ماں مٹھاس، ماں خوشبو، ماں ٹھنڈی ہوا، ماں سکون، ماں صبر، ماں ہمت، ماں نعمت، ماں ایک غیر مشروط پیار، ماں بے لوث محبت، اں جنت، ماں سایۂ رحمت۔ ماں دنیا کا خوبصورت ترین لفظ، ماں مدرسہ، ماں مربی، ماں علم کا گہوارہ۔ ماں کے لئے جو بھی لکھوں کم ہے۔ وہ جنم دینے کے مرحلے سے گزر کر کیا رتبہ پاگئی۔ خود کو جنت بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ سب کی جنت کو ہمیشہ سلامت رکھے جن کی مائیں دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں اللہ پاک اُن کے در جات بلند فر مائے۔ آمین
ہاں میری ماں میری جنت دنیا جہاں سے زیادہ پیار کرنے والی صابر، شاکر، باہمت، حوصلہ مند، اپنوں اور لوگوں کے دُکھ درد، خوشیوں میں شامل ہو کر حوصلہ بڑھانے والی نیک، کم گو، قرآن کریم کی عاشق، پانچ وقت کی نمازوں کی پابند، تہجد گزار میری اُمی جان جن کا نام تھا حلیمہ بیگم اہلیہ شیخ محمد حسن صاحب۔
میری اُمی جان ایک صحابی ٔ مسیح موعود ؑ حضرت میاں فضل محمؓد ہر سیاں والے کے گھر ہرسیاں میں فروری 1913ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ آپ کی شادی 1935ء میں لدھیانہ میں ہوئی۔ میرے دادا جان شیخ نور محمد اور تایا جی شیخ غلام نبی تو احمدی تھے لیکن میرے والد صاحب نے ابھی بیعت نہیں کی تھی۔ بلکہ احرار کے پُر جوش مہرے تھے۔ ہماری دادی جان اباجان کے بچپن میں ہی وفات پا چکی تھیں، کوئی سمجھانے والا نہیں تھا بہت نڈر تھے جوانی من مانی احرار کے سر گرم رکن ہو گئے ایک بار احرار کے جلسہ کی قیادت کرتے ہوئے جیل گئے اور جب جیل سے واپس آ ئے تو کہتے ہیں ایک بزرگ نے مجھے سمجھایا کہ تم نے دنیا کے مختلف رنگ دیکھ لئے ہیں۔ اور اُ نہوں نے اپنی خواب سنائی جس میں ایک بزرگ آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے ہونے کی بشارت دی ہے۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ اسی سال جلسہ پر مَیں اپنے بڑے بھائی شیخ غلام نبی صاحب کے ساتھ قادیان چلا گیا وہاں جا کر جو کچھ دیکھا اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔ وہاں کی دنیا اور میری دنیا میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دل نے گواہی دے دی کہ یہی سچ ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
والد صاحب قادیان سے جب واپس گھر آئے تو شادی کا مسئلہ شروع ہو گیا۔ کزن سے منگنی ہو چکی تھی۔ لڑکی کے والدین نے اصرار کیا کہ جلدی شادی کریں، مگر اباجان احمدیت قبول کر چکے تھے لڑکی والوں کو احمدی لڑکا منظورنہیں تھا۔ سب نے بہت زور لگایا کہ تھوڑی دیر کے لئے جب تک نکاح نہیں ہوتا کہہ دیں کہ میں احمدی نہیں ہوں شادی کے بعد جو مرضی ہے کرنا۔ بھلا اب یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ لڑکی والوں نے بہت منت سماجت کی لیکن اباجان نے کہا دین کا معاملہ ہے۔ آپ کی مرضی ہے، میں گھر جا رہا ہوں آپ اپنی بیٹی کی شادی جہاں جی چاہتا ہے کر دیں۔ اس بات کا چرچا سارے شہر میں ہوا۔ اُن دنوں ہمارے شہر لد ھیانہ کے مربی مکرم شیخ مبارک احمد تھے۔ اُن کا تبادلہ مشرقی افریقہ ہو ا تو اُن کی جگہ مکرم مولانا احمد خان نسیم آ گئے۔ اُن کو جب شادی کے انکار کی وجہ معلوم ہوئی تو اُ نہوں نے قادیان میں حضرت میاں فضل محمد ہر سیاں والے کی صاحبزادی مکرمہ حلیمہ بیگم کے رشتے پر غور کرنے کا کہا۔ ابا جان بتاتے ہیں ہم قادیان گئے۔ میرے ساتھ میرے بڑے بھائی غلام نبی صاحب تھے میرا انٹر ویو لیا گیا میری تعلیم کا پوچھا۔ تعلیم تو تھی نہیں نفی میں جواب دیا۔ آمد پوچھی وہ بھی نہیں تھی والد صاحب کے ساتھ تھوڑا بہت کام کر لیتا تھا صرف پندرہ روپے بتادی۔ میرے بھائی میرے ساتھ ناراض ہوئے کہ تم نے سچ کیوں بولا۔ میں دل میں مطمئن تھا کہ کم از کم سچ تو بولا۔ لڑکی والے فکر مند تھے کہ یہ کیسا بے فکرا لڑکا ہے اُن لوگوں کے دل نہیں مان رہے تھے کہ یہ رشتہ ہو۔ طے ہوا کہ دعا کر لینی چاہئے۔ ابا جان کہتے ہیں اُس وقت تک مجھے دعا کی اہمیت کا بھی کچھ علم نہیں تھا دعا بھی لڑکی والوں نے خود ہی کی۔ میں تو واپس گھر آنے کے لئے تیار تھا کہ اگلے دن نکاح فارم میرے آگے رکھ دئے گئے کہ دستخط کردوں مجھے بتایا گیا کہ مولانا احمد خان نسیم صاحب کو اس رشتہ کے متعلق بشارت ملی ہے کہ یہ رشتہ با برکت ہوگا۔
الحمد للہ نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے پڑھایا اس طرح میری والدہ صاحبہ کی شادی میرے اباجان کے ساتھ انجام پائی۔ جہاں میرے والد صاحب کی پوری فیملی غیر از جماعت تعلیم سے نا بلد وہاں میری اُمی جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی بیٹی، مربی بھائیوں کی بہن خود بھی اس زمانہ کے لحاظ سے پانچ جماعتیں پاس تھیں، اُمی جان کی باقی ساری فیملی بھی تعلیم یافتہ تھی۔ یہاں نئے گھر میں صرف میرے دادا جان احمدی تھے میرے تایا جی تو احمدی تھے لیکن تائی جی احمدی نہیں تھیں وہ اپنی فیملی کے ساتھ الگ گھر میں تھے۔ میری اُمی جان کی جی بھر کر مخالفت ہوئی مگر میری اُمی جان کی تربیت، نیک سلوک اور ہر چھوٹے بڑے کی خدمت نے سب کے دلوں میں جگہ بنالی۔ اباجان کے دو بڑے بھائی پہلے سے ہی افریقہ نیروبی میں مقیم تھے چھوٹے چچا بھی تیار تھے صرف رقم کی ضرورت تھی وہ میری اُمی نے اپنا زیور میرے چچا کو دے دیا جس سے اُنہوں نے اپنا کرایہ بنا لیا اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ اس طرح باقی بھی گھر میں سب کے ساتھ حسن سلوک سے دل جیت لئے۔ میری اُمی جان اپنے گھر سے بہت اچھی تربیت لے کر آئیں تھیں۔ بہادر باہمت خاتون تھیں۔
میرے اباجان اکثر اپنے کام کی وجہ سے دوسرے شہروں میں جاتے رہتے تھے۔ فروز پور ہم کچھ عرصہ ساتھ رہے، اباجان نے ہماری امی جان کو ہم چار بہنوں کے ساتھ قادیان بھیج دیا، قادیان میں بھی کچھ خطرہ تھا یہ سب تو یاد نہیں کہ کیا تھا لیکن اتنا یاد ہے اُمی جان رات کو ہم بہنوں کو سلا کر خود سر پر پگڑی رکھ کر رات بھر پہرہ دیتی تھیں۔
