کیا کیا نہ ہم کو یاد آیا اک تیرے جانے کے بعد
ہمارا پیارا بھائی چوہدری ظہیر احمد مرحوم
ہم سب کے پىارے بھائى ظہىر احمد کو اس دنىائے فانى سےرخصت ہوئے تىن سال ہو گئے ہىں قلم اس کےنام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے ابھى تک اىک دفعہ کانپ جاتا ہے۔ حالانکہ زندگى کى سب سے بڑى حقىقت ىہ ہےکہ جو اس دنىا مىں آىا ہے اسے اىک دن اپنے خالق حقىقى کى جانب ضرور لوٹ کر جانا ہےاس پر ہم سب کا اىمان ہےاور کوئى فرد بشر اس سے منہ نہىں موڑ سکتا۔
ظہىراحمداس قدر زندگى سے بھر پور تھا کہ اسے دىکھ کر ہم ىہ سىکھتے تھے کہ زندگى کا ہرلمحہ رب کى عناىتوں اور قدرتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے فطرت کى رعناىئوں سے لطف اندوز ہو کر کىسے جىا جاسکتا ہے۔ ہر مشکل وقت اور امتحان مىں پُراعتماد ہو کر حوصلے سے کىسے گزرنا ہے اور اللہ کى رضا پر صبرکرنا کىا چىز ہے۔ ظہىر احمد کى زندگى اور موت بھى ہمىں اس فانى دنىا کى بہت سى حقىقتوں کے مختلف عنوان کئى معنوں مىں سمجھا گئى۔ ہم بہن بھاىئوں مىں وہ ساتوىں نمبر پ رتھا مجھ سے چھوٹا ہونے کے باوجود مىں اس سے ہمىشہ بہت کچھ سىکھتى تھى۔ کئى دفعہ وہ مجھے بڑے بھائىوں کى طرح بھى سمجھا لىتا تھا۔ اُپر تلے کے ہونے کى وجہ سے ہمارے بچپن اور جوانى کے بہت سے دن اکھٹے گزرے آپس مىں بے تکلفى کے ساتھ بہت پىار بھرا دوستى کاتعلق تھا۔ شروع سے ہر بات اىک دوسرے سے شىئر کى جاتى تھى۔ کھارىاں مىں گزرے ہوئے بچپن کے سہانے دنوں مىں گرمىوں کى لمبى دوپہروں مىں چھت کى ممٹى مىں بىٹھ کر کہانىوں کى کتابىں پڑھتے اسکول کا کام کرتے اور گھنٹوں چھت پر کھىلتے۔ رات کو تاروں کى چھاؤں مىں صحن مىں بچھے اُجلے بستروں پر لىٹ کر آسمان کے تاروں مىں کہکشاں دىکھتے ہوئےاپنى اپنى خىالى دنىا کى کہانىاں اىک دوسرے کو سناتے ہوئے نىند کى وادىوں مىں بے فکرى سے کھوجاتے۔ ماں باپ کےپىارے آنگن مىں اىسے ہى اکھٹے کھىلتے کودتے بچپن کے سہانے دن اىک اىک کر کے گزر گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ زندگى کے ادوار بدلتے چلے گئے اورظہىر احمد کى پىارى فطرت کے جوہر عمر کے ساتھ ساتھ نماىاں ہوتے چلے گئے۔
