• 28 اپریل, 2024

بڑے بڑے ابتلا آئے اور آسانی سے گزر گئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’قریباً ستائیس برس ملازمت سرکار کی کی اور پندرہ روپے ماہوار سے دو سوروپے ماہوار تک تنخواہ ملی بلکہ زیادہ بھی۔ ہر مشکل اور تکلیف میں جہاں کوئی دوست کام نہ آ سکا وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کام آتا رہا اور میرے سب کام اُس کے فضل و کرم سے ہوئے۔ بڑے بڑے ابتلا آئے اور آسانی سے گزر گئے۔ بیگانوں نے تو کرنا ہی تھا خود اپنوں نے میرے ساتھ سالہا سال برادرانِ یوسف کا سا سلوک روا رکھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہر معاند و حاسد کو اُس کے حسد و عناد میں ناکام رکھا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیشہ میری دعائیں سنیں۔ اللہ ہی کے حق میں میرا خیر مدّنظر تھا۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’اہلِ لاہور نے توہینِ رسول کا ایک بہتان میرے ذمہ باندھا اور احرارِسرحد نے میرے قتل کے واسطے ایک بے گناہ شخص کو میرے سرِ بازار قتل پر آمادہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے میری بریت کے واسطے پستول میں گولی ٹیڑھی کر دی اور پستول چل نہ سکا۔ قاتل کو ارباب محمدنجیب خان صاحب احمدی نے گرفتار کیا اور حوالہ پولیس ہوا اور گورنمنٹ سرحدنے اُس کو نو سال کے واسطے جیل میں بند کر دیا۔ دشمن ناکام ہوئے۔ خدا ہمارے ساتھ تھا اور اب بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام پورا ہوا کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ، آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ199-200 روایات حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)

