اسلام کى آمد سے قبل دنىا کا ىہ حال تھا کہ ہر طرف دہشت اور بربرىت کے ڈىرے تھے۔ انسان اور وحشى مىں کوئى امتىاز باقى نہ رہا تھا۔ لوٹ مار، قتل و غارت گرى، بربرىت اور ظلم کا ہر سُو دوردورہ تھا۔ قومى اور قبائلى جھگڑوں کى وجہ سے بھى ظلم و تعدى کا بازار گرم ہوتا تو وسائل پر قبضہ جمانے کے گندے دھندے بھى ہوتے۔ انسانى وقار، عزت اور تکرىم کا کوئى تصور نہ تھا۔ جس کى تفصىل اگر بىان کرنے کى کوشش کى جائے تو شاىد ہزاروں صفحات اسى مىں صرف ہوجائىں۔ مختصر ىہ کہ خشکى ہوىاترى، عرب ہو ىا عجم ہرطرف بربرىت کاراج تھا۔
آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم کى بعثت کے ساتھ انسانى وقار اور حرمت کا اىک عظىم الشان تصور دنىا مىں آىا۔ اىک زبردست ضابطۂ اخلاق انسانوں کو عطا ہوا۔ اسى ضابطۂ اخلاق کو ’’اسلام‘‘ ىعنى سلامتى کا علمبردار کا نام دىا گىا۔ گوىا سلامتى کا تصور پىش کرنے اورسلامتى کى عملى تصوىر دنىا کے سامنے پىش کرنا اسلام کى بنىادى غرض ٹھہرى۔
انسانى جان کى عظمت کا قىام
جىسا کہ اجمالًا ذکر آچکا ہے کہ اسلام سے قبل انسانى جان کى کوئى قىمت نہ تھى۔ اور ادنىٰ ادنىٰ جھگڑوں پر خونرىزى کا طوفان برپا ہوجاىا کرتا تھا۔ آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم کى لائى ہوئى تعلىم ىہ تھى کہ
مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚۛؔ کَتَبۡنَا عَلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِىۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَىۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِى الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِىۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡىَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡىَا النَّاسَ جَمِىۡعًا ؕ
(المائدہ آىت: 33)
ىعنى اسى لئے ہم نے بنى اسرائىل کے لئے ىہ حکم جارى فرماىا کہ جو کوئى بھى کسى انسان کى جان بغىر کسى جان کے بدلے ىا زمىن مىں فساد کرنے کے (کسى بھى دىگر وجہ سے) لے گا تو (اس کا ىہ فعل اىسا تصور ہوگا کہ) گوىا اس نے سارى انسانىت کو قتل کردىا۔ اور جس نے بھى کسى انسانى جان کو بچاىا (اس کى حرمت کو قائم کىا) تو گوىا اس نے سارى انسانىت کو زندگى دى ہے۔
کىسا عظىم الشان تصور ہے۔ کس طرح عظىم الشان طرىق سے انسانى جان کے تحفظ کى تعلىم دى گئى ہے کہ قتل کرنے والا ىہ نہ سوچے کہ وہ کسى اىک فرد کو قتل کررہا ہے۔ بےجا کسى اىک فرد کا قتل قاتل کے اوپر سارى انسانىت کے قتل کى فردِ جرم عائد کررہا ہے۔ اسى طرح اگر کوئى کسى کى جان بچاتا ہے تو وہ بھى کسى فرد کو نہىں بلکہ تصور ىہ ہے کہ اس نے سارى انسانىت کى جانىں بچالى ہىں۔
فساد سے اجتناب کى تعلىم
اللہ تعالىٰ نے ہمارے سىدومولىٰ حضرت محمد مصطفىٰ صلى اللہ علىہ وسلم کے ذرىعہ انسانوں کو تعلىم عطا فرماتے ہوئے ہر قسم کے جارحانہ عمل اور وحشىانہ کردار سے روکا ہے۔ اس وحشت کو فساد کا نام دے کر اس سے اجتناب کا حکم دىا ہے۔
فرماىا:
وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا
(الاعراف آىت نمبر57)
ىعنى تم اصلاحِ حال، ىا اصلاح ىافتہ (ماحول مىں) زمىن مىں فسادمت کىا کرو۔
مزىد فرماىا:
اِنَّ اللّٰہَ لَا ىُحِبُّ الۡمُفۡسِدِىۡنَ
(القصص آىت 78)
اللہ تعالىٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہىں کرتا۔
قرآن کرىم مىں اللہ تعالىٰ کے اس حکم کو جابجا دہراىا گىا ہے جس سے اس کى اہمىت کا بخوبى پتہ چل جاتا ہے۔
آنحضور ﷺ کا ظلم سے ممانعت کا حکم
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا:
