• 29 جولائی, 2025

بچپن کی خوشگوار یادیں

سکول کے زمانے میں جب گر میوں کی لمبی چھٹیوں میں کہیں جانے کا پروگرام بنتا تو بہت خوشی ہوتی۔1974ء کی بات ہے ابا جان کی تقرری بحیثیت مربی سلسلہ حیدرآباد ہوئی۔ پروگرام یہ بنا کہ سب بہن بھا ئی کی چھٹیاں ہیں تو ہم بھی ابوجان کے ساتھ حیدرآباد جائیں گے اور چھٹیاں گزار کر واپس ربوہ آجائیں گے۔ ربوہ سے حیدرآباد جانا ٹرین میں ایک لمبا سفر تھا۔ اس کے لئے سیٹیں بک کر لی گئیں۔ امی جان نے کہا کہ رستہ کافی لمبا ہے کچھ پڑھنے کےلئے ساتھ رکھ لیں ۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ اور پڑھنے کو کیا ساتھ لیا مگر اتنا یاد ہے کہ میرے پاس راہ ایمان تھی۔

(راہ ایمان احمدی بچوں کےلئے ابتدائی دینی معلومات کا مجموعہ مرتبہ شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم)

سفر شروع ہوا، بھری ٹرین میں سیٹیں ڈھونڈیں اور ہم بیٹھ گئے۔ امی جان کے ساتھ پانچ بچے بھی تھے اس لئے برتھ بھی بک کروائی ہوئی تھی کچھ سٹیشن گزرنے کے بعد ایک خاتون بھی ہمارے ساتھ سوار ہوگئیں اور امی جان سے جگہ کا مطالبہ کیا چونکہ ان کا سفر ہمارے سفر سے چھوٹا تھا تو امی جان نے ان کو برتھ پر میرے ساتھ بیٹھنے کی جگہ بنادی۔

جو واقعہ میں بتانے لگی ہوں اس وقت میری عمر 11سال تھی۔ میں اپنی کتاب پڑھ رہی تھی کچھ دیر وہ خاتون خاموشی سے بیٹھی دیکھتی رہیں آخر کار انہوں نے پوچھ لیا کہ میں کیا پڑھ رہی ہوں؟ میں نے ان کو اپنی کتاب دکھا دی۔ انہوں نے کتاب کا جائزہ لیا اور کتاب واپس کردی۔

یہاں سے سوالوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ ہم کون ہیں؟ میں اپنے محدود علم کے مطابق جتنی تبلیغ کر سکتی تھی کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی جتنی دلیلیں دے سکتی تھی دیں۔

ربوہ میں رہ کر کسی کو تبلیغ کرنے کا موقعہ نہیں ملتا تھا کیونکہ ہم اللہ کے فضل سے احمدیوں میں رھتے تھے اس لیے یہ پہلا موقعہ مجھے تبلیغ کرنے کا ملا تھا۔ بہر حال اس روز تبلیغ کر کے میں بہت خوش ہوئی۔

اب اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ ہمارے حیدرآباد پہنچتے ہی خبر ملی کہ ربوہ سٹیشن پر کافی ہنگامہ ہوا ہے۔ پورے پاکستان میں فساد کی خبریں سننے کو ملیں۔

اس طرح کے حالات میں یہ فیصلہ ہوا کہ ابھی ربوہ واپسی ٹھیک نہیں۔ سرگودھا کی خبر تھی کہ کافی احمدیوں کے گھروں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ جن میں ہمارے ایک عزیز بھی تھے۔ میری دادی اماں نے ان کےلئے ہمارے ربوہ والے مکان میں رہائش کا بندوبست کیا اس طرح ان کی کچھ مدد ہوگئی۔