پاکستان بن گیا زندگیوں میں بے شمار اُتار چڑھاؤ آئے۔ لاہور، پھر پنڈی بھٹیاں، وہاں سے پھر فیصل آباد احمدیہ مسجد کے سامنے میرے اباجان نے گھر لیا اور دکان تھی جہاں ہم کچھ عرصہ کے لئے رُک گئے وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سب سے بڑی خوشی دی یعنی چار بہنوں کے بعد بھائی دنیا میں آنے والا تھا۔ اُس بھائی کے آنے پر ہماری اُمی جان کی بے مثال قر بانی ہے۔ جن دنوں میرا بھائی دنیا میں آنے والا تھا، اُن ہی دنوں فرقان فورس کے لئے مرکز سے رضا کار بھجوانے کی تحریک ہوئی۔ محاذ پر جانے کے لئے جن صاحب کا نام تجویز ہوا وہ اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے جا نہیں سکتے تھے۔ اُ نہوں نے تجویز کیا کہ ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو بھجوا دیا جائے اور وہ اُس کا خرچ برداشت کر لیں گے۔ جماعت کی نظر انتخاب میرے اباجان پر پڑی۔ لیکن میرے اباجان کی مجبوری تھی کہ سب بچے چھوٹے تھے اور امی جان امید سے تھیں۔ جماعت کی تجویز اور اپنی ساری فکروں کا اظہار جب اُمی جان کے ساتھ اباجان نے کیا تو میری بہادر ماں کا جواب تھا، اگر آپ کو محاذ پر جانے کا کہا جا رہا ہے تو آپ کو ضرور جانا چاہئے، آ پ میری فکر نہ کریں، دنیا میں بے شمار ایسی عورتیں بھی ہیں جو جنگلوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں، آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں اور ضرور جہاد میں شامل ہوں۔ یہ حوصلہ افزا جواب سن کر اباجان نے جانے کی تیاری کر لی۔
مکرم مولوی اسماعیل دیالگڑھی مرحوم اور ان کی بیگم صاحبہ کا ذکر نہ کروں تو انصاف نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اُن دونوں میاں بیوی کے در جات بلند فر مائے اُس مشکل وقت میں ہماری بہت مدد کی۔ اباجا ن محاذ پر چلے گئے جاتے ہوئے مجھے ایک دائی کا گھر دکھا کر اُن کو ملوا کر کہ جب تمہاری اُمی جان اِن کو بلوانے کےلئے کہیں تو یہ گھر ہے اور یہ ان کانام ہے ان کو آ کر لے جانا۔ اور مولوی صاحب اور اُن کی بیگم خالہ جی بھی سب کچھ جانتے تھے۔ میری عمر تقریباً دس یا گیارہ سال ہوگی اُس وقت اپنی امی جان کی خدا تعالیٰ کے فضل سے میں ہی مدد گار تھی کتنا مشکل وقت ہوگا میری ماں کا، وہ کیا سوچتی ہوں گی،کیا دعا کرتی ہوں گی،خاوند پاس نہیں، مالی مجبوریاں، چھوٹے چھوٹے بچے، کاش کہ میری ماں نے اتنےمشکل وقت نہ دیکھے ہوتے، کتنی بہادر تھی میری ماں،یہ سب اب سوچتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خیر وہ وقت آ گیا جب میں خالوجی مولوی صاحب کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر اُن کو بلانے چلی گئی مولوی صاحب تو کچھ نہیں جانتے تھے میں نے راستہ اور گھر بتا نا تھا رات کا وقت تھا میں گھربھول گئی اب ہم گلی گلی چکر لگا رہے ہیں لیکن گھر کا کچھ علم نہیں اچانک پہرے دار کی آواز آئی (جاگ دے رہو) خالوجی نے سائیکل اُدھر کو موڑ لی اُن سے پوچھا کہ اس نام کی عورت کہاں رہتی ہیں، چوکی دار نے ہمیں اُن کا گھر بتایا اور ہماری مشکل آسان ہوئی۔ الحمد للہ ہمیں اللہ نے چار بہنوں کے بعد بھائی جیسی نعمت سے نوازا (اللہ اُس کو صحت والی لمبی زندگی دے آمین)
