• 27 اپریل, 2024

ہم تو صرف راستہ دکھانے کے لئے آئے تھے، سو ہم نے راستہ دکھا دیا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت میاں ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ بندۂ خدا! اگر مرزا صاحب واقعی پیر ہیں اور ہم نے ان کو نہ مانا تو پھر ہمارا کیا حشر ہو گا؟ ایک روز مَیں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی منشی عبدالغفور صاحب سے ذکر کیا کہ مَیں تو صبح یا شام قادیان جانے والا ہوں۔ (اب یہ ان کا بیعت سے پہلے کا قصہ ہے۔) انہوں نے سن کر کہا کہ کسی سے ذکر نہ کرنا۔ مَیں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ لہٰذا اُن کی اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور ہم دونوں علی الصبح دوسرے روز ہی قادیان کو چل دئیے۔ غالباً گیہوں گاہے جا رہے تھے (یعنی گندم کی کٹائی ہو کر اُس میں سے اُس کی harvesting ہو رہی تھی)۔ جب ہم دونوں اسٹیشن پر پہنچے تو یکّہ پر سوار ہونے لگے تو آگے یکّہ پر ایک سواری اور بیٹھی تھی۔ وہ میاں نور احمد صاحب کابلی تھے۔ خیر ہم یکّہ پر سوار ہو کر ظہر کے وقت قادیان پہنچے۔ وضو کر کے ہم دونوں مسجد مبارک میں پہنچے، اُس وقت مسجد مبارک بہت چھوٹی سی تھی۔ وہاں ہم سے پہلے پانچ چھ آدمی اور بھی بیٹھے تھے۔ مَیں نے اُن لوگوں کو خوب تاڑ تاڑ کر دیکھا (یعنی بڑے غور سے دیکھا) تو مجھے کوئی اُن میں سے ایسی شکل جس کو مَیں دیکھنا چاہتا تھا نظر نہ آئی (یعنی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنا چاہتے تھے، لیکن بیٹھے ہوؤں میں سے کوئی ایسی شکل نظر نہ آئی) کہتے ہیں کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ تشریف لائے جو تنگ سیڑھیوں کے دروازے میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ مَیں اُن کو دیکھ کر جلدی سے کھڑا ہو گیا۔ دل میں خیال آیا کہ اگر کوئی ہستی ہے تو یہی ہو سکتی ہے (یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ)۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ بیٹھیں۔ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں (بڑی فراست تھی۔ سمجھ گئے کہ اس کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ بیٹھیں ابھی حضرت مسیح موعود تشریف لاتے ہیں) مَیں آپ کے فرمانے سے بیٹھ گیا اور سمجھا کہ اب جو تشریف لائیں گے وہ ان سے(یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل) سے بڑھ کر ہی ہوں گے۔ پانچ چھ منٹ گزرنے کے بعد خادم حضرت مسیح موعود نے خبر دی کہ حضرت اقدس تشریف لا رہے ہیں۔ کوئی دو تین منٹ بعد مسجد مبارک کی کھڑکی کھلی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر مسجد مبارک میں تشریف لائے کہ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سورج نصف النہار ہوتا ہے (یعنی سورج پورا چڑھا ہوا دوپہر کے وقت) جیسی صورت دیکھنے کی دل میں تمنا تھی بخدا اُس سے کہیں بڑھ کر آپ کو پایا۔ ہم سب لوگ جو وہاں پر موجود تھے حضرت اقدس کے تشریف لانے پر تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آپ کے نورانی چہرہ ٔمبارک کو دیکھ کر دل میں اطمینان ہو گیا اور دوسری اچھی سے اچھی شکلیں آپ کے سامنے ماند ہو گئیں۔

(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر11صفحہ نمبر360تا362 روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولیؓ)

