• 29 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 10)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 10

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پور اکرنے والی ہو۔ اندرونی تبدیلی کرنی چاہیے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔ اگر تم میں مکر،فریب،کسل اور سستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کئے جاؤ گے۔ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے بوجھ کو اُٹھائے اور اپنے وعدے کو پورا کرے۔ عمر کا اعتبار نہیں دیکھو مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہو گئے۔ ہر جمعہ میں ہم کوئی نہ کوئی جنازہ پڑھتے ہیں۔ جو کچھ کرنا ہے اب کر لو۔جب موت کا وقت آتا ہے تو پھر تاخیر نہیں ہوتی۔ جو شخص قبل از وقت نیکی کرتا ہے امید ہے کہ وہ پاک ہو جائے۔ اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70) میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے۔ اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالاؤ۔ صدقہ خیرات کرو۔ جنگلوں میں جا کر دعائیں کرو۔ سفر کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرو۔ بعض آدمی پیسے لے کر بچوں کو دیتے پھر تے ہیں کہ شاید اسی طرح کشوف باطن ہو جائے۔ جب باطن پر قفل ہو جائے تو پھر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اﷲ تعالیٰ حیلے کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ جب انسان تمام حیلوں کو بجالاتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانہ بھی ہو جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ188-189 ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق
ایمان کی حقیقت

جب لوگوں کو تبلیغ کی جا تی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں۔ کیا ہم نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کو حقیقت ایمان کا علم نہیں ہے۔ اگر علم ہوتا تو وہ ایسی با تیں نہ کرتے۔ اسلام کا مغز کیا ہے اس سے بالکل بیخبر ہیں حالانکہ خداکی یہ عادت قدیم سے چلی آئی ہے کہ جب مغز اسلام چلا جاتا ہے تو اس کے از سر نو قائم کرنے کے واسطے ایک کو ما مور کر کے بھیج دیتا ہے تا کہ کھائے ہوئے اور مرے دل پھر زندہ کئے جا ویں مگر ان لوگوں کی غفلت اس قد ر ہے کہ دلوں کی مردگی محسوس نہیں کرتے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ: 113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے اور نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جاوے گو یا اس کے قویٰ خدا تعالیٰ کے لئے مر جاتے ہیں گویا وہ اس کی راہ میں ذبح ہو جاتا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اس اسلام کا نمونہ دکھلایا کہ ارادہ الٰہی کی بجا آوری میں اپنے نفس کو ذرا بھی دخل نہ دیا اور ایک ذرا سے اشارہ سے بیٹے کو ذبح کرناشروع کر دیا مگر یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔جو کام ہیں ان میں ملونی ہوتی ہے۔اگر کوئی ان میں سے رسالہ جا ری کرتا ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ روپیہ کماوے بال بچے کا گزارہ ہو۔ ابھی حال میں ایک شخص کا خط آیا ہے۔ لکھتا ہے کہ میں نے عبد الغفور کے مرتد ہونے پر اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں ایک رسالہ لکھنا شروع کیاہے۔ امداد فرماویں۔ ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اسلام کیا شے ہے۔ خدا کی طرف سے کوئی نفخ روح اس میں نہیں لیکن رسالہ لکھنے کو طیار ہے۔ ایسے شخص کو چاہئے تھا کہ اوّل تزکیہ نفس کے لئے خود یہاں آتا اور پو چھتا اور اول خود اپنے اسلام کی خبر لیتا لیکن عقل، دیانت اور سمجھ ہوتی تو یہ کرتا۔ مقصود تو اپنی معاش ہے اور رسالہ کوایک بہانہ بنایا ہے۔ہر ایک جگہ یہی بد بو آتی ہے کہ جو کام ہے خدا کے لئے نہیں بیوی بچوں کے لئے ہے۔جو خد ا کا ہو جا تا ہے تو خدا اس کا ہو جاتا ہے اور اس کی تا ئیدیں اور نصرت کا ہاتھ خود اس کے کاموں سے معلوم ہو جاتی ہیں اور آخر کار انسان مشاہد ہ کرتا ہے کہ ایک غیب کا ہا تھ ہے جو اُسے ہر میدان میں کامیاب کر رہا ہے۔انسان اگر اس کی طرف چل کر آوے تووہ دوڑ کر آتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف تھوڑا سا رجوع کرے تو وہ بہت رجوع ہوتا ہے۔ وہ بخیل نہیں ہے۔سخت دل نہیں ہے۔جو کوئی اس کا طالب ہے تو ا س کا اوّل طالب وہ خود ہو تا ہے۔لیکن انسان اپنے ہاتھوں سے اگر ایک مکان کے دروازے بند کر دیوے تو کیا روشنی اس کے اندر جاوے گی ؟ہر گز نہیں۔ یہی حال انسان کے قلب کا ہے۔اگر اس کا قول وفعل خدا کی رضا کے موافق نہ ہوگا اور نفسانی جذبات کے تلے وہ دبا ہوا ہو گا تو گویا دل کے دروازے خود بند کر تا ہے کہ خدا کا نور اور روشنی اس میں داخل نہ ہو لیکن اگر وہ دروازوں کو کھولے گا تو معاً نور اس کے اندر داخل ہو گا۔

