• 27 اپریل, 2024

ایک پاک وجود کا ٹکڑا غیروں کو دینا اچھا نہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حضرت میاں غلام محمد صاحبؓ آرائیں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب نے جبکہ میں بھی ایک مجلس میں اُن کے ساتھ بیٹھا تھا اور یہ بات آج سے (جب انہوں نے یہ لکھوایا ہے، تحریر دی ہے) قریباً ساٹھ سال قبل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ عنوانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ جب بھی وہ ظاہر ہو تو فوراً اُن کو قبول کر لینا۔ کیونکہ انکار کا نتیجہ دنیا میں تباہی و بربادی ہوتی ہے۔ اور آخرت میں بھی اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ تمام حاضرین کو بار بار یہ نصیحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر مجھے وہ وقت ملا تو میں سب سے پہلے اُن پر ایمان لاؤں گا۔ مگر خدا کی مصلحت کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ اُس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا اور میرے بھانجے رحمت علی نے بیعت کی تو میں نے اُس کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ وہ تو سیّدوں کے گھرانوں میں سے ہو گا۔ جو نشانیاں عام زبان زدِ خلائق تھیں، بتائیں اور کہا کہ تُو تو مرزے کی بیعت کر آیا ہے۔ اس پر اُس نے مجھے کہا کہ اگر اس وقت آپ نے بیعت نہ کی تو بعد میں پچھتاؤ گے۔ ایک دفعہ جا کر اُنہیں دیکھو تو۔ اُن کے بار بار کہنے پر میں قادیان اس خیال سے گیا کہ ہو سکتا ہے یہ سچے ہوں اور میں رہ جاؤں۔ بلکہ میں خود حضرت مسیح موعود سے دریافت کروں گا۔ اگر تسلی ہو گئی تو بیعت کر لوں گا۔ ازاں بعد میں حضرت صاحب کے پاس گیا تو محمد حسن اوجلہ والے نے میراحضرت صاحب سے تعارف کروایا۔ اس وقت میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور مسجد مبارک میں مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ اُس وقت مسجد اس قدر چھوٹی تھی کہ اُس کی ایک صف میں صرف چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بیٹھ گیااور آپ کے پاؤں دبانے لگا اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دیا کہ میں نے امام مہدی کے متعلق علماء سے سنا ہوا ہے کہ وہ قرعہ شہر یمن میں (یہ آگے مکّہ لکھا ہوا ہے۔ شاید روایت میں غلط لکھا ہوا ہے) مکّہ کے منارے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور امام مہدی جو سیّدوں کے گھر پیدا ہوں گے نیچے اُن کو ملیں گے۔ اور آپ تو مغلوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔ یہ کس طرح آپ امام مہدی ہو سکتے ہیں۔ آپ سمجھا دیں تو بیعت کر لوں گا۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری پشت پر ہاتھ رکھا اور مفتی صاحب و مولوی محمد حسن صاحب کو کہا کہ ان کو سمجھائیں۔ مولوی صاحب مجھے لے کر چھاپے خانے (پریس میں) چلے گئے۔ (وہاں جا کے باتیں ہوئیں اور مجھے ساری باتیں سمجھ آ گئیں) تو مَیں نے سمجھ آنے پر مولوی صاحب کو کہا کہ فوراً میری بیعت کروا دیں۔ وہ ظہر کا وقت تھا تو حضرت نے کہاکہ اور سمجھ لو۔ پھر حضور نے میری اور ایک اور شخص کی جو سکھ تھے اور دھرم کوٹ کے رہنے والے تھے، بیعت لی اور اُسی وقت مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کیا کہ میری لڑکی جوان ہے اور اس کی منگنی اپنی ہمشیرہ کے لڑکے سے کی ہوئی ہے۔ (یہاں ایک اور بھی مسئلہ کا حل انہوں نے بتایا ہے جس کے بارہ میں عموماً سوال اٹھتے ہیں کہ ہمشیرہ کے لڑکے سے اُس کی منگنی پہلے ہی کی ہوئی ہے اور وہ غیر احمدی ہے تو اس کے متعلق کیا کروں؟) تو حضور نے فرمایا کہ ایک پاک وجود کا ٹکڑا غیروں کو دینا اچھا نہیں۔ کیونکہ وہ میرے مخالف ہیں اور جو نسل بھی اس سے پیدا ہو گی وہ میری مخالف ہو گی۔ اس پر میں نے کہا کہ حضور منگنی کو ہوئے تو قریباً اٹھارہ سال ہو گئے تو یہ کس طرح ہو گا؟ اس پر حضور نے فرمایا کہ میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ اب تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔ اُسی وقت حضور نے حکم دیا کہ اب تمہاری نماز بھی غیروں کے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد میں اپنے گھر آیا اور دوسرے دن اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر اپنے سسرال راچک گیا اور نماز علیحدہ پڑھنی شروع کی تو لوگوں نے کہا کہ یہ کیا مرزائی ہو گیاہے؟ تو اس پر میں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں احمدی ہو گیا ہوں۔ اس پر میرے سسر نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ کچھ عالم لاہور سے یہاں آئے ہیں۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ تیری لڑکی کا نکاح فسخ ہو گیا ہے۔ اس پر سسر نے اُس عالم کو کہا کہ میری لڑکی کا نکاح کیوں فسخ ہوا، تیری لڑکی کا ہو جائے۔ یہ لڑکا تو نیک ہے۔ کئی فرقے مسلمانوں میں ہیں اور سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر لے گئے کہ کہیں لوگ زیادتی نہ کریں اور میرے سالوں نے یعنی بیوی کے بھائیوں نے میری سخت مخالفت کی۔ مَیں نے یہ سمجھ کر کہ کہیں لڑائی نہ ہو جائے، اپنی بیوی کو بتایا کہ مجھے نہ ڈھونڈیں مَیں اپنے گاؤں جا رہا ہوں۔ جب میرے سسر صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے ایک آدمی بھیج کر مجھے واپس بلا لیا۔ میری بیوی نے کہا کہ تو کیوں چلا گیا؟ تو مَیں نے کہا کہ معلوم نہیں کہ تیرا کیا ارادہ ہے اور فتنہ کے ڈر سے چلا گیا تھا۔ اُس وقت میری بیوی نے اپنے بھائیوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر احمدیت کا جھگڑا ہے تو مَیں پہلے احمدی اور وہ یعنی خاوند جو ہے بعد میں احمدی ہے۔ جو تم میری امداد کرتے ہو مجھے اس پر کچھ پرواہ نہیں۔ ہمیں رزق خدا دیتا ہے اس کے ساتھ جاؤں گی۔ میرا خدا رازق ہے۔ وہ اُٹھ کر میرے ساتھ چل دی۔ اس کے باپ نے پکڑ لیا اور کہا کہ جب تک مَیں زندہ ہوں، اُس وقت تک تو مَیں دوں گا یعنی اپنے گھر رکھوں گا، جب بھائیوں سے مانگنا پڑے گا اُس وقت تُو جانے یا وہ۔ پھر انہوں نے غلّے کے دو گدھے لدوائے اور کپڑے وغیرہ دئیے اور ہمیں یہاں پہنچایا۔ اُس وقت میرے دو لڑکے ابراہیم، جان محمد اور ایک لڑکی برکت بی بی تھی۔ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جس لڑکی کے متعلق دریافت کرنے پر کہا تھا کہ غیروں سے نکاح کرنا درست نہیں، مَیں نے آتے ہی ایک رات میں سب بندوبست کر کے اُس کا نکاح اپنے گاؤں میں میاں سلطان علی صاحب سیکرٹری سے کر دیا۔ اُس کی وجہ سے میری بیوی کو میری ہمشیرہ کی طرف سے تکلیف پہنچنے کا خیال تھا مگر حضور کے حکم کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس کام کی رضا مندی کا اظہار کر دیا اور اُس کو بھیج دیا۔ یعنی احمدی گھر نکاح کر دیا۔ صبح ہوتے ہی لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ غلام محمد بے ایمان ہو گیا ہے اور میرے چند رشتہ داروں نے جو غیر احمدی تھے مجھے سخت ایذائیں دیں، بڑی تکلیفیں دیں اور بہت زیادہ مارا پیٹا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد1 صفحہ82تا84 روایت میاں غلام محمد صاحبؓ آرائیں)

(خطبہ جمعہ 13؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تاریخ جلسہ ہائے سالانہ جماعت احمدیہ عالمگیر (حصہ دوم)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اکتوبر 2021