وَدَعُوْاتَذَکُّرَمَعْھَدِالْاَوْطَانٖ
انہوں نے اپنے وطنوں کی یاد گاروں کو بھی ترک کر دیا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے پر کیف عربی قصیدہ کا ایک شعر ہے:
وَقَدِ اقْتَفَاکَ اُولُوالنُّھٰی وَ بِصِدْقِھِمْ
وَ دَعُوْا تَذَکُّرَ مَعْھَدِ الْاَوْطَانٖ
یعنی دانش مندوں نے پیروی کے لئے تجھے منتخب کر لیا اور اپنے صدق کی وجہ سے انہوں نے اپنے وطنوں کی یاد گاروں کی یاد کو بھی ترک کر دیا
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ایسے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل کے عہد میں بھی دہرائے گئے جس کی اعلیٰ مثال حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین بھیروی کی ہے جن کے متعلق آنحضرت کے ظل کامل مسیح موعود نے تحریر فرمایا ہے
’’وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بد زبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہےاور میرا کلام سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے اصل وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے‘‘
(ترجمہ از عربی عبارت مندرجہ آئینہ کمالات اسلام بحوالہ مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین صفحہ2)
بھیرہ سے قادیان ہجرت
آپؓ کی بھیرہ سے قادیان ہجرت کا واقعہ اپنی نوعیت کا انوکھا، عجیب اور حسین ترین واقعہ ہے۔
آپ ریاست جموں کشمیر میں مہاراجہ کے شاہی طبیب تھے جب ملازمت سے سبکدوش ہوکر اپنے وطن بھیرہ واپس تشریف لائے تو آپ نے بھیرہ اندرون ملتانی گیٹ (لالو والا دروازہ) بہت بڑے پیمانہ پر شفا خانہ اور اس کے ساتھ ایک عالیشان مکان بنوانا شروع کیا
آپ فرماتے ہیں:
’’… بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفا خانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنا لوں وہاں میں نے ایک مکان بنایا ابھی وہ ناتمام ہی تھا اور غالباً سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں اس واسطے قادیان آیا چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا اس لئے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لے کر رخصت ہوں آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے میں نے کہا ہاں اب تو میں فارغ ہی ہوں یکہ والے سے میں نے کہہ دیا کہ اب تم چلے جاؤ آج اجازت لینا مناسب نہیں کل پرسوں اجازت لیں گے اگلے روز آپ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی آپ اپنی ایک بیوی کو بلوا لیں میں نے حسب الارشاد بیوی کو بلانے کے لئے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلدی نہ ہی آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیں جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوا لیں تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرور بلا لیں
لیکن مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو نور الدین کے متعلق الہام ہوا ہے اور وہ شعر حریری میں موجود ہے:
لا تصبون الی الوطن
فیہ تھان و تمتحن
خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میری واہمہ اور خواب میں بھی پھر وطن کا خیال نہ آیا پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے‘‘
(مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین صفحہ186تا187)
اگرچہ یہ واقعہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لٹریچر میں سوا سو سال سے دہرایا جا رہا ہے لیکن ہر دفعہ پڑھ کر ایمان کی تازگی اور شادابی کا باعث بنتا ہے
حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
’’بھیرہ سے ہم کو نصرت پہنچی ہے‘‘
(ذکر حبیب مؤلفہ مفتی محمد صادق صاحب)
حضرت مصلح موعودؓ آپ کے مالوف وطن بھیرہ اور ان مقامات کو دیکھنے کے لئے 1950ء میں ربوہ سے ایک روزہ دورے پر بھیرہ تشریف لے گئے تھے
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد16)
(انجینئر محمود مجیب اصغر)