اِتَّقُوالظُّلْمَ فَاِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ ىَوْمَ الْقِىَامَةِ۔
(مسلم کتاب البروالصلہ والادب باب تحرىم الظلم)
ىعنى ظلم سے بچو کىونکہ ظلم قىامت کے دِن ظلمات بن جائے گا۔ مراد ىہ ہے کہ ظلم کے باعث تمہارے نىک کاموں کا نور جاتا رہے گا اور تمہارے لئے اندھىرا ہى اندھىرا ہوجائے گا۔
آنحضور ﷺ کى اىک اور حدىث ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرماىا کہ مسلمان مسلمان کا بھائى ہے۔ چاہئے کہ وہ اس پر ظلم نہ کرے اور نہ اس کو بے ىارومددگار چھوڑے۔
(بخارى کتاب المظالم باب لا ىظلم المسلم المسلم ولا ىسلمہ)
حدىث قدسى
اىک حدىث قدسى ہے:
يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ حَرَامًا فَلَا تَظَالَمُوا۔
(مسلم کتاب البروالصلة والادب باب تحرىم الظلم)
اے مىرے بندو! مىں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلىا ہے اور تمہارے درمىان بھى ظلم کو حرام کىا ہے لہٰذاتم آپس مىں اىک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
ىہ الفاظ اللہ تعالىٰ کے ہىں۔ اپنے بندوں کو اپنى مثال دے کر سمجھا رہاہے کہ چونکہ مىں نے خود اپنے اوپر ظلم کوحرام کرلىا ہے اس لئے تم بھى مىرے بندے ہوتے ہوئے ظلم سے بچو۔ اور اىک دوسرے کو اپنے ظلم کا نشانہ نہ بناؤ۔
مفلس کون؟
رسول کرىم ﷺ نے اىک مرتبہ صحابہ کرام رضى اللہ عنہم سے درىافت فرماىا کہ مفلس کسے کہتے ہىں؟ انہوں نے عرض کىا کہ ہم مىں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نقد وجنس نہ ہو۔ (ىعنى نہ پىسے ہوں اور نہ ہى اناج، غلہ وغىرہ)
آپؐ نے فرماىا مىرى امت مىں دراصل مفلس وہ شخص ہے جو قىامت کے دن نماز روزہ اور زکوٰة (کى ادائىگى) کرکے آئے گا اور اىسى حالت مىں حاضر ہوگا کہ کسى کو دنىا مىں گالى دى ہوگى، کسى پر تہمت لگائى ہوگى، کسى کا مال ہضم کرلىا ہوگا، کسى کى خونرىزى کى ہوگى ىا کسى کو ناحق مارا پىٹا ہوگا۔تو اىک شخص کو (جس کو اس نے گالى دى تھى) اس کى نىکىاں دى جائىں گى۔ اور دوسرے کو (جس کو اس نے مارا تھا) باقى تمام نىکىاں دے دى جائىں گى۔ پھر اگر اس کے مظالم کے ختم ہونے سے پہلے اس کى نىکىاں ختم ہوجائىں گى،تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس پر ڈال دئىے جائىں گے۔ آخر کار ىہ شخص دوزخ مىں جھونک دىا جائے گا۔
(صحىح مسلم کتاب البروالصلہ والادب باب تحرىم الظلم)
حضور اکرم ﷺ کى طرف سے زبردست تنبىہ
حضرت ابوہرىرہؓ کہتے ہىں کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا کہ جس نے اپنے بھائى کى آبرورىزى کى ىا کسى پر ظلم کىا تو اسے چاہئے کہ آج ہى اس سے پاک ہوجائے، اس دن سے پہلے کہ اس کے پاس دىنے کو نہ دىنار ہوگا اور نہ درہم۔ ظلم کا بدلہ ظلم کے برابر مظلوم کو ظالم کى نىکىوں سے دلواىا جائے گا اور اگر نىکىاں نہ ہوں گى تو مظلوم کى بدىاں ظالم پر لاد دى جائىں گى۔
فرماىا خدا ظلم کو مہلت (تو) دىتا ہے (لىکن) جب اسے پکڑتا ہے پھر اسے چھوڑتا نہىں۔
(بخارى کتاب المظالم من کانت لہ مظلمة عندالرجل فحللھا لہ)
حضرت معاذؓ کو نصىحت
حضرت معاذ رضى اللہ عنہ کو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے ىمن کى طرف امىر بناکر بھىجا۔ اس ذمہ دارى کے لئے جاتے ہوئے آپؐ نے حضرت معاذؓ کو نصىحت فرمائى کہ مظلوم کى بددعا سے بچتے رہنا۔ کىونکہ مظلوم اور خدا کے درمىان کوئى پردہ نہىں۔
(بخارى کتاب المظالم باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم)
