• 3 جولائی, 2025

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے حسنِ سلوک

(اطفال کارنر۔)

تقریر
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے حسنِ سلوک

دنیا میں مجھ سے سب زیادہ پیار کرنے والا وجود میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ میرے والدین اور مجھ سے بڑے عزیز و اقارب، رشتہ دار اور میرے چاہنے والے جو مجھ سے پیار سے پیش آتے ہیں وہ سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔ آج مجھے مختصر سے وقت میں اسی کی جھلک دکھلانی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’اپنی اولاد کی عزت کرو‘‘ اور پھر فرمایا ’’باپ کا اپنی اولاد کو بہترین تحفہ اس کی تعلیم و تربیت ہے‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے کانوں میں اذان اور تکبیر کہا کرو تا کہ نیکی کی بات ہی کان میں پڑے۔آپ ﷺ اپنے زیر ِ تربیت بچوں کے لیے دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر‘‘۔آپ ﷺ کے پاس جب بھی نیا پھل آتا تو آپ ﷺ محفل میں موجود سب سے چھوٹے بچے کو ضرور دیتے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’بچوں کو چوما کرو کہ اس کے بدلہ میں تم کو جنت میں بدلہ ملے گا۔ جو بچوں کے ساتھ شفقت اور رحمت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

ایک دفعہ آپﷺ اپنے بچوں کو چوم رہے تھے تو ایک بدو نے دیکھ کر کہا کہ اے رسول! میرے 10 بچے ہیں میں نے کبھی نہیں انہیں چوما آپ ﷺ نے فرمایا! اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ پھر ایک موقع پر فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ نماز پڑھاتے اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آپﷺ سن لیتے تو نماز مختصر کر دیتے اور فرمایا کرتے کہ اس کا رونا اس کی ماں پر گراں گزرتا ہے۔ کیونکہ آپﷺ کے اندر بچوں کے لیے ماں سے بھی بڑھ کر محبت والا دل تھا۔ اس لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر بچوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں 10 سال تک آپﷺ کی خدمت میں رہا۔ آپ ﷺ نے مجھے ان دس سالوں میں ایک دفعہ بھی نہیں جھڑکا۔ ایک دفعہ عید کے روز ایک مسلمان بچہ ایک جگہ افسردہ کھڑا تھا۔ آپ ﷺ نے دیکھ لیا کہ یہ دوسرے بچوں کو حسرت سے دیکھ کر رو رہا ہے کہ ان کے ماں باپ ہیں اس لئے ان بچوں نے نئے کپڑے پہنے ہیں۔ آپ ﷺ اس بچے کو گھر لے گئے۔ نئے کپڑے دئیے۔ نیا جوتا دیا۔ اور فرمایا آج سے محمد تمہارا باپ، عائشہ تمہاری ماں اور فاطمہ تمہاری بہن ہے۔

پس ننھے پھول جیسے بچوں کو جو کل کے باپ بننے والے تھے۔ پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ گود میں اٹھاتے، ان کے منہ چومتے، سینے سے لگاتے، ان کے لیے دعائیں کرتے، ان کو دین کی باتیں سکھاتے۔ اس حسن سلوک کی وجہ سے بچوں کو بھی آپﷺ سے بے پناہ محبت تھی۔ بچے جب آپ ﷺ کو دیکھتے تو خوشی اور شوق سے بھاگ کر آتے اور آپ ﷺ باری باری ان کو گود میں اٹھا کر پیار کرتے۔ آپ ﷺ کی عادت تھی کہ ہمیشہ بچوں کو خود پہلے سلام کرتے۔ ان سے پاکیزہ مزاق بھی کرتے اور نیک اور اچھی باتیں بھی بتاتے۔

ایک دفعہ آپ ﷺ کے نواسے نے کسی بچے کو اونٹ پر سوار دیکھ کر کہا کہ میں نے بھی اونٹ پر بیٹھنا ہے۔ آپ نے اسے کندھے پر سوار کرکے اونٹ کی طرح چلنا شروع کر دیا۔ کسی نے دیکھ کر کہا کتنی پیاری سواری ہے تو آپ ﷺ نے فوراً فرمایا «سوار بھی تو کتنا پیارا ہے»

آپ ﷺ اپنے اور امت کے بچوں سے تو پیار کرتے ہی تھے۔ امت سے باہر بچوں سے بھی پیار سے پیش آتے۔ ایک دفعہ ایک جنگ میں بچے مارے گئے۔ آپ ﷺ نے افسوس کیا۔ صحابہ نے عرض کی۔ حضور ! مشرکین کے بچے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ آخر معصوم تھے۔ آپ سے بہتر تھے۔

الغرض میرے پیارے آقا اس شعر کے حقیقی مصداق تھے۔

محمد ہی نام اور محمد ہی کام
علیک الصلوٰۃ علیک السلام

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ حصول برکات کا ذریعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2021