ظہىر احمد اوائل بچپن سے ہى بہت ٹھنڈے مزاج کا مالک، کہنا ماننے والا، فرمانبردار اور صلح جُو تھا۔ بھولى بھالى طبىعت اورانکسارى نے اس کے پىارے چہرے کو اىک نُور اور خوبصورت معصومىت سے بھر دىا تھا کہ معصومىت سے پُر اس کى پىارى باتوں پر بے اختىار پىار آجاتا تھا۔ بہن بھاىئوں سے بھرے پُرے گھر مىں پىار بھرى چھىڑ چھاڑ ہوتى رہتى ہےمگر کبھى ىاد نہىں آتا کہ اس نے کوئى شکاىت لگائى ہو ىا بلاوجہ کوئ ضد کر کے واوىلا ڈالا ہو۔ جو ہمارے امى جان نے کہنا، کھلانا، پلانا، پہنانا وہ بلا حىل و حجت کے مان جاتا۔ ىعنى بچپن سے ہى وہ اىک بہت سعىد فطرت بچہ تھا۔ جوانى مىں وہ ان ہى خوبىوں کى وجہ سے ہر جگہ اپنے ہم جماعت دوستوں اور بڑوں کے دلوں مىں گھرِ کرنے والى ہر دلعزىز شخصىت بن گىا۔ جماعتى خدمات کے سلسلے مىں بھى ہمىشہ پىش پىش رہتا اور اور کوئى موقع دىنى خدمت کا جانے نہ دىتابچپن سے لے آخر تک جب تک صحت نے اجازت دى جماعتى تنظىمات کا اىک سرگرم رکن تھا۔ ظہىر احمد کھلے دل کا اىک بےحد ہمدرد انسان تھا۔ اپنے سے زىادہ دوسروں کا خىال رکھ کر اسے دلى سکون حاصل ہوتا تھا۔ اپنى ذات کو ضرورىات کے لحاظ سے دوسروں سے پىچھے رکھتانىکى کر درىا مىں ڈال ولا محاورہ اس پر پورا اترتا تھا۔
اس بزرگ فطرت نوجوان مىں نىکى کا مادہ اور خدمت خلق کا جذبہ ہر خاص و عام کے لىے اس قدر پاىا جاتا تھا کہ اپنے ہوں ىا پرائے سب کے ہمىشہ کام آنا اپنا فرض سمجھتا اور کسى بھى مدد کى جب بھى ضرورت ہوتى ہر ممکن کوشش کر کےدوڑا چلا آتا۔ پاکستان مىں اکژ اىسے ہوتا کہ اچانک سے دروازے کى بىل بجتى کسى محلے دار، ىا دوست احباب و جماعت مىں سے کسى نےجب مدد کى ضرورت ہوتى بلالىتے ظہىر احمد کئى دفعہ تو کھانا درمىان مىں چھوڑ کرساتھ چل پڑتا اور کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوجاتا۔ کراچى مىں حضرت مولانا عثمان چىنى صاحب مرحوم ہمارے گھر کے سامنے رہائش پذىر تھے اور ہمارا ان کے ساتھ ہر روز کا آنا جانا رہتا اور ان کى فىملى کے ساتھ پىار کا تعلق بڑھتے بڑھتے اىک خاندان کا سا ہو گىا تھا۔ وہ ظہىر احمد کى خوبىوں کو بہت قدر کى نگاہ سے دىکھتے اور بہت تعرىف کرتے اىک دفعہ امى جان کو فرمانے لگے کہ (ظہىر احمد صاحب کى خصوصىات کى وجہ سے ان کے متعلق مجھے بہت اعلىٰ درجہ نظر آتا ہے)۔ مىرى ىاداشت کے مطابق کم وبىش اسى طرح کے الفاظ تھے۔
کىنىڈا مىں سىٹل ہونے والے جماعت کے بہت سے ابتدائى رىفىوجى خاندانوں کى مالى، اخلاقى مدد کرنے مىں کوئى کسر نہ چھوڑى۔ کئى لوگوں کو اپنے نام پر اپارٹمنٹ وغىرہ لے کر دئىے اور کرائے خود ادا کئے، جابوں کے سلسلے مىں مدد کى ،کئى لوگوں کوبارڈر کراس کروائے، اور نئے آنے والوں کوسىٹل کرنے مىں ہر مدد کے لىے ہمىشہ پہلے سب سےآگے آتا۔
