جب سے ہوش سنبھالا گھر میں ہر روز الفضل پوسٹ کے ذریعے آتا دیکھا۔ پڑھنا نہیں بھی آتا تھا تو تب بھی یہی پتہ تھا کہ یہ ایسی قیمتی چیز ہے کہ جسے ہر روز اباجا ن کی میز پے ضرور ہونا چاہیے۔ ابا جان (محمد نصیب عارف صاحب مرحوم )آفس سے آتے تو عصر کی با جماعت نماز کے بعد ہم سب گھیرا ڈال کے بیٹھ جاتے تو ابا جان اخبار سے ہمیں اچھی اچھی باتیں پڑھ کے سناتے۔ اور ہمارے لئے وہ قیمتی اور سچی باتیں بہت بڑا زندگی کا سرمایہ ہوتیں جن میں ہر روز سیکھنے اور سبق لینے کے لئےضرور کوئی نہ کوئی بات نقش کر جاتی۔ اور پھر ابا جان الماری کے ایک خانے میں ترتیب وار اخبار محفوظ کرتے جاتے۔ ایک بھی شمارہ ادھر سے اُدھر نہ ہونے دیتے۔ اور سال گزرنے پے اس کی جلد تیار کر لیتے۔ سبحان اللہ۔
کیا ہی خوبصورت وہ دن ہوتا جب چھٹی والے دن ابا جان خود اپنے ہاتھ سے جلد کرتے۔ اور ہم پاس بیٹھے یا بھاگ بھاگ کے ان کی ضرورت کی ہر چیز لاکے انہیں دیتے اور اس کارخیر میں حصہ لیتے۔ یہ تمام الفضل کی جلدیں اور ابا جان اور ہمارے خاندان کے دوسرے گھرانوں کی کتب امی جان اپنی وفات سے پہلے ترتیب وار سیٹ کرکے لجنہ لائیبریری راولپنڈی کو دے آئیں ۔ آج وہ لجنہ کی لائبریری بھی امی جان کے نام پے زکیہ لائبریری کے نام سے موسوم ہے۔
اے اللہ !میرے والدین پے رحم کر جیسا انہوں نے ہمیں بچپن میں رحم سے پرورش کی۔ آمین
جب میں خود پڑھنے کے قابل ہوئی تو ابا جان بلند آواز سے اخبار سنتے تاکہ تلفظ بھی ٹھیک ہو، اردو بھی، لہجہ بھی اور علم میں اضافہ بھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں اخبار کا ایک ایک لفظ پڑھا کرتی۔ یہاں تک کہ نکاح کے اعلان ، درخواست دعا، اعلان وفات، حتی کہ جس دن وصیت کے اعلان چھپتے تو میرا پڑھنے کا وقت اور لمبا ہوجاتا۔ کیونکہ میں سب کے وصیت کے اعلان پڑھتی۔ جہاں مخلص احباب و خو اتین اور بچے بچیاں اپنے تین سو روپے کے جیب خرچ اور صرف دو سونے کی بالیوں یا ایک انگوٹھی کی جائیداد پر بھی وصیت کروا رہے ہوتے۔ تو کہیں کروڑوں کی جائیداد اور حصہ آمد پے انفاق فی سبیل اللہ کو سامنے رکھ کے مالی قربانی کی جارہی ہوتی۔ اور میں سوچتی کہ افریقہ کے غریب ترین لوگوں کی قربانی سے لے کے اور دنیاکے بھی امیر ترین احمدیوں اور تیسری دنیا کے غریب ممالک کے غریب لیکن پرخلوص فدائی احمدی کس طرح اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کے سچے مہدی علیہ السلام کی اطاعت میں مالی قربانی کرتے ہیں اور اپنی نسلوں اور اپنے مال کو پاک کر کے جنت میں گھر بناتے ہیں اور یہ سب کچھ اس آخری زمانے کی ناجی جماعت میں رہ کے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر ؎
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
کے مصداق صرف یہی جماعت ہی ہے۔ اور اس کو مضبوط بنانے کے لئے ہر احمدی کا متقی ہونا بہت ضروری ہے۔
بات الفضل کی ہورہی تھی اور میں کہیں اور نکل گئی۔ غرض یہ کہ الفضل اخبار میرے لئے ایک دنیا تھی۔ ایک لائحہ عمل تھی۔ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے والے تھی۔ ایک دوسرے کومحبت سکھاتی تھی۔ کتنے ہی نام جو اس میں لکھے ہوتے تھے۔ اپنی تحاریر کی وجہ سے وہ نام اور شخصیات دل میں نقش ہو جاتیں۔ اور ایسا لگتا کہ ہم سب ایک ہی جیسے اور شناسا ہیں۔ اور جب کبھی کسی موقع پے ملاقات ہوتی۔ تو کبھی پرائے نہیں لگے۔ کہ الفضل کی وجہ سے ان کے ساتھ غائبانہ محبت کا رشتہ جو دل میں ہوجاتا تھا۔
میرے بڑے بھائی رفیق احمد فوزی صاحب مرحوم سن اسیّ80 ءکی دہائی میں نائیجیریا رہے۔ جہاں دوری کی وجہ سے اکثر الفضل لیٹ بھی ہوجاتا تھا۔ اور جب ملتا تو اس میں ساری معلومات ہوتیں کہ پردیس میں جماعت اور گھر سے دور کی تشنگی ختم ہوجاتی۔
غرض الفضل ایسا زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا رہا کہ سسرال میں بچوں کے دادا جان کو بھی روزانہ پڑھ کے سناتی۔ پھر اپنے بچوں کو بھی اسی طرح سنانے لگ گئی جیسے ابا جان ہمیں سناتے تھے۔
جو اچھی نظم ،واقعات ،احادیث نظر آتیں۔ وہ میری ڈائری کی زینت بن جاتیں۔ کلام طاہر تو بہت بعد میں چھپی لیکن حضور کی نظمیں الفضل سے ہوتیں میری ڈائری اور پھر ترنم کی زینت بنتے ہوئے اجلاسات کی رونق بھی بننے لگیں۔ بیسیوں شاعروں کے کلام پڑھنے کو ملتے اور یاد رفتگان سے لے کے معجزانہ واقعات اور حضور ایدہ اللہ کی صحت ،مصروفیات اور خبریں سب کا علم ہوتا رہتا اور علم سے محبت بڑھتی رہتی۔