پھر حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ ٹیلر ماسٹر فرماتے ہیں کہ ’’1902ء مارچ میں ہم جہلم سے انجمن حمایتِ اسلام کا جلسہ دیکھنے کے لئے لاہور آئے۔ ہم تین آدمی تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر ایک مولوی کو دیکھا۔ وہ قرآنِ مجید ہاتھ میں لے کر کھڑا تھا اور کہتا تھا کہ میں قرآن اُٹھا کر کہتا ہوں کہ مرزا نعوذ باللّٰہ کوہڑا ہو گیا ہے۔‘‘ (یعنی اُن کو کوڑھ ہو گیا ہے)۔ ’’وہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا اشتہاربھی بانٹ رہا تھا جس کا یہی مضمون تھا۔ میں نے اس سے اشتہار بھی لیا اور ساتھیوں سے کہا کہ چلو قادیان چل کر مرزا صاحب کی حالت دیکھ آویں تا کہ چشم دید واقعہ ہو جائے۔ ہم تینوں قادیان آئے تو مغرب کی نماز میں حضرت صاحب کو دیکھا تو وہ بالکل تندرست تھے۔ میرے ساتھی اور میں حیران ہوئے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ہمارے مولوی نے جھوٹ بولا ہے یا یہ آدمی جو ہمیں بتایا گیا ہے، مرزا صاحب نہیں کوئی اور ہے؟ رات گزر گئی۔ صبح ہم نے مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ) سے جا کر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :یہی مرزا ہے جس کو تم نے دیکھا ہے اور اشتہار بھی حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اپنی جیب سے نکال کر ہم کو دکھلایا کہ یہ ہمارے پاس بھی پہنچا ہے۔ اب تم جس کو چاہو سچا کہہ سکتے ہو، خواہ اپنے مولوی کو جس نے اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے‘‘ قرآن اُٹھا کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ مرزا کوڑھی ہو گیا ’’خواہ مرزا کو جو تمہارے سامنے تندرست نظر آ رہا ہے۔ ظہر کی نماز کے وقت جب حضرت صاحب نماز کے لئے تشریف لائے تو مَیں نے حضور کو سارا حال بیان کیا تو حضور نے ہنس کر فرمایا کہ میری مخالفت میں مولوی لوگ جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔ حدیثوں میں ایسا لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت علماء بدترین خلائق ہوں گے۔ مجھ کو حضور کی باتیں سن کر راحت ہوئی اور مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں تو بیعت کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھی بھی اتنا جھوٹ دیکھ کرہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ ہمیں اسی وقت بیعت میں داخل فرما کر ممنون فرماویں۔ حضور نے فرمایا کہ اتنی جلد بیعت کرنا ٹھیک نہیں۔ ابھی تم نے ہماری باتیں نہیں سنیں۔ کچھ دن صحبت میں رہیں۔ باتیں سنیں۔ پھر اگر پورا یقین ہو تو بیعت کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ لوگ بیعت کر جائیں اور مولوی لوگوں کے اعتراض سن کر پھر جائیں تو گنہگار ہوں گے۔ (اگر بیعت کر لی اور پھر اگر پھِر گئے تو تم بہت زیادہ گنہگار ہوگے) اس لئے پہلے کم از کم ایک ہفتہ ضرور ہماری صحبت میں رہیں۔ ہم خاموش ہو گئے، وہاں رہے۔ حضور نماز سے فارغ ہو کر اندر چلے گئے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد کہتے ہیں کہ مَیں چونکہ درزی تھا۔ کسی کے پاس بارہ روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ اُس نے مجھے میرے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھ کو جواب دے دیا، نوکری سے فارغ کر دیا۔ اپنے اور بیگانے سب دشمن ہو گئے۔ ایک شخص جو ہمارا ساتھی تھا، وہ حلوائی کا کام کرتا تھا، سب مسلمانوں نے اتفاق کر لیا کہ اس کی دکان کا سودا کھانا حرام ہے۔ (آج بھی پاکستان میں بعض احمدی دکانداروں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے اور تو اور لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلاء نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ شیزان کیونکہ احمدیوں کا ہے اس کو پینا حرام ہے)۔ بہر حال دوکان کا سودا اُس نے کہا حرام ہے۔ اس سے مٹھائی نہیں کھانی۔ آٹھ دن تک برابر وہ بائیکاٹ کی تکلیف برداشت کرتا رہا، مگر آٹھویں روز اُس سے برداشت نہ ہوا اور اس نے بیعت چھوڑ دی اور مرتد ہو گیا۔ کہتے ہیں اب ہم دو رہ گئے۔ ہم دونوں درزی تھے۔ ہم سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ان دنوں مجھے کئی کئی دن فاقے کرنے پڑے۔ کئی دن کے بعد مَیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور حالات بیان کئے۔ حضور نے نہایت تسلی بخش الفاظ میں فرمایا اگر آپ نے استقلال دکھلایا تو اللہ تعالیٰ بہت جلد یہ دن آپ سے دور کر دے گا اور اچھے دن لے آئے گا۔ تو کہتے ہیں کہ پھر ایک سال تک بڑی مشکلات میں گزرتے رہے۔ پورا سال انہی مشکلات میں گزر گیا۔ روزی کی تکلیف کی وجہ سے کوئی کام نہیں تھا۔ اس تکلیف کی وجہ سے مَیں چند ماہ کے بعد پھر قادیان آیا اور حضور کی خدمت میں رو پڑا اور اپنی تکلیف بیان کی اور عرض کیا کہ حضور! اجازت دیں تو افریقہ چلا جاؤں۔ شاید اللہ تعالیٰ رحم فرما دے۔ اس پر حضورؑ نے اول تو فرمایا کہ اس راستے میں مومن کو ابتلا آتے ہیں اور بعض دفعہ وہ سخت بھی ہوتے ہیں۔ میں ڈرتا ہوں تم وہاں جا کر کسی سخت ابتلاء میں نہ پڑ جاؤ۔ پھر میرے اصرار پر فرمایا۔ کل بتلاؤں گا دعا کرنے کے بعد۔ چنانچہ دوسرے روز شاید ظہر کی نماز کے وقت فرمایا۔ توکّل الٰہی پر چلے جاؤ (افریقہ چلے جاؤ)۔ مگر خیال رکھنا کہ سلسلہ کی خبر جہاں تک ہو سکے لوگوں کو پہنچاتے رہنا۔ (جہاں بھی جاؤ تبلیغ کا کام نہیں چھوڑنا۔ ) میں چونکہ اَن پڑھ ہوں مگر سلسلہ کے عشق میں مجھ کو اس قدر تبلیغ کا شوق تھا کہ ہر وقت، ہر آن تبلیغ کا خیال رہتا تھا۔ (وہاں بھی پھر تبلیغ کرتے رہے۔)

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ410تا418 روایات حضرت میاں نظام الدین صاحب ہیڈماسٹر)

(خطبہ جمعہ 13؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ حصول برکات کا ذریعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2021