نوجوانى مىں مستقبل کے لىے آگے بڑھنے کے بہت سے خواب آنکھوں مىں لىے ہر لحاظ سے اىک مختلف ماحول اور نئے ملک مىں ماں باپ اوراپنے سے چھوٹے بہن بھائىوں کے ساتھ بطور امىگرنٹ آىا اورنئے مشکل تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے محنت سے نبرد آزما دور سے گزرا، ماں باپ کى دعاؤں اور اللہ کى مدد کے ساتھ بہت کامىابىاں حاصل کىں۔ اىک دفعہ کسى جاب کے انٹروىو کے لىے جانے سے پہلے ہمارے بہت ہى دعا گو پىارے اباجان چوہدرى بشىر احمد صاحب کو دعا کے لىے کہا تو اباجان فوراً دعا مىں لگ گئے غنودگى کے عالم مىں اباجى کو آواز آئى ’’ظہىر مظفر‘‘ اباجى فرماتے ہىں مجھے ىقىن ہو گىا کہ ان شاءاللہ تعالىٰ ظہىر احمد کو اعلىٰ جاب مل جائےگى اور اس دن ظہىر احمد نے ىہى خوشخبرى گھر آکر سنائى۔ پھر اللہ تعالىٰ کے فضل نے اسے بہت اعلىٰ جاب سے نوازا۔ الحمداللّٰہ
ظہىر احمد اىک بے انتہا فرماں بردار بىٹاتھا بس ماں باپ کے کہنے کى دىر ہوتى اور وہ کام ہو جاتا۔ کئى دفعہ ماں باپ کے کہنے سے پہلے ہى ان کى کسى بھى خواہش کا جب علم ہو جاتا تو فورا ان کى خوشى کو مقدم جانتا اور پورى کردىتا۔ ہمارے اباجان اور امى جان کےلىے ىہ نور نظر ہمىشہ انکے لىے راحت وآرام اور سىنوں کى ٹھنڈک کا باعث بنا۔ وہ دونوں بھى دن رات ظہىر احمد کے لىے دعائىں کرتے نہ تھکتے تھے۔ اىک دفعہ امى جى نے وىسے ہى اظہار کىا کہ کىنىڈا کے ٹونٹىوں کے پانى مىں کلورىن کى زىادتى ہوتى ہے کئى دفعہ پىا نہىں جاتا ظہىر احمد نے اسکے بعد معمول بنا لىا کہ ہمىشہ مىٹھے چشموں کا فلٹر شدہ پانى بڑى بوتلوں مىں امى جان کے لىے لا کر رکھتا کبھى ختم نہ ہونے دىتا امى جان نے دعاىئں دىتے ہوئے کہنا کہ جس طرح ظہىر احمد ٹھنڈے مىٹھے پانى سے مىرا دل ٹھنڈا کرتا ہے اللہ تعالىٰ اُسے بھى اپنى ٹھنڈى چھاؤں مىں شاد رکھے اسى طرح وقتاً فوقتاً انہىں خوبصورت تحائف سے نوازتا رہتا۔ اىک وقت جب کچھ عرصہ کے لىے ہمارے والدىن (احمدىہ بلڈنگ) (Ahmadiyya Abode of Peace) مىں منتقل ہوئے تو ماں باپ کے گھر کا فرىج اور فرىزر ہر قسم کى گروسرى سے ان کے کہے بغىر بھرا رکھتا اور کام کے بعدبلا ناغہ ضرور چکر لگاتا کہ انہىں کسى چىز کى ضرورت نہ ہو۔
