16 نومبر عالمی یوم برداشت
صابرین کی عالمی درجہ بندی میں ہم کس مقام پر ہیں؟
صبر کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ میں قناعت، اکتفاء، نفس کو روکنا، توقف، تامل، جلدی کرنے سے گریز، روکنا، برداشت کرنا، ثابت قدم رہنا، حلم، بردباری، قرار، چین، سکون اطمینان، توکل اور بھروسہ وغیرہ شامل ہیں۔
مفردات امام راغب میں صبر کی ذیل میں لکھا ہے:
نفس کو اس چیز پر روکنا جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔
(مفردات امام راغب، حرف الصاد، صفحہ474)
لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے بھی صبر اپنے اندر ان تمام صفات کو سموئے ہوئے ہے جن کا کسی انسان میں موجود ہونا اسے مرصع اخلاق بنا دیتا ہے۔صبر کی عدم موجود گی میں فرد گویا آتش فشاں ہے جو پھٹ پڑنے کو تیار ہو۔
عدم برداشت اور مذہبی شدت پسندی جدید دور کی ایسی دلدل ہے جس میں باقی دنیا بالعموم اور پاکستان وہندوستان بالخصوص بڑی تیزی سے دھنستے چلے جارہے ہیں ۔اپنے عواقب کے لحاظ سے عدم برداشت نے ہر طبقہ کو پریشان کر رہا ہے۔صبر جہاں مذہبی تعلیمات کی اساس ہے وہیں سب سے زیادہ عدم برداشت مخصوص مذہبی طبقات کی طرف سے ہی دیکھنے میں آتی ہے ۔اس کی وجہ ظاہر و باہر ہے کہ مذہبی تعلیمات سے انحراف کیا جا رہا ہےجس کے بھیانک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برداشت رکھنے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی کی فہرت میں پہلے 20 ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے۔دوسری طرف زیادہ عدم برداشت کے حامل ممالک کی فہرست میں پہلے 20 میں ممالک میں مسلمان ممالک کی تعداد 7 ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار صبر و برداشت کی تلقین فرماتا ہے۔ فرماتا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال) وہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ صبر کرنے والوں کو اچھا اجر ملے گا۔ (النحل) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔ (الزمر) صبر کرنے والے رب کریم کی طرف سے درود و ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔ (البقرہ) صبر کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں۔ (آل عمران)
نیز اللہ تعالیٰ مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ
(آل عمران: 135)
(یعنی) وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
کسی ابتلاء کے وارد ہونے پر صبر اور نماز کے ساتھ مددمانگے کا حکم ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح فرما دیا کہ صبر عاجزی سے پیدا ہوتا ہے۔ تکبر اور رعونت عاجزی کی ضد ہیں عاجزی نا ہو تو صبر کا پیدا ہونا محال ہے۔ چنانچہ فرمایا:
وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ
(البقرہ: 46)
اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے۔
ہر انسان کی ذہنی استعداد ایک جیسی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر شخص متوازی طور پر معاملہ فہم ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اختلاف کا پیدا ہونا ناممکنات میں سے نہیں، لیکن اگر کسی کج بحث سے سامنا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے عباد الرحمٰن کو ان الفاظ میں تاکید کرتا ہے۔
وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا
(الفرقان: 64)
اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔
صبر و برداشت کی کیسی شاندار تعلیم ہے جس کی مثال دیگر مذاہب میں مفقود ہے۔ جس ہستی کی ناموس کی خاطر ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرنے اور مخالف کی گردن اڑادینے کے درپے رہتے ہیں اس رحمت عالم کے اپنے شب و روز مجسم اخلاق قرآن تھے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے۔‘‘
(صحیح مسلم)
