پاک استعدادوں کا ظہور و بروز
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی پر حکمت باتیں
مامور زمانہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بیعت لینے کا حکم ہوا تو آپ نے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہراوے اور اس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں۔‘‘
(اشتہار 4 مارچ 1889ء)
حضرت مسیح موعودؑ اور آگے آپ کے خلفاء بھی اس کام میں لگے رہے۔
اس مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اس ضمن میں بعض پر حکمت باتیں بیان کرنی مقصود ہیں:
استعدادوں کی متوازن نشوونما
’’اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادیں عطا کی ہیں عوام کی حقیقی فلاح اس امر کی متقاضی ہے کہ ان کی جملہ استعدادوں کی کامل نشو و نما کا انتظام کیا جائے‘‘
(دوزہ مغرب1400ھ صفحہ358)
’’قوتوں اور استعدادوں کا ضیاع بھی نسل کشی ہے‘‘
(انوار القرآن جلد اول صفحہ308)
بچوں کوصحت مند بنائیں
’’اپنے بچوں کو صحت مند بنائیں ایک یہ کہ انہیں اچھی غذا دیں دوسرے یہ کہ ورزش کے ذریعہ اس غذا کو ہضم بھی کروائیں دنیا میں ہماری جماعت سب سے زیادہ صحت مند ہونی چاہیئے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند انسان تھے‘‘
(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ375)
متوازن غذا (Balanced Diet)
’’خدا تعالیٰ کی شان ہے اس نے بے تحاشا چیزیں بنا دیں اور ہمیں کہا وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ۔ اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ (الرحمٰن: 8 تا 9) کہ اس نے میزان پیدا کیا ہے اور تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول میزان کو اس بیلنس (Balance) کو توڑنا نہیں۔
اب انگریزوں نے بالکل اسی لفظ کا ترجمہ استعمال کرنا شروع کر دیا چنانچہ وہ کہتے ہیں Balanced Diet یعنی متوازن غذا۔
قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کہا تھا کہ خدا نے ہر چیز میں میزان بنایا ہے۔
اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ
تمہیں حکم یہ ہے کہ اس اصول کو نہ توڑنا، اس بیلنس (Balance) کو upset نہ کردینا ورنہ تمہاری صحتیں خراب ہو جائیں گی پس ہمیں یہ تو اختیار ہے کہ ہم متوازن غذا کھائیں وزن کو برقرار رکھیں اور ہمیں ٹھیک صحت مل جائے گی یا ہم اس اصول کو توڑ دیں اور بیمار ہو جائیں۔ اِذَا مَرِضْتُ میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان خود بیمار ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی شفاء کے لئے جھکتا ہے..‘‘
(انوار القرآن جلد دوم صفحہ606، 607)
ذہنی استعدادوں کی نشوونما
’’صفات الہیہ کے جلووں کو سمجھنے اور ان سے حقیقی رنگ میں استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ قرآن پڑھنے کے علاوہ فزکس، کیمسٹری اور دوسرے سائنسی علوم بھی پڑھیں اس لئے میں آپ کو یہ ہدایت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنے ہر بچے اور بچی کو سکول ضرور بھیجیں اور اسے اس کی ذہنی استعداد کے مطابق اعلی سے اعلیٰ تعلیم ضرور دلوائیں‘‘
(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ374)
ذہین بچوں میں غذائیت کی کمی
’’اگر ذہین بچوں میں غذائیت کی کمی ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کرنی چاہیئے تا کہ ان کی استعدادوں اور صلاحیتوں کی پورے طور پر نشوونما ہوسکے ایسے بچوں کو ایسی دوائیں دینی چاہئیں جن سے غذائیت کی کمی پوری ہو سکے ان میں سے ایک سویا لیسی تھین soya lacithin 1200mg بھی ہے ہر بچہ کو اس کے کیپسول کھلانا شروع کر دیں اور دعا بھی کریں پھر دیکھیں کہ خدا تعالی ان کے ذہنوں کو کس طرح تیز کرتا ہے اور حصول علم میں ان کے لئے کتنی آسانی پیدا ہوتی ہے‘‘
