• 30 اپریل, 2024

صبر اگر کسی میں پیدا ہو جائے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبرکرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ 13فروری 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

حضور انور حضرت مسیح موعود ؑکی تعلیمات کی روشنی میں مزید فرماتے ہیں:
آپؑ نے فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ جب تکالیف اور مشکلات رسولوں پر یا اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر آتی ہیں اور اس حوالے سے انبیاء کی جماعتوں پر بھی آتی ہیں جو ان کی صحیح تعلیم پر چلنے والے ہوں تو بہرحال جب اللہ تعالیٰ کے پیارے ان تکالیف سے گزرتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں کسی مشکل، مصیبت میں ڈالنے کے لئے یا سزا دینے کے لئے تکالیف میں سے نہیں گزارتا بلکہ ان کو انعامات کی خوشخبری دیتا ہے۔ اور جب اس قسم کی تکالیف خدا تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی جماعت کے مخالفین پر آتی ہیں اور بدوں پر آتی ہیں تو وہ ان کی تباہی بن کر آتی ہیں اور انہیں تباہ کر دیتی ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مشکلات پر صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے بے حد و حساب ثواب کے وارث بنتے ہیں۔ پس ایک مومن کو صبر کے معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صبر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کسی نقصان پر افسوس نہ کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نقصان، کسی تکلیف کو اپنے اوپر اتنا واردنہ کر لے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھے اور مایوس ہو کر بیٹھ جائے اور اپنی عملی طاقتوں کو استعمال میں نہ لاوے۔ پس ایک حد تک کسی نقصان پہ افسوس بھی ٹھیک ہے، کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئے عزم کے ساتھ اگلی منزلوں پر قدم مارنے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کا عزم اور عمل ضروری ہے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ اکتوبر 2015ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات