تعارف صحابہ کرام حضرت مسیح موعودؑ
حضرت حاجی میاں محمد موسیٰؓ آف نیلا گنبد لاہور
حضرت محمد موسیٰ صاحبؓ 1872ء میں ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام میاں عبدالکریم تھا۔آپ کا خاندان ایمانداری اور تقویٰ کی وجہ سے بہت عزت و تکریم سے دیکھا جاتا تھا۔ لاہور شہر میں سائیکلوں کاکاروبار کیا۔سائیکلوں کی دکان ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبدلاہور1901ءسے قائم ہے اور سائیکل مارکیٹ کی پرانی دکانوں میں سے ایک ہے۔
حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ آف نیلا گنبد لاہور 1902ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے مقدس ہاتھ پر بیعت کرکےسلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے پیار کی نگاہوں نے آپ کواس قابل بنایا کہ اپنی زندگی حضورؑ کے جذبہٴ عشق اور اطاعت میں بسر کی۔آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کےبھی دستِ راست رہے۔
حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحبؓ آف نیلا گنبد لاہورکا شمار حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصَّلوٰةُ وَ السَّلام کے جیّد صحابہ میں ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ لاہور کے صفِ اوّل کے صحابی تھے۔
حضرت میاں محمد موسیٰ نے 1902ء میں ایک خط کے ذریعے حضرت مسیح موعودؑ سے ان کی صداقت کا ثبوت مانگا۔آپ ؑ کے جواب سے مکمل تسلّی ہوگئی اور ہر قسم کے شکوک و شبہات جو شایدمخالفین نےان کے دماغ میں ڈال دیے تھے ہمیشہ کے لئےدور ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ شعر ان کی اندرونی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔
؎ صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوفِ کردگار
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری ایّام میں آپ کے بارے میں مندرجہ ذیل تعریفی کلمہ کہا جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔
’’موسیٰ صاحب آپ نے دین کی بہت خدمت کی۔‘‘
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ310)
میاں محمد موسیٰ صاحبؓ نے تین شادیاں کیں۔آپ کی پہلی شادی 1893ء میں ہوئی۔اس اہلیہ کے بطن سے صرف ایک لڑکا میاں محمد حسین 1894ء کو پیدا ہوا۔دوسری شادی ایک بیوہ سے کی جس کی آپ ایک عرصہ سے کفالت کررہے تھے۔حضرت مسیح موعودؑ سے باقاعدہ اجازت لے کرآپ نے تیسری شادی 1902ء میں ہماری دادی جان رحمت بی بی صاحبہ سے کی۔حضرت مسیح موعودؑ نے اس شادی کے لئے دعا کی۔ رحمت بی بی صاحبہ کا ولادت کا سن 1875ء ہے اور وہ 1904 ء میں بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئیں۔
میاں محمد موسیٰ صاحب بیعت سے پہلےایک دفعہ خود قادیان چلے گئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر سچائی کی حقیقت آشکار ہو چکی تھی۔ احمدیت قبول کرنے کا واقعہ وہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:
’’بیعت کرنے سے چھ سات ماہ پہلے میں قادیان گیا۔ اس وقت میرے رشتہ داروں نے وہاں جانے کی سخت مخالفت کی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں وہاں جا کر مرزا صاحب کے گھر کھانا نہ کھاؤں اور نہ ہی بیعت کروں۔ میاں محمدموسیٰ صاحب گھر والوں اور رشتہ داروں سے وعدہ کرکے قادیان گئے تھے اس لئے انہوں نے اس وقت بیعت نہ کی تھی۔اس وقت میرے ساتھ میری اہلیہ کے بھائی بھی تھے جن کا نام شہاب الدین تھا۔ قادیان جا کر مولوی عبدالکریم صاحب سے ملا اور حضور علیہ السلام کی ملاقات بھی ہوئی اور حضور سے مصافحہ بھی کیا اور کچھ باتیں بھی کیں جو اب یاد نہیں۔ تین نمازیں بھی حضور کے ہمراہ مولوی عبد الکریم کی اقتداء میں پڑھیں۔ مجھ پر اس وقت آپ کی صداقت کا بہت اثر ہوا۔ گو میں نے اپنے رشتہ داروں سے وعدہ کرنے کی وجہ سے بیعت نہ کی۔ اس وقت مجھ پر حضور کی محبت کا جو اثر تھا اس کو دیکھ کر میرے نسبتی بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ تو اپنے وعدہ کے خلاف کر رہے ہیں اور آپ کی حرکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ضرور پھنس جائیں گے۔ اس عرصہ میں میری کچھ گفتگو حافظ مولوی محمد ابراہیم صاحب نابینا کے ساتھ ہوئی جس کا مجھ پر خاص اثر ہوا۔ پھر ہم واپس آگئے۔‘‘
’’میں نے چھ سات ماہ بعد حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ عام لوگوں کے لئے آپ کی صداقت کا معلوم کرنا مشکل ہے۔ آپ قسم کھا کر تحریر فرماویں کہ آپ وہی مسیح موعودؑ ہیں جن کی دنیا کو انتظار ہے۔ اس پر حضور نے اس لفافہ کی پشت پر تحریر فرمایا کہ میں وہی مسیح موعودؑ ہوں جن کا وعدہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ آپ نے قرآن مجید سے یہ آیت بھی تحریر کی۔
لَعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡن
خاکسار مرزا غلام احمد بقلم خود۔‘‘
میری بیوی اور بچوں سب نے اس وقت بیعت کر لی اور میں نے سب کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ کو خط لکھ دیا۔‘‘
حضرت مسیح موعود ؑ نے جس خط کی پشت پر سچائی سے پُر تحریر اپنے مقدس ہاتھ سے ثبت فرمائی تھی وہ خط ان کے بیٹے یعنی میاں محمد یحییٰ صاحب کے پاس 1953ء تک محفوظ تھا۔ 6 مارچ 1953ء کو بلوائیوں نے لاہور میں احمدیوں کی املاک کو جلایا اور نقصان پہنچایا۔ وہ خط گھر کے سامان کے ساتھ جل گیا یا ضائع ہو گیا۔
(تاریخ احمدیت جلد15 صفحہ170 تا 171)
’’ایک دفعہ 1904ء (تاریخ احمدیت میں 1902ء درج ہے) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا بھی لاہور تشریف لائیں۔ حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا کو عجائب گھر چھوڑ کر حضورؑ ہماری دکان واقع نیلا گنبدلاہور تشریف لائے۔ کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد دکان سے باہر ایک کرسی پر تشریف فرماہوئے۔ (میاں محمد موسیٰ نے آپؑ سے دکان کے اندر آنے کی درخواست کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ نبی اللہ کاروباری دکانوں میں نہیں جاتے)۔ آپؑ نے فرمایا کہ پانی لاؤ۔منشی محبوب عالم صاحبؓ اور کئی اور احباب سوڈا واٹر اور لسّی اور دودھ لائے مگر حضور نے فرمایا کہ ہم پانی پئیں گے جس پر پانی لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ میں نے اس موقعہ پر آپ کی خدمت میں ایک پونڈ (برٹش انڈیا کی کرنسی) پیش کیا جسےحضور نے دو دفعہ عذر کے بعد قبول فرما لیا۔‘‘
(روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر 11، صفحہ7تا 8)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اصحابِ احمؑد کے تذکرہ میں فرماتے ہیں:
’’پھر حاجی محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں میرا کئی سال تک یہ دستورالعمل رہا کہ نیا سٹیشن (سٹیشن کا نام) پر ایک جمعدار کے پاس ایک بائیسکل ٹھوس ٹائروں والا رکھا ہوا تھا۔ جمعہ کے روز میں لاہور سے بٹالہ تک گاڑی پر جاتا اور وہاں سے سائیکل پر سوار ہوکر قادیان جاتا اور جمعہ کی نماز کے بعد واپس سائیکل پر بٹالہ آجاتا۔ یہاں سے گاڑی پر سوار ہو کر لاہور آجاتا۔
(تذکرہ اصحابِ احمد خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ 4 مئی 2012ء، صفحہ 275، خطبات مسرور 2012ء)
میرے والدمیاں محمد یحییٰ صاحب نے 2002ء میں میاں محمد موسیٰ صاحب کی ایک عظیم مالی قربانی کے بارے میں بتایا جو ابھی تک جماعت احمدیہ کے کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی:
’’3۔1902ءمیں میاں محمد موسیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک محفل میں موجود تھے جب حضورؑ نے ایک نماز کے بعد ایک ضروری کتاب یا اشتہار شائع کرنے کے لئے جماعت کو ایک بڑی رقم کی تحریک کی۔ میاں محمد موسیٰ کا یہ دستور تھا کہ وہ حضورؑ سے اجازت لیے بغیر گھر واپس نہ جاتے تھے۔ لیکن اس دن وہ خاموشی سے لاہور چلے گئے۔ اپنے گھر نہیں گئے۔ گنج مغل پورہ لاہور میں ان کی ملکیت میں آٹھ مکانوں کا ایک احاطہ تھا جو ’’سرائے موسیٰ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اب بھی اس کا یہی نام ہے۔ آپ نے اسے بیچ دیا اور رقم لے کر واپس قادیان پہنچ گئے۔ آپ کی غیر موجودگی میں حضورؑ نے احباب جماعت سے اُن کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں نظر نہیں آرہے۔ یہ بھی کہا کہ موسیٰ صاحب تو اجازت لئے بغیر واپس نہیں جاتے۔ احباب نے لا علمی کا اظہار کیا۔ اگلے دن فجر کی نماز کے وقت آپ قادیان واپس پہنچ گئے اور نماز کے بعد ساری رقم حضور کی خدمت میں پیش کردی اور کہا :
’’حضورؑ میں تو رقم کے حصول کے لئے لاہور گیا تھا اس لئے آپ سے اجازت نہ طلب کی۔ اس رقم سے حضورؑ اپنی کتاب شائع کرلیں۔‘‘
یہ رقم غالباً پانچ سے چھ ہزار روپے تھی۔ میاں محمد موسیٰ صاحب گھر والوں کی مرضی کے بغیر سرائے موسیٰ فروخت کرکے اپنے آقا کے حضور سرخرو ہو گئے اور دعاؤں کے وارث بنے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس قربانی سے بہت خوش ہوئے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت 24 دسمبر1905ء کو شائع کیا تھا۔ حضرت میاں محمد موسیٰ ابتدائی چند جانثاروں میں سے تھے جنہوں نے نظامِ وصیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ خود بتاتے ہیں:
شروع میں اس الٰہی تحریک میں میرا وصیت نمبر16 تھا جو کچھ دیر بعد تبدیل ہوکر 65 ہوگیا۔
(لاہور تاریخ احمدیت، صفحہ 308)
حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب ؓجماعت کی ہر مالی تحریک میں شامل ہو تے تھے۔
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ416)
حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب نے چندہ تحریکِ جدید کے لئے بھی معیاری قربانیاں کیں۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری دفتر اوّل کے مجاہدین کی لسٹ میں آپ کا نام صفحہ 242، نمبر 2054 پر درج ہے۔
(پانچ ہزاری مجاہدین تحریکِ جدید صفحہ 242)
حضرت سیّدہ مبارکہ بیگم ؓ دخترنیک اختر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا نکاح 17 فروری 1908ء حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ رئیس مالیرکوٹلہ کے ساتھ مسجد اقصیٰ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے پڑھا۔ نکاح کی مبارک تقریب میں شمولیت کے لئے لاہور سے کئی احباب مدعو کئے گئے۔ حضرت میاں محمد موسیٰ صاحبؓ آف لاہور ان خوش قسمت احباب میں شامل تھے جو اس مبارک تقریبِ سعید میں شامل ہوئے۔
(تاریخ احمدیت، جلد2 صفحہ516)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مئی 2012ء بابت روایات صحابہ حضرت محمد موسیٰ صاحبؓ کے بیٹے میاں عبدالمجید صاحبؓ کا مندرجہ ذیل واقعہ یوں بیان فرمایا:
