• 28 اپریل, 2024

کرونا وائرس سے حفاظت اور سادگی اپنانے کی ضرورت

اس دور میں کرونا وائرس نے ہم سب کو کئی باتوں میں سیدھے راستے پر گامزن کر دیا ہے۔ لیکن ابھی بھی بعض امور توجہ طلب ہیں۔ ان میں سے ایک ٹھاٹھ باٹھ اور فضول خرچی کے ساتھ شادی کی تقریبات ہیں۔ ہمارے ایشیائی معاشرے میں جس شادی کو سج دھج کے ساتھ اور غیر ضروری رسومات کے ساتھ نہ منایا جائے اُسے شادی یا خوشی نہیں کہا جاتا۔ اسلام نے سادگی کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں خلافت احمدیہ عطا ہوئی ہے اور ہم بہت سی لغویات اور فضولیات سے بچ گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی تو اس کے مطالبات میں سب سے پہلا مطالبہ سادہ زندگی اپنانا ہے۔ اور رسومات سے بچنے کی تلقین ایک اور مطالبہ میں ملتی ہے۔

کرونا کی وبا نے ہمیں سادگی پر مائل کر دیا ہے۔ وہ لوگ جو آج کے مادی طور میں مہنگی ترین شادیوں سے گھبراتے تھے انہوں نے نہایت سادگی سے اپنے بچوں کی شادیاں کر دیں اور سفید پوشوں کی پردہ پوشی بھی رہ گئی۔ مَیں نے خود بھی ان دنوں دسیوں لوگوں کو اپنے بچوں کی اور بچوں کوبھی اپنی شادیاں سادگی سے کرنے کی تحریک کی۔ ان میں اکثر نے نہایت کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے شادی کردی۔ بلکہ ربوہ میں میرے ایک پیارے صاحب حیثیت دوست نے واٹس ایپ پر میسسجز کے ذریعہ اپنے بیٹے کی شادی کی اطلاع دے کر دعا کی درخواست کی اور اپنے صحن میں دس پندرہ عزیزوں کو بُلا کر ولیمہ کر دیا ،جبکہ محلہ میں جاننے والوں کے گھروں میں شیرینی بانٹ کر ان کو بھی خوشی میں شامل کیا۔ میری ایک عزیزہ نے بہت حسرت کے ساتھ مجھے یہ کہا کہ کاش ! میری بچیوں کے رشتے ہوئے ہوتے تو میں ان حالات میں نہایت سادگی سے ان کو بیاہ دیتی۔

مجھے یاد ہے کہ جرمنی سے ایک دوست نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے اس کرونا وبا میں بیٹے کی شادی کے لئے مشورہ کی درخواست کی تو حضورانور نے تحریر فرمایا ۔ آپ دونوں میاں بیوی اور بیٹا ایک گاڑی میں جا کر دلہن کو ساتھ لے آئیں ۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ حالانکہ اس دوست کے بہن بھائی اور دیگر قریبی رشتہ دار ان کے آس پاس ہی مقیم ہیں۔ اُن کو بھی مدّعو نہ کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔ اعتراض ہونا بھی کیا تھا۔ جب خلیفۃ المسیح نے ہدایت فر مادی تو سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۔ اگر پہاڑ بھی ٹوٹ جائے تو خیر ہے ۔اطاعت خلافت لازمی ہے۔