ادھر ہم بہن بھائی کی تعلیم کا مسئلہ کہ پڑھائی کا سال ضائع نہ ہو۔ امی جان اس بات کا بہت خیال رکھتیں کہ بچوں کی پڑھائی ضائع نہ ہو۔ایک واقعہ بیان کرتی ہوں :
گھر کے پاس کے اسکول سےداخلہ فارم منگوائے گئے۔ ہیڈ مسٹرس نے ٹیسٹ کےلئے بلا لیا۔ ٹیسٹ بھی پاس کر لیا۔ مگر ہیڈ مسٹرس نے فارم واپس بھجوادیئے کہ مذ ہب والا خانہ غلط فل کیا ہے۔ آپ نے اس میں مسلمان لکھا ہے حالانکہ آپ کو سرکاری طور پرغیر مسلم قرار دیا ہے۔ امی جان کو سکول ہیڈ مسٹرس کے ساتھ ملنے اور بات کرنے کےلئے جانا پڑا۔ امی جان نے ہیڈ مسٹرس کی بات سنی اور کہا کہ ویسے آپ ہمیں غیر مسلم کہ رہی ہیں مگرجب قرآن کریم پڑھنے اور تلاوت کرنے کا موقعہ ہو تو ہمارے بچوں سے تلاوت کرواتی ہیں۔

اس طرح کچھ روز بعد اس اسکول سے انکار ہو گیا۔ امی جان اور ابوجان دعائیں بھی کر رہے تھے۔ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ہمیں ایک ایسے سیکنڈری اسکول کا پتہ لگا جس کی ہیڈ مسٹرس ایک احمدی خاتون تھیں اور انہوں نے خوشی سے میرا اور میری بہن کا اسکول میں داخلہ کردیا۔ اس اسکول کا نام مریم ہائی اسکول فارگرلز تھا۔

اس اسکول کی اسمبلی کا آغاز روزانہ تلاوت قرآن کریم سے ہوتا۔ روزانہ ٹیچرز کو کسی طالبہ کو تلاوت کےلئے بلانے میں دقت ہوتی۔ ایک روز ہیڈ مسٹرس نے اعلان کیا کہ ہم سارے اسکول کا تلاوت کا مقابلہ کریں گے۔ مقابلہ کےلئے نام لکھوائے گئے اوراعلان کیا گیا کہ اس مقابلہ میں فرسٹ آنے والی طالبہ روزانہ اسمبلی میں تلاوت کرے گی۔

پروگرام کے مطابق مقابلہ ہوا اور اللہ کے فضل سے خاکسار نے تلاوت قرآن کریم میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ سارا سال اسمبلی یا کوئی بھی اسکول کا فنکشن ہوتا تو مجھے قرآن کریم کی تلاوت کی سعادت حاصل ہوتی۔ الحمدللہ

اباجان کورہائش کےلئے لطیف آباد نمبر8 حیدرآباد میں گھرملا تھا۔ دروازہ سے نکلیں تو کچھ دکانیں تھیں اور کچھ ریڑھیاں تھیں جن میں سےامرود کی ریڑھی یاد ہے۔ باہر کے مین دروازہ سے اندرآئیں توگھر شروع ہونے سے پہلے کافی خالی جگہ تھی جہاں بعد میں اباجان نے سبزیاں اور پھول لگا کرپیارا سا باغیچہ بنا لیا تھا جب کے گھر کی پچھلی سائیڈ پر لوگوں کے گھر تھے۔

ہمارے دروازہ کے سامنے جن کا گھرتھا وہ ایک شریف خاندان تھا۔ ان کی بچیاں کبھی کبھی ہم سے کھیلنے آجاتیں۔ ان بچیوں کی والدہ اور دادی جان ہماری امی جان سے بہت محبت سے پیش آتیں۔ ان کو بھی حالات کاعلم تھا۔ وہ دونوں اکثرامی جان سے کہتیں کہ گھبرانا نہیں اگر مشکل وقت آئے تو ہماری طرف آجانا۔

ایک دن ابوجان صبح کام سے باہر نکلنے لگے تو دیکھا کہ دروازہ پرایک بڑاسا نوٹس لگا ہوا ہے۔ ابو جان نے چپکے سے اتار کر جیب میں ڈالا اور اپنے کام پر چلے گئے۔ شام کو جب گھرآئے تو پتہ چلا کہ اس پر لکھا تھا کہ چوبیس گھنٹوں میں مکان خالی کر دیں ورنہ بچوں سمیت آگ لگا دی جائے گی۔ خوف تو تھا مگر ہمیشہ خدا نے اپنے فضلوں کا سایہ ہمارے ساتھ رکھا اور ہر طرح کی مشکل سے بچایا۔ ایک دو اور واقعات یاد آرہے ہیں جن کا تعلق بھی میری والدہ محترمہ محمودہ باسط صاحبہ سے ہی ہے۔سوچا کہ ان کا ذکر بھی کردوں۔