پھر مشئیت ایزدی ناروے لے آئی۔ اور الفضل کچھ عرصہ کے لئے دور ہوگیا۔ لیکن اس کی یاد دل سے نہ گئی۔ اور آخر ایک مستقل ایڈریس ملتے ہی اخبار لگوا لیا جو پھر سے پوسٹ میں آنے لگ گیا تو ایک عجیب سے خوشی کا احساس ہوتا۔ اور پردیس میں دنیا کے ایک کونے کے ملک میں بھی جماعتی اور ملکی خبروں سے اللہ نے دور نہیں ہونے دیا۔ اور ثابت کردیا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اور اس کی سب سے بڑی گواہی احمدیوں کو وہاں لے جا کے آباد کرنا اور پھر اخبارات کے ذریعے جماعت کا پیغام پہچانا۔ سبحان اللہ
لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آگیا کہ مخالفین احمدیت نے پریس تک بند کروادیے اور مجبوری روزگار نے کچھ عرصہ الفضل سے بہت دور کر دیا۔ کبھی کبھی کہیں سے پڑھنے کو مل،جاتا تو سیراب ہوجاتے۔ لیکن شکر الحمدللّٰہ۔ کہ اللہ نے جب ایک در بند کیا تو کئی کھول دیے۔ اور اب الفضل کی کئی جریدے چھپتے ہیں الحمدللّٰہ۔ آن لائن بھی ہے۔ انٹر نیشنل بھی ہے۔ اور ہم قارئین الفضل اس سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اور مکمل خطبات کے متن پڑھ کے خلیفہ وقت کی فوری اطاعت کے قابل ہیں۔اور یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی کہ امام مہدی کے زمانے میں اس کی جماعت اس زمانے کی ہر الیکٹرانک ایجادات سے فائدہ اٹھائے گی۔
حضرت امام محمد باقر نے فرمایا:
ان کے لئے زمین سمٹ جائے گی اور زمین میں پوشیدہ خزانے ان پر ظاہر ہو جائیں گے۔ ان کی ساری سلطنت مشرق و مغرب پر پھیل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے اپنے دین کو ظاہر و غالب کرے گا خواہ مشرکین اسے کتنا ہی ناپسند کریں۔
( بحارالانوار جلد بارہ صفحہ78)
آج یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے احساس ہورہا ہے۔ بچپن کی الفضل سے محبت جو میرے والدین نے میرے دل میں ڈالی اور اللہ کے فضل اور انعام نے ہی مجھے ایک لمبی زندگی گزارنے کے بعد یہ توفیق دی کہ آج میں الفضل کی ٹیم کا حصہ بن سکوں جو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اس تحریر کے ذریعےمیں ان سب کی فرداً فردا ًشکر گزار بھی ہوں جو مجھے یہاں تک لانےاور مجھے لکھنے کی طرف توجہ دلانے کا سبب بھی بنے۔ اللہ ان سب کو اس کا اجر دے۔ اور ان کی نسلوں میں نیکیاں جاری رکھے آمین
اللہ کرے کہ آج بھی ایسے والدین ہوں جو میرے اور کئی دوسرے والدین کی طرح اپنے بچوں میں الفضل کی محبت اور علم کی طلب پیدا کرکے خود پڑھ کے سنانے اور سننے والے ہوں آمین۔
خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم الفضل کے ذریعے علم اور مہدی و مسیح موعود علیہ اسلام کی جماعت کی محبت اور خلیفہ کی اطاعت اپنی نسلوں میں پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ پڑھنے والے بنا سکیں۔ کیونکہ بخاری کی حدیث ہے کہ دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ۔ اور یہ اخبار ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا ایک ایک لفظ آپ کی زندگی اور آخرت سنوار سکتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے :-
اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ السَّیِّئَۃَ ؕ
(المومنون: 97)
بدی کو نیکی سے دور کرو
تو آج کے بدی کے اس زمانے میں جہاں دنیا گناہوں کے دلدل میں پھنسی ہے۔ اور جہاں گمراہی ہر جگہ پھیلی ہے وہاں الفضل باقاعدگی سے پڑھنا، پڑھانااور اس کا شوق پیدا کرنا اور اس میں لکھنا ایسی نیکی ہے جو آپ کی آنے والی نسلوں کو بدی سے دور کر نے میں مددگار ہے۔ خدا ہمیں اس کی توفیق دے آمین۔
آخر میں حضور انور کا وہ بصیرت افروز پیغام یہاں ازدیاد ایمان کے لئے دوبارہ لگانا چاہوں گی جو حضور انور نے الفضل آن لائن کے اجراء کے موقع پے 3 جنوری 2020ء کو دیا تھا۔
