بلیک باکس
مستقبل کے ہوائی حادثات سے تحفظ کا ضامن
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ وارنر کی عمر 9 سال تھی جب ان کے والد 1934ء میں ایک ہوائی حادثہ میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ 1950ء میں وارنر کو خیال آیا کہ جہاز میں ایک ایسا آلہ نصب ہونا چاہیے جو فلائٹ کے ڈیٹا کو ریکارڈ کرنے کے ساتھ کاٹ پٹ میں ہونے والی گفتگو کو بھی ریکارڈ کر سکتا ہو۔ تاکہ مستقبل میں حادثات کے امکانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔انہوں نے میلبرن میں موجود ایروناٹیکل ریسرچ سینٹر کو ایک خط کے ذریعے اپنی تجویز سے آگاہ کیا۔1956ء میں ایک پروٹوٹائپ فلائٹ ریکارڈر بنایا گیا جسے ARL Flight Memory Unit کا نام دیا گیا۔بد قسمتی سے یہ آلہ زیادہ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔تاوقتیکہ 5 سال بعد برطانیہ اور امریکہ میں اس آلہ کو بنایا جانے لگا۔وقت کے ساتھ سول ایوی ایشن میں اس آلہ کی اہمیت دنیا پر واضح ہونے لگی۔
17 جولائی 1996ء کو TWA Flight 800 دوران پرواز ایک دھماکے سے لانگ آئی لینڈ کے اوپر تباہ ہوگئی اور اس میں موجود تمام 230 بد قسمت مسافر راہی ملک عدم ہوئے۔حادثہ کے بعد تحقیقات کا آغاز ہوا جس کے بعد یہ سول ایوی ایشن کی تاریخ کی طویل ترین دورانیہ کی تحقیق بن گئی۔خوش قسمتی سے اس طیارے کا بلیک باکس مل گیا جس میں موجود معلومات کی بناء پر حادثہ کی وجوہات کا پتہ لگایا گیا۔جہاز کے فیول ٹینک کے نزدیک موجود جہاز کے برقی آلات میں شاٹ سرکٹ ہوا جس کے باعث وہاں آگ لگی اور جہاز دھماکہ سے تباہ ہوگیا۔بلیک باکس کی مدد سے حادثہ کی معین وجہ معلوم ہونے کے بعد جہاز ساز کمپنیوں نے جہاز کے فیول ٹینک سے ان برقی آلات کو ہٹا کر دوسری جگہ پر رکھنا شروع کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد سے کوئی جہاز اس وجہ سے کریش نہیں ہوا۔اسی طرح بلیک باکس سے ملنے والے ڈیٹا کی بنیاد پر جہازوں میں لاتعداد اصلاحات کی جا چکی ہیں۔
اپنے نام کے برعکس بلیک باکس بالکل بھی بلیک(کالا) نہیں ہوتا بلکہ یہ نارنجی رنگ کا ہوتا ہے۔اسے بلیک باکس اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ابتداء میں ان پر کالا رنگ ہی کیا جاتا تھا۔
بلیک باکس دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، پہلا حصہ FDR فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر کہلاتا ہے، اس کا کام دوران پرواز جہاز کے تمام سینسرز سے آنی والی معلومات کو ریکارڈ کرنا ہوتا ہے۔جیسا کہ جہاز کی رفتار،اس میں کتنا ایندھن تھا،کتنا ایندھن استعمال ہوچکا ہے اور کتنا باقی ہے،ہوا کی رفتار کیا ہے، جہاز کے کیبن کے اندر اور باہر درجہ حرارت کتنا ہے،جہاز کے کیبن میں پریشر کتنا ہے،جہاز کتنی بلندی پر پرواز کر رہا ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے وغیرہ وغیرہ۔سول ایوی ایشن کے عالمی قانون کے تحت جہاز میں ایسا بلیک باکس نصب کیا جانا ضروری ہے جو ایک وقت میں جہاز کے سینسرز سے ملنے والی کم از کم 88 قسم کی متفرق چیزوں سے ملنے والے ڈیٹا کو ریکارڈ کرے۔
بلیک باکس کا دوسرا حصہ CVR یعنی کاٹ پٹ وائس ریکارڈر پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کا کام جہاز کے کاٹ پٹ سے آنے والی آوازوں کو ریکارڈ کرنا ہوتا ہے۔یہ تین قسم کی آوازوں کو ریکارڈ کرتا ہے جس میں پائلٹ کے درمیان گفتگو،کنٹرول ٹاور سے ہونے والی گفتگو اور جہاز کے انجن کی آواز اور مختلف قسم کے پرزوں کی آواز اور وارنگ وغیرہ شامل ہیں۔کسی حادثہ کے بعد CVR سے ڈیٹا حاصل کرکے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ حادثہ سے پہلے کاٹ پٹ میں موجود پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کے درمیان کیا گفتگو ہوئی۔انجن میں سے کوئی غیر معمولی آواز تو نہیں آرہی تھی یا کسی وارننگ پر مشتمل کوئی آواز۔
اس سے حادثہ کی وجوہات کا تعین کرنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔بلیک باکس میں موجود دونوں چیزوں کے بغیر جہاز کے حاثہ کی وجوہات کا پتہ چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔جدید فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر حساس اور قیمتی آلہ ہوتا ہے جس کی قیمت 20 ہزار امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔جدید ڈیٹا ریکارڈر دوران پرواز ملنے والی معلومات کے بیک وقت 1000 قسم کے متفرق ڈیٹا کو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ماضی میں وائس ریکارڈر میں آواز ریکارڈ کرنے کے لیے مقناطیسی ٹیپ استعمال کی جاتی تھی۔یہ ٹیپ ہر 30 منٹ میں ایک چکر مکمل کرتی تھی۔چنانچہ اس میں گزرنے والے ہر تیس منٹ کی آواز ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھی۔اس ٹیپ کے حدت اور نمی سے متاثر ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا تھا۔مقناطیسی ٹیپ اب متروک ہو چکی ہے اور اس کی جگہ سالڈ اسٹیٹ میموری چِپ نے لے لی ہےجس پر آوازیں ریکارڈ ہوتی ہیں۔اس قسم کے بلیک باکس 1990ء سے استعمال ہو رہے ہیں۔