بہنوں کا لاڈلا تو وہ تھا ہى مگر وہ ان سے بہت بڑھ کرمحبت کرنے والا ان کا خىال رکھنے والا ان کے ہر دکھ سکھ مىں کام آنے والاصحىح معنوں مىں ہمدرد اور مخلص بھائى تھا جس پرہم سب کو مان تھا۔ اپنے سے چھو ٹے اور بڑے بھائىوں کے لىے اىک دست راست کى حثىت رکھتا تھا ان کى اىک آواز پر دوڑتے چلے آنا اورہر موقع اور معاملے مىں بے غرضى کے ساتھ اپنا ہر قسم کا تعاون اور مدد پىش کر دىنا بلاشبہ اس کے اىثار کا اعلىٰ نمونہ تھا۔ وہ خاندان کے سب بچوں کامحبوب ماموں اور چچا تھا ور ہر موقع اور کامىابى پرخوب حوصلہ افزأئى کرتا اور بہترىن مشوروں سےنوازتا۔ اسى طرح وہ اپنے پىارے بچوں کا اىک بے مثال اور شفىق باپ اىک ہمدرد دوست اور اپنى شرىک حىات کا بہت ہى باوفا تعاون کرنے والا شرىک سفر تھا۔ اُسے اپنے تمام دُور و نزدىک کے رحمى رشتوں کو جوڑ کر رکھنے اور تعلق نبھانے مىں کمال حاصل تھا۔ وہ اپنے سب دوستوں کا اىک اىسا وفادار دوست تھا جو ہر خوشى غمى مىں ہر حال مىں اپنے دوستوں کا ساتھ دىتا۔ اس نے اپنے بہت پرانے دوستوں کے ساتھ آخر دم تک وفا نبھائى انہىں ٓخرى لمحوں مىں بھى ىاد کرتے ہوئے ملنے کى خواہش کا اظہار کىا اور ملاقات بھى کى۔
پىارا بھائى ظہىراحمد انتہائى مہمان نواز اور خوش خُلق انسان تھا اس کے گھر جا کر احساس ہوتا تھا کہ ىہ ممکن ہى نہىں کہ وہ مہمان کے اعزاز مىں کسى ضىافت کا اہتمام نہ کرے ىہ خوبى (اور خوبىوں کے علاوہ) اسکى بىگم ہمارى ثرُىا بھابھى مىں بھى بدرجۂ اتم پائى جاتى ہے دونوں مىاں بىوى مہمان کى آؤبُھگت کرنے مىں اپنا ثانى نہىں رکھتے تھے۔ ہمارے خاندان کى فىملى پکنکوں کا اصل روح و رواں ہى ظہىر احمد تھا بار بى کىو کا سارا انتطام کرنا سب کو اکھٹا کرنا اور خوبصورت پارکوں مىں سب کے ساتھ دن گزارنا مختلف اسپورٹس اور گىمىں کھىلنا ظہىر احمد کا ہى خاصا تھا۔ ظہىر احمد کے بغىر اس قدر پر لطف پکنکوں کا ہم تصور ہى نہ کر سکتے تھے۔ ان سارى خوبىوں کے ساتھ متصف وہ ہمارے خاندان مىں اىک اىسا ہىرا تھا جس کى سب ہى قدر اور محبت کرتے تھے ہراىک کے ساتھ اُس کے پىار اور محبت کا اىک الگ ہى انداز تھا۔ اىسے پىارے وجود کى دائمى جدائى ىقىنا خاندان مىں اىک گہرا شگاف چھوڑ جاتى ہےحقىقتاً بعض وجود اىسے خاص ہوتے ہىں کہ ان مىں اللہ تعالىٰ نے بہت سى خوبىاں اىسے ودىعت کر دى ہوتى ہىں کہ وہ ان کى فطرت ثانىہ بن جاتى ہىں اور ظہىر احمداىسا ہى خاص برکتوں والا وجود تھا۔
