اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال
از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
بِسْمِ اللّٰہِ
حضورؒ فرماتے ہیں:
یہ بچے کا حق ہے ماں باپ کے اوپر کہ اس کو ایک تو یہ سکھایا جائے کہ جو سامنے ہے وہی کھائے اور ہر طرف کھانے میں ہاتھ نہ مارتا پھرے اور دوسرے ہمیشہ بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ کر کھانا شروع کرے۔ یہ بِسْمِ اللّٰہِ کی عادت اگر بچپن میں نہ ڈالی جائے تو پھر بعد میں پڑنی بہت مشکل ہے۔ اس لئے بچپن ہی سے بِسْمِ اللّٰہِ کی عادت ڈالنا یہ بہت ہی ضروری ہے۔ اور ’اپنے دائیں ہاتھ سے کھانا‘۔ کہتے ہیں میں نے اس نصیحت کو پلے باندھ لیا اور ساری عمر پھر کبھی پلیٹ میں ادھر اُدھر ہاتھ نہیں دوڑائے اور جو میرے سامنے ہوتا تھا وہی کھاتا تھا اور دائیں ہاتھ سے کھاتا تھا اور بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ کر کھاتا تھا۔ بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ سے کھانا حلال ہو جائے گا بلکہ محض اللہ کو یاد کرنا ہے کہ اللہ کے حکم سے ہمیں یہ سب کچھ عطا ہوا ہے، اس کی نعمتیں ہیں۔ بعض لوگوں کو بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کی ایسی عادت ہوتی ہے کہ وہ شراب پر بھی بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ لیتے ہیں۔ تو شراب ان کی بِسْمِ اللّٰہِ سے مسلمان نہیں ہو سکتی نہ اس بِسْمِ اللّٰہِ کا ان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ گستاخی ہے یہ بِسْمِ اللّٰہِ۔ کئی دفعہ سیاسی لوگوں سے مجھے واسطہ پڑ اہے بچپن میں، جوانی میں اور میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک صاحب کو، اب اس کا نام بتانا مناسب نہیں وہ اپنے لیڈر کو کہہ رہا تھا، وہ اس کو شراب پیش کر رہا تھا۔ وہ اس کو کہہ رہا تھا سائیں بِسْمِ اللّٰہِ کرو، بِسْمِ اللّٰہِ کرو۔ کہ پہلے تم بِسْمِ اللّٰہِ کرو، شروع کرو پھر میں بھی شروع کرتا ہوں۔ اب جو مرضی بزرگ بنتے پھریں میں نے جو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ میں صحیح بیان کر رہا ہوں۔
(خطبات طاہر جلد19 خطبہ جمعہ 11فروری 2000ء)
٭ حضور ؒ فرماتے ہیں:
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب تم میں کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لے یعنی بِسْمِ اللّٰہ پڑھے اور اگر شروع میں بھول جائے تو یاد آنے پر بِسْمِ اللّٰہ ِ فِیْٓ اَوَّ لِہٖ وَ اٰخِرِہٖ پڑھے۔
(جامع ترمذی، ابواب الاطعمہ باب ما جاء فی التسمیۃ علی الطعام حدیث نمبر 858)
تو بِسْمِ اللّٰہِ کی عادت بھی بچپن ہی سے ڈالی جائے تو پڑتی ہے۔ ورنہ بڑے ہوکر بسا اوقات لوگ بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنا بھول جاتے ہیں اور اگر کھاتے وقت یاد آجائے تو پھر یہ ضرور پڑھنا بِسْمِ اللّٰہ ِ فِیْٓ اَوَّ لِہٖ وَ اٰخِرِہٖ۔ اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ میں کھانا کھاتا ہوں۔ اس سے پہلے بھی جب کھانا شروع کیا تھا تیرے ہی نام سے کھانا کھایا تھا اور کھانا ختم ہونے پر بھی تیرا ہی با برکت نام لیتا ہوں۔
صحیح مسلم کتاب الاشربہ میں وَھَب بن کَیْسَان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن ابو سلمہؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تھا۔ میرا ہاتھ پلیٹ میں ادھر اُدھر جاتا تھا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچے اللہ کا نام لو (بِسْمِ اللّٰہِ پڑھو) اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اور اپنے سامنے سے کھاؤ (ہر طرف ہاتھ نہ دوڑاتے پھرو)۔
(خطبات طاہر جلد19 خطبہ جمعہ 19مئی 2000ء صفحہ316)
٭حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ ایک ملاقات کے پروگرام میں ایک سائل نے سوال کیا۔
سائل: حضور! جماعت احمدیہ میں ہر سورۃ سے پہلے جو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے۔
حضور: جماعت احمدیہ میں یہ ہے صرف۔
سائل: غیر احمدیوں میں نہیں ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو وہ پہلی آیت نہیں تصور کرتے۔
حضور: یہ کہیں نا پھر۔ یہ کیوں کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے۔
سائل: ہر سورۃ کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے۔
حضور: ہر قرآن کریم میں خواہ وہ احمدیوں کا ہو خواہ غیر احمدیوں کا ہو۔ ہر ایک میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ صرف احمدیوں کے قرآن کریم میں ہوتی ہے۔ باقی جگہ نہیں ہوتی۔ صرف شمار کی بات ہے۔ یہ کہیں کہ جماعت احمدیہ بِسْمِ اللّٰہِ کو پہلی آیت کیوں شمار کرتی ہے۔
سائل: جی حضور! میرا یہ سوال نہیں۔ سوال یہ کہ جب امام تلاوت کرتا ہے تو وہ پہلی آیت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو جہری طور پر نہیں پڑھتا۔
