کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 8
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔ نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
عبادت میں ذوق و شوق
اعمال صالحہ اور عبادت میں ذوق شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے۔ اور ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے۔جب انسان اس طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خد اتعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے اس کے دل میں تڑپ اور بے قراری ہوتی ہے۔ یعنی عبادت کے لیے ایک ذوق و شوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے اور وہ یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں۔ اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔ خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے۔اس لیے ہر وقت اس کے فضل کے لیے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے۔ جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تاکہ وہ زہر اور جوش پید انہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔
(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ154-155۔ ایڈیشن 1984ء)
خدا سے ڈرنے والے کے دو جنت ہوتے ہیں
یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ایسے شخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ تو کَل بھی گیا اور آج بھی گیا۔یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتاہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔انسان کو چاہیے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلاء دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گزرنے کے سوا ہی خدا خوش ہو جائے۔خدا تعالیٰ رحیم کریم ہے، مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں۔ اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے
عشق اوّل سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیبہ حاصل ہوتی ہے اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصہ مجھے بھی ملے۔ جب تک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کردے، اور محسوس نہ کرلے کہ نفسِ امارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے، لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ (النساء:146) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے، اس کو اُٹھایا جائے گا۔ مگر مومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے۔ اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں۔
ریاکاری
ریاکار انسان بے فائدہ کام کرتا ہے۔ مومن کو تو خداوند تعالیٰ خودبخود شہرت دیتا ہے۔ ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ مسجدوں میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا تھا تا کہ لوگ اُسے نیک کہیں۔ لیکن جب وہ بازار سے گزرتا تو لڑکے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے اور کہتے کہ یہ ایک ریاکار آدمی ہے جو دکھلاوے کی نمازیں پڑھتا ہے۔ ایک دن اس شخص کو خیال ہوا کہ میں لوگوں کا کیوں خیال رکھتا ہوں اور بے فائدہ محنت اٹھاتا ہوں۔ مجھے چاہیے کہ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤں اور خالص خد اکی خاطر عبادت کروں۔ یہ بات سوچ کر اس نے سچی توبہ کی اور اپنے اعمال کو خدا کے واسطے خاص کر دیا اور دنیوی رنگ کی نمازیں چھوڑ دیں، اور علیحدگی میں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا اور اپنی عبادت کو پوشیدہ رکھنا چاہا۔ تب وہ جس کوچہ سے گزرتا لوگ اس کی طرف اشارہ کرتے کہ یہ ایک نیک بخت آدمی ہے۔
(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ185-187۔ ایڈیشن 1984ء)
خدا کی دوستی
سچا مومن وہ ہے جو کسی کی پروا نہ کرے۔خدا تعالیٰ خود ہی سارے بندوبست کردے گا۔ لوگوں کی تکلیف دہی کی پروا نہیں رکھنی چاہیے۔دنیا میں کوئی کسی کے ساتھ دوستی پکی کرتا ہے تو دنیا کے لوگ اپنے دوستی کا حق ادا کرتے ہیں۔وہ کون دوست ہے جس کے ساتھ سلوک کیا جاوے تو وہ بے تعلقی ظاہر کرے۔ ایک چور کے ساتھ ہمارا سچا تعلق ہو تو وہ بھی ہمارے گھر میں نقب زنی نہیں کرتا، تو کیا خدا تعالیٰ کی وفا چور کے برابر بھی نہیں۔ خدا تعالیٰ کی دوستی تو وہ ہے کہ دنیاداروں میں ا سکی کوئی نظیر ہی نہیں۔ دنیاداروں کی دوستی میں تو عذر بھی ہے۔ تھوڑی سی رنجش کے ساتھ دنیا دار دوستی توڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔مگر خدا تعالیٰ کے تعلقات پکے ہیں۔جو شخص خد اتعالیٰ کے ساتھ دوستی کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر برکات نازل کرتا ہے۔اس کے گھر میں برکت دیتا ہے۔ اس کے کپڑوں میں برکت دیتا ہے۔اس کے پس خوردہ میں برکت دیتا ہے۔