’’ایک دفعہ میرے لڑکے نے جس کی عمر اس وقت تقریباً 4 برس تھی۔ اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر جپھی (معانقہ) ڈال کر ملنا ہے۔ (یہ واقعہ غالباً 1907ء کا ہے) اس نے مغرب سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت تنگ کیا۔ صبح اُٹھ کر پہلی گاڑی میں اسے لے کر بٹالہ اور وہاں سے سے ٹانگے پر ہم قادیان گئے۔ حضورؑ اس موقع پر باہر تشریف لائے اور عبدالمجید ؓ آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اس نے ملاقات کی اور پھر وہ 4 سال کا بچہ کہنے لگا ’’ہن ٹھنڈ پے گئی اے (یعنی اب تسلّی ہو گئی ہے۔ ناقل)۔‘‘
(روایات صحابہ رجسٹر 11 صفحہ11 تا 12)
حاجی میاں محمد موسیٰ صاحبؓ کی بیان کردہ چند روایات درج ذیل ہیں۔
(لاہورتاریخ احمدیت صفحہ 309 تا 312)
’’میں نے ایک دفعہ حضورؑ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ حضور کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے۔‘‘
’’حضورؑ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات دستار مبارک کے پیچ بالکل بے ترتیب ہوتے تھے۔ یہی حال قمیض اور کوٹ کے بٹنوں کا ہوتا تھا یعنی جو بٹن اُوپر کا ہوتا تھا وہ نیچے کے کاج میں لگا ہوتا تھا یا نیچے کا بٹن اُوپر کے کاج میں۔‘‘
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ نے قریشی محمد حسین کو خط لکھا کہ آپ پوستین کا نرخ دریافت کر کے لکھیں تاکہ پتہ لگے کہ آیا میں خرید بھی سکتا ہوں یا نہیں۔قریشی صاحب نے وہ خط میرے سامنے پڑھا۔ اسی دن میں نے پوستین خریدی جس کی قیمت قریباً 45 روپے تھی اور دوسرے دن قادیان جاکر حضورؑ کی خدمت میں پیش کر دی۔ اس وقت حضور باغ میں تشریف فرما تھے۔‘‘
’’میں نے ایک دفعہ حضورؑ کی خدمت میں یہ درخواست کی تھی۔ چونکہ جماعت کو مال کی بڑی ضرورت ہے۔ کیاعید الاضحی کےدن قربانی کی بجائے روپے قادیان نہ بھجوادیے جائیں؟ (حضرت مسیح موعودؑ نے) فرمایا نہیں۔ شعائراللہ کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔‘‘
’’میں ایک دفعہ قادیان گیا۔ حضو رؑ کا ایک کمرہ بن رہا تھا۔ اس کی نگرانی کے لئے حضورؑ نے مجھے مقرر کیا۔ایک مرتبہ دوپہر کے بعد حضورؑ وہاں خود تشریف لائے۔ اس اثنا میں ایک معمار نے حضورؑ کو کہا کہ فلاں مزدور نمازی نہیں۔ فرمایا۔ ہم نے اس سے نفل نہیں پڑھوانے۔‘‘
’’وہ ایک دفعہ قادیان گئے اور بستر ہمراہ نہ لے کر گئے۔ حضورؑ کے خادم حافظ حامد علی صاحبؓ نے حضورؑ کو اطلاع دی کہ لاہور سے ایک صحابی محمد موسیٰؓ کے پاس بستر نہیں ہے۔ اس پر حضورؑ نے اپنی رضائی ان کو بھیج دی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس رات میں حضورؑ کی رضائی اوڑھ کر سویا۔‘‘
حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحبؓ کہتے ہیں کہ ان کو کئی دفعہ حضورؑ کو مٹھی چاپی کرنے کا موقعہ ملا۔
(تاریخ احمدیت جلد 9، صفحہ 544)
1908ء کا واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعودؑ آخری بار لاہور تشریف لے گئے تھے۔ یہ واقعہ سیرت المہدیؑ جلد دوم مصنفہ مرزا بشیر احمدؓ میں یوں بیان ہوا ہے۔
’’حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نے ایک دن ایک موٹرکار حضور کی سواری کے واسطے کہیں سے مہیا کی اور حضرتؑ سے اس میں سوار ہونے کی درخواست کی نیز سیّدۃ النساء حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا سے بھی سوار ہونے کی خواہش کی۔ چنانچہ حضورؑ پُرنور معہ سیّدۃ النساء حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا موٹر میں سوار ہونے کی غرض سے مکان سے اتر کر سڑک پر تشریف لائے مگر موقعہ پر پہنچ کر سیّدہ ؓ نے سوار ہونے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے مگر حضرت اقدسؑ بعض بچوں سمیت سوار ہوئے اور قریبی سڑک کا چکر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے۔ موٹر اس زمانے میں نئی نئی لاہور میں آئی تھی۔‘‘
(سیرت المہدیؑ جلد2 صفحہ387 مطبوعہ 2008ء)