حضور: یہ جو مسئلہ ہے آئمہ فقہ کے اختلاف سے پیدا ہوا ہے۔ حضرت امام شافعی اونچی آواز میں پڑھتے تھے۔ اس لئے تمام عرب جو اکثر شافعی ہیں ان کو آپ دیکھیں گے۔ ان سب سے پوچھیں یہ سب بِسْمِ اللّٰہِ پڑھتے ہیں وہاں۔ اونچی آواز میں۔ صرف امام ابو حنیفہ اور بعض اور نے اونچی آواز میں نہیں پڑھا اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس کو شمار نہیں کرتے حصہ بلکہ اس لئے نہیں پڑھتے وہ کہتے ہیں کہ اس کا جہر کرنا ضروری نہیں کیونکہ یہ ایسا لازمی حصہ ہے۔ کہ for granted ہے۔ سمجھ گئے ہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اگر بِسْمِ اللّٰہِ پڑھی جائے تو اچھی بات ہے۔ لیکن چونکہ جماعت کا ایک مسلک چلا آرہا ہے اس میں تبدیلی مناسب نہیں سمجھتا میں۔ کیونکہ دل میں پڑھ لیتے ہو تو ہو جاتا ہے۔ صرف جہر کا مسئلہ ہے چھوٹا سا ۔۔۔۔ عموماً رائج مسلک یہ تھا کہ اگر قرآن کریم کی تلاوت بیچ میں شروع کی جائے بِسْمِ اللّٰہِ نہ پڑھو۔ سمجھے ہیں۔ اس لئے وہاں بِسْمِ اللّٰہِ نہیں پڑھی جاتی تھی۔ لیکن یہ کہ کسی سورت کی شروع ہی سے تلاوت ہو رہی ہو اور بِسْمِ اللّٰہِ نہ پڑھی گئی ہو یہ الگ مسئلہ ہے ۔۔۔۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی الجھنیں ہیں جن کے نتیجے میں فروعی مسائل پیدا ہوئے ہیں اگر تمام آئمہ کو قطعی طور پر یہ روایت پہنچی ہوتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سورتوں کاغاز کرتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھا کرتے تھے یا سورۃ فاتحہ پڑھتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ اونچی آواز میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ مسئلہ ہی نہ کھڑا ہوتا۔
(ملاقات پروگرام مؤرخہ 16-06-1995 صفحہ123-122)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اَلْحَمْدُ دو طرح سے پڑھا جاتا ہے ایک فاعلی حالت میں اور مفعولی حالت میں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا ایک مطلب یہ ہے کہ کامل حمد اللہ ہی کے لئے ہے اور کسی پر سجتی نہیں۔ جتنا مرضی تم زور لگا ڈالو حمد کا مضمون خدا کے سوا کسی اور ذات پر صادق ہی نہیں آ سکتا۔ ایک یہ معنیٰ بھی ہے اور دوسرا یہ کہ خدا کے سوا کوئی حمد کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ حمد وہ جو خدا کرے ورنہ بندے کی حمد کی کیا قیمت ہے اور کیا حیثیت اور کیا حقیقت ہے؟ نہ وہ حقیقت میں عالم الغیب ہے اور نہ عالم الشہادہ ہے۔ دھوکے کی دنیا میں رہتا ہے، خود کو دھوکے دے رہا ہے۔ لوگوں کے دھوکوں اور فریبوں کا شکار رہتا ہے۔ اس لئے کسی کی حمد کسی انسان کے لئے کچھ بھی معنی نہیں رکھتی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہاں حمد ہو تو خدا کی حمد ہو جس کی خدا حمد کرے۔
(خطباتِ طاہر جلد12 خطبہ جمعہ 12مارچ1993ء صفحہ 196)
٭حضور ؒ فرماتے ہیں :
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تمہارے جسم کے ہر حصہ پر صدقہ ہوتا ہے۔ ہر تسبیح صدقہ ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا صدقہ ہے، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا صدقہ ہے، تکبیر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔‘‘
(صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ السافرین وقصر ھا، باب استجاب صلاۃ الضحیٰ نمبر671)
اب اس میں غریبوں کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ جو ضرورت پڑنے پر صدقہ نہیں دے سکتے، توفیق ہی نہیں ہوتی۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نیکی کی جو غریب سے غریب انسان کر سکتا ہے بلکہ وہ زیادہ کرتا ہے اس کو صدقہ قرار دے دیا۔ ہر تسبیح صدقہ ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا صدقہ ہے، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا صدقہ ہے، تکبیر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ تمہارے جسم کے ہر حصے پر صدقہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک خاص اہمیت والی نصیحت ہے کہ انسان کے جسم کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی اگر بیکار ہو جائے اور کام چھوڑ دے تو سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ گردے کو دیکھ لو گردہ جب کام چھوڑ دے تو سارا جسم بیکار اور ناکارہ ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ چھوٹی سی بیماری کے ساتھ بھی انسان کو اتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ سارے جسم کو ایک عذاب لگ جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں بتائی ہیں وہ غریب سے غریب آدمی بلکہ عام طور پر غرباء زیادہ کرتے ہیں اور صدقے کا ایک نیا مفہوم سمجھا دیا ہمیں کہ یہ اچھی باتیں کرنا بھی صدقہ اور بری باتوں سے روکنا بھی صدقہ ہے۔
(خطبات طاہر جلد18 خطبہ جمعہ 15اکتوبر 1999ء صفحہ594)
اَللّٰہُ اَکْبَرُ
حضور ؒ فرماتے ہیں :