کىسى اعلىٰ نصىحت ہے اور کس قدر خوف کا مقام ہے ان لوگوں کے لئے جنہىں کسى نہ کسى رنگ مىں لوگوں کى نگرانى کا سربراہى کا موقعہ ملتا ہے۔ اىسے ذمہ داروں کو اس نصىحت کے پىشِ نظر خود بھى احتىاط کرنے کى ضرورت ہے کہ کسى بھى رنگ مىں ان کى طرف سے فرائض منصبى کى ادائىگى کے دوران کچھ اىسا نہ ہوجائے جو انہىں ظالم اور سامنے والے کو مظلوم بنادے اور پھر اس مظلوم کى آہ کے نتىجے مىں سب اکارت چلا جائے بلکہ اُلٹا خدا کے غضب کا باعث بن جائے۔
دوسرا پہلو ىہ ہے کہ اپنى زىرِ نگرانى افراد مىں احتىاط کے ساتھ ظالم اور مظلوم کے درمىان امتىاز کرتے ہوئے ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کو ظالم کے قہر سے بچانے کى کوشش کى جائے کىونکہ اگر اىک امىر ىا نگران اىسا نہىں کرے گا تو وہ ظلم کے ساتھ شرىکِ جرم بن جائے گا اور اس کى پاداش مىں مظلوم کى آہ کا بھى ظالم کے ساتھ شرىکِ حقدار بن جائے گا۔
ظالم اور مظلوم دونوں کى مدد کرو
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى مندرجہ بالا نصىحت کے پىشِ نظر ىہ سمجھنا بھى ضرورى ہے کہ خاص طورپر تو ىہ نصىحت امىر بنائے گئے لوگوں کے لئے ہى ہے۔ لىکن اس مىں اىک پہلو عموم کا بھى ہے کہ تمام لوگوں کو ہى اپنى اپنى ذات مىں اس نصىحت کو ىاد بھى رکھنا چاہئے اور اس پر عمل کو اپنى روزمرہ زندگى کے معاملات مىں حصہ بھى بنانا چاہئے۔
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے نصىحت فرمائى ۔کہ
انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ قَالَ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ
(بخارى کتاب الاکراہ باب ىمىن الرجل لصاحبہ)
ىعنى تم اپنے بھائى کى مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو ىا مظلوم ہو۔ اىک شخص نے عرض کى کہ ىارسول اللہ! اگر وہ مظلوم ہوتو مىں اس کى مدد کروں اور اگر وہ ظالم ہو تو کىسے مىں اس کى مدد کروں؟ آپؐ نے فرماىا تم اس کو ظلم کرنے سے روکو۔ ىہى اس کى مدد ہے۔
پس ثابت ہوا کہ وہ نصىحت جو حضرت معاذ ؓ کو فرمائى وہ صرف امراء تک محدود نہىں بلکہ تمام اہلِ اىمان کا مجموعى فرىضہ بھى ىہى ہے کہ وہ ناصرف خود ظلم سے اجتناب برتىں بلکہ اپنے ماحول مىں بھى ظلم کے خاتمے کے لئے عملى کوشش کرتے رہىں اور جوکوئى بھى ظالم بننے کى کوشش کرے ىا ظلم کررہا ہو۔حکمت اور فراست سے کام لىتے ہوئے اسے ظلم سے باز رکھنے کى کوشش کرىں۔
اىک اور تنبىہ
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے حدىث قدسى کا بىان فرماتے ہوئے فرماىا تھا کہ خدا کہتا ہے کہ مىں نے خود اپنے اوپر ظلم کو حرام قراردے دىا ہے اور انسانوں کو بھى اجتناب کا حکم دىا ہے۔
اىک اور حدىث مىں آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا ہے کہ نہ صرف تمہارے لئے ىہ تعلىم ہے کہ ظالم نہ بنو بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حکم ہے اور وہ ىہ کہ رحم کرو۔ رحم کى صفت کو شعار بناؤ۔ اىسا نہ کرنے پر آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے تنبىہ بھى فرمائى۔
حضرت جرىر بن عبداللہؓ کى رواىت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرماىا
لَا ىَرحَمُ اللَّهُ مَنْ لَا ىَرْحَمُ النَّاسَ
(صحىح بخارى حدىث نمبر 7376)
ىعنى جو شخص لوگوں پر رحم نہىں کرتا اللہ اُس پر رحم نہىں کرتا۔ ىہاں ىہ نکتہ بھى سمجھ مىں آتا ہے کہ ہم اپنى کسى کمزورى ىا گناہ پر اللہ تعالىٰ سے معافى مانگنے کے ساتھ ساتھ رحم کا بھى تقاضا کرتے اور اس سے رحم کى درخواست کرتے ہىں۔
اسى طرح ہمارا بھى ىہ کام ہونا چاہئے کہ ناصرف ظلم و زىادتى سے اجتناب کرىں بلکہ اللہ کے بندوں پر رحم بھى کرىں۔
غىر مسلموں پر بھى ظلم نہ کرو