اس کے مقابل پر ایسے لوگ بھی ہیں جو تمام پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر کثیرتعداد میں مدّعووین کو بلا کر شادی کرنے پر مجبورہوتے ہیں ۔ ان مواقع پر ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں جن کو اتنا شعور بھی نہیں ہوتا کہ ہم کرونا میں مبتلا ہیں، دوسروں کی اس مرض سے حفاظت کی خاطر ہم نہ جائیں۔ صبر کریں اور معذرت کر دیں۔ ایسی شادیوں پر پھر ایسے شعور سے عاری مد عووین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس حوالہ سے خبریں ملتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمنی سے اطلاع تھی کہ 60 افراد پر مشتمل شادی کے ایک فنکشن میں کرونا میں مبتلا ایک مریض دیگر مہمانوں میں گھل مل گیا اور درجنوں بے قصور اور معصوم لوگوں کو کرونا کا تحفہ دے گیا۔ اسی طرح ایک شادی میں کرونا سے متاثر ایک میاں بیوی نے شرکت کرلی۔ جن سے کئی افراد متاثر ہوئے ان میں سے ایک متاثرہ خاتون نے اپنے خاندان کے ایک بزرگ کو اطلاع دے کر دُعا کی درخواست کی۔ اس بزرگ نے دعا دی اور بعد میں بھی کر ر ہے ہوں گے مگر ساتھ ہی انہوں نے لکھا ’’یہ شادی کی کرامات ہیں‘‘ کرامات کے الفاظ گو اچھے معنوں میں استعمال ہوتےہیں لیکن یہاں اس کے معنی نوازشیں وغیرہ کے ہیں ،گو نوازشیں بھی مثبت لفظ ہے لیکن یہاں منفی معنوں میں لیا جائے گا۔

ایسی شادیوں پر تمام ایس او پیز کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔ ہمارے ایشیائی معاشرہ میں ہر بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔ ضروری ہے کہ جس طرح پاکستان میں شادی کارڈ پر لکھا جاتا ہے ’’وقت کی پابندی کریں‘‘ اسی طرح یہ الفاظ شادی کارڈ پر لکھنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ ’’کرونا سے متاثرہ لوگ شامل نہ ہوں‘‘ فنکشن میں ہاتھ ملانے اور معانقہ کرنے سے پرہیز کریں ۔ بلکہ شادی ہال میں بھی ان تحریروں کے بینرز آ ویزاں کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے لوگوں کے لئے جو ان حالات میں بھی بڑے فنکشن کرنے اور بے دریغ پیسہ خرچ کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ جماعت نے نیکی کمانے کے اوربھی سامان پیدا کر رکھے ہیں ۔ جیسے مریم شادی فنڈ میں رقم ادا کرکے کسی احمدی بچی کے لئے رقم تحفۃً دی جا سکتی ہے ۔ یتامیٰ فنڈ اور سیدنا بلال فنڈ میں بھی ثواب کی خاطر مالی قربانی پیش کی جاسکتی ہے یا ویسے خاموشی سے اپنے ماحول میں ایسے خاندان کی احمدی بچی کی شادی کروائی جا سکتی ہے جومناسب اخراجات کی بھی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔

یہاں مغربی ممالک میں تو اطلاعات کا نظام ایسا موثر ہے اگر فنکشن میں کرونا سے متاثر شخص نے شمولیت کی ہے تو اس فنکشن کے تمام شاملین جو ملک کے ہیلتھ سسٹم سے منسلک ہیں کو دس دن تک Isolate کرنے کی ہدایت آ جاتی ہے تا کرونا مزید نہ پھیلے ۔ مگرکچھ ممالک میں تو احتیاط بھی نہیں برتی جاتی اور دوسرے پیشگی حفاظت کے لئے کوئی انتظام بھی نہیں ہے ۔

آج کے کرونا کے خطر ناک حالات کے پیشِ نظر ان چند سطورسے آئندہ شادی کرنے والوں سے ایس او پیز کو ملحوظ خاطر رکھنے کی درخواست ہے ۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےبھی متعدد بار احتیاط برتنے اور ایس او پیز کو اپنا نے کی تلقین فر مائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ہر آفت اورمصیبت سے محفوظ کرتےہوئے صحت و سلامتی سے رکھے اور اسلامی تعلیمات کو اپنانےاور فضول رسموں سے بچنے کی تو فیق عطا فرماتا رہے ۔ آ مین ۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