۔۔۔۔۔۔ اس دفعہ تو میں نے بہت غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ جو پرانا رواج تھا نعرہ تکبیر ایک طرف سے بلند ہوتا تھا اور ایک آدمی کہتا تھا نعرۂ تکبیر اور دوسرے کہتے تھے اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ میں نے غور کیا ہے نہ یہ رواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ثابت ہے۔ میں نے بڑے غور سے رجسٹر روایات کا اوّل سے آخر تک مطالعہ کیا ہے ایک بھی شہادت نہیں ملی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک طرف سے ایک اٹھ کے کہا کرتا تھا نعرۂ تکبیر اور دوسری طرف سے آواز آتی تھی اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آواز تو آجاتی تھی مگر دبی دبی سی دلوں سے اٹھتی ہوئی آواز۔ جب ایک انسان مجبور ہو تو کہہ دیتا ہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے بغیر تو ہماری زندگی ہی کوئی نہیں۔ یہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آوازیں جہاں تک ممکن ہے دبی آواز سے بلند کیا کریں۔ اگر بے اختیار ہو کر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آواز بلند بھی ہو جاتی ہے تو اس سے کوئی شکوہ نہیں۔
(خطبات طاہر جلد18 خطبہ جمعہ 15اکتوبر 1999ء صفحہ504)
٭ ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگ بلند آواز سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اے لوگو! اپنے نفسوں پر میانہ روی کو وارد کرو کیونکہ تم نہ تو کسی بہرے کو بلا رہے ہو اور نہ ہی کسی ایسے کوجو موجود نہ ہو۔ تم تو سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ کو پکار رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد18 خطبہ جمعہ 15اکتوبر 1999ء صفحہ761)
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
مجلس ِ عرفان میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے سوال کیا گیا کہ
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اگر شیطان ورغلانے کی کوشش کرے تو لَاحَوْل پڑھنا چاہئے۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔ قرآن کریم میں ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘ ہے۔ ان میں سے بہتر نسخہ کون سا ہے؟
حضور ؒ: تَعَوُّذ جو ہے وہ ہے قرآن کریم میں۔ ’’لَاحَوْل‘‘ حدیثوں میں تو بہت ہے۔ قرآن کریم میں ’’حَوْل‘‘ نہیں ہے۔ ’’قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ یہ تو قرآن کریم میں ہے۔ تو ’’حَوْل‘‘ لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ملایا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ صرف قوت کی بات نہیں۔ خدا کے سوا کوئی حول سے تمہیں نجات نہیں دے سکتا۔ قوت مثبت چیز ہے اور حول منفی چیز ہے۔ ’’قُوَّۃَ بِاللّٰہِ‘‘ میرے ذہن میں یہی آرہا تھا کہ میں نے پڑھا ہوا کہ قرآن کریم میں کہیں ذکر ہے۔ ’’لَاحَوْلَ‘‘ نہیں ہے صرف ’’قُوَّۃَ‘‘ ہے۔ تو اولیت تو بہر حال تَعَوُّذ کو ہی ہو گی۔ جس کا قرآن کریم میں واضح طور پر ذکر ہے۔ دونوں پڑھ لیا کریں آپ کا حرج کیا ہے؟
(مجلسِ عرفان مؤرخہ 28 جنوری 2000ء صفحہ272)
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
ایک مجلس عرفان میں سوال کیا گیا :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کہتے ہیں تو ہمیں صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کیوں کہنا ہوتا ہے؟
حضورؒ: اس لئے کہ یہ دعا ہے آنحضرت ﷺ کے حق میں اور اس دعا کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار رحمتیں اور سلامتیاں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوں۔ اگر آپ یہ دعا نہ کریں تو وہ پھر بھی نازل ہونی ہی ہونی ہیں لیکن آپ کے دل میں جو یہ جذبہ ہے کہ میں دعا کروں وہ اس وجہ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا آپ پر بہت احسان ہے۔ ساری امت پر قیامت تک کے لئے ہر انسان پر احسان ہے۔ جس پر کوئی احسان کیا جائے وہ اور کچھ نہیں تو دعا تو دیتا ہے نا۔ پس درود پڑھنا اس بات کی علامت ہے ایک انسان کو اس بات کا شعور ہے احساس ہے کہ مجھ پر ایک احسان کرنے والے نے بہت احسان کئے ہیں۔ اس لئے میں کچھ اور نہیں تو دعا ہی دے دوں۔ تو دعا سے رسول اللہ ﷺ کو ویسے فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیونکہ آپؐ کو پہلے ہی بے شمار برکتیں ملتی ہیں مگر جو دعا بھیجنے والا ہے اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کے نزدیک ایک شریف اور شکر گزار انسان سمجھا جاتا ہے۔
(مجلس عرفان مؤرخہ 24مئی 1997ء)
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
بعض لوگ بڑے دردناک خط لکھتے ہیں کہ ہم پر تو ابتلاؤں کا ایک دور آگیا ہے کل فلاں فوت ہوا آج فلاں فوت ہو گیا، اب فلاں کی بیماری کی خبر ملی ہے اور یہ سلسلہ جو ہے وہ ایک سال سے یا دو سال سے ہم پر ابتلاؤں کا جاری ہے۔ کبھی حادثات کا کوئی شکار ہو گیا تو مجھ سے پوچھتے ہیں ہم کیا کریں۔ ان کو میں یہی کہتا ہوں کہ اِنَّا لِلّٰہِ جو ہے وہ صرف گنوانے کے مضمون میں نہ پڑھا کریں کہ ہاتھ سے چیز جاتی رہی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا اِنَّہٗ لِلّٰہِ جو مرنے والا ہے وہ اللہ کا تھا اس لئے چلا گیا یہ سکھایا اِنَّا لِلّٰہِ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