ظہىر احمد کى عادت تھى کہ اکثر ہر دوسرے تىسرے روز حال احوال درىافت کرنے کے لىے فون کرتا چونکہ بہت بے تکلفى تھى تو ہر قسم کے روزمرہ کے مسائل اور باتىں آپس مىں تفصىلاً شئىر کى جاتى تھىں۔ کئى دفعہ نہ چاہتے ہوئے بھى کسى پرىشانى کا اظہار کرنے پروہ بہت آہستگى اور حوصلے کے ساتھ سنتا رہتا بات مکمل ہونے بعد رائے دىتا اور اسقدر پىارى سکون دىنے والى تسلى بخش باتىں کرتا کہ پتہ ہى نہ چلتا کہ مسٔلہ کہاں گىا ہےىا کوئى مسئلہ تھا بھى ىا نہىں۔ بہت معلوماتى اور دلچسپ گفتگو کرتا کہ حىرت ہوتى تھى کہ کس طرح جنرل نالج مىں ہر بات کى تہہ تک رسائى رکھتا ہے۔ کوئى بھى شعبہ ہو کسى چىز کے بارہ مىں کچھ درىافت کرنا ہو بس ظہىر کو فون کر لىں چلتا پھرتا انسٔکلو پىڈىا کھول لىا ہے۔ ظہىر احمد کو علم حاصل کرنے اور اسے آگے بڑھانے کى اىک نہ ختم ہونے والى لگن تھى۔ معلوماتى اور مفىد مضامىن ہمىشہ زىر مطالعہ رہتے اور ہم سے شئىر کرتا رہتا۔ گفتگو کے دوران کبھى سامنے والے کو کسى علمى کم ترى کا احساس نہىں ہونے دىتا بلکہ بہت انکسارى، وضع دارى، اور عزت کا لحاظ رکھتا۔ کىنىڈا آنے کے بعد اسکے ہائى اسکول کے ٹىچر بھى مضامىن مىں اسکے گہرے مطالعے اور علم کے معترف ہوتے تھے۔
ظہىر احمد کو باغبانى اور ٹىکنىکل کام کى مہارت مىں ىدطولىٰ حاصل تھا جب بھى ہم اس کے گھر جاتے کسى نہ کسى پراجىکٹ مىں مصروف ہوتا۔ گارڈن تو اس کے پھولوں اور کئى قسم کے ناىاب پودوں کے شوق کا منہ بولتا نظارہ پىش کرتا۔ گرمىوں کے موسم مىں کئى پودوں پر نئے تجربات کرتا رہتا چونکہ ىہ شوق مجھے اور دىگر بہن بھاىئوں کو بھى ہے تو ہمارے لىے ہر سال اس موسم مىں اس کى نئے نئے پودوں پر رىسرچ اور گارڈن مىں دلچسپى کے دىگرپراجىکٹ بہت دل چسپى کا باعث ہوتے۔
کئى دفعہ کہتا تھا کہ فطرتى حسن اور باغوں وغىرہ مىں مىرى طبعىت بہت خوش ہوتى ہے کىونکہ اللہ تعالىٰ کى فطرت کو محظوظ کر تے ہوئے بہت کچھ سوچنے اور شکر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لئے اگر کبھى بھى گھبراہٹ ىا پرىشانى ہو تو گھر سے باہرواک پر جاؤىا پارک مىں چہل قدمى کىا کرو ىا پھر کسى گارڈن سىنٹر کا چکر لگا لىا کرو طبعىت بہت بہتر ہو جاتى ہے، اللہ کى قدرت پر ہى غور کرنا انسان کو زندگى کا مثبت پہلو دکھانے اور ماىوسى سے بچانے کے لىے کافى ہے۔ اور واقعى اس بات مىں گہرى حکمت پوشىدہ ہے صرف سمجھنے کى بات ہے۔
ظہىر احمد اکثر بذلہ سنجى اور لطائف سے محفل کو زعفران زار بنا دىتااس کى معىت مىں بورىت کا سوال ہى پىدا نہىں ہو سکتا تھا دنىا کے ہر ٹاپک پر تبصرے، معلومات کا تبادلہ ہنسى مذاق، مہمان نوازى، احترام، محبت اور اىک ا ىسى مثبت انرجى کہ دل چاہتا تھا کہ اسکى محفل مىں وقت کبھى نہ گُزرے۔ ۔ اب وہ باتىں، وہ قصے خواب ہوئے، وہ محفلوں کا قصہ خواں ہنستا مسکراتا جنتوں کو سدھار گىا اور ہم ان ہى سنہرے دنوں کى قىمتى ڈور تھامے اسے اپنى ىادوں مىں پاتے ہىں۔