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آخری ایّام میں ایک اشتہار شائع فرمایا تھا اور اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ (کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں) کی مہر ہر اشتہار پر لگائی تھی۔
حضرت حاجی محمد موسیٰ کے پاس وہ مہر بہت عرصہ تک محفوظ رہی۔ آپ کی وفات کے بعد وہ خاکسار کے والد میاں محمد یحییٰ صاحب کی تحویل میں آگئی۔ 1953ء میں بلوائیوں نے ہمارے آبائی گھرکو لوٹا، جلایا اور شدید نقصان پہنچایا تو یہ لکڑی پہ بنی ہوئی مہر بھی سامان کے ساتھ ضائع ہو گئی۔
’’میں ایک دفعہ قادیان گیا۔ میں نے حضور کو کتاب تصنیف کرتے دیکھا۔ حضورؑ ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ (غالباً حضرت مسیح موعودؑ 1905ء میں اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ پنجم لکھ رہے تھے)۔ حضورؑ کے لکھنے کا طریق یہ تھا کہ صحن یا کمرہ کے دونوں طرف دواتیں رکھی ہوتی تھیں اور ہاتھ میں کاغذ اور قلم لئے ہوتے تھے۔ ایک طرف کی دوات سے رو شنائی لے کر لکھتے لکھتے دوسری طرف چلے جاتے پھر اُدھر سے روشنائی لے کر اس طرف چلے جاتے۔‘‘
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ311 تا 312)
حضرت میاں محمد موسیٰ صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ جب 1908ء میں لاہور تشریف لائے تو انہوں نے حضور کا سائیکل پر پہرہ دیا:
’’حضرت مسیح موعودؑ روزانہ عصر کی نماز کے بعد ایک یا دو گھوڑوں والی سواری پر گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے اور میں سائیکل پر ان کا پہرہ دیا کرتا تھا۔‘‘
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ310)
حضرت مسیح موعودؑ نے 1906ء میں ایک قبرستان ’’بہشتی مقبرہ‘‘ بنانے کی تجویز دی اور اس کے لئے اپنی ذاتی زمین کا ایک ٹکڑا عطا کیا۔ حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’رسالہ الوصیت شائع ہونے کے بعد 1906ء میں ایک دن لاہور سے آئے ہوئے میاں محمد موسیٰ صاحبؓ سے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ بہشتی مقبرہ کا ایک نقشہ تیار کر دیں۔ جس میں قبروں اور راستوں کے نشانات دکھائے جائیں۔ جس وقت میاں محمد موسیٰ صاحب نے وہ نقشہ تیار کرکے حضورؑ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس وقت میں بھی حاضر تھا۔ حضورؑ نے وہ نقشہ پسند فرمایا۔ حصرت میاں صاحب نے نقشہ میں ایک قبر پر انگلی رکھ کر عرض کیا کہ حضورؑ یہ قبر میرے لئے مخصوص کر دی جائے۔‘‘
حضورؑ کا جواب یہ تھا: کوئی قبر کسی کے لئے مخصوص نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ
(کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مرے گا)۔
میاں محمد موسیٰ خاموش ہوگئے۔ دوسال بعد حضرت مسیح موعود وفات پاگئے۔ میاں موسیٰ نے بتایا کہ جس قبر کی انہوں نے نشاندہی کی تھی یہ وہی قبر ہے جو اپنے لئے چاہی تھی۔ اب حضرت مسیح موعودؑ کا جسدِ اطہر اس میں مدفون ہے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ، 18 جنوری 1964ء)
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل 1908ء میں درج ذیل سنہری الفاظ میاں محمد موسیٰ کے لئے کہے:
’’موسیٰ صاحبؓ آپ نے دین کی بہت خدمت کی۔‘‘
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ310)
حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ بہت خوش قسمت تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بابرکت وجود سے ان کی بہت یادیں وابستہ تھیں۔ بیعت کے بعد آپ سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ آپ کی امامت میں بہت ساری نمازیں پڑھیں۔