تو ان کے لوٹنے کا غم کرنے کی بجائے اپنے لوٹنے کی فکر کیا کرو۔ یہ سوچا کرو کہ تم ایسی حالت میں تو نہیں لوٹو گے کہ خدا کے بنے بغیر چلے جاؤ واپس۔ جو مرنے والے تھے وہ تو اپنا حساب لے کر حاضر ہو گئے اگر ان کی خاطر تم واویلا کر کے خدا کو بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھو تو اِنَّا لِلّٰہِ کیسے پڑھو گے اور اگر واویلا کرو گے تو وہ تو آ ہی نہیں سکتے، ناممکن ہے، خدا جا سکتا ہے۔ تو یہ دو ٹوک بات ہے اس کے سوا تمہارا چارہ ہی کوئی نہیں ہے۔ جو مرضی کر لو، سر پیٹتے رہو ساری عمر، چھاتیاں پیٹو مگر جانے والا واپس نہیں آئے گا تم ضرور جاؤ گے۔ ایسی حالت میں نہ جاؤ کہ جانے والا تمہیں وہاں بھی نہ ملے کیونکہ تم خدا کو گنوا بیٹھے ہو تو اس کے سوا اور کوئی حل ہی نہیں ہے اس کا۔ اگر اس مضمون پر انسان غور کرے تو تکلیف ہوتی ہے مگر تکلیف پر اس کا رد عمل ایک مثبت رد عمل ہو گا وہ ضائع نہیں ہو سکتا بلکہ ہر ایسی تکلیف جس کو خدا کی خاطر وہ برداشت کرتا ہے اس کے لئے بھی جزائے خیر پر منتج ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے اس کے کئی گناہ جھاڑ دیتا ہے، کئی گناہوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے کئی ایک سے اعراض فرما دیتا ہے اور پھر اصلاح فرما دیتا ہے اس کی۔ یہ بہت سے فوائد ہیں کوکہ کسی کھوئی ہوئی چیز کے وقت جو رد عمل انسان میں پیدا ہوتا ہے اس سے وابستہ ہوتے ہیں اور اگر صحیح رد عمل نہ ہو تو جو کچھ ہے وہ بھی گیا۔ جو کچھ تھا وہ تو جا چکا، جو کچھ ہے وہ بھی جاتا رہے گا اور رونے پیٹنے کے سوا زندگی کسی اور کام نہیں آئے گی اور مرنے کے بعد اور بھی زیادہ رونا پیٹنا ہے۔ بڑا ہی بے وقوف ہے جو دنیا کی بے ثباتی کے مضمون کو نہیں سمجھتا۔ دو چار اوپر تلے چلے گئے تو کیا دو چار دس ہزار سال میں نکل گئے تو کیا۔ یہ قطعی بات ہے کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ہم اللہ ہی کے ہیں اسی کی طرف ہم نے جانا ہے آج نہیں گئے تو کل گئے اس لئے دوسروں کی فکر کی بجائے جب کوئی مرے اپنی فکر کیا کرو۔ یہ ہے بے ثباتی کا مضمون جو اِنَّا لِلّٰہِ نے ہمیں سکھلا دیا اور لوگ ان کی فکر کرتے ہیں اپنی نہیں کرتے۔ خطرہ ہے کہ جب تم کسی کو جاتے دیکھو تو تم بھی ضائع نہ ہو جاؤ۔ یاد رکھنا تم اللہ کے ہو اللہ ہی کی طرف سےآئے تھے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے سب سے بڑی فکر تو اپنی کرنی چاہئے۔
(خطباتِ طاہر جلد15 خطبہ جمعہ 13ستمبر 1996ء صفحہ722۔723)
٭حضورؒ فرماتے ہیں :
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرہ: 157) میں ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اب جس کی طرف لوٹ کر جانا ہے اگر آپ کی صفات اس کے ہم مزاج نہ ہوں تو اس کی طرف لوٹ کر جانا ہی جہنم کا دوسرا نام ہے اور اگر آپ کی صفات اس کے ہم مزاج ہو جائیں اور آپ ان کو سمجھیں اور ان سے لذت یاب ہوں اور اتنی پیاری لگیں کہ اپنی ذات میں ان کو جاری کرنے کی کوشش کریں تو اس وقت پھر اس کی لقاء جنت بن جاتی ہے۔
(خطبات طاہر جلد14 خطبہ جمعہ 9جون 1995ء صفحہ410)
٭حضور ؒ فرماتے ہیں:
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کے پیغام کو سمجھنا چاہئے۔
ہمیں یہ نصیحت ہے کہ جب کسی جان کا یا مال کا نقصان ہو تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھیں۔ اس کا پیغام بالعموم لوگ سمجھتے نہیں اور بالعموم رجحان یہ ہوتا ہے کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اس چیز پر پڑھا جا رہا ہے جو چیز ہاتھ سے ضائع ہو گئی یا نکل گئی حالانکہ یہ اِنَّا لِلّٰہِ اپنے اوپر پڑھا جاتا ہے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اِنَّہٗ لِلّٰہِ وَ اِنَّہٗٓ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جو چیز تمہارے ہاتھ سے نکلی ہے وہ اللہ کی تھی وہ اللہ کی طرف لوٹنی ہی تھی پھر کیا غم ہے فرماتا ہے یہ پڑھا کرو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ہم اللہ کے ہیں اور لازماً اس کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ پس ہر موت انسان کو زندگی کا پیغام دے رہی ہوتی ہے کوئی نقصان کا پیغام نہیں دے رہی ہوتی ہے اگر آپ اِنّا لِلّٰہِ کے پیغام کو سمجھ جائیں تو دراصل یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ مرنے والے پر نہیں بلکہ زندہ رہنے والے پر پڑھا جا رہا ہے۔ وہ خود اپنے اوپر پڑھ رہا ہے اور اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تو چلا گیا جس نے جانا تھا اس نے خدا کی تقدیر کے سامنے سر خم کر دیا لیکن میں نے بھی جانا ہے اس کی تیاری کے وقت ختم ہو چکے ہیں اور یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن میرے لئے ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ پس وہ انجام جس کو آپ اپنی آنکھوں کے سامنے غیب کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ آپ کو یہ متوجہ کرتا ہے یہ تمہارا بھی انجام ہو گا ایک دن تم بھی اس طرح جان دے رہے ہو گے یا دے چکے ہو گے اور لوگ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھ رہے ہوں گے اور ان بچاروں کو غفلت کی حالت میں پتا نہیں ہو گا کہ یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اس پر تو نہیں بلکہ ہمیں اپنے اوپر پڑھنا چاہئے پس اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کا پیغام یہ ہے کہ اے خدا! ہم سمجھ گئے ہم نے اس حقیقت کو پا لیا کہ ہم تیرے ہی ہیں تجھ سے ہی وجود میں آئے تھے لِلّٰہِ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ تیرے ہیں بلکہ یہ ہے کہ تجھ سے ہی پیدا ہوئے، تیری ہی ذات حقیقی اور دائمی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں جو کچھ وجود میں آتا ہے وہ تجھ سے وجود میں آتا ہے اور جو خالق ہے وہی مالک بھی ہوا کرتا ہے۔ پس اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ میں یہ ساری باتیں شامل ہیں کہ اے خدا! ہم اس لئے تیرے ہیں کہ تیرے ہی سے وجود میں آئے ہیں تو نے عدم سے ہمیں وجود کی خلعت بخشی اور ہمارا تجھ سے جدائی کا سفر ایک دن ختم ہو جائے گا اور پھر لوٹ کر تیری ہی طرف واپس آئیں گے۔ تجھ سے الگ رہ کر جو ہماری زندگی کا عرصہ گزرا اس عرصہ میں ہم نے جو کچھ پایا کیا اس کا جواب ہم نے تجھے دینا ہے اور کس کیفیت میں جدائی کا یہ عرصہ گزرا اس کیفیت کی طرف اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ آپ کو متوجہ کر رہا ہے اور آپ کو خبردار کر رہا ہے۔ کیا خدا کے ہوتے ہوئے اور خدا کا رہتے ہوئے آپ نے خدا سے علیحدگی کا یہ وقت گزارا یا غیروں کا بن کر یہ وقت گزارتے رہے اگر اس عرصہ میں غیر کے ہو گئے تو پھر کس منہ سے خدا کی طرف واپس جائیں گے۔ یہ پیغام ہے جس کو ہر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنے والے کو سمجھنا چاہئے اورا س کے نتیجہ میں اپنے اندر کچھ پاک تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ سب سے پہلے تو یہ شعور بیدار ہونا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں جس کے مرضی ہو چکے ہوں حقیقت میں ہم خدا کے ہیں وہی مالک ہے۔ نہ ہم اپنی بیوی کے، نہ اپنی بہن کے، نہ ماں کے، نہ باپ کے نہ بچوں کے جس کے ہیں اسی کی طرف جائیں گے اور جب وہ بلائے گا تو ہمیں اختیار نہیں ہے کہ نہ کر سکیں تو ہم جب دوسروں کے بنتے ہیں تو کیا دوسروں کے بنتے ہوئے خدا کو چھوڑ تو نہیں دیتے؟ کیا خدا سے تعلق قطع کر کے غیروں کے تو نہیں بن رہے؟ اگر ایسی حالت میں غیروں کے بن رہے ہیں تو جب آپ خدا کی طرف جائیں گے تو غیر بن جائیں گے غیر ہو کر جائیں گے اور اس صورت میں آپ خدا کے سامنے جواب دہ بھی ہوں گے اور محاورے کے مطابق فی الحقیقت اسے منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔ پس ہر موت سے زندگی کا ایک پیغام ملتا ہے اور ہر موت سے ہمیں زندگی کا پیغام حاصل کرنا چاہئے۔ اگر ایک مرنے والا اپنے پیار کرنے والوں کو زندہ کر جائے تو کتنی مبارک موت ہے۔ اگر ان کے اندر زندگی کا ایک شعور بیدار کر جائے اور ان کو یاد دلایا جائے کہ تم نے وہیں آنا ہے جہاں میں جا رہا ہوں لیکن تیاری کر کے آنا۔ اگر مجھ سے غفلت کی حالت میں کچھ دن بسر ہو گئے تو میرے لئے بخشش کی دعا مانگنا لیکن خود اس بات کو خوب باہوش طرح ذہن نشین کر کے رکھنا کہ میں نے بھی آخر خدا کی طرف لوٹنا ہے اس کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کا جو پیغام ہے یہ بہت ہی زندگی بخش ہے اور موت سے زندگی حاصل کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بکثرت اور بار بار نصیحت فرمائی ہے۔ آپ کے ملفوظات میں بھی اور کتب میں بھی عام تحریرات میں بھی یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ موت سے سبق سیکھو اور ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھو کہ تم نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ نظم کہ
؎اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے
(درثمین صفحہ157)
یہی مفہوم پیش کررہی ہے اور یہی توجہ دلا رہی ہے کہ اپنے مرنے کی تیاری رکھو۔
بعض دفعہ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لمبی زندگی پڑی ہوئی ہے بڑا وقت ہے۔ کچھ دیر دنیا کی عیش کر لیں بعد میں دیکھی جائے گی لیکن موت کی تو خبر ہی کوئی نہیں، اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ خدا جب چاہے جس کو چاہے بلا لے اس لیے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کا پیغام سمجھنے کے بعد اس دعا کی طرف بھی انسان کی توجہ ہو تی ہے کہ وَتَوَ فَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ
(آل عمران: 194)
جو شخص موت سے باخبر رہےاُسے زندگی میں ہی ایک نئی زندگی مل جاتی ہے اور اِنَّا لِلّٰہِ کے پیغام کے سمجھنے کے نتیجہ میں ایک انسان عالم بقا میں داخل ہو جاتا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ کا پیغام آپ کوموت سے ڈر اتا نہیں بلکہ موت کے خوف کو مار دیتا ہے۔ اگر آپ اس پیغام کو پوری طرح سمجھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ خدا کے ہیں خدا کے ساتھ رہ رہے ہیں اور خدا کے ساتھ رہیں گے اور اسی طرف واپس جائیں گے۔ خدا تعالیٰ کے قرب کا جو دائمی احساس ہے اور اس کا ہو رہنے کا احساس ہے۔ یہ پیغام جو آپ کو ملتا ہے کہ تم اس کے ہو تو اس کے بن کر دکھاؤیہ ایک ایسا زندگی بخش پیغام ہے جو انسان کو عالم بقا میں لے جاتا ہے۔ موت کی دہلیز اس کی پہلی اور دوسری زندگی میں کوئی فرق نہیں کرتی بلکہ ایک قدم اٹھانے والی بات ہے۔ یہاں سے اُٹھا اور دوسری طرف چلا گیا لیکن یہ لوگ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے ہیں۔ پس اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کے پیغام میں بقا کا پیغام ہے۔