ابدال، قطب اور غوث وغیرہ جس قدر مراتب ہیں یہ کوئی نماز اور روزوں سے ہاتھ نہیں آتے۔ اگر ان سے یہ مل جاتے تو پھر یہ عبادات تو سب انسان بجا لاتے ہیں سب کے سب ہی کیوں نہ ابدال اور قطب بن گئے۔ جب تک انسان صدق وصفا کے سا تھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہو گا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے۔ جب ابراہیم کی نسبت خد ا تعالیٰ نے شہادت دی وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی (النجم: 38) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پور ا کیا۔تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الٰہی سے بھرنا،خدا کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تا بع ہو تا ہے ویسے ہی تا بع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو کوئی فرق نہ ہو۔یہ سب باتیں دعا سے حا صل ہوتی ہیں۔ نماز اصل میں دعا کے لئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے۔لیکن جو شخص سو یا ہو ا نماز ادا کرتا ہے کہ اُسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں۔جیسے دیکھا جا تا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ نماز وہ شے ہے کہ جس سے پانچ دن میں روحانیت حاصل ہو جاتی ہے۔ بعض نما زیوں پر خدا نے لعنت بھیجی ہے جیسے فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ۔ (الماعون: 5) وَیْلٌ کے معنے لعنت کے بھی ہوتے ہیں پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سست نہ ہو اور نہ غافل ہو۔

ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اُسے چاہیے کہ ایک موت اختیا ر کرے نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اﷲ تعالیٰ کو سب شے پر مقدم رکھے۔ بہت سی ریاکاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے۔ پوچھا جاوے تو لو گ کہتے ہیں کہ برادری کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ ایک حرام خور کہتا ہے کہ بغیر حرامخوری کے گزارہ نہیں ہو سکتا۔جب ہر ایک حرام گزارہ کے لئے انہوں نے حلال کر لیا تو پو چھو کہ خدا کیا رہا ؟ اور تم نے خد ا کے واسطے کیا کیا؟ ان سب باتوں کو چھوڑنا موت ہے جو بیعت کر کے اس موت کو اختیار نہیں کرتا تو پھر یہ شکایت نہ کرے کہ مجھے بیعت سے فا ئدہ نہیں ہوا۔جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جا تا ہے تو جو پرہیز وہ بتلاتا ہے اگر اُسے نہیں کرتا تو کب شفا پا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ کرے گا تو یوماً فیوماً ترقی کرے گا۔یہی اصول یہاں بھی ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ309-311 ایڈیشن 2016ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق
عقائد کا اثر اعمال پر

اسلام کے دو حصے ہیں ایک تو یہ کہ خدا کے سا تھ کسی کو شریک نہ کیا جاوے اور اس کے احسانوں کے بدلے میں اس کی پوری اطاعت کی جاوے ورنہ خدا تعالیٰ جیسے محسن ومربی سے جو رو گردانی کرتا ہے وہ شیطان ہے۔