پچپن سے ہى ظہىر احمد صابر و شاکر وجود تھا جب ظہىر احمد پہلى کلاس مىں تھا تو اىک دن تفرىح کے دوران دوڑتے ہوئے کسى بچے کے پىچھے سے دھکا لگ کر گر جانے وجہ سے شدىد چوٹ آئى کہ بازو کى ہڈى برى طرح ٹوٹ گئى اسکوفورا کھارىاں چھاؤنى کے سى اىم اىچ اسپتال لے کر گئے اور فورا بہت لمبا کامىاب اپرىشن ہوا ڈاکٹروں نے بعد مىں بتاىا کہ ذرا بھى دىر ہو جاتى تو بازو کاٹنا پڑنا تھا خوش قسمتى سے بہت وقت پر پہنچ گئے اور اللہ تعالىٰ نے مکمل شفأ عطأ فرمائى اور بازو بالکل کسى بھى قسم کے باقى رہ جانے والے اثر کے بغىر نارمل ہو گئى سوائے صرف ٹانکوں کے نشان کے جو وقت کے ساتھ کچھ معدوم ہو گىا۔ امى جان بتاتى تھىں کہ اس قدر تکلىف کے باوجود ظہىر احمد کے منہ سے ذرا بھى ہائے ىا چىخ وغىرہ نہىں نکلى۔ آپرىشن کے بعد رىکورى کى تکلىف مىں امى جى کو کہنے لگا کہ اگر ناصرہ ہوتى تو لگ پتہ جانا تھا اس نے تو آسمان سر پر اٹھا لىنا تھا۔ مجھے اچھى طرح ىاد ہےکہ جب بھى اسے ملنے اسپتال جاتى تو مجھےکہتا کہ درد تو بہت ہوتا ہے مگر مىں زىادہ شکاىت نہىں کرتا اگر تم مىرى جگہ ہوتى تو دھائى ڈال دىتى۔ اللہ تعالىٰ کے خاص کرم نے اسے مکمل صحت عطأ فرمائى اور پھر خدا نے ىہ معجزے اس کى زندگى مىں بار بار دکھائے۔
جب ظہىر احمد دوسرى ىا تىسرى کلاس مىں تھا اس زمانے مىں چىچک کى وبأ کا بہت زور تھا اور حکومت کى جانب سے اسپتالوں کے علاوہ اسکولوں مىں بچوں کو وىکسىن لگانے کا کام شروع ہوا تو ظہىر احمد کو بھى وىکسىن لگ گئى اس کے اگلے دن ہلکا بخار اور جسم پر دا نے نمودار ہو نے لگے اور دىکھتے دىکھتے سارا جسم بھر گىا ڈاکٹروں کے مطابق وىکسىن کے رىکشن مىں چىچک کا مادہ ہى جسم پر دانوں کى صورت مىں نکل آىا تھا اس چھوٹے سے بچے نے اس قدر تکلىف اٹھائى کہ دىکھا نہ جاتا تھا مگر انتہائى صبر اور برداشت کے ساتھ کہ حىرانى ہوتى تھى۔ پھر اللہ تعاٰلى نے اس طرح مکمل شفا٫ عطا٫ فرمائى کہ ٹھىک ہونے پر دانوں کا نام نشان اس طرح غائب ہوا کہ کوئى کہہ نہىں سکتا تھا کہ اس بچے کو کبھى چىچک کا بھى حملہ ہوا تھا تمام جسم صاف و شفاف ہوگىا کہ ڈاکٹر بھى حىران رہ گئے۔