Black box
جیسا کہ تصویر میں دیکھاجاسکتاہے بلیک باکس کے ساتھ ایک سفید رنگ کا چھوٹا سا ڈرم نصب بھی نصب ہے۔اسے Underwater Locator Beacon کہا جاتا ہے۔اس میں پانی کو محسوس کرنے والا سینر ہوتا ہے۔یہ آلہ اُس وقت متحرک ہوتا ہے جب بلیک باکس پانی میں گرے۔پانی میں گرتے ہی اس آلہ سے الٹرا سونک ویو خارج ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ان سگنل کی حد 14000 فٹ تک ہوتی ہے جن کا سراغ ایک رسیور کی مدد سے لگایا جاتا ہے۔یہ مسلسل تیس دن تک سگنل بھیجتا رہتا ہے۔یہ پانی میں 20000 فٹ تک کی گہرائی میں بھی کام کرسکتا ہے۔پانی کے اندر بلیک باکس کو تلاش کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا کام ہے۔ایک بار سمندر میں جہاز کے گرنے کی جگہ کا تعین ہونے کے بعد Pinger Locator نامی ایک مشین کو جہاز کے ساتھ باندھ کر زیر آب بھیجا جاتا ہے جو ULB سے آنے والے سگنل کا سراغ لگاتی ہے۔یہ مشین انتہائی مہنگی اور پیچیدہ ہے اور پوری دنیا میں بس چند ایک ہی ہیں۔
Pinger Locator
بلیک باکس ایسے مواد سے بنایا جاتا ہے جو زوردار دھماکہ اور آگ اور پانی میں ڈوبنے کے باوجود بھی محفوظ رہ سکے۔یہ 1100 ڈگری درجہ حرارت کو تیس منٹ تک برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بلیک باکس میں موجود چِپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے اوپر تین طرح کی حفاظتی دیواریں بنائی جاتیں ہیں جن میں سب سے پہلے ایلمونیم کی تہ ہوتی ہے جس کے اندر فلیش میموری چپ کو چاروں اطراف سے لپیٹا جاتا ہے۔اس کے بعد ایک انچ موٹی ہائی ٹمپریچر انسولیشن کی تہ ہوتی ہے۔یہی وہ چیز ہے جو جہاز کریش ہونے کے بعد لگنے والی آگ سے بلیک باکس کو محفوظ رکھتی ہے۔تیسری حفاظتی تہ اسٹین لیس اسٹیل کا شیل ہوتا ہے جس پر ٹائیٹینیم کی پرت ہوتی ہے۔یہ تمام چیزیں مل کر بلیک باکس کو کریش سروائیول بنا دیتی ہیں۔یعنی نہ تو گرنے سے ٹوٹتا ہے نہ اس پر آگ کا اثر ہوتا ہے اور نہ ہی پانی اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بلیک باکس میں موجود معلومات کو ڈی کوڈ کرنا مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں کئی ہفتے اور بعض اوقات مہینوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔بلیک باکس ملنے کے بعد اسے متعلقہ کمپنی میں بھیجا جاتا ہے جہاں موجود ماہرین اس میں موجود ڈیٹا کو ڈاؤن لوڈ کرکے اس کی جانچ پڑتال کے بعد جہاز کے کریش کی وجوہات کا تعین کرتے ہیں۔بلیک باکس سے حاصل شدہ معلومات کی مدد سے جہاز کے اڑان بھرنے سے لے کر کریش ہونے تک کی تمام حرکات کی ایک اینی میٹڈ وڈیو فلم بھی بنائی جا سکتی ہے جس سے جہاز کے کریش کو Virtually دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔
بلیک باکس جہاز کے سب سے پچھلے حصے میں رکھا جاتا ہے کیونکہ جہاز کریش ہونے کے بعد یہی جگہ سب سے محفوظ سمجھی جاتی ہے۔یہ جگہ محفوظ کیوں ہوتی ہے اس کا تجربہ آپ گھر پر بھی کانچ کی ایک بوتل کو زمین پر گرا کر کرسکتے ہیں۔ بوتل کا پتلا حصہ بالعموم ٹوٹنے سے محفوظ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاز کی دم جہاز کا سب سے محفوظ مقام سمجھا جاتا ہے۔
تجربات کے دوران بلیک باکس پر G3400 تک کی فورس لگائی جاتی ہے۔انتہائی آتش گیر مادے سے آگ لگائی جاتی ہے اور پانی میں ڈبویا جاتا ہے۔
بلیک باکس کی ایجاد بلا شبہ انجنیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔اس کی وجہ سے حادثہ کا تعین کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔اس سے ملنے والی معلومات کی بدولت جہازوں میں ایسی اصلاحات کی جاتی ہیں جن سے مستقبل میں ہونے والے حادثات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔مستقل بنیادوں پر اصلاحات اور حفاظتی نقطہ نگاہ سے انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کا نتیجہ ہے کہ آج ہوائی جہاز کا شمار دنیا کی محفوظ ترین سواری میں ہوتاہے۔
(مدثر ظفر)