• 21 جولائی, 2025

میری پیاری امی، مکرمہ مقبول بیگم نصرت

میری پیاری امی جان مکرمہ مقبول بیگم نصرت صاحبہ اہلیہ محمد رفیع جنجوعہ صاحب مرحوم مؤرخہ 18جون2021ء بروز جمعۃ المبارک بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

؎بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

امی جان صوم و صلوٰۃ کی پابند نہایت نیک سیرت بزرگ خاتون تھیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر 78برس تھی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ہم نے جب ہوش سنبھالی ہم نے انکو پنجوقتہ نمازاور نماز تہجد، قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدہ پایا۔ چندہ جات کی ادائیگی کی بے حد فکر رہتی۔سب سے پہلے چندے ادا کرتیں اور ہمیشہ اضافی چندے دیتیں۔ہر جماعتی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ ہمیں بچپن سے جماعتی کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالی۔ ہمیں باقاعدگی سے اجلاس میں شامل ہونے کے لئے بھجواتیں اور خود بھی باقاعدگی سے شامل ہوتیں۔ ہمیں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا درس دیا۔خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والی تھیں۔بیماری اور بڑھاپے کے باوجود جب پیارے آقا کا خطبہ شروع ہوتا تو کہتیں کہ مجھے ٹی وی لاؤنج میں لے جاؤ۔قوت سماعت کمزور ہو گئی تھی لیکن کہتیں میں اپنے پیارے آقا کا چہرہ تودیکھ سکتی ہوں اور مجھے سکون مل جاتا ہے۔پھر اپنے نواسے اور نواسیوں سے ہیڈ فون پر خطبہ لگوا کر سنتیں تاکہ اپنے آقا کی آواز بھی سن سکیں اور ان کی نصائح پر عمل کر سکیں۔

حضور نے جب لجنہ کو ترجمۃ القرآن کی طرف توجہ دینے کی تحریک فرمائی تو باقاعدہ لفظی ترجمہ یاد کرنا شروع کر دیا۔ بڑھاپے اور نظر کی کمزوری کے باوجود یاد کرتیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ اب یادداشت بھی کمزور ہو گئی ہے۔ ترجمہ یاد رہے یا نہ رہے کوشش کر کے میں پیارے آقا کی اطاعت تو کر رہی ہوں۔اس واقعہ کا ذکر ہماری صدر صاحبہ نے محترمہ آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ سے بھی کیا جس پر وہ بہت خوش ہوئیں کہ 80سال کے قریب عمر ہے اور ترجمہ یاد کر رہی ہیں۔

ہماری والدہ نہایت سلیقہ مند خاتون تھیں تمام رشتہ دار ہمسائے اس بات کی گواہی دیتے کہ جس وقت بھی ان کے گھر جاؤ ہر چیز اپنی مناسب جگہ پر موجود ہوتی ہے۔ ایک تنکا بھی نظر نہیں آتا۔ صفائی کا یہ معیار بہت کم نظر آتا ہے۔ ہم نے والدہ صاحبہ کو ہمیشہ والد صاحب کی خدمت اور اطاعت میں کمر بستہ دیکھا، ان کے کھانے پینے کا خیال ان کی پسند نا پسند کا خیال، درحقیقت وہ ایسی بیوی تھیں جو قرآن وسنت کی تعلیمات کے عین مطابق تھیں۔ اکثر گرمیوں کی راتوں میں ہم صحن میں سو رہے ہوتے جب لائٹ چلی جاتی آنکھ کھلتی تو کیا دیکھتے ہیں کہ امی جان ہاتھ والے پنکھے سے ابو جان کو ہوا دے رہی ہوتیں۔ ابو جان، امی جان سے عمر میں بیس سال بڑے تھے اور ان کو سانس کی تکلیف بھی تھی۔ہم نے امی جان کو ابو جان کی صحت کا خیال رکھتے اور ان کی خدمت کرتے جس طرح دیکھا اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ ابو جان کی ہر ضرورت اور خواہش کا امی جان کو پہلے ہی پتہ چل جاتا تھا۔ ابو جان اکثر کہتے کہ جو بات میرے دل میں ہی ہوتی ہے اور میں کہنے والا ہوتا ہوں آپ کی امی کو پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ دینی خدمات میں بھی ہمیشہ والد صاحب کی معاون و مددگار رہیں۔

