’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کوکھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد7 صفحہ119 ایڈیشن1984ء)
دہلی کی جامع مسجدکودیکھ کرفرمایاکہ:
’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے۔ بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی۔ اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیاد اروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا۔ یعنی ضرر رساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔‘‘
(ملفوظات جلد8صفحہ 170۔ایڈیشن1984ء)