پیارے قارئین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ کہ روزنامہ الفضل لندن کے آن لائن ایڈیشن کا اجراء ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی انتظامیہ کو اخلاص و وفا اور محنت کے ساتھ اسے بہترین رنگ میں شائع کرنے کی توفیق دے اور اسے ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ آمین مجھ سے اس موقعہ پر پیغام بھجوانے کی درخواست کی گئی ہے۔ میرا پیغام یہ ہے کہ یہ دور سائنسی ترقی کا دور ہے۔ (اللہ تعالیٰ کے فضل سے جدید دور کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزنامہ الفضل لندن کے آن لائن ایڈیشن کا اجراء کیا جا رہا ہے جو بذریعہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ ہر وقت بڑی آسانی کے ساتھ دستیاب ہوا کرے گا۔ یہ جماعت کا اہم اخبار ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تعلیمات پیش کی جائیں گی۔ خلیفہ وقت کے خطبات اور خطابات بھی شائع ہوا کریں گے اور اس کے ذریعہ احباب جماعت کے اندر خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق مزید تقویت پائے گا۔اسی طرح اس میں مختلف ممالک سے جماعتی ترقی اور اہم تقریبات کی رپورٹس وغیرہ بھی شامل ہوا کریں گی۔ اس کے ذریعہ قارئین کو تاریخ احمدیت اور جماعتی عقائد سے آگاہ کیا جائے گا۔ یہ دینی معلومات میں اضافہ کا باعث ہو گا اور دینی اور روحانی تربیت کے سامانوں سے آراستہ ہو گا۔ پس یہ اخبار ان شاء اللہ بہت مفید معلومات کا مجموعہ ہو گا۔)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مختلف مواقع پر احباب جماعت کو الفضل کے مطالعہ کی تحریک فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا کہ
الفضل جماعت کا اخبار ہے لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون سی نئی چیز ہوتی ہے، وہی پُرانی باتیں ہیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، وہ فرماتے ہیں کہ شاید ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے تھےکوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شاید مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں لیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آجایا کرتی ہے۔
( الفضل انٹرنیشنل 26دسمبر 2009ء)
اسی طرح ایک اور بار فرمایا:
’’اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔‘‘
(الفضل 31دسمبر 1954ء)
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’اب میں تحریک کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اخبارات کو خریدیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اس زمانہ میں اخبارات قوموں کی زندگی کی علامت ہیں کیونکہ ان کے بغیر ان میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جا سکتی۔‘‘
(انوارالعلوم جلد4 صفحہ142)
احباب جماعت الفضل کے نام سے خوب مانوس ہیں اور سب کو اس سے محبت ہے۔ الفضل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ (خلیفۃ المسیح الثانی، المصلح الموعود) نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں قادیان سے جاری فرمایا تھا۔ اس کا آغاز بڑی قربانیوں سے ہوا۔ کافی عرصہ تک حضرت مصلح موعود ؓ اسے اپنے ذاتی خرچ سے شائع فرماتے رہے۔ اس کے اجراء کے وقت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے ایک زمین پیش فرمائی اور میری والدہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے دو زیور پیش کئے۔ پس قارئین الفضل حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کو اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے وقت دعاؤں میں یاد رکھیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کے پہلے پرچہ میں اخبار کے مقاصد تحریر فرماتے ہوئے یہ دعائیہ فقرے بھی تحریر فرمائے کہ
’’اے میرے مولا ……لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس کے سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔‘‘
(الفضل 18جون 1913ء صفحہ3)
میری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ،آپ رضی اللہ عنہ کی دعائیں قبول فرمائے۔ اور الفضل ہمیشہ ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کرتا چلا جائے اور یہ بھی خلیفہ وقت کےلئے ایک حقیقی سلطان نصیر کا کردار ادا کرنے والا بنے۔ آمین
والسلام
خاکسار
(دستخط مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس)
(قدسیہ نور والا۔ناروے)