میں نے اپنی بچیوں کو ان کی والدہ کی وفات پر جو باتیں سمجھائیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ میں نے بہت غور کیا ہے۔ مجھے موت کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے، خدا کے حضور پیشی کا ڈر ہے لیکن موت کا ڈر کوئی نہیں۔ میرے لیے تو بالکل معمولی حیثیت ہے جس طرح آج آئے کل آئے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر فکر ہوتی ہے تو صرف ان لوگوں کے غم کی جو پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کے سوا مجھے موت کے تصور میں کوئی بھی اجنبیت دکھائی نہیں دیتی، کوئی بھی تکلیف دہ بات نہیں ہے جس کے نتیجے میں پریشان ہوں اور یہ جو پیغام مجھے ملا ہے یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کے نتیجہ میں ملا ہے۔ میں نے جب اس پر غور کیا تو مجھے سمجھ آئی کہ ہم جس کے ہیں کل جب اس کی طرف لوٹیں گے تو اس وقت اس کے نہیں ہوں گے بلکہ اس لیے لوٹیں گے کہ اس کے ہیں۔ ان دو چیزوں میں فرق ہے۔ اس کی طرف لوٹ کر اُس کے نہیں ہوں گے بلکہ ہیں اس لئے لوٹیں گے اور اگر اس کے ہیں اور اس کے باوجود اس کے نہ رہے ہوں تو پھر خوف کا مقام ہے۔ پھر بہت ہی دردناک اور تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ جہاں تک لوٹنے کا تعلق ہے اس انجام کو تو کوئی ٹال ہی نہیں سکتا جو چاہے کر لے۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی جائے گا، چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی جائے گا، بوڑھا، بچہ، ہر ایک نے آخر وہاں ضرور جانا ہے۔ بڑے بڑے اطباء جن امراض کے ماہر ہوتے ہیں بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی تقدیر ان کو دکھاتی ہے کہ اصل غلبہ میرا ہی ہے اور وہ انہیں مرضوں سے مرتے ہیں جن مرضوں کی شفا میں وہ شہرت پاچکے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بڑے بڑے ہارٹ اسپیشلسٹ تھے جو دل کی بیماری سے گئے۔ ان کا علم ان کے کام نہیں آسکا۔ پس شفا کا علم بھی اور دعا بھی یہ دونوں چیزیں موت کے سامنے عاجز آجاتی ہیں اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ نے جس قوت کے ساتھ اس مضمون کو ہمارے سامنے رکھا ہے اس کا اس سے تعلق ہے تب ہی موت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا جاتا ہے۔ خدا کا ہونا ایک غالب حقیقت ہے اور ایک دائمی حقیقت ہے۔ اس کی ملکیت ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے۔ باقی سب چیزیں عارضی ہیں اور موت کا ملکیت سے تعلق ہے کیونکہ جس کی اصل ملکیت ہے وہ بالآخر نمایاں ہو کر دکھائی دے گی اور بیچ کے سب دھوکے اڑ جائیں گے جس میں انسان اپنے آپ کو خواہ عارضی طور پرخواہ مستقل طور پر مالک سمجھتا رہا۔ سب ملکیتیں فنا ہو جائیں گی۔ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ قرآن کریم نے مٰلِکِ یَوْ مِ الدِّ یْنِ کی یہی تعریف فرمائی ہےکہ
وَ مَاۤ اَدۡرٰکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ۔ ثُمَّ مَاۤ اَدۡرٰکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ۔ یَوۡمَ لَا تَمۡلِکُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَیۡئًا ؕ وَ الۡاَمۡرُ یَوۡمَئِذٍ لِّلّٰہِ۔
(الا نفطار: 18 تا 20)
تمہیں کیا پتہ کہ یَوْمَ الدِّ یْنِ کیا چیز ہے۔ جب ہم مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِِ کہتے ہیں تو خدا فرماتا ہے کہ کبھی سوچا بھی ہے کہ یَوْمِ الدِّیْنِِ ہوتا کیا ہے۔ کیسے تمہیں سمجھائیں کہ یَوْمِ الدِّیْنِ کیا ہے؟ یَوۡمَ لَا تَمۡلِکُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَیۡئًا۔ کوئی ذات نہ اپنے لئے، نہ کسی اور کے لئے کسی چیز کی مالک ہوگی، کوئی جان نہ کسی جان کی مالک ہو گی، نہ کسی اور جان کی امین ہوگی نہ اپنے مالک ہوگی۔ نہ اپنے لئے کوئی امانت اپنے پاس رکھتی ہو گی۔ سب کچھ خدا کی طرف لوٹ جائے گا۔ صرف ایک مالک رہے گا اور وہ خدا کی ذات ہے اس کے سوا کوئی مالک نہیں رہے گا۔ جب ملکیتیں ساری فنا ہو جانے والی ہیں تو اسی کا نام موت ہے یعنی غیر اللہ کی ملکیت کی ذات میں موت شامل ہے کیونکہ وہ ملکیت دائمی ہو ہی نہیں سکتی اس لیے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں مل سکتی۔
خدا کی طرف لوٹنے کا مطلب اس کی ملکیت کا ادراک کروانا ہے یہ بتانا ہے کہ حقیقی مالک وہی ہے تم اس کی طرف لوٹو گے اور اگر آپ وہ ملکیت چوری کر چکے ہیں۔ مالک نہ ہوتے ہوئے اس کا غلط استعمال کر بیٹھے ہوں اور لوگوں کے مالک بن چکے ہوں اور ان پر ناجائز قبضے کئے ہوں۔ ان کی عزتیں ان کی جانیں ان کے اموال ان کی خوشیاں آپ کے ہاتھ میں محفوظ نہ ہوں اور آپ نے ان پر ناجائز تصرف کر لیے ہوں تو پھر جب مالک حقیقی کے سامنے پیش ہوں گے تو یقینا جواب دہ ہوں گے۔ پس اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کے اندر بڑے گہرے بڑے تفصیلی زندگی کے پیغام ہیں اور ہر موت مومن کو یہ زندگی بخش جام پلا کر جاتی ہے۔ جب وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھتا ہے تو یہ اس کاآبِ بقا ہےجسےوہ پیتا ہے لیکن عجیب طرح لوگ پیتے ہیں کہ یہ آبِ بقا ان کو ہضم نہیں ہوتا ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا پی رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس مرنے والے کے لئے زہر کاپیالہ تھا جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ تو گیا اور ختم ہو گیا۔ پس اس سے آگے کچھ نہیں، میں باقی ہوں، بالکل الٹ بات ہے۔ پیغام تو یہ تھا کہ تم باقی نہیں رہوگے اور عارضی طور پر کسی غلط فہمی میں بھی مبتلا نہ ہو جانا۔ یہ جانے والا اس بات کو یقینی بنا کر جا رہا ہے کہ تم بھی نہیں رہو گے آگے اور لازماً تم نے اپنے خدا کی طرف جانا ہے۔ پس اتنی قطعی حقیقت کو بھلا دینا اور اپنی زندگی کو غفلت کی حالت میں بسر کرنا اور ظلم کی حالت میں بسر کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