بخاری میں ہے کہ نوافل کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ نوافل ہر شئے میں ہوتے ہیں۔ فرض سے بڑھ کر جو کچھ کیا جائے وہ سب نوافل میں داخل ہے۔ جب انسان نوافل میں ترقی کرتا ہے توخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے۔ اور اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی سے مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ لڑائی کے لیے تیار ہو جائے۔خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی محبت کرنے والے بھی غنی،بے نیاز ہو جاتے ہیں۔لوگوں کی تکذیب کی کچھ پروا نہیں رکھتے۔جو لوگ خلقت کی پروا کرتے ہیں وہ خلق کو معبود بناتے ہیں۔خدا تعالیٰ کے بندوں میں ہمدردی بہت ہوتی ہے۔مگر ساتھ ہی ایک بے نیازی کی صفت بھی لگی ہوئی ہے۔ وہ دنیا کی پروا نہیں کرتے۔آگے خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ دنیا کھچی ہوئی ان کی طرف چلی آتی ہے۔
(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ 187-188۔ ایڈیشن 1984ء)
نفس کے ہم پر حقوق
اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں۔ ظالمؔ لنفسہٖ۔ مقتصدؔ۔ سابقؔ بالخیرات۔ ظالم لنفسہٖ تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امّارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں۔ جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں۔
مقتصد وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں۔ ایک درجہ تک وہ نفس امّارہ سے نجات پاجاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں۔ پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی۔
مگر سابق بالخیرات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعالِ حَسَنہ ہی کا صدور ہوتا ہے۔ گویا اُن کے نفسِ امّارہ پر بالکل موت آجاتی ہے اور وہ مطمئنّہ حالات میں ہوتے ہیں۔ ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے۔ اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ۔
(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ107-108۔ ایڈیشن 1984ء)
ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اصل مقصد نہیں۔ تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نےمجھے مامور کیا ہے۔
(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ70۔ ایڈیشن 1984ء)
مقام نفس مطمئنہ
غرض نفس مطمئنہ کی تا ثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پا تے ہیں۔ امارہ والے میں نفس امارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں۔ اور لوامہ والے میں لوامہ کی تاثیریں ہوتی ہیں اور جو شخص نفس مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے۔ مطمئنہ والے کو پہلی نعمت یہ دی جاتی ہے کہ وہ خدا سے آرام پا تا ہے جیسے فرمایا ہے۔ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۸﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۹﴾ (الفجر: 28تا29) یعنی اے خد تعالیٰ میں آرام یا فتہ نفس اپنے رب کی طرف آجا وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی۔اس میں ایک با ریک نکتہ معرفت ہے جو یہ کہا کہ خدا تجھ سے راضی تو خدا سے راضی بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس مرحلہ پر نہیں پہنچتا اور لوامہ کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ سے ایک قسم کی لڑائی رہتی ہے یعنی کبھی کبھی وہ نفس کی تحریک سے نا فرمانی بھی کر بیٹھتا ہے۔لیکن جب مطمئنہ کی حالت پر پہنچتا ہے تو اس جنگ کا خا تمہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے صلح ہو جاتی ہے۔اس وقت وہ خدا سے راضی ہو تا ہے اور خدا اس سے راضی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ لڑائی بھڑائی بالکل جاتی رہتی ہے۔
یہ بات خوب یا د رکھنی چاہئے کہ ہر شخص خدا تعالیٰ سے لڑائی رکھتا ہے اوربعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتا ہے اور بہت سی اَمانی اور امیدیں رکھتا ہے لیکن اس کی وہ دعائیں نہیں سنی جا تی ہیں یا خلاف امید کوئی بات ظاہر ہو تی ہے تو دل کے اندر اللہ تعالیٰ سے ایک لڑائی شروع کر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ پر بدظنی اور اُس سے نا راضگی کا اظہار کرتا ہے لیکن صالحین اور عبادالرحمن کی کبھی اللہ تعالیٰ سے جنگ نہیں ہوتی کیونکہ وہ رضا بالقضاکے مقام پر ہوتے ہیں۔اور سچ تو یہ ہے کہ حقیقی ایمان اس وقت تک پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک انسان اس درجہ کو حا صل نہ کرے کہ خداکی مرضی اس کی مرضی ہو جاوے۔ دل میں کوئی کدورت اور تنگی محسوس نہ ہو بلکہ شرح صدر کے سا تھ اس کی ہر تقدیر اور قضا کے سامنے کو طیار ہو۔اس آیت میں رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہ رضا کا اعلیٰ مقام ہے جہاں کوئی ابتلا با قی نہیں رہتا۔ دوسرے جس قدر مقامات ہیں وہاں ابتلا کا اندیشہ رہتا ہے۔لیکن جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اس وقت محبت ذاتی پیدا ہو جاتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے اس ذاتی محبت کو دعا سے حا صل کرنا چاہیے جب تک یہ محبت پیدا نہ ہو انسان نفس امارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتار رہتا ہے۔اور ایسے لوگ جو نفس امارہ کے نیچے ہیں اُن کا قول ہے ’’ایہہ جہاں مٹھا اگلا کن ڈٹھا‘‘ یہ لوگ بڑی بڑی خطر ناک حالت میں ہو تے ہیں اور لوامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں۔اُن کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ اُن کی لڑائی نفس کے سا تھ شروع ہو تی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہوتے ہیں تاہم یہ لوگ محل مدح میں ہوتے ہیں کیونکہ اُن سے نیکیاں بھی سر زد ہوتی ہیں اور خوف خدا بھی ان کے دل میں ہوتا ہے لیکن نفس مطمئنہ والے بالکل فتح مند ہوتے ہیں اور وہ سا رے خطروں اور خو فوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں وہ اس دارالامان میں ہوتے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا۔ لوّامہ والا جیسا کہ میں نے کہا دارالامان کی ڈیوڑھی میں ہوتا ہے اور کبھی کبھی دشمن بھی اپنا وار کر جاتا ہے اور کوئی لا ٹھی مار جاتا ہے۔ اس لئے مطمئنہ والے کو کہا ہے فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۳۰﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۱﴾ (الفجر: 30تا31) یہ آواز اس وقت آتی ہے جب وہ اپنے تقویٰ کو انتہائی مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے۔ تقویٰ کے دو درجے ہیں۔ بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سر گرم ہونا یہ دوسرا مرتبہ محسنین کا ہے۔ اس درجہ کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو سکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حا صل ہی نہیں ہو سکتا۔
جب انسان بدی سے پر ہیز کرتا ہے اور نیکیوں کے لئے اس کا دل تڑپتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے دارالامان میں پہنچا دیتا ہے۔اور فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ کی آواز اُسے آجا تی ہے یعنی تیری جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور میرے سا تھ تیری صلح اور آشتی ہو چکی ہے اب آمیرے بندوں میں داخل ہو جو صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے مصداق ہیں اور روحانی وراثت سے جن کو حصہ ملتا ہے میری بہشت میں داخل ہو جا۔
(ملفوظات۔ جلد5 صفحہ373-375۔ ایڈیشن 2016ء)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
بعض لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ذرا دنیا کا کوئی ابتلا پیش آجاوے تو سارا جوش ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اگر ایسے ہی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوں تو اُن سے کیا فائدہ اورصحابہ سے کیا مقابلہ۔ صحابہ کی عجیب حالت تھی۔ اُن کے بیوی بچے بھی تھے۔ پھر بھی ہزاروں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے گئے۔ اگروہ دین کو دنیا پر مقدم نہ کر لیتے تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ اپنی جانوں کو اس طرح پر خدا کی راہ میں دے دیتے۔ لکھا ہے کہ ایک صحابی کے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں اور وہ کھا رہا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ دوسرا شہید ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے نفس کو سخت ملامت کی کہ تیرا بھائی شہید ہو گیا ہے اور تو ابھی باقی ہے۔ یہ تھی ان لوگوں کی ایمانی حالت۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی۔ ہاں خدمتگار کے طور پر تو بیشک ہو سکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی۔ یہ کبھی نہیں سُناگیا کہ جس کا تعلق صافی اللہ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے۔ جب یہ حالت ہے تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگاکر ضدیں جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے۔
صحابہ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا۔ حضرت عمرؓ کو دیکھو کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے۔ اسی طرح پر ہمیں کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت میں وہ کونسے لوگ ہیں جن کے ایمانی قویٰ ویسے ہی نشوونما پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قویٰ نشوونما پاکر ایک جماعت قائم کرنے والے ہوں تو پھر سلسلہ چل کیسے سکتا ہے۔ مگر یہ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خد اکیلئے نہیں اس سے کیا فائدہ؟خدا کے لئے قدم رکھنا امر سہل بھی ہے جبکہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو جاوے اور رُوح القدس سے اس کی تائید کرے۔ یہ باتیں پیدا نہیں ہوتی ہیں جبتک اپنے نفس کی قربانی نہ کرے اور نہ اس پر عمل ہو۔ وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۱﴾ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۲﴾ (النازعات: 41تا42) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اگر ہوائے نفس کو روک دیں۔ صوفیوں نے جو فنا وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی کے نیچے ہو۔