امی جان کو اکثر سچی خوابیں آتیں۔انہوں نے بتایا کہ جب انکے رشتہ کی بات چل رہی تھی تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیما رہیں اور ان کا علاج کرنے کے لئے ڈاکٹرصاحب گھر آئے ہیں جب رشتے کے لئے امی جان کو تصویر دکھائی گئی تو انہوں نے میری نانی جان اور نانا جان کو بتایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ نے مجھے میری خواب میں میرے معالج کی شکل میں دکھائے تھے تو میرے نانا جان نے بڑے اطمینان سے رشتہ کیلئے ہاں کر دی۔میری والدہ صاحبہ نے ایک خواب دیکھی اور ابو جان کوسنائی۔ خواب تو ٹھیک سے یاد نہیں۔ابو جان کی مولانا دوست محمد شاہد مرحوم سے گہری دوستی تھی۔ ابو جان نے یہ خواب ان کو سنائی اور ان سے تعبیر معلوم کی انہوں نے فرمایا رفیع صاحب !آپ کی اہلیہ بہت نیک خاتون ہیں اور یہ بہت مبشر خواب ہے جو کہ حال ہی میں پوری ہو چکی ہے جب خلافت جوبلی کے موقع پر پہلی دفعہ ایم ٹی اے پر برطانیہ، قادیان اور ربوہ تینوں مراکز لائیو اکٹھے دکھائے جا رہے تھے اور پیارے آقا نے خلافت جوبلی کا عہد دہرایا تھا یہی وہ نظارہ تھا جو والدہ صاحبہ نے خواب میں دیکھا تھا۔مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم نے ابو جان کو اپنی دو کتابیں دیں:

1۔ بیسویں صدی کا علمی شاہکار
2۔ اقلیم خلافت کے تاجدار

اور فرمایا کہ یہ دونوں کتابیں اپنی اہلیہ کو اس مبشر خواب کے پورا ہونے کی خوشی میں میری طرف سے تحفۃً دے دیں۔

امی جان کو لمبا عرصہ سندھ میں رہنے کا بھی موقع ملا وہاں کے گوٹھ کے کئی بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی اور اکثر عورتوں کو با جماعت نماز بھی پڑھایا کرتیں۔ سندھ کی عورتیں امی جان کو مولوی صاحب کہنا شروع ہو گئیں۔

امی جان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن انہوں نے صبر اور توکل علی اللہ کا عظیم نمونہ دکھایا دعاؤں پہ مکمل یقین تھا اور اکثر عورتیں ان کو دعا کے لئے کہتیں۔ میری ایک سسرالی رشتہ دار ہیں وہ ہمیشہ مجھے فون کر کے کہتیں کہ رافعہ !خالہ جان کو دعا کے لئے کہنا پھر امی جان اپنا فرض سمجھ لیتیں اور دعا میں لگی رہتیں۔ میری سہیلیوں اور تمام رشتہ داروں کے لئے ایسے دعا کرتیں جیسے انسان اپنی اولاد کے لئے دعا کرتا ہے۔

اپنے لئے بھی ہمیشہ دعا کرتیں کہ یا اللہ! محتاج نہ کرنا۔ چلتے پھرتے لے جانا اور یہ دعا بھی کرتیں کہ میرا آخری وقت میرے گھر میں میرے بچوں کے پاس آئے۔ خدا تعالیٰ نے لفظ بہ لفظ انکی دعا سن لی صرف ایک ہفتہ طاہر ہارٹ میں داخل رہیں۔ بیماری کے دوران نہایت صبر کا مظاہرہ کیا گھر آگئیں تو اگلے روز اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ہاتھوں میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ خدا تعالیٰ نے کوئی محتاجی نہیں دکھائی۔ اکثر خواہش کا اظہار کرتیں کہ جمعہ کا دن بابرکت ہوتا ہے جب میرا آخری وقت آئے تو جمعہ کا دن ہو۔ خدا تعالیٰ نے یہ دعا بھی سن لی جمعہ کی نماز پر نماز جنازہ ہوئی۔ وصیت کا جون تک کا چندہ ادا کر دیا ہوا تھا۔ وفات کے وقت کوئی بقایا نہ تھا بلکہ اضافی تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب بہن بھائیوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ان کی نیک یادوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خدا تعالیٰ پیاری امی جان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ (آمین)

؎ ایک ٹھنڈک سی انہیں حاصل رہے زیرِزمیں
آئے فردوس بریں سے قبر میں موجِ نسیم
رات دن رکھے خدا ان کو بڑے آرام سے
رات دن مدفن پہ برسے رحمت ِ رب کریم

(رابعہ امجد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