جب اباجان تین ماہ کے بعد محاذ سے واپس آئے تو وہ کافی مشکل زمانہ تھا ابا جان کا کوئی ذریعہ آمد نہ تھا، مالی مشکلات تھیں ان کے سب بھائی پہلے سے ہی ایسٹ افریقہ نیروبی منتقل ہو چکے تھے اُنہوں نے اباجان کو بھی افریقہ بلالیا۔ اور ہم سب ربوہ کی مقدس سر زمین پر آ کر آباد ہوگئے، ربوہ میں ایک کمرہ کے کچے گھر میں جو غالباً ڈیڑھ سو یا دوسو روپے میں خریدا تھا اُس کے بعد نسبتاً بہتر دوکمروں کے کچےگھر میں منتقل ہوگئے۔ کچے گھروں کی بھی بہت خوبصورت یادیں ہیں باہر بارشیں رُک جاتی تھی مگر ہمارے گھر کی چھتوں سے پانی ٹپکتا رہتا تھا چھتوں پر تسلے بھر بھر مٹی ڈالتے۔ ہماری اُمی جان چھت پر اور ہم بچے تسلے بھر بھر مٹی پکڑاتے جاتے ہماری اُمی جان بہت کفایت شعار تھیں اباجان جو رقم بھیجتے اس میں گھر کا خرچ چلا کر کچھ پس انداز بھی کر لیتیں۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی دارلبرکات جامعہ احمدیہ کے سامنے، اپنا پکا گھر بنانے کی توفیق عطا فر مائی ہماری اُمی جان زمین پر بیٹھ کر نقشہ بناتیں اور کام والوں کو کام سمجھاتیں گر میوں کی تپتی دھوپ میں مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کرواتیں۔ مکان بن گیا تو ہم کچے گھر سے اپنے پکے گھر میں منتقل ہو گئے۔ الحمد للہ
اُس وقت یہ علاقہ ابھی آباد نہیں ہؤا تھا۔ با لکل جنگل بیا بان تھا۔ دور دور چند گھر تھے پانی بھی نمکین تھا پینے کے لئے پانی ماشکی سے لیتے تھے رات کو ہم سب مل کر گھڑے یا بالٹیاں لے کر جاتے اور دارالرحمت سے میٹھا پانی بھر بھر کر لاتے تھے۔
اُمی جان ہاتھ میں موٹا ساڈندا پکڑ کر ساتھ چلتیں ڈر بھی بہت لگتا سانپ بچھو سے ڈر، کالی پیلی آندھیوں سے ڈر چوروں سے ڈر روزانہ رات کو قصے کہانیاں سناتے ہوئے رات گزرتی، چار پائیاں ایسے کہ درمیان میں چھوٹی بہنوں اور بھائی کی ایک طرف امی جان اور دوسری طرف آخر پر میری چار پائی ہوتی، ستاروں کو دیکھتے اپنے اپنے ستارے کو نشان لگاتے اور دوسرے دن اُسی ستارے کو ڈھونڈتے، چاند کی چاندنی سے خوش ہوتے رات گزر جاتی۔ مگر ہمارے والے ربوہ میں اور آج کے ربوہ میں زمین آسمان کا فرق ہے، لہلاتے پھول سبزہ، رونقیں۔ ہمارا گھر، میرے ماں باپ کا گھر، میری بہنوں اور بھائی کا گھر جس کی مجھے بہت یاد آتی ہے، جہاں چاندنی راتوں کا نور دیکھتے، ستاروں کو گنتے دن نکل آتا تھا، اُن دنوں کی یاد ساتھ رہتی ہے۔
الحمد للہ دائیں بائیں ہمسائے بہت ہی اچھے تھے اتنی اپنائیت تھی کہ ایک ہی گھر کے افراد لگتے تھے جو ہمارے گھر میں پکتا سب کے لئے ہوتا کھانا بناتے وقت اُمی جان کا پہلا لفظ یہ ہوتا کھانا زیادہ بنائیں آٹا گوندھتے وقت ہمیشہ کہتیں آٹا تھوڑا اور ڈال لو ہمسائیوں کا بھی حق ہے۔ دیوار پر اینٹ سے ٹھک ٹھک کرکے ایک دوسرے کو متوجہ کرتے اور بلا تکلف ضرورت کی چیز مانگ لیتے۔ہم سب اُس آواز سے بہت مانوس تھے۔ ایک کنبہ کی طرح رہتے تھے۔ ہمارے سب دُکھ سُکھ ایک تھے۔ آج میں یہ پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ مجھے نہیں یاد کہ کوئی حاجت مند آیا ہو اور اُس کی حاجت پوری نہ ہوئی ہو۔
حقو ق اللہ، حقوق العباد ادا کرنا اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ پیار اور ایثار کا دامن ہر وقت تھامے رہتیں۔ اُس مالی تنگی کے زمانے میں بھی ہمارے گھر میں بجلی کا پنکھا لگا ہوا تھا جو ربوہ کی گرمی میں بڑی نعمت تھا۔ محلے کی عورتیں اکثر دوپہر کو ہمارے گھر آجاتیں۔ اُمی جان اپنی سہیلیوں کو خود بھی بلا تیں کہ آؤ دو پہر پنکھے کے نیچے گزارو۔ گھر میں فرج بھی تھا ہمارا گھر کالج روڈ پر جامعہ احمدیہ کے سامنے تھا۔ جمعہ والے دن پانی والا حمام پانی سے بھر کر برف ڈال کر باہر رکھ دیتیں تا کہ لوگ گرمی میں ٹھنڈا پانی پی سکیں۔ لوگ پانی پیتے اور دعائیں دیتے ہوئے گزر جاتے۔