(ملفوظات۔ جلد7 صفحہ 411-412۔ ایڈیشن 1984ء)
والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچّہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہمّ و غم والدین اُٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے۔ تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچّہ کے واسطے بہت دُکھ اُٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو۔ چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو۔ ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی۔
ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں۔ ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے۔ یہ طبعی محبت ہے۔ جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ خدا تعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی۔ (النحل:91)
ادنیٰ درجہ عدل کا ہوتا ہے۔ جتنا لے اتنا دے۔ اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے۔ پھر اس سے بڑھ کر ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچہ کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضہ کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کر کے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ انسان کا ظرف چھوٹا نہیں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ بلکہ یہ وسعت اخلاق کے لوازمات میں سے ہے۔ میں تو قائل ہوں کہ اہل اللہ یہاں تک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازہ سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
ایک بُڑھیا کا ذکر ہے کہ حضرت ابو بکر کی وفات کے روز بغیر اس کے کہ اس کو کسی نے خبر دی ہو خود بخود کہنے لگی کہ آج ابو بکر مَر گیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تجھ کو کس طرح سے معلوم ہوا۔ اس نے کہا کہ ہر روز مجھ کو آپ حلوہ کھلایا کرتے تھے اور وہ وعدہ میں تخلف کرنے والے ہرگز نہ تھے چونکہ آج وہ حلوہ کھلانے نہیں آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں ورنہ وہ ضرور مجھے حلوہ کھلانے آج بھی آتے۔ دیکھو۔ اخلاقی حالت کہاں تک وسعت کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ان اخلاق پر دوسرے لوگ قادر نہیں ہو سکتے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے پاس ایک مجرم پکڑا ہوا آیا تو وہ آپ ہی رُعب سے کانپتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تو کیوں اتنا ڈرتا ہے میں تو ایک بڑھیا کا بیٹا ہوں۔ معمولی انسانوں کے یہ اخلاق نہیں ہوتے۔ عرب کی قوم کئی پُشتوں تک کینہ رکھنے والی تھی۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے جب اُن پر غلبہ پایا تو باوجود اس قدر دُکھوں کے جو اُن سے اُٹھائے تھے سب کو معاف کر دیا۔ دنیوی حکومت رحم نہیں کر سکتی۔ انگریزوں نے باغیوں کو کس طرح پھانسی دیا اور قتل کیا تھا مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے سب باغیوں کو یکدفعہ معاف کر دیا۔ کسی نبی کو ایسی پوری کامیابی نہیں ہوئی جیسی کہ آنحضرت ﷺ کو ہوئی۔ حضرت موسٰیؑ اپنے وعدہ کی زمین تک نہ پہنچ سکے اور راستہ میں ہی فوت ہو گئے اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ اے موسٰی تو اور تیرا خدا مِل کر مخالفوں سے جاکر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ مگر آنحضرت ﷺ کے اصحاب نے کہا کہ ہم تیرے ساتھ چلیں گے اگرچہ سمندر میں گریں اور قتل کئے جائیں۔
قاعدہ ہے کہ نبی کا پرتَو اُمت پر بھی پڑتا ہے۔ جب اُستاد کامل ہوتا ہے ایسے ہی شاگرد بھی بنتے ہیں۔ جیسے حضرت نبی کریم ﷺ کی شجاعت، افعال و اعمال اور کامیابی کی نظیر نہیں ویسے ہی صحابہؓ کی بھی نظیر نہیں۔ صحابہؓ باوجود قلیل ہونے کے جدھر جاتے فتح پاتے صحابہ ایسے تھے جیسے کسی برتن کو دھوکر بالکل صاف سُتھرا کر دیا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی آلائش کا شائبہ نہیں رہتا۔ اُن کی ایسی محنت اور اخلاص تھا تو خدا تعالیٰ نے پھر بدلہ بھی ایسا دیا۔ حضرت ابو بکرؓ کو آنحضرتؐ کا خلیفہ بنایا۔
(ملفوظات۔ جلد7 صفحہ375-376۔ ایڈیشن 1984ء)
(اس اہم روحانی مائدہ کی تیاری مکرم محمد اظہر منگلا استاذ جامعہ احمدیہ غانا اور عزیزم عبدالمجیب طالب علم جامعہ احمدیہ غانا کے ذریعہ ہورہی ہے)
(ابو سعید)