(خطبات طاہر جلد11 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1992ء صفحہ 262تا267)
٭حضور ؒ فرماتے ہیں :
صبر و صلوٰۃ اور شہادت پر تسلیم و رضا کا رد عمل دکھانے والوں کی راہ پر ڈال ایسے لوگوں کی راہ پر ڈال جو ابتلاؤں اور نقصانات پر صبر سے کام لیتے ہیں اور تیرے حضور ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہ سب کچھ ہو گیا لیکن ہم بھی تو خدا ہی کے ہیں۔ ہم بھی چلے جائیں تو کچھ ہاتھ سے دینے والے نہیں ہوں گے۔ اِنَّا لِلّٰہِ ہم خدا کے تھے اور خدا کے ہیں اور ہم نے بھی تو آخر اسی کے پاس جانا ہے جہاں ہمارا سب کچھ جا رہا ہے۔
(خطبات طاہر جلد10 خطبہ جمعہ 5اپریل 1991ء صفحہ298)
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
حضورؒ فرماتے ہیں کہ
ہر ایک سے اچھی بات کہیں اور سلام کو رواج دیں۔سلام کو رواج دینا مسلمان کو ہمیشہ اس کی حیثیت کی یاد دہانی کراتا ہے۔ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلام کا رواج بہت ہے لیکن سلام کا رواج تو دنیا کی ہر قوم میں ملتا ہے۔ مختلف قسم کے سلام ہیں اور مختلف قسم کے آداب ہیں لیکن اسلام نے ہمیں سلام کا جو پیغام ہمیں سکھایا ہے اس کے ساتھ امن کی ضمانت شامل ہو جاتی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمہیں صرف خدا کی طرف سے سلامتی پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری طرف سے تم امن میں ہو اور اس حیثیت سے میں خدا سے بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ بھی تمہیں امن عطا کرے اور اس کی رحمت بھی تم پر ہو۔پس مومن سے دوسرا مومن ہی نہیں بلکہ ہر مذہب والا امن میں رہتا ہے اور مومن کا سلام ہر ایک کو امن کی ضمانت دیتا ہے۔ اس ضمانت کے بہت سے تقاضے ہیں۔ آپ کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ نہ آپ کی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچے، نہ آپ کے عمل سے کسی کو تکلیف پہنچے، نہ آپ کی نگاہ سے کسی کو تکلیف پہنچے، نہ آپ کے لمس سے کسی کو تکلیف پہنچے بلکہ اس کے برعکس سلام کا اگلا مضمون یہ ہے کہ اس کے دکھوں کو آپ امن میں تبدیل کرنے والے ہوں۔ یہ دونوں پہلو ہیں جو ہر احمدی کے ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئیں۔
سلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ مجھ سے تمہیں ضرر نہیں پہنچے گا یعنی سلام کہنے والا یہ یقین دلاتا ہے کہ میری طرف سے تم امن میں ہو۔میری طرف سے تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔دوسرا سلام کا پہلو یہ ہے کہ تمہاری تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کروں گا،تمہاری بے قراری کو قرار میں بدلوں گا،جو کچھ مجھ سے ممکن ہے میں تمہیں روحانی اور قلبی اور ذہنی سکون پہنچانے کی کوشش کروں گا۔بس یہ دوسرا پہلو ایسا ہے کہ جس میں آپ کو اپنے چاروں طرف دیکھتے رہنا چاہیے، ہوشیار رہنا چاہیے کسی بچے کو تکلیف میں دیکھیں تو اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کریں،کسی راہ ڈھونڈتے ہوئے کو پریشان دیکھیں تو آگے بڑھ کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر اپنی خدمات پیش کریں اور پوچھیں کہ اسے کیا تکلیف ہے اسے کس چیز کی ضرورت ہے۔غرض یہ کہ محض منفی پہلو اختیار نہ کریں بلکہ مثبت پہلو بھی آگے بڑھ کر اختیار کریں۔بعض دفعہ بعض غیروں کو جو ہمارے جلسوں میں یا کسی اور موقع پر تشریف لاتے ہیں یہ شکایت ہوتی ہے کہ جس طرح ہمارا اعزاز ہونا چاہیے تھا ویسا اعزاز ہمیں نہیں دیا گیا بعض دفعہ یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم کسی شخص کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور اس نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ تم کیوں آئے ہواور کس چیز کی ضرورت ہے،لوگ گپوں میں مصروف تھے ہم پاس سے گزرے ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوئی کہ کون آیا ہے اور کون گیا؟اور ایسی شکایات بعض دفعہ مختلف ممالک سے بعض غیر مسلم یا غیر احمدی مسلمان لکھ کر بھی مجھے بھیجتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں کس نظر سے جماعت کو دیکھا جا رہا ہے اور کیسی کیسی اس سے توقعات کی جا رہی ہیں۔یہ ایک پہلو سے جماعت کو ایک عظیم خراج تحسین بھی ہے یعنی جن برائیوں کی اطلاع دی جاتی ہے ان برائیوں میں بھی ایک خراج تحسین پوشیدہ ہے۔