ظہىر احمد کى زندگى مىں بىمارى کا اىک اور بڑا دور عىن جوانى مىں پىنتالىس سال کى عمر مىں آىا۔ اىک بظاہر روٹىن کے عمل (اىنجىوپلاسٹى) (Angioplasty) کرتے ہوئےدل کى نازک شرىان پھٹ گئى اور انتہائى تشوىشناک حالت مىں بائى پاس کرنا پڑاجو کامىاب تو ہوا مگر حالت بدستور تشوىشناک تھى اور رىکورى بہت ہى آہستہ تھى اس سارے عمل مىں دل کى حالت انتہائى نازک ہو گئى تھى لىکن اللہ تعالىٰ نے بہت فضل کے ساتھ انتہائى ماىوس کن حالت سے صحت کى طرف لوٹاىا۔ اسکے بعد کے تىرہ سال مىں اىسے نشىب و فراز آئے کہ جہاں ڈاکڑوں کى امىدىں ختم ہو جاتى تھىں وہاں سے معجزات کا دور شروع ہو جاتا اور اىک وقت آىا کہ ڈاکڑوں نے دل اور پھپھڑوں (Heart and Lungs) کے ٹرانسپلانٹ کى لسٹ مىں ڈال دىا جسکى بارى آنے کى اىک لمبى لائن ہو تى ہے۔ اور بارى آنے کے انتظار کے درمىانى عرصہ کے لىے مکىنىکل دل لگانے کى تجوىزدى جو بىٹرىوں سے چلتا ہے اور بىٹرىوں کا بىگ کندھے پر ہمہ وقت اٹھانا اورکچھ وقفے سے چارج بھى کرنا پڑتا ہے۔ ىہ بھى اىک پچىدہ اپرىشن کے ساتھ لگاىا گىا۔ بہت ہمت سے ظہىر احمد سارے مشکل ترىن مراحل سے گزرا کوئى ماىوسى اور گھبراہٹ کا شائبہ تک چہرے پر نہ آنے دىا۔ بلکہ ہم سب کى گھبراہٹ کو تسلىوں سے دور کرتا تھا۔ مکىنىکل دل کے ساتھ ظہىر احمد نے اپنے شافى و کافى خدا کى دى ہوئى ہمت سے چلتے پھرتے دو سال گزارے۔ جب مکىنىکل ہارٹ کى مدت ختم ہونے والى تھى تو معجزانہ طور پر اللہ تعالىٰ نے ٹرانسپلانٹ کا انتظام کر دىا۔ ىہ اىک بہت پچىدہ لمبا اور خطرات سے پُر آپرىشن تھا۔ گھبراہٹ اور خوف نے ہم سب کو جکڑا ہوا تھا زبانىں خاموش مگر دل رب کے حضور دعاؤں اور التجاوں مىں اسکے رحم اور فضل کے امىد وار تھے۔ اسپتال مىں ہم نے ظہىر احمد کو کمال حوصلہ، توکل اور امىد بھرى مسکراہٹ کے ساتھ آپرىشن تھىٹرکى طرف روانہ ہوتے دىکھا۔ ہمارى پىارى امى جان محترمہ مبارکہ بىگم صاحبہ پىارے بىٹے کے لىے دعاوں مىں دن اور رات مصروف رب کے حضور التجائىں کرتے ہوئے اچانک طبىعت کى خرابى سے اىک دوسرے اسپتال پہنچ گئىں اور دو دن بعد جس دن ظہىر احمد کا ٹرانسپلانٹ ہوا اس دن اس خبر کو سننے کے بعد کہ ظہىر کا آپرىشن کامىاب ہو گىا ہے اور حالت نازک ہے ،امى جان اچانک اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئىں۔ امى جان کے ڈاکڑوں کو ىہ ہى سمجھ نہ آئى کہ کىا ہوا ہے کىونکہ ٹىسٹ سارے ٹھىک تھے اور باتىں بھى کر رہى تھىں اىسے لگتا تھا کہ اىک بے چىن ماں کا دل اپنے جوان بىٹے کى لمبى بىمارى اور خظرات سے پر تکلىف دہ آپرىشنوں سے گزرتے ہوئے دىکھتے برداشت نہ کر سکا۔