دوسرا حصہ یہ ہے کہ مخلوق کے حقوق شنا خت کرے اور کما حقہ اس کو بجا لاوے۔جن قوموں نے مو ٹے موٹے گناہ جیسے زنا، چوری، غیبت، جھوٹ وغیرہ اختیار کئے آخر وہ ہلاک ہو گئیں۔اور بعض قومیں صرف ایک ایک گناہ کے ارتکاب سے ہلاک ہو تی رہیں۔ مگر چونکہ یہ امت مرحومہ ہے اس لئے خدا تعالیٰ اُسے ہلاک نہیں کرتا۔ورنہ کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جو یہ نہیں کرتے۔ بالکل ہند وؤں کی طرح ہو گئے ہیںہر ایک نے الگ معبود بنا لئے ہیں۔ عیسیٰ کو مثلِ خدا کے حیّ و قیّوم مانا جاتا ہے پرندوں کا اسے خالق مانا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ عقیدے اچھے ہوتے ہیں تو انسان سے اعمال بھی اچھے صادر ہوتے ہیں۔ دیکھو ہند وؤں نے 33کروڑ دیوتا بنائے تو آخر نیو گ وغیرہ جیسے مسائل کو بھی ماننے لگ گئے اور ذرہ ذرہ کو خدا مان لیا۔اس نیوگ اور حرام کاری کی کثرت کا با عث یہی اعتقاد کا نقص ہے۔جو انسان سچا اور بے نقص عقیدہ اختیار کر تا ہے اور خدا کے سا تھ کسی کو شریک نہیں بناتا تو اس سے اعمال خود بخود ہی اچھے صادر ہوتے ہیں اور یہی با عث ہے کہ جب مسلمانوں نے سچے عقائد چھوڑ دئیے تو آخر دجال وغیرہ کو خدا ماننے لگ گئے کیونکہ دجال میں تمام صفات خدائی کے تسلیم کرتے ہیں۔پس جب اس میں تمام صفات خدائی کے ما نتے ہو تو جو اسے خدا کہے اس کا اس میں کیا قصور ہو ا؟ خو دہی تو تم خدائی کا چا رج دجال کو دیتے ہو۔پرور گا ر چاہتا ہے کہ جیسے عقائد درست ہوں ویسے ہی اعمال صالحہ بھی درست ہو ں اور ان میں کسی قسم کا فسا د نہ رہے۔ اس لئے صراط مستقیم پر ہونا ضروری ہے۔خدا نے با ر بار مجھے کہا ہے کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔ اس کی تعلیم ہے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور جو قرآن نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔

اور ایک ضروری بات یہ ہے کہ تقویٰ میں ترقی کر و۔ ترقی انسان خود نہیں کر سکتا تھا جب تک ایک جماعت اور ایک اس کا امام نہ ہو۔ اگر انسان میں یہ قوت ہو تی کہ وہ خود بخود ترقی کر سکتا تو پھر انبیاء کی ضرورت نہ تھی۔تقویٰ کے لئے ایک ایسے انسا ن کے پیدا ہونے کی ضرورت ہے جو صاحب کشش ہو اور بذریعہ دعا کے وہ نفسوں کو پاک کرے۔ دیکھو اس قدر حکماء گزرے ہیں کیا کسی نے صالحین کی جماعت بھی بنائی ہر گز نہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ صاحب کشش نہ تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے کیسے بنا دی۔بات یہ ہے کہ جسے خدا تعالیٰ بھیجتا ہے اس کے اندر ایک تریاقی مادہ رکھا ہوا ہوتا ہے پس جو شخص محبت اور اطاعت میں اس کے سا تھ ترقی کرتا ہے تو اس کے تریاقی ما دہ کی وجہ سے اس کے گناہ کی زہر دو ر ہوتی ہے اور فیض کے تر شحات اس پر بھی گرنے لگتے ہیں اس کی نماز معمولی نما ز نہیں ہو تی یا د رکھو کہ اگر موجود ہ ٹکروں والی نما ز ہزار برس بھی پڑھی جا وے تو ہر گز فائدہ نہ ہو گا۔ نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے۔ نماز کا حق اد ا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے۔ اگر طبیعت میں قبض اور بد مزگی ہو تو اس کے لئے بھی دعا ہی کرنی چاہئے۔ کہ الٰہی تو ہی اُسے دور کر اور لذت اور نور نازل فرما جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوح ؑ کے وقت میں یہ نما ز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی۔ حج بھی انسان کے لئے مشروط ہے روزہ بھی مشروط ہے۔ زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں۔سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کاحکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کا۔اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ برکات بھی نہ ہو ں گی جو اس سے حاصل ہو تی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فا ئدہ حا صل ہو گا۔ اگر بھوک یا پیاس لگی ہو تو ایک لقمہ یا ایک گھونٹ سیری نہیں بخش سکتا۔ پوری خوراک ہو گی تو تسکین ہو گی۔ اسی طرح نا کارہ تقوی ہر گز کام نہ آوے گا۔خدا تعالیٰ انہیں سے محبت کرتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں۔ لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (آل عمران: 93) کے یہ معنے ہیں کہ سب سے عزیز شئے جان ہے۔ اگر موقعہ ہو تو وہ بھی خدا کی راہ میں دے دی جاوے نما ز میں اپنے اُوپر جو موت اختیار کرتا ہے وہ بھی بِرّ کو پہنچتا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ420-422 ایڈیشن 1984ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

کسی کو حقیر مت سمجھو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 ستمبر 2021