• 21 جولائی, 2025

رشتہ کرنے کے زریں اُصول

مذہب اسلام اىک عالمگىر مذہب ہے۔اس نے اىک مکمل ضابطۂ حىات دنىا کے سامنے پىش کىا ہے۔اور اىسے جامع اور مانع اصول مرتب کئے ہىں۔جن پر عمل پىرا ہوکر دنىا کى ہر قوم اس کا تعلق کسى مذہب اور کسى فرقہ سے ہو خوشگوار اور کامىاب زندگى گذار سکتى ہے اللہ تبارک و تعالىٰ نے ہر اىک کے جوڑے پىدا کئے ہىں مخلوقات مىں کوئى بھى اىسا نہىں جس کے جوڑے نہ بنائے گئے ہوں۔ پھر انسان جس کو اشرف المخلوقات کا اعزاز حاصل ہے۔ اس دائرہ سے باہر کىوں کر ہوسکتا ہے؟ ىہ الگ بات ہے کہ انسانوں نے اپنے خود ساختہ کچھ اصول بنائے ہىں۔ اىک فرىم اور چوکھٹا بنا رکھا ہے۔مرد ہو ىا عورت اس معىار پر اُترتے ہىں تو رشتے طے ہوتے ہىں ورنہ نہىں۔ محسن انسانىت حضرت محمد عربى ﷺ نے رشتہ طے کرنے کا بہترىن اصول اور رہنما خط مرتب کىا ہے۔فرماتے ہىں:

کسى عورت سے نکاح کرنے کى چار ہى بنىادىں ہو سکتى ہىں ىا تو اس کے مال کى وجہ سے ىا اس کے خاندان کى وجہ سے ىا اس کے حسن و جمال کى وجہ سے ىا اس کى دىندارى کى وجہ سے۔ لىکن تو(اے مؤمن) دىندار عورت کو ترجىح دے، اللہ تىرا بھلا کرے اور تجھے دىندار عورت ملے۔

(بخارى، کتاب النکاح)

ىعنى معاشرہ مىں سماج مىں اور گھروں مىں رشتہ کے انتخاب کا معاملہ آتا ہے تو عام طور پر لوگ چار باتوں کو مدِنظر رکھتے ہىں:

اول۔ بعض لوگ عورت کے خاندان کى مالى حالت کو دىکھ کر رشتہ پسند کرتے ہىں۔

دوئم۔ بعض لوگ عورت کے حسب ونسب ىعنى خاندان کى وجاہت کى وجہ سے کرتے ہىں۔

سوئم۔ عورت کے حُسن و جمال پر فدا ہوتے ہىں۔

چہارم۔ عورت کى دىندارى اور حُسن سىرت کى بنىاد پر رشتہ کواہمىت دىتے ہىں۔

آنحضرت ﷺ نے ىہ اصول مقرر فرماىا:

عَلَىْکَ بِذَاتِ الدِّىْنِ۔

امت مسلمہ کو ىہ تاکىدى نصىحت فرمائى کہ تم رشتہ کے انتخاب کے وقت ہمىشہ دىندارى اور حُسن سىرت کو ترجىح دو۔ ىہ بابرکت، بہترىن اور قابل قبول اور قابل عمل اصول ہے۔ اس کى حکمت اور افادىت سے کوئى انکار نہىں کرسکتا۔ اس کے بڑے دور رس نتائج رونما ہوتے ہىں۔ اس چھوٹے سے فقرہ مىں ہر معاشرہ کى، خاندان کى اور سماج کى اصلاح، کامىابى، بھلائى اور بہترى مضمر ہے۔ جب کوئى خاندان آنحضرت ﷺ کےبىان فرمودہ اصول کو مدِنظر رکھ کر رشتہ کا انتخاب کرے گا اور ىہ فىصلہ لے گا کہ مىں اسى خاندان مىں رشتہ کروں گا۔ جہاں لڑکى نىک، مخلص، بااخلاق اور دىندار ہوتو پھر ہر خاندان اپنى لڑکىوں کو بہترىن تربىت کرے گا۔ىہى طرىق اور ىہى معىار رائج ہوگا تو ظاہر ہے اس کا رد عمل بھى ہوگا۔ہر لڑکى اور اس کے والدىن بھى رشتہ کے انتخاب کے وقت اپنى لڑکى کے لئے دىندار، حسن سىرت اور بااخلاق لڑکے کو ہى ترجىح دىں گے۔ اىک مقابلہ شروع ہوگا۔ مسابقت کى روح پىدا ہوگى۔ ىقىنى طور پر اىک پاک و صاف اور شفاف معاشرہ کا قىام عمل مىں آئے گا۔ اور رشتہ ناطہ کے مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائىں گے۔