آپ ﷺ نے اپنی امت کو صبر کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ اس ضمن میں متعدد روایات کے مطابق آپ ﷺ نے صبر کو نصف ایمان قرار دیا۔ صبر کو ہر بھلائی کی کنجی کہا۔ فرمایا صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ اور صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔
صبر کی اس فقید المثال تعلیم کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو آج کے اس دور میں صبر و برداشت کی اس تعلیم پر عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ بر صغیر میں پائی جانے والی عدم برداشت کی متعددوجوہات ہیں۔
تعلیمی نصاب نرگسیت کا شکار ہے اور شاندار ماضی جہاد بالسیف کے گرد ہی گھومتا نظر آتا ہے۔ بیرونی حملہ آور غاصبوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو وہیں موجودہ دور میں خود کو ایک ایسی مظلوم ملت کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جس کے مصائب و آلام میں گھرے ہونے کی واحد وجہ ترک جہاد بتائی جاتی ہے۔ایک بچہ بچن سے اپنے تعلیمی نصاب میں پڑھ رہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں پوری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ فلاں فلاں خطہ میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔اس مسلسل ذہن سازی کے نتائج ہم آئے روز ٹی وی پر دیکھ، سن اور بھگت رہے ہیں۔
بچپن سے یہ سب کچھ پڑھنے والا بچہ اب جوان ہو چکا ہے، اس نے خبر سنی ہے کہ فلاں شخص توہین کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ جوان ہاتھ میں ڈنڈا لیتا ہے، احتجاج کرتا ہے، سڑکیں بند کرکے اپنے ہی لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کرتا ہے اور اپنے جیسے ہی کسی بھائی بند کی دکان، مکان ،گاڑی کو آگ لگا دیتا ہے اور سمجھتا ہے یوں دنیا گھنٹوں پر آ جائے گی۔ پچھلے کچھ عرصہ میں ہم اس قسم کی کئی مثالیں دیکھ چکے ہیں۔
پھر میڈیا کا کردار بہت اہم ہے جس میں سوشل میڈیا بھی شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔سنسنی خیزی،انداز و بیان میں ہیجان، جہاں سب سے پہلے نیوز بریک کرنے میں ایک چینل دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں نظر آتاہے۔ تو وہیں سوشل میڈیا پر بیٹھا کی بورڈ مجاہد بھی بغیر تصدیق کے خبر کو ثواب سمجھ کر آگے سے آگے پھیلا رہا ہے۔
اختلاف مکالمہ کا حسن ہے مگر ہمارا معاشرہ اس سے بھی بالکل بے بہرہ ہوتا جارہا ہے۔ آپ کسی بھی نیوز چینل کا ٹاک شو اٹھا کر دیکھ لیں۔ فیس بک ٹوئیٹر پر ہونے والے مذہبی و سیاسی مباحث دیکھ لیں، صحت مند مکالمہ کی فضاء نہ تو سیاست دانوں کے درمیان نظر آئے گی نا ہی مذہبی رہنماؤں کے بیچ اور نا ہی ان کے حامیان میں۔ اختلاف سیاسی ہو یا مذہبی ہر بندہ دلیل سے فرار ہو کر ذاتیات کو موضوع بحث بنا لیتا ہے،تضحیک کرتا ہے، تذلیل کرتا ہے، الزام تراشیاں کرکے مخالف کو دونوں شانے چت کرنے کے کی کوشش میں لگا ہے۔
بھانت بھانت کے فرقے اورکم و بیش ہر فرقہ مخالف فرقہ پر اسلام کے دائرے تنگ کرتا اور جنت کے دروازے بند کرتا نظر آتا ہے۔ حتی کہ مسلکی اختلاف پر مخالف کی گردن زنی کی باقاعدہ نہ صرف تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ایسا کرنے والے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔
گھٹن کے ایسے ماحول میں جہاں امن دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے امام وقت نے اسلامی تعلیمات کی روشنی جو حل بتایا ہے فی زمانہ بجز اس کے قیام امن کی کوئی اور صورت محال ہے۔
آپ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کی ہمیں یہی ہدایت ہے کہ ہم جاہلوں کی توہین اور تحقیر اور بدزبانیوں اور گالیوں سے اعراض کریں اور ان تدبیروں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں کہ کیونکر ہم بھی ان کو سزا دلاویں۔
(روحانی خزائن جلد13 صفحہ193)
ذرہ غور کر کے دیکھنا چاہئےکہ جو لوگ تمام گم گشتہ انسانوں کو