نام کی طرح بہت حلیم تھیں، دُکھ تو کسی کا برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کی انسان دوستی اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کے کچھ واقعات لکھتی ہوں ۔ ہمارا گھر دارالبرکات میں جامعہ احمدیہ کے با لکل سامنے تھا۔ ہم ابھی وہاں نئے نئے ہی تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے جامعہ احمدیہ کی عمارت اورچار دیواری زیر تعمیر تھی۔ کام کرنے والے مزدور دوپہر کو کھانے اور سستانے کے لئے اس چھوٹی سی دیوار کے سائے میں آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک دن سخت گرمی کے دن دوپہر کو ہماری امی جان کو کسی مرد کے رونے کی آواز آئی پہلے تو اُمی کھڑکیوں میں سے خود ہی دیکھنے کی کوشش کرتی رہیں مگر جب کوئی نظر نہ آیا تو میرے بھائی خالد کو امی نے کہا کہ جاؤ جا کر دیکھو کہ کون ہے اور کیوں رو رہا ہے ؟ خالد گیا اور آ کر امی کو بتایا کہ ایک مزدور رو رہا ہے۔ اُس کے گردے میں شدید تکلیف ہے اور وہ ہل بھی نہیں سکتا۔۔ اُ می نے اپنے صحن کے اندر دیوار کے ساتھ جہاں سایہ تھا وہاں چار پائی ڈالی، میری دونوں بہنیں جو ابھی بہت چھوٹی تھیں اور خالد، تینوں اس مزدور کو سہارا دے کر گھر لائے۔ امی جان نے اُس کو خربوزوں کے چھلکوں کا پانی ابال کر دیا اور کچھ اور دوائی وغیرہ بھی دی شام تک وہ مزدور جو کسی ساتھ والے گاؤں سے آیا ہوا تھا بہتر ہو گیا اور امی جان کو دعائیں دیتا ہوا اپنے گھر گیا اُمی جان کی باتیں لکھوں تو اخبار بھر جائے ایک دو اور واقعات لکھ دیتی ہوں یہ بھی ربوہ میں شروع کے دنوں کی بات ہے جب کہ ٹائلٹ میں نہ فلش سسٹم تھا اور نہ ہی کموڈ وغیرہ کی کوئی سہولت تھی۔ جمعدارنی ٹوکری لے کر آتی تھی اور گند وغیراُٹھا کر لے جاتی تھی۔ ہماری جمعدارنی ماں بننے والی تھی ہماری امی جان کو علم تھا۔ ہم بچے یہ سب کچھ نہیں جانتے تھے، کیونکہ اُس زمانہ میں بچوں کے سامنے ایسی باتیں نہیں کی جاتی تھیں۔ مگر ہم یہ ضرور دیکھتے تھے کہ ہماری امی جمعدارنی کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہیں۔ کھانے سے پہلے ہمیشہ اُس کے لئے اچھی چیز نکال کر رکھتیں۔ آ ہستہ آہستہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ امی اُس کو کہتیں کہ اب تم نہ آیا کرو، اپنے شوہر کو بھیجا کرو لیکن وہ خود ہی آتی رہی۔ ایک دن جب کہ وہ بالکل آ خری دنوں میں تھی تو وہ ٹوکری اُ ٹھانے لگی مگر اُس کو سنبھال نہ سکی ساری کی ساری ٹوکری اُس کے اُ وپر گِر گئی۔ وہ گند سے بھر گئی۔ اُس نے دوبارہ سارا گند اکٹھا کیا امی جان نے اُس کی مدد کی۔ وہ یہ الفاظ بار بار کہتی جا رہی تھی کہ بی بی آپ پیچھے ہو جائیں آپ کو گند لگ جائے گا۔ امی نے اُسی وقت میرے چھوٹے بھائی کو اس کے گھر بھیجا اور خود اس کو پانی سے نہلایا اور اپنے کپڑے نکال کر اُس کو پہننے کو دئے۔ گر م گرم چائے بنا کر دی۔ جب تک اُس کے گھر سے اس کو کوئی لینے نہیں آیا اُس کو آرام کروایا۔ وہ کہنے لگی بی بی اگر میں کسی اور گھر میں ہوتی تو نہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔
جو غیروں کے ساتھ اتنی محبت سے ملتی تھیں تو اپنے تو پھر اپنے ہوتے ہیں۔ میری امی جان اپنے بہن بھائیوں سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ جب وہ لندن سے پاکستان ربوہ گئی ہوئی تھیں تو اُن کو اپنے بھائی کی بیماری کا علم ہوا جو قادیان میں درویش تھے (ماموں جان محترم عبد الرحیم درویش) اُمی جان اپنے بھائی کی بیماری کا سُن کر رہ نہ پائیں اور اُن کی تیمارداری کے لئے قادیان چلی گئیں۔ امی کے ساتھ اُن کا ایک بھتیجا اور بھتیجی بھی گئے، امی جان کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس آ گئیں۔ آنے کے کچھ ہی دنوں بعد میرے ماموں جان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ ککڑ چیرٹی ہسپتال امر تسر میں داخل ہو گئے۔ اب پاکستان سے اتنی جلدی کوئی نہیں جا سکتا تھا کہ ویزا اتنی جلدی ملنا ممکن نہیں تھا لیکن میری امی کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا اس لئے اُن کو جانے میں کوئی مشکل نہیں تھی۔ وہ فوراً وہاں امرتسر ہسپتال پہنچ گئیں۔ بعد میں اُن کا بھتیجا بھی اُن کے پاس پہنچ گیا۔ امی جان بتاتی تھیں کہ مَیں وہاں ہسپتال میں دو ہفتے رہی تھی جو میرے لئے مشکل ترین وقت تھا۔ ایک تو پردہ کرنا پھر کھانے کی مشکل صبح، شام باہر سے نان چنے لا کر کھاتی رہی۔ بے شک مشکل وقت تھا لیکن خوش بھی تھیں کہ مَیں نے اپنے بھائی کی تیمار داری کی اور اُن کے پاس کچھ دن رہنے کا موقع بھی مل گیا۔ الحمد للہ۔
جہاں ربوہ اور لندن میں بے شمار بچوں کو قرآن کریم پڑھایا، اپنے نواسے نواسیوں کو قرآن پڑھاتے ہوئے ہمیشہ دعا مانگتی تھیں کہ اللہ میاں جی مجھے اتنی زندگی دے دے کہ میں اپنے بیٹے کے بچوں کو قرآن کریم پڑھا سکوں۔ الحمد للہ۔ اللہ پاک نے اُن کی یہ خواہش بھی پوری کی اور میرے بھائی کے چاروں بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھانے کی سعادت ملی۔
میرے اباجان کی اُستانی بھی، میری اُمی جان ہی تھیں جس دن اباجان نے قرآن کریم ختم کیا اباجان نے اپنی استانی جی کو قرآن مجید پڑھانے کی خوشی میں سوٹ تحفہ میں دیا۔
ہمارے اباجان ہمیشہ پاکستان سے باہر رہے خدا تعالیٰ پر توکل اتنا کہ کبھی لوگوں کی کہی کہائی باتوں پر یقین نہیں کرتی تھیں۔ اباجان 17 سال افریقہ میں رہے کبھی چھ سات سال بعد چکر لگتا۔ لوگ کئی طرح کی باتیں بناتے مگر ہماری امی جان کی زبان پر کبھی شکوہ آیا نہ دل شکنی ہوئی۔ امی اباجان کا پیار، اعتماد کا جو رشتہ تھا وہ اُن کوکبھی کمزور نہیں ہونے دیتا تھا۔وہی پیار اور اعتماد امی جان نے ہمیں بھی سکھایا۔ ہمیشہ ہمارے اُوپر اعتماد کیا بھروسہ کیا۔ ہماری پرورش میں ہماری امی جان نے انتھک محنت کی۔ بغیر کہے دل کی بات جان جاتیں۔ دنیا بھر کی فر مائشیں پوری کرنے کی کوشش کرتیں۔ اُس زمانہ میں بھی باپ کے بغیر بچوں کی پرورش کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔بے جا روک ٹوک نہیں کرتی تھیں مگر دین کے معاملہ میں کبھی نرمی نہیں کرتی تھیں، نمازوں کی پابندی، ناصرات یا لجنہ کے پروگراموں میں کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتی تھیں، بلکہ ناصرات کے اجلاس ہمارے ہی گھر میں ہوتے تھے۔