ہم سب خاندان والوں کے لئے وہ وقت اىک امتحان سے کم نہ تھا اِدھر اىک اسپتال مىں پىارا بھائى ظہىر احمد اپرىشن کے بعد موت و زندگى کى جنگ لڑ رہا ہے اُدھر ہمارى پىارى شبانہ روز دعائىں کرنے والى ماں ہم سب کا ساتھ چھوڑ کر اس دنىا سے چلى گئى۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَىۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔
وہى خدا ہے جو سہارا ہے جو زخموں پر پھاہے رکھتا اور غموں کوخوشىوں مىں بدلتا ہے۔ اسى کے حضور سر تسلىم خم ہے۔
ظہىر احمد کے ٹرانسپلانٹ کے بعد لمبى رىکورى کى الگ معجزات سے بھرى داستان ہے۔ بس رب رحىم و ودود کے انتہائى کرم سے ظہىر احمد نے زندگى کے مزىد نو سال بہت مثبت، فعال اور بھرپور گزارے، الحمداللّٰہ۔ ٹرانسپلانٹ کى کئى پچىدگىاں بعد کے سالوں مىں ہوجاتى ہىں جن کى وجہ سے آخر مىں کئى مسائل ہوگئے تھے اور پھر 20 مارچ 2018 ٫ کو اپنے رب کے حضور پچپن سال کى عمر مىں حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَىۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔
ظہىر احمد کو شخصىت کے حوالے سے اگر مىں دولفظوں مىں بىان کروں تو وہ ’’صبر اور برداشت‘‘ ہے ان دولفظوں کے گرد اس کى زندگى کى کہانى گھومتى ہے۔ ہمت، حوصلہ، برداشت، توکل، مثبت سوچ، اللہ کا شکر، عاجزى و انکسارى جىسے سب پھل صرف اور صرف صبر کے درخت پر ہى لگتے ہىں۔ ظہىر احمد نے صبر کے درخت کو تنے سے پکڑا ہوا تھا اور کبھى بھى مشکل سے مشکل وقت مىں بھى صبر کا دامن اس کے ہاتھ سےنہىں چھوٹتاتھا اسى لىے تمام امتحانوں سے گزرنے کے باوجود ان تمام پھلوں کو حاصل کرنے والا صابر اور شاکر وجود شکوہ شکاىت کا اىک لفظ منہ سے نہ نکالتا۔
اے مىرے پىارے رب! تو ہمارے پىارے بھائى ظہىر احمد کو اپنى رضا کى جنتوں مىں اعلىٰ سے اعلىٰ مقام سے نواز کہ اس نے اپنى زندگى مىں مقدر تکلىفوں پر بے انتہا صبر کے ساتھ تىرى رضا کو خوشى کے ساتھ قبول کىا ہے۔
اے رحىم و کرىم خدا! تو ظہىر احمد کے اہل خانہ، اس کى رفىقۂ حىات اور اس کے پىارے بچوں کا ولى اور نگہبان ہو جا، اور اپنے بچوں کے لىے ظہىر احمد کے دل کى خواہشات اور مستقبل کے خواب اور وہ دعائىں جو اپنى زندگى مىں اپنے بچوں کے لىے مانگتا تھا وہ سب ان کے حق مىں پورى فرما۔ آمىن
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ناصرہ احمد۔ کینیڈا)