25-26 اکتوبر 1913ء کو گوجرانوالہ میں ایک تربیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے بھی لیکچر دیا۔ گوجرانوالہ سے واپسی پر حضرت صاحبزادہؓ نے میاں محمد موسیٰ صاحبؓ کی دکان (واقعہ نیلا گنبدلاہور) کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر واپس قادیان تشریف لے گئے۔
(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ468)
شدید علالت کے باعث حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تبدیلی آب و ہوا کیلئے مع حضرت اُمّ المومنینؓ بمبئی جانے کیلئے 3 مئی 1918ء کو بعد نماز عصر روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ ڈاکٹر رشیدالدین صاحب، ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب، شیخ عبد الرحمٰن صاحب مصری اور مولوی عطا محمد صاحب تھے۔ 4 مئی کو لاہور ریلوے اسٹیشن پر جماعت استقبال کیلئے موجود تھی۔ لاہور کے ہر فرد نے اپنی ہمت سے عملاً اخلاص کا اظہار کیا۔ حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب نے اخلاص و محبت سے حضور اور آپ کے خدام کی مہمان داری کا ذمہ اپنے اوپر لے رکھا ہے اور آپ کا خاندان خدمت میں ہر وقت مستعد رہا۔ ان کا تہیہ ہے کہ حتی الوسع کوئی تکلیف نہ ہونے دیں گے۔ پہلے چار وقتوں تک بہت مسرت کے ساتھ انہوں نے ہی تمام اخراجات خوردونوش کو برداشت کیا۔
(اصحاب احمد مصنفہ ملک صلاح الدین ایم اے، صفحہ295تا 296)
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ 25 جون 1921ء کو ڈاکٹروں کے مشورہ سے کشمیر تشریف لے گئے ۔۔۔۔
امرتسر ریلوے اسٹیشن پر جماعت کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ قافلہ ریزرو گاڑی (ڈبہ) میں سوار ہوا۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر حضرت حاجی میاں محمدمو سیٰ صاحبؓ کی طرف سے دعوت کا کھانا پہنچا۔ راولپنڈی تک راستہ کی جماعتوں نے استقبال کیا۔
(اصحاب احمد مصنفہ ملک صلاح الدین ایم اے، صفحہ357)
12 جولائی 1924ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بٹالہ سے دہلی تک کا سفر اختیار کیا۔۔۔ امرتسر میں میاں محمد موسیٰ صاحبؓ کی طرف سے برف کا انتظام تھا جو دہلی تک قائم رہا اور وہ خود بھی دہلی تک حضور کے ہم رکاب رہے۔
(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ434)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے قادیان تک ریل کے اجراء کے لئے میاں محمد موسیٰ صاحبؓ کی ڈیوٹی لگائی۔
(تاریخ احمدیت جلد 9صفحہ 544 تا 545)
میاں محمد موسیٰ نے اس کام کو بہت خوبی سے نبھایا۔ ریل کا اجراء آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
آپ نے1915ء سے لے کر 1924ء تک کوشش کی کہ قادیان میں ریل جاری ہو جائے۔ اس کوشش میں آپ کا تقریباً بارہ تیرہ ہزار روپیہ صرف ہوا۔ آپ نے اس غرض کے لئے دندوٹ کالری کی لائن کی نیلامی پر بولی دی جو بارہ میل کی لائن تھی۔ ایسا ہی ایک دفعہ آگرہ کی طرف بھی بولی میں شامل ہوئے اور اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے پاس بھی بارہا دفعہ پہنچے اور اس لائن کے لئے سوال اُٹھایا۔ بلکہ ایک انجینئر ساتھ لے کر سری گو بند پور تک سروے(Survey) بھی کیا اور باقاعدہ نقشہ تیار کروایا۔ ایک تجویز یہ بھی کی کہ ایک کمپنی جاری ہو جس کے حصہ دار ہوں اور وہ اس ریلوے کو جاری کر دیں۔