اىک اور اصول جس کو پىش نظر رکھنا بھى ضرورى ہے۔ اکثر والدىن رشتہ ناطہ کے معاملہ کو اپنے ہاتھ مىں لىتے ہىں جو درست نہىں بلکہ کلى طور پر خدا کے حوالہ کرنا اور اس کے سپرد سونپ دىنا ہے۔ اُفَوِّضُ اَمْرِىْٓ اِلَى اللّٰہِ مىں اس معاملہ کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اپنى کوشش جارى رکھوں گا۔ہر کامىابى حاصل ہوگى۔اس کے برعکس والدىن خود اس معاملہ کو طے کرنىکى کوشش کرتے ہىں۔ اور اَنَا، نَحْنُ، مىں اور ہمىں پسند نہىں، کہہ کر رشتہ کو جھٹلا دىتے ہىں تو پھر خدا پىچھے ہٹ جاتا ہے۔ خدا کى تائىد و نصرت حاصل نہىں ہوتى۔ توکل على اللہ بہت ضرورى ہے۔

اىک اور پہلو جو معاشرہ مىں رشتوں کى تلاش مىں رکاوٹ بنتا جارہا ہے وہ ىہ کہ تعلىم ىافتہ لڑکىوں کے لئے مناسب رشتوں کى تلاش روز بروز صبر آزما مہم بنتى جارہى ہے اور ىہ مسئلہ بھى اتنا سنگىن نہىں جتنا اسے بنادىا گىا ہے اور اسے حل کرنا بھى مشکل اور ناممکن نہىں۔ صرف لڑکىوں اور ان کے والدىن کو توکل على اللہ اور ہمت دکھانى کى ضرورت ہے۔اس مسئلہ کى اصل بنىاد ىہ ہے کہ عام طور پر لڑکىاں اچھے رشتہ کى تلاش کے انتظار مىں وقت کو کاٹنے کے لئے تعلىمى سلسلہ جارى رکھتى ہىں۔ لىکن لڑکوں کو کمائى کى خاطر تعلىمى مىدان کو چھوڑ کر روزگارى کے مىدان مىں آنا پڑتا ہے۔لڑکىاں جتنى زىادہ پڑھتى جاتى ہىں اتنا ہى زىادہ تعلىم ىافتہ لڑکوں کى آس مىں بىٹھى رہتى ہىں۔اس طرح منزل اُن کے آگے ہى سرکتى جاتى ہے۔اس کا علاج صرف ىہ ہے کہ لڑکىاں اپنے سے کم تعلىم ىافتہ لڑکوں کےساتھ شادى کرنے کو اپنى توہىن نہ سمجھىں بلکہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے فرمان کے مطابق دىندارى کے اصول کر مدِنظر رکھىں۔اب وقت بدل چکا ہے اس پرانى رواىت کو بدلنے کى ضرورت ہے کہ مردوں کو لازماً بىوى سے زىادہ کمانے والا زىادہ تعلىم ىافتہ ہونا چاہئے۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثالثؒ سے اىک لڑکى کے باپ نے اپنى تعلىم ىافتہ لڑکى کے لئے لڑکى سے زىادہ ىا اس کے برابر تعلىم ىافتہ رشتہ کى درخواست کى۔ آپ نے فرماىا کہ اس سے زىادہ تعلىم ىافتہ لڑکے کى تلاش کہاں سے کر لاؤں۔ اس مىں دو رائے نہىں کہ فقہاء نے بعض دائروں مىں کفو برابرى ىعنى مرد کو اس کے ہم پلہ ہو نے کى معاشرتى اہمىت کو تسلىم کىا ہے اس لئے کہ کفو کا اصل مقصد فرىقىن کى ازدواجى زندگى مىں ہم آہنگى اور موافقت پىدا کرنا ہے۔ بلاشبہ کفو مىں مذہب، دىندارى اور معاشرتى ىکسانى کو بنىادى حىثىت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نسب، پىشہ، تعلىم، عمر اور صحت کو بھى مدنظر رکھا جائے تو کوئى مضائقہ نہىں، برکت ہى ہے۔ لىکن اسے بھىس بناکر اس سے دورى اختىار کرنا شرعا درست نہىں۔ تاہم اىک مسلمان مومن کو چاہئے کہ وہ حُسن سىرت اور دىندارى کے پہلو کو ہى ترجىح دے۔اىسى ہى تمدنى، معاشرتى اور تربىتى وجوہات کى بناء پر جماعتى نظام اىک احمدى لڑکى کو اس بات کى اجازت نہىں دىتا کہ وہ کسى غىر احمدى لڑکے سے رشتہ کرے۔ بس جہاں ازدواجى زندگى مىں مىاں بىوى کے سوچنے اور سمجھنے کى صلاحتىں الگ الگ ہوں وہاں آئے دن ناخوشگوار حالات جنم لىتے ہىں۔ جہاں فطرت سے فطرت ملى وہاں زندگى ہنستے ہنستے گذر جاتى ہے۔ کامىاب اور خوشکوار زندگى کے لئے گھر کے ماحول مىں نم ہونا ہى بڑى خوبى ہے۔

(محمد عمر تیمارپوری۔ کوآرڈینیٹر علی گڑھ یونیورسٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