جہاں امی جان نے زندگی کے ہر مشکل سے مشکل امتحان میں کمزوری نہیں دکھائی اور بے حد بردباری اور تحمل سے ہر امتحان میں پاس ہوئیں۔ ایسے ہی انہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارتے ہوئے اُن کی زندگیوں کے ساتھی ڈھوندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اباجان پاکستان سے باہر ہی رہتے تھے اس لئے بچوں کی شادیوں کی ذمہ داریاں بھی امی جان کے حصہ میں آ ئیں۔ کچھ شادیوں میں اباجان شامل ضرور ہوئے۔ الحمد للہ۔
میرے اباجان 1969 ء میں لندن آ گئے تھے میری اُمی جان 1974ء میں اباجان کے پاس لندن تشریف لے آ ئی تھیں، جماعت کے کاموں میں اُمی جان نے ہمیشہ حصہ لیا۔ پاکستان بھی اجلاسات میں با قاعدگی سے جاتیں، چندہ لینے کی ڈیو ٹی اکثر امی جان کو مل جاتی۔ لندن آ کر بھی قرآن کریم پڑھانا، اجلاسات میں جانا،جب تک اللہ تعالیٰ نے ہمت دی جاری رہا۔ امی جان اور اباجان بسوں پر سفر کرتے ہوئے ہر جمعہ کو مسجد میں پہنچ جاتے آپ فرش پر بیٹھنا پسند کرتی تھیں،ڈیوٹی والی بہنیں ہمیشہ اُن کو کرسی پیش کرتی تھیں مگر ہمیشہ اُن کا جواب ہوتا مَیں نے جس زمین میں جانا ہے اُس پر ہی سجدہ کروں گی۔ اُمی میرے ابا جان کی بہت تابعدار تھیں۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اُن کی اجازت کے بغیر نہیں کرتی تھیں۔ اُمی اباجان ایک دوسرے کی بے حد عزت کرتے تھے ایک دوسرے سے تعاون، محبت، ہمدردی، احترام و تکریم اور ایثار کا ہمارے لئے نمونہ بنے رہے۔ دونوں کی زندگی بہت جفا کشی اور قربانیوں سے بھر پور گزری۔ اباجان لندن کے جلسہ سالانہ پر ایک مہینہ پہلے لنگر خانہ کی ڈیوٹی پر چلے جاتے اُمی جان ہمیشہ اُن کا کھانا گھر سے تیار کر کے بھجواتیں کھانے میں اباجان کے دوستوں کا بھی خیال رکھتیں۔ دونوں ایک دوسرے کا سہارا بنے رہے۔
محترم بشیر احمد رفیق سابق امام مسجد لندن ’میری پونجی‘ صفحہ13 پر تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی دونوں ہی تقویٰ شعار، پارسا اور خدا ترس واقع ہوئے ہوں۔ ایسے جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔ آپ کی والدہ صاحبہ کے حالات پڑھتے ہوئے بارہا یہ احساس ہوا کہ مرحومہ بھی اولیاء اللہ میں سے تھیں۔ اپنے خاوند کی وفا شعار، مہمان نواز، خوش کردار خاتون تھیں‘‘۔
جی تو کرتا ہے لکھتی جاؤں بہت کچھ ہے لکھنے کو ان شاء اللہ پھر لکھوں گی ضرور لکھوں گی اور لکھتی رہوں گی۔
زندگی کی آخری رات مَیں ہسپتال میں اُمی کے پاس تھی اباجان تھک کر گھر میں سو گئے تھے مَیں نے پوچھا اباجان کو بلوا لوں کہتی ہیں نہیں وہ بہت تھک گئےہیں اُن کو آرام کرنے دو۔ ہماری ماں سب کا خیال کرنے والی محبتیں اور پیار بانٹ کر 7 ستمبر 2001ء کو اپنے پیارے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔
الحمد للہ موصی تھیں ربوہ بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ میری اُمی جان اباجان کے درجات بلند فر مائے۔ آمین ثمّ آمین۔
(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)