اس وقت میری عمر چاربرس کی ہوگی۔ ابوجان کی تقرری جہلم میں تھی۔ اباجان نے کلرکہار دورہ پر جانا تھا اس دفعہ ہم بھی ساتھ گئے۔ وہاں جس فیملی کے ہاں ٹھہرے انہوں نے پیار اور محبت سے میزبانی کی۔ بہت خوبصورت جگہ تھی۔ اس وقت ایک گاؤں کی طرح تھا مگراب سنا ہےکہ ایک بڑا شہر بن گیا ہے۔ وہاں کی سیرمجھے ہمیشہ یاد رہی۔ پہاڑی علاقہ تھا آپ بادلوں کو چھو سکتےتھے۔ پتھروں کے نیچے سے پانی نکل رہا تھا۔ واٹرفال پہلی دفعہ دیکھی۔ چشمے بہ رہے تھے۔ جس چشمے کے پاس ہم بیٹھےتھے اس میں گولڈ مچھلیاں تیررہی تھیں۔ پہلی گولڈ فش اس وقت دیکھی اورپکڑی بھی۔

واقعہ جو لکھنے لگی ہوں یہ ان چشموں کے پاس کا ہے کہ پاس ایک پہاڑی پردو قبریں نظر آرہی تھیں۔ کافی عورتیں اوپرجارہی تھیں اور پھول چڑھاتی تھیں کچھ اورچیزیں بھی رکھتی اور منت مانگتی تھیں۔ روتی اور سوگ مناتی تھیں۔ یہ دو بھائیوں کی قبریں تھیں اور ان پر لکھا تھا:

ہوبہو یعنی ایک قبر ہو اور دوسری پربہو۔ یعنی دونوں بزرگ بالکل ہم شکل تھے۔

امی جان نے جب یہ ماجرا دیکھا تو پاس جاکران سے کہا کہ آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ میں نے سارا قرآن کریم پڑھا ہے اور سارے قرآن کریم کا ترجمہ بھی پڑھا ہے مجھے تویہ باتیں کہیں نظر نہیں آئیں۔ اس طرح امی جان کو تبلیغ کا موقعہ بھی مل گیا۔

تقریباً دس سال کا عرصہ اباجان افریقہ میں مبلغ سلسلہ کی حیثیت سے فیملی کے بغیر رہے۔ پھر خدا کی توفیق سے چھوٹے تین بہن بھائیوں کے ساتھ لوساکا ذیمبیا جانے کا موقعہ ملا۔

یہ سنی ہوئی بات کا ذکر کر رہی ہوں۔ لوساکا پہنچنے پرایک احمدی فیملی کے پاس پہنچنا تھا ان کے ہاں کھانے کا انتظام تھا اور کھانے کے بعد انہوں نے ہی رہائش گاہ پر پہنچانا تھا۔ کھانے کے بعد گھر کی خاتون میری امی جان مکرمہ محمودہ باسط صاحبہ سے یوں مخاطب ہوئیں کہ میرا خیال ہے آپ کو بتا دوں کہ یہ جس طرح آپ نے برقعہ پہنا ہوا ہے یا پردہ کیا ہے اس کو یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا شاید آپ کو یہ بدلنا پڑے ۔۔۔ امی جان نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں تویہاں برقعہ پہنانے آئی ہوں نہ کےبرقعہ اتروانے۔

ایسی ہی ایک اور بات رخصتی کے وقت میں نے ربوہ سے انگلینڈ آنا تھا توسب بڑوں نے اورخاص طور پر امی جان نے پردہ کی بہت تاکید کی کہ انگلینڈ کا ماحول جیسا بھی ہو آپ نے پردہ کا خیال رکھنا ہے۔ الحمدللہ اب میں بہو بیٹیوں والی ہوں۔ اللہ کے خاص فضل سے بچیاں بھی اس بات کا خوب خیال رکھتی ہیں اور پردے میں رہ کرڈاکٹراور ٹیچرکے شعبے سے منسلک کام انجام دے رہی ہیں۔ الحمدللہ

خدا کرے آیندہ آنے والی نسلیں بھی بڑوں کے نیک نقش قدم پر چلنے والی ہوں۔ ہمیشہ خلافت کی رسی کو تھام کرصراط مستقیم پر چلنے والی ہوں۔آمین

(مبشرہ شکور بنت عبدالباسط شاہد۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