(خطبات طاہر جلد11 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1992ء صفحہ518تا519)
توکل
حضورؒ فرماتے ہیں:
توکل، اللہ پر کرنا، اس کی رحمانیت پر توکل کرنا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے ذرائع جو خدا تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں ان سے آپ منہ پھیرلیں اس لیے وہ ذرائع اختیار کرنے ہیں اور اس کے باوجود رحمان خدا کو سمجھنا ہے یا رب خدا کو سمجھنا ہے۔ جب تک آپ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکیں گے آپ کے تعلقات اپنے رب سے یا اپنے رحمان خدا سے درست ہو ہی نہیں سکتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تعلقات آپ کی نظر میں ادنیٰ ہیں جو دنیا کے ہیں یا اللہ سے جو رحم کی توقع ہے وہ ادنیٰ ہے اور یہ باریک فیصلہ ہر انسان اپنی ذات کے اندر کر سکتا ہے، کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر کہیں دنیا کے اسباب انسان اس لئے اختیار کرتا ہے کہ میرے اللہ کا حکم ہے اور مسلسل یقین رکھتا ہے کہ ان اسباب کو پھل لگیں گے ہی نہیں جب تک خدا نہیں چاہے گا تو یہ اسباب پھر شرک نہیں ہیں، یہ عبادت بن جاتے ہیں اور اِیَّا کَ نَعْبُدُ میں یہ داخل ہو جاتے ہیں پھر۔
۔۔۔ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ کرنا تھا کرلیا لیکن آخری انحصار اے میرے اللہ! اے میرے مولا! تجھ پر ہے، بقیہ سب چیزیں کالعدم ہوگئیں، ان کی ذات میں کچھ بھی نہیں ہیں، ان میں ناقص سوچیں بھی ہیں، ناقص خیالات بھی ہیں، بے طاقتی کے اظہار ہیں، بے بسیوں کی کیفیتیں ہیں، ان سب نے ملا کر ہمیں بنایا ہے تو ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں، وہ اس لئے کہ تو نے فرمایا ہے ورنہ انحصار ان پر نہیں۔ اس کا نام توکل ہے۔ سب کچھ کرو ساری محنتیں اٹھاؤ اس راہ میں سارے دکھ سینچو لیکن توکل اللہ پر۔ اپنی کوششوں پر نہیں۔ فرمایا ان کے توکل کو خدا تعالیٰ اس طرح پورا کرتا ہے کہ محبت کے ساتھ پورا کرتا ہے کسی کا بوجھ اٹھانا ہو تو انسان ویسے بھی ذمہ داری کے خیال سے بوجھ اٹھا لیتا ہے لیکن اگر محبت سے اٹھایا جائے تو اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے۔ بچوں کو بھی لوگ اٹھاتے ہیں لیکن اگر ان کو اٹھانے میں محبت شامل ہو جائے تو بچہ پہچانتا ہے اس کا مزہ ہی اس کو اور محسوس ہوتا ہے۔ عام آدمی کی گود میں بچہ کچھ اور محسوس کرتا ہے ماں کی گود میں کچھ اور محسوس کرتا ہے۔
پس محبت کے مضمون نے یہ پیغام دے دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اللہ پر توکل کرنا سیکھو پھر دیکھو کس طرح تمہارے سارے بوجھ بڑی محبت اور پیار سے اٹھا لیتا ہے۔
(خطبات ِ طاہر جلد16 خطبہ جمعہ 28مارچ 1997ء صفحہ239۔240)
آمین
*حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ ملاقات کے ایک پروگرام میں سوال کیا گیا کہ
سوال: حضور! دُعا کے آخر میں آمین کہتے ہیں؟
حضور: نہیں کہنا چاہئے؟
سائل: ضرور۔
حضور : کیا سوال ہے آپ کا؟ یہودی عیسائی اور مسلمان تینوں شکلوں میں آمین Amen کہتے ہیں یہ لفظ دراصل کسی زبان سے آیا ہے۔ اور اسلام میں کیسے شامل ہوا ہے۔ یہ قرآن کریم میں کہیں تو نہیں فرمایا مگر حضورؐ نے دعاؤں میں آمین کہا ہے۔ اور بڑے واضح طور پر اور اتنی کثرت سے اس کی تائید میں احادیث ہیں کہ کوئی ایک بھی فرقہ ایسا نہیں جو آمین کے اسلامی ہونے کا انکار کر سکے لیکن صرف جہر اور خاموش پڑھنے کا فرق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اونچا پڑھنا چاہئے بعض کہتے ہیں نیچا پڑھنا چاہئے۔ یہ آمین یہود کے کہ جہاں تک میَں نے دیکھا ہے بائبل سے محاورہ آیا ہے Old Testament سے قرآن مجید میں۔ ہاں Old Testament چونکہ عبرانی میں تھے اس لئے آمین لفظ وہ آمین کے بجائے Amen کہتے تھے۔ اور آمین یا Amen مجھے یاد ہے وہ لازماً عبرانی کا لفظ ہو گا کیونکہ بائبل عبرانی میں ہی نازل ہوئی ہے اور یہ لفظ بغیر ترجمہ کے اسی طرح قبول کیا گیا ہے دوسری زبان میں بھی کسی نے اس کا ترجمہ نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ Amen کے اندر یا آمین کے اندر تصور ہے جو دعا کی قبولیت کا اس کو دنیا کی سب زبانوں نے قبول کر لیا ہے۔ یہ جو قرآن کریم کے Old Testament کے یا New Testament کے جتنے تراجم ہوئے ہیں سب میں Amen لکھا جاتا ہے اس لئے اس میں مزید چھان بین کی ضرورت کوئی نہیں ہے کہ کیوں ایسا ہوا اور اس کا کیا مادہ ہے۔ مادہ ہو سکتا ہے الف میم، نون ہو یعنی امن کے معنیٰ ہوں اور ان کے جو مختلف استعمالات قرآن کریم میں ہیں ان میں اللہ تعالیٰ جب مومن کہتا ہے تو امن دینے والا بھی ہوتا ہے۔ تو ہر بے چینی یا ہر بلا کے لئے انسان اگر امن مانگے تو ہو سکتا ہے یہی اس کا آغاز ہو اس کے اندر یہی لفظ آمین استعمال کیا گیا ہو مزید اگر عبرانی میں اس کے معنیٰ ہیں جو قبول کر کے معنیٰ رکھتے ہوں تو وہ میرے علم میں نہیں ہے۔ ہمارے عبرانی احمدی دوست جو فلسطین میں سن رہے ہوں گے وہ پتہ کر کے بتائیں اگر کوئی ایسا معنی ہو جو قبولیتِ درخواست کے معنی رکھتا ہو تو مطلع کریں۔ میرے علم میں نہیں ہے۔
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ساتھ ملاقات پروگرام مؤرخہ 6 جولائی 1996ء)
(طاہر فاؤنڈیشن)