(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ 298 ،299)
اخلاقی استعدادوں کی نشوونما
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو آپ کے اسوۂ حسنہ کو جانے بغیر، اسے سمجھے بغیر اور اس کا مطالعہ کئے بغیر اسے کیسے اپنایا جا سکتا ہے جب تک آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو جانتے نہیں، آپ کے نمونہ کو پہچانتے نہیں، آپ کی طبیعت کے رنگ کو دیکھتے نہیں اور اس پاک اور ارفع وجود صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسان پر جو احسان عظیم کیا اور کرتا چلا گیا اور قیامت تک کرتا چلا جائے گا جب تک یہ حقیقت آپ کے سامنے نہ ہو اس وقت تک آپ اپنے اخلاق پر اور اپنی طاقتوں پر خدا تعالی کی صفات کا رنگ نہیں چڑھاسکتے‘‘
(حیات ناصر جلد اول صفحہ636)
’’بشاشت اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ بھائیوں سے ملاقات کرنا اور اس کے ساتھ قول احسن سے بات کرنا یہ ایسا حکم ہے کہ ہر وقت ہی لاگو ہے۔‘‘
(انوار العلوم جلد دوم صفحہ424)
روحانیت میں ترقی کا راز
’’پس اے میرے عزیز بھائیو! جو مقامات قرب تمہیں حاصل ہیں اگر انہیں قائم رکھنا چاہتے ہو اور روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہوتو خلیفہ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اگر یہ دامن چھوٹا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوٹ جائے گا کیونکہ خلیفہ وقت اپنی ذات میں کوئی شے نہیں اسے جو مقام بھی حاصل ہے وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا مقام ہے۔ نہ اس میں اپنی کوئی طاقت، نہ اس میں اپنا کوئی علم۔
پس اس شخص کو نہ دیکھو اس کرسی کو دیکھو جس پر خدا اور اس کے رسول نے اس شخص کو بٹھا دیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا یہ جس خلافت راشدہ کے وقت میں جتنے زیادہ خلفاء اس دوسرے سلسلہ کے ہوں گے یعنی سلسلہ خلافت آئمہ کے جو مضبوتی کے ساتھ اس کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جن کے سینہ میں وہی دل جو خلیفہ وقت کے سینہ میں دھڑک رہا ہے، دھڑک رہا ہو گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ ان کو طاقت بخشتی رہے گی، آپ کے روحانی فیض سے وہ حصہ لیتے رہیں گے اتنا ہی زیادہ اسلام ترقی کرتا چلا جائے گا اور غالب رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضلوں کو انسان حاصل کرتا چلا جائے گا لیکن جو شخص خلافت راشدہ کے دامن کو چھوڑتا اور خلافت راشدہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس شخص پر خدا تعالیٰ اپنی حقارت کی نظر ڈالتا ہے اور وہ اس کے غضب اور قہر کے نیچے آجاتا ہے
اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کرے کہ ہم میں استثنائی طور پر بھی کوئی ایسا بدقسمت پیدا نہ ہو‘‘
(خلافت و مجددیت پبلیشر صدر انجمن احمدیہ قادیان صفحہ48، 49)
اپنے رب سے ڈرتے رہنا چاہیئے
’’وہ بڑا ہی پیار کرنے والا، وہ بڑی ہی محبت کرنے والا رب ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزاریں اور جماعت کے اندر اتحاد اور اتفاق کو ہمیشہ قائم رکھیں اور اس حقیقت کو کبھی نظر انداز نہ کریں کہ سب بزرگیاں اور ساری‘‘ ولایت ’’خلافت راشدہ کے پاؤں کے نیچے ہے جو شخص اس سے باہر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اس کی دعائیں اگر قبول بھی ہوں تو وہ قبولیت اصطفا کی نہیں وہ قبولیت ابتلا اور امتحان کی ہے پس اپنے رب سے ڈرتے رہنا چاہیئے‘‘
(تعمیر بیت اللہ کے 23 عظیم الشان مقاصد صفحہ114)
(ابن ایف آربسمل)