حضرت شیخ عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں 1903ء میں حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری کے ذریعے احمدی ہوا تھا۔ حکیم صاحب گو لاہور کے باشندے تھے مگر چونکہ لائلپور میں حکمت کا کام کرتے تھے اور وہیں اُن کی وفات ہوئی اس لئے لائلپوری مشہور ہیں۔ وہ اپنے کام کے لئے کراچی تشریف لائے تھے۔ اُن کی تبلیغ سے مَیں احمدی ہو گیاتھا۔ 1904ء میں جب مَیں لاہور گیا تو اُن کے مکان پر ہی ٹھہرا تھا۔ جب مَیں جمعہ پڑھنے گمٹی کی مسجد میں گیا تو وہاں اعلان کیا گیا کہ حضور تشریف لانے والے ہیں۔ حضور کا ایک لیکچر بھی یہاں ہو گا۔ چنانچہ یہ اعلان سن کر مَیں بھی ٹھہر گیا۔ جب حضور تشریف لائے تو میاں معراج الدین صاحب کا مکان تیار ہو رہا تھا اور بعض کمرے مکمل بھی ہو چکے تھے۔ حضرت صاحب نے وہیں قیام کرنا پسند فرمایا تھا اور اُس میں جمعہ کی نماز بھی پڑھی تھی۔ خطبہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا تھا اور نماز بھی اُنہوں نے ہی پڑھائی تھی۔ میں دیوانہ وار پھر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ حضرت اقدس سے کسی نہ کسی طریق سے ملاقات ہو جائے۔ اتنے میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے آگے گیا۔ مَیں پہلی صف میں حضرت اقدس کے ساتھ بائیں طرف کھڑا ہو گیا،۔ مَیں جب اَلتَّحِیَّات پر بیٹھا تو اپنے گناہوں کا خیال کر کے اور حضرت اقدس کے ساتھ اپنا کندھا لگنے کا خیال کر کے بے اختیار رو پڑا۔ ہچکی بھی بندھ گئی۔ حضرت اقدس نے میری یہ حالت دیکھ کر میری پیٹھ پر اپنا دستِ شفقت پھیرا اور تسلی دی۔ (نماز کے بعد ہوا ہو گا یا پہلے۔ التحیات پر بیٹھے تھے تو سلام پھیرنے کے بعد ہی شفقت کا ہاتھ پھیرا ہو گا۔ نماز کے دوران نہیں۔ بہر حال پھر لکھتے ہیں) جب حضرت اقدس قادیان روانہ ہوئے تو عاجز بھی ساتھ ہو گیا۔ قادیان میں پہنچے ہی تھے کہ تاریخ پر گورداسپور جانا پڑا۔ مَیں بھی ساتھ ہو لیا۔ عصر کی نماز کے بعد ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسیح موعود کو دیکھ لیا ہے اور بیعت کر لی ہے۔ ہماری بخشش کے لئے صرف یہی کافی ہے۔ (یعنی لوگوں کا خیال ہے کہ بیعت کر لی ہے تو بس سارے کام ہو گئے۔) فرمایا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا) کہ اصل چیز اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ہے۔ اس سے انسان کا بیڑا پار ہو سکتا ہے۔ ہم تو صرف راستہ دکھانے کے لئے آئے تھے، سو ہم نے راستہ دکھا دیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر1-2 روایت حضرت شیخ عبدالکریم صاحبؓ) (پس اس بات پر اللہ تعالیٰ کی جو عبادت اور مدد ہے، اس کی جستجو بھی ہونی چاہئے اور اس کے لئے کوشش بھی ہونی چاہئے اور یہی اصل چیز ہے جو اعلیٰ معیاروں کی طرف لے کر جاتی ہے اور اُس مقصد کو پورا کرتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا مقصد ہے۔)

حضرت صاحب دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ غالباً 1904ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق احمدیہ جماعت لاہور کو اطلاع ملی کہ حضور فلاں گاڑی پرلاہور پہنچ رہے ہیں۔ ہم لوگ حضور کی پیشوائی کے لئے ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ اُن دنوں دو گھوڑا فٹن گاڑی کا بہت رواج تھا۔ ہم نے فٹن تیار کر دی۔ جب حضور سوار ہوئے تو ہم نوجوانوں نے جیسا کہ عام رواج تھا (یہ اخلاص و وفا کا نمونہ ہے) یہ دیکھ کے گھوڑے کھلوائے اور فٹن کو خود کھینچنا چاہا۔ (ان لوگوں نے بگی سے گھوڑے علیحدہ کئے اور کوشش کی کہ خود کھینچیں۔) حضور نے ہمارے اس فعل کو دیکھ کر فرمایا کہ ہم انسانوں کو ترقی دے کر اعلیٰ مدارج کے انسان بنانے آئے ہیں۔ نہ کہ برعکس اس کے انسانوں کو گرا کر حیوان بناتے ہیں کہ وہ گاڑی کھینچنے کا کام دیں۔ (مفہوم یہ تھا، الفاظ شاید کم و بیش ہوں۔) خیر ہم خدام نے فوراً اپنے فعل کو ترک کر دیا اور گھوڑے گاڑی لے کر چل دئیے۔ گھوڑے آگے لگائے اور وہ اُن کو لے کر چل دئیے۔ مَیں فوراً فٹن کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور حضور کو تمام راستہ چھتری تانے آیا گویا اس طرح مجھے چھتر برداری کی خدمت کرنے کا موقع ملا جس پر مجھے فخر ہے کہ حضور کا چھتر بردار ہوں۔

(رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر10روایت حضرت صاحب دین صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 4؍ مئی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ

اگلا پڑھیں

ِاکرامِ ضیف اور خدمتِ خلق کی تمنا (تحریر مکرم میاں عبدالرحیم دیانت درویش قادیان)