خاکسار امۃ الباری ناصر اپریل 1949ء میں اپنے خاندان کے ساتھ اس پہلی ٹرین پر ربوہ آئی جس میں قادیان کے مہاجرین مقیم رتن باغ لاہور کو ربوہ لانے کا انتظام کیا گیا تھا ربوہ میں ہمارا استقبال حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے کیا اس کے بعد 1963ء تک ربوہ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی ربوہ سے ہی تعلیم پائی جامعہ نصرت میں پڑھنے پڑھانے کا موقع ملا ۔۔ الحمدللہ
قادیان میں جلسہ سالانہ کے ضمن میں امی جان (مرحومہ مغفورہ) سے لگ کربیٹھنا اور مزے کی چیزیں کھانا یاد ہے۔ مقررین کی آواز ایک بانس کے اوپر لگے ہوئے لاؤڈ سپیکر سے آتی تھی بہت سوچنے پر بھی یہ معلوم نہ ہوسکا کہ جو بول رہا ہے وہ بانس کے اندر کیسے گیا ہے۔ برقی تار سے آواز کی منتقلی کا سوچنا چھوٹے سے دماغ کی استطاعت سے بہت دور تھا۔ ربوہ کے جلسوں میں بچپنے میں تو کسیرپر کھیلنا ’مہمانوں کی رونق اور لنگر خانے کا کھانا ہی سب سے زیادہ پر کشش تھا۔۔ جلسے کے دنوں کا ایک منظر ذہن میں ابھی بھی تازہ ہے
کوزہ گر گڑھے میں پاؤں لٹکائے ایک میز کو مسلسل گھماتا رہتا اس کے ابھرے ہوئے حصے پر گیلی مٹی سے آب خورے ۔گلاس۔ کوزے۔ گھڑے صراحیاں بنتی ہوئی نظر آتیں۔ اس کی لگے بندھے اندازے سے چاک پر مٹی سے سنے بڑے بڑے ہاتھوں کی انگلیوں کے ذرا سے دباؤ یا ڈھیل سے خاص شکل بنتی پھر وہ ایک ڈور کی جنبش سے اسے چاک سے کاٹ کر الگ کر دیتا۔ تیار برتنوں کو ایک لمبی قطار میں رکھا جاتا۔ تاکہ خشک ہونے پر انہیں بھٹہ میں پکا کر استعمال میں لایا جائے۔ جلسہ سالانہ سے پہلے کوزہ گر کا کام بہت بڑھ جاتا۔۔ ۔ میں نےکچے آب خورے میں پانی کی ٹھنڈک اور کچےپیالے میں لنگر کے آلو گوشت اور دال کا ذائقہ چکھا ہے۔ جلسے کے ذکر کے ساتھ تقریروں کے دوران آٹا پیسنے والی چکی کی پھک پھک پھک جیسی آواز بھی یاد آگئی
آج ایم ٹی اے پر خلیفہء وقت کو شب و روز دیکھنے والوں کو یہ بھی بتا دوں کہ جلسے میں حضورکی تقریر کے بعد ہم بھاگ بھاگ کر اس سڑک کے کنارے کھڑے ہوجاتے تھے جہاں سے حضور کے دیدار کی آس ہوتی۔ کبھی صرف پگڑی کا شملہ نظر آتا اسی پر خوش رہتے
7 دسمبر 1957ء کے جلسے کی تقریر میں حضرت مصلح موعود ؓ نے وقف جدید کی تحریک فرمائی۔ بہت ایمان افروز خطاب تھا ۔ اس دن میں نے سوچا کہ میں لڑکا ہوتی تو آج ہی خود کو پیش کردیتی گھر آئی تو میری امی جان نے حضور انور کے نام ایک خط لکھوایا کہ میرے تینوں بیٹے حاضر ہیں مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ ہمارے بزرگ اپنی خاموش تربیت سے دلوں پر گہرے نقش چھوڑتے ہیں
جلسوں پر ڈیوٹیاں بھی دیں 1960 میں نائبہ نگران شعبہ انتظامات مقرر ہوئی 1962ء میں جلسہ سالانہ پر تقریر کا موقع ملا خوش قسمتی سے سٹیج پر جگہ ملی افتتاحی خطاب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کا تھا اس نایاب وجود اور دوسری معزز خواتین مبارکہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ زندگی کے یادگار واقعات میں شامل ہے اور اسی سال قیام گاہ مستورات میں رپورٹر کے فرائض ادا کئے۔ الحمدللہ ۔۔ ۔۔ جلسوں میں علمائے کرام کی تقاریر سننے میں بڑا لطف آتا۔۔ ہم شام کو قیام گاہوں میں عزیزوں سے ملنے جاتے گھر پر بھی مہمان آتے غرضیکہ انتہائی پر لطف دن ہوتے جو اب یادوں میں محفوظ ہیں شادی کے بعد کراچی۔ اسلام آباد اور لاہور سے سفر کرکے جلسے کے لئے آتے۔ اس کا اپنا مزا تھا ایک تو ربوہ پھر مائکہ ۔۔ یہ بھی بتا دوں کہ میرا رشتہ اور شادی بھی جلسے پر ہوئی۔۔۔ لجنہ کراچی میں خدمات ادا کرتے ہوئے المحراب سَوواں جلسہ سالانہ نمبر نکالنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کی تیاری میں جلسہ سالانہ کی پوری تاریخ سے شناسائی ہوئی الحمدللہ ..
اللہ کرے ربوہ کی وہ رونقیں لوٹ آئیں
دعا کریں کہ ہو ربوہ میں جلسہ سالانہ
ہزاروں لاکھوں سنیں پھر حضور کی تقریر
ہر اک زباں پہ ہو حمد و ثنا سلام و درود
فضا میں گونجے اذاں اور نعرہء تکبیر
(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)