آخر جب اس قسم کی درخواست ریلوے بورڈ میں دی گئی تو جواب ملا کہ یہ منصوبہ خود ہمارے زیرِ تجویز ہے اور اس کا نمبر17 مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس پر آپ نے ذاتی جدوجہد ترک کردی۔ کیونکہ آپ کا مقصد کسی منافع کا کمانا نہیں تھا بلکہ ریل جاری کروانا تھا۔ چنانچہ تین سال کے بعد قادیان میں ریل جاری ہوگئی۔ چنانچہ جب امرتسر سے قادیان کی جانب پہلی گاڑی چلنے لگی تو اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے محمد موسیٰ صاحبؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
’’آج تمہاری کوشش کامیاب ہوگئی۔‘‘
میرے والدمیاں محمد یحییٰ صاحب فرزند میاں محمد موسیٰ ؓنے یہ بھی روایت کی :
حضرت سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہ حرم سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں زیرِ علاج تھیں۔ حضور ؓ ان کی عیادت کے لئے قادیان سے لاہور تشریف لائے۔ حضور نے حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے بتایا کہ کچھ ہفتے پہلے وہ نیلا گنبد سے گھر جاتے ہوئے سائیکل سے گر پڑے تھے اور گھٹنوں پر شدید چوٹیں آئی ہیں اور اب اُٹھ نہیں سکتے بستر پر ہی لیٹے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں تک نہیں آسکے۔ حضوؓ ر نے کہا: ’’موسیٰ صاحب کو اُمّ طاہر کے لئے دعا کا کہنا تھا۔‘‘
حضورؓ ہسپتال جانے کی بجائے خادموں کے ہمراہ ایک قافلہ کی صورت ہمارے آبائی گھر فلیمنگ روڈ پہنچ گئے۔ حضورؓ گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئے جہاں میاں محمد موسیٰ صاحبؓ بسترپر لیٹے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب کو اچانک دیکھ کر وہ تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ حضرت صاحب نے لیٹے رہنے کی ہدایت کی اور کہا:
موسیٰ صاحب! ہم جانتے ہیں آپ سائیکلوں والے ہیں اب اس عمر میں سائیکل کی سواری چھوڑ دیں۔ اُمّ طاہر علیل ہیں ان کے لئے دعائیں کریں وہ ہم سب کی دعاؤں کی مستحق ہیں۔
اس کے بعد حضورؓ جلدی جلدی گھر کی سیڑھیاں اترے اور قافلہ سر گنگا رام ہسپتال روانہ ہوگیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 6جنوری 1956ء کو بمقام رتن باغ لاہور خطبہ جمعہ کے دوران جماعت احمدیہ کو تجارت کی طرف توجہ دلائی۔ اس خطبہ میں میاں محمد موسیٰ اور ان کے خاندان کی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصَّلوٰةُ وَ السَّلام سے محبت کا اظہار ملاحظہ کریں:
مجھے یاد ہے حضرت نانا جان (میر ناصر نوابؓ خسر حضرت مسیح موعود علیہ الصَّلوٰةُ وَ السَّلام) کو میاں محمد موسیٰ صاحب سے بہت محبت تھی۔ آپ جب بھی لاہور تشریف لاتے اُنہی کے ہاں ٹھہرتے۔
جن مساجد کی تعمیر کا خاکسار کو علم ہوا کہ ان میں دادا جان میاں محمد موسیٰؓ نے گرانقدر مالی قربانی کی تھی وہ درج ذیل ہیں۔
اپنے گاؤں تقی پور چھاپہ کی مسجد تعمیر کروائی اور امام مسجد وہاں رکھوایا اور اس کے کھانے پینے کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔
ہمارے آبائی گھر فلیمنگ روڈ کے متصلہ غیر احمدیوں کی مسجد کی تمام اینٹوں کا خرچہ اُٹھایا۔ محلے کے لوگ حجت تمام کرنے آپ کے پاس مسجد کے چندہ کے لئے آئے۔ ان کا خیال تھا کہ اب یہ شخص مرزائی ہوگیا ہے اوراُن کی مسجد کے لئے چندہ نہ دے گا۔
مسجد دہلی دروازہ لاہور کی تعمیر میں ایک بڑی رقم پیش کی۔ ابتدا میں یہی مسجد جماعت احمدیہ لاہور کی ہوا کرتی تھی۔ احمدی احباب لاہور نے اس کی تعمیر میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ حضرت محمد حسین قریشیؓ تعمیر کے کام کے انچارج تھے۔ شیخ عبدالرحمٰن صاحب سیکریٹری اور حاجی محمد موسیٰ اس منصوبہ کے نگران مقرر ہوئے تھے۔ میاں موسیٰ صاحب نے مسجد کے تمام نقشے بنائے تھے۔ وہ اس بات کی کڑی نگرانی کرتے تھے کہ عمارت نقشہ کے مطابق بن رہی ہے یا نہیں۔
(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ157)
حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ آف نیلا گنبد لاہور نے گنج مغلپورہ لاہور میں ایک بیت الذکر تعمیر کروائی تھی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لاہور تشریف لائے تو اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے دادا جان نے آپ کی خدمتِ اقدس میں درخواست کی کہ حضور از راہِ نوازش اس مسجد کو دیکھ کر اس ناچیز غلام کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس درخواست کو منظور فرمایا اور 26 فروری 1922ء کو گنج مغلپورہ لاہور کی احمدیہ مسجد دیکھنے تشریف لے گئے اور وہاں دو رکعت نفل نماز پڑھائی۔
(روزنامہ الفضل ربوہ، 27 فروری 1922ء، صفحہ15)
حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ اپنے تین پوتوں کے دریائے راوی میں ڈوبنے کو نہ بھول سکے تھے کہ ان کی صاحبزادی عائشہ بیگم بھی دو ہفتہ بعد ایک طویل بیماری کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ یہ صدمات آخرکار جان لیوا ثابت ہوئے اور 24 د سمبر 1945ء کو وہ خود بھی اس جہانِ فانی سے اپنے مولا کے پاس حاضر ہوگئے۔
(روزنامہ الفضل ربوہ، 25 دسمبر 1945ء صفحہ2)
میاں موسیٰ صاحبؓ کا جسدِ خاکی ان کی دکان واقع نیلا گنبد لایا گیا اور اسی جگہ رکھا گیا جہاں آقا حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تھے اور ان کی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے تھے۔ جماعت احمدیہ کی کثیر تعداد ان کے آخری دیدار کے لئے جمع ہوگئی۔ عزیز و اقارب بھی پہنچ گئے۔ نیلا گنبد کے اس مقام پر ان کا جنازہ ادا کیا گیا جہاں آقا و مولا حضرت مسیح موعودؑ آپ کی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے تھے۔ غیر احمدی احباب نے اپنا علیحدہ جنازہ پڑھا۔ اس کے بعد ان کی میّت بہشتی مقبرہ قادیان لے جائی گئی اور وہاں بھی احباب جماعت کی کثیر تعداد نے جنازہ ادا کیا۔ پھر خاندانِ موسیٰ کے جدّامجد کو بہشتی مقبرہ قادیان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
میاں محمد موسیٰ صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا درخشاں ستارہ تھے۔ آپ کی حضورؑ سے والہانہ محبت، مالی قربانیاں اور احمدیت کے لئے خدمات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اس کے علاوہ جوان بیٹی کی غیر متوقع وفات اور تین پوتوں کا دریا میں ڈوب جانا جیسے المناک حادثات میں صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور خدا کی رضا پر راضی رہنا،ان کے اعلیٰ کردار کا خاصہ تھا۔وہ ایک عام شخص نہ تھے۔ وہ اعلیٰ عزم و استقلال کے مالک تھے۔ کوئی کمزور ایمان والااس طرح کے حادثات میں راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے۔اسی لئے وہ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک درخشاں ستارہ تھے۔ حضرت محمد موسیٰ صاحبؓ اپنے کارناموں اور اخلاقِ فاضلہ کے حسین نمونوں کی وجہ سے آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی اولادوں کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلائے۔ آمین ثم آمین۔ حضرت میاں محمدموسیٰ صاحبؓ کی فیملی کی اولادوں کو اگر جمع کیا جائے تو کم و بیش پانچ صدہوں گے۔
میں وقت کے امام حضرت مسیح موعود و مہدی مہودؑ کے ان سنہری الفاظ پر ختم کرتا ہوں جو آپ نے میاں محمد موسیٰ کے بارے میں کہے۔ ’’موسیٰ صاحب آپ نے دین کی بہت خدمت کی۔‘‘ یہ الفاظ میاں محمد موسیٰ اور ان کے خاندان کے لئےکسی اعزاز سے کم نہیں۔ اس طرح کے الفاظ مسیح موعود کی جماعت کے ہر احمدی کی خواہش ہے۔
(ڈاکٹر محمود احمد ناگی۔اوہایو امریکہ)