• 28 اپریل, 2024

دجالیتی طلسم

جدید دور کا انتہائی سحر انگیز اور دلفریب شیطانی جال جو مادی اور روحانی دنیا کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے ۔ایسا طلسم جو دھویں کی طرح شش جہات، اور ہر طبقہ کو اپنے جا ل میں مختلف اور متلون انداز میں دبوچ رہا ہے مخبر صادق حضرت رسول پاک رحمت للعالمین ﷺ نے صدیوں قبل اس کی خبر امت کے گوش گزار کر دی تھی کہ دجالی دھویں سے کوئی بچ نہ پائے گا۔گزشتہ دنوں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰٰ بنصرہ العزیز نے فلسطین کی لجنہ اماءاللہ کو جدید دور کے چیلنج سے آگاہی دیتے ہوئے فرمایا کہ دجالیت کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا جس کے لیے اپنی اولاد کی احسن طریق پر تربیت کرنی ہوگی ۔جہاں یہ دجالی اژدھا تیسری دنیا کے غریب طبقے کو اپنے چنگل میں دبوچ چکا ہے اب یہ امیر طبقے کو جدید طرز فکر سے مسحور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔۔یہی دجال اصل میں شیطان کا مظہر ہے جو انسانیت کو راہ راست سے گمراہ کرنے والا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں دجال کی دو شانیں ہیں ایک تو پادری لوگ ہیں جو گویا نبوت کا دعوی کرتے ہیں ہرا س قسم کے مکروفریب کے ساتھ لوگوں کو بہکاتے ہیں اور عیسائی بناتے ہیں خود انجیل اور تورات کا ترجمہ در ترجمہ کرتے ہیں اصل کتاب ان کے پاس موجود نہیں تراجم میں ہمیشہ تبدیلیاں کرتے ہیں اور انہی اپنے خیالات کے الفاظ کو دنیا کے سامنے پیش کر کے بیان کرتے ہیں کہ خدا کا کلام ہے۔یہ ایک طرح سے نبوت کا دعوی ہے۔ دوسرے اس زمانہ کے فلسفی لوگ ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے ہی منکر ہو بیٹھے ہیں اور رات دن مادی دنیا کی طرف ایسے جھکے ہوئے ہیں کہ دین کو کچھ نہیں سمجھتے بلکہ دین کو غیر ضروری اور اپنی دنیوی ترقی کی راہ میں ایک حارج یقین کرتے ہیں۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ233تا 234)

اب ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ دور کی نسل دینی تعلیم پر توجہ نہیں دیتی سطحی اور فرضی باتوں پر اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں نماز کو سیکھنے اور اس کے آداب سے واقف نہیں ہوتے نماز کو توجہ سے پڑھنا دور کی بات ہے۔ خدا تعالیٰ اور دعاؤں کی طرف توجہ بہت کم ہے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر بے یقینی ہے۔ قرآن شریف جو خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کے منہ کی باتیں ہیں اس کے پڑھنے کی طرف توجہ نہیں غوروفکر تو دور کی بات ہے قرآن کریم سے جو محبت ہونی چاہیے اس کے بدلے میں دوسری کتابوں ناول اور فرضی دنیا کی کہانیوں کی کتابوں سے محبت ہے۔ گویا خدا کی راہوں کو تلاش کرنے کی طرف توجہ نہیں صرف لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھایا جاتا ہے کے انسانیت کی خدمت کرو خدا مل جائے گا اور خدا تعالیٰ کو گویا چھوڑ دو خدا کی عبادت کرنا خدا کے بتائی ہوئی باتیں گویا کہ کڑوی گولی ہیں۔ انسانیت کے رنگ میں لو گوں میں اپنے آپ کو مشہور رکھنا اور خلق سے دوری کیا یہ تضاد نہیں؟ وہ خالق کس طرح خوش ہو گا جس کو چھوڑ کر آپ اس کی مخلوق کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہ غیر متوازن زندگی ہے۔ زندگی میں توازن زندگی کی خوبصورتی ہے اور دین کی خوبصورتی ہےاور انسانیت کی خوبصورتی ہے۔ حضرت سید ولد آدم حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم انسان کامل بھی تھے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اعلیٰ وارفع تعلق بھی تھا۔ آپ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بھی تھے اور انسانیت کے ساتھ ماں باپ سے بڑھ کر تعلق تھا۔

اس جدید دور میں لوگ اپنے ماں باپ سے عزیزواقارب سے بے رخی برتے ہیں اور اپنے دوستوں سے رنگ رلیاں مناتے ہیں عبادت سے غافل ہیں دنیا کے کھیل تماشہ میں مشغول ہیں۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے گھبراتے ہیں دنیا کے فضول کاموں میں پانی کی طرح دولت بہاتے ہیں تا دنیا داروں سے سرٹیفکیٹ حاصل کر سکیں۔ صلحاء اور خلفاء اور بزرگوں کی محافل سے کتراتے ہیں اور شیطانی باتوں اور شیطانی حیلوں کو اپناتے ہیں اپنوں کے حقوق سے غافل اور پرایوں کے حقوق کی جنگ کرتے ہیں ۔ ضمیر کی آزادی کا اعلان کرتے اور خدا کے دین کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ انسانیت کو تار تار کر کے انسانیت کے نام پر دنیا سے بٹورتے ہیں۔ دنیا میں خطرناک ہتھیاروں کو پھیلا کر پھر امن پھیلانے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ اس دجالی طلسم نے دنیا کے فلاسفروں مادی طبقہ مذہبی طبقہ کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ کبھی پیسے کے نام پر انسانیت کو خریدتے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر خریدتے ہیں کبھی ڈیموکریسی کے نام پر خریدتے ہیں اور پھر شہر شہرگلیوں گلیوں میں انسانیت کا خون بہاتیں ہیں ان کے نزدیک انسان وہی ہے جو ان کے گروہ میں شامل ہے۔ یہی فتنہ عظیم تھا جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں ذکر فرمایا ۔ اسی کے سدباب کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا ذکر فرمایا کہ یہ طلسم اور یہ دجل اس کےروحانی ہاتھ سے ہی ختم ہوگا کوئی دنیاوی طاقت اس کو ختم نہیں کر سکے گی یہ مسیح موعود علیہ السلام کی تدابیر آسمانی حربے اور دعاؤں سے ہوگا۔ اور اب اس موجودہ دور میں اس کا کام خلافت حقہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں خلیفۂ وقت کی آواز کو سن کر اس پر عمل کرنا چاہیے اسکی نصائح کو اپنے دلوں میں اتارنا چاہیے۔ اس کی محفل میں بیٹھ کر اس سے تعلق بڑھانا چاہیے اس کی باتوں پر من و عن عمل کرنا چاہیے ۔ اس پاکیزہ وجود کو اپنی ڈھال بنانا چاہیے۔ اس ذریعہ سے ہم اپنی اور اپنی اولاد کو محفوظ کر سکتے ہیں اس دور کا یہی حقیقی دارالامان ہے خدا ہمیں اس امان میں داخل فرمائے۔ آمین۔

(محمد داود بھٹی۔ مبلغ سلسلہ یوگنڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2021

اگلا پڑھیں

’’اے اللہ! عَبّاد پر رحم کر‘‘