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے صرف مسلم معاشرے مىں ہى باہم ظلم سے رکنے کا حکم نہىں دىا بلکہ اس حکم کا دائرہ سارى انسانىت تک وسىع فرماىا ہے۔ مسلم ىا غىر مسلم کى کوئى تخصىص نہىں فرمائى۔ اہلِ معاہدہ ىعنى ذمى اور غىرمسلموں پر ظلم کى بھى ممانعت کى ہے۔
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا جس نے کسى ذمى کو قتل کىا وہ جنت کى خوشبو سے بھى محروم رہے گا۔
(مسند احمد بن حنبل20464، ابن ماجہ کتاب الدىات 2686، نسائى باب القسامہ 4752)
حقىقى مسلمان کى پہچان
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى پىارى تعلىمات کى رو سے اىک حقىقى مسلمان کى پہچان ىہ ہے کہ اس سے کسى بھى دوسرے انسان کو خواہ وہ کوئى بھى کسى بھى قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ اور اس کا وجود سلامتى کى علامت بنا رہے۔
حضرت ابو ہرىرہؓ سے رواىت ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ
(سنن نسائى کتاب الاىمان وشرائعہ باب صفة المؤمن)
اصل مسلمان وہ ہے جس کى زبان اور ہاتھ سے دوسرے سب لوگ محفوظ رہىں اور اصل مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنى جان و مال کا کوئى خطرہ نہ ہو۔
آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم کے غلامِ کامل کى تعلىم
سىدنا حضرت مسىح موعود ؑ اپنى جماعت کے لئے تعلىم بىان کرتے ہوئے تحرىر فرماتے ہىں:۔
’’اور اُس (خدا تعالىٰ۔ناقل) کے بندوں پررحم کرواور ان پر زبان ىا ہاتھ ىاکسى تدبىر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کى بھلائى کىلئے کوشش کرتے رہو اور کسى پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسى کو گالى مت دو گو وہ گالى دىتا ہو غرىب اور حلىم اور نىک نىت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہىں جو حلم ظاہر کرتے ہىں مگر وہ اندر سے بھىڑىئے ہىں بہت ہىں جو اوپر سے صاف ہىں مگر اندر سے سانپ ہىں سو تم اس کى جناب مىں قبول نہىں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن اىک نہ ہو بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کى تحقىر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصىحت کرو نہ خود نمائى سے ان کى تذلىل اور امىر ہو کر غرىبوں کى خدمت کرو نہ خود پسندى سے اُن پر تکبر۔۔۔۔تم اپنى نفسانىت ہر اىک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمى ناراضگى جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کى طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانىت کى فربہى چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس مىں سے اىک فربہ انسان داخل نہىں ہو سکتا۔ کىا ہى بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہىں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلىں اور مىں نے بىان کىں تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضى ہو تو تم باہم اىسے اىک ہو جاؤ جىسے اىک پىٹ مىں سے دو بھائى۔تم مىں سے زىادہ بزرگ وہى ہے جو زىادہ اپنے بھائى کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہىں بخشتا سو اس کا مجھ مىں حصہ نہىں۔ خدا کى لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غىور ہے بدکار خدا کا قرب حاصل نہىں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہىں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہىں کر سکتا خائن اُس کا قرب حاصل نہىں کر سکتا۔۔۔ تم ماتحتوں پر اور اپنى بىوىوں پر اور اپنے غرىب بھائىوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھى رحم ہو۔‘‘
(کشتى نوح، روحانى خزائن جلد19 صفحہ13 تا 15)
(محمد لقمان)