تئیس سال پہلے جو تخمریزی ہوئی تھی، اُس نے لاکھوں عبادالصالحین پیدا کئے۔ عبادالصالحین کے پھل آپ کو عطا کئے اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک آج بھی جاری ہے۔ نئے لوگ جو جماعت میں شامل ہوتے ہیں وہ اس سوچ کے ساتھ ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا ہو۔ کس طرح عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ کس طرح اعلیٰ معیار حاصل کئے جائیں جس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن جائے؟ آپ لوگ جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ میں بہت بڑی تعداد ایسے احمدیوں کی ہے جن کے باپ دادا احمدی ہوئے۔ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے ارادے کو سمجھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آئے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیار قائم کئے۔ پس اُن بزرگوں کی عبادتوں کو مزید پھل لگانے کے لئے اگلی نسلوں کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ اور یہی چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو دوسروں سے ممتاز کرنے والی ہو گی۔ ورنہ ظاہری نمازیں، ظاہری روزے، ظاہری طور پر قرآنِ کریم پڑھنا، اس کی تلاوت کرنا، یہ تو بہت سے دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ہم میں اور دوسروں میں فرق صرف اُسی وقت ظاہر ہو گا جب ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کے لئے ہو گا اور جب ہم دنیاوی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے پہلو تلاش کریں گے۔ تو اُس وقت مساجد میں جا کر عبادت کے وقت بھی ہماری تمام تر توجہات خدا تعالیٰ کی طرف ہوں گی اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسے ہی پکاریں گے۔ نمازوں میں ہماری توجہ ہمارے کاروباروں کی طرف نہیں ہو گی، ملازمتوں کی طرف نہیں ہو گی، دنیاوی خواہشات کے حصول کی طرف نہیں ہو گی، کسی دوسرے سے دنیاوی بدلے لینے کی طرف نہیں ہوگی بلکہ تمام معاملات خدا پر چھوڑ کر اُس کے حضور جھکیں گے۔ اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضاکے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔ اُن باتوں پر عمل کرنے والے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ہمیں حکم دیاہے۔ نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں۔ تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں۔ گناہوں اور زیادتی سے بچنے والے ہوں اور اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہوں۔ صرف بچنا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف جہاد بھی کرنا ہے۔

(خطبہ جمعہ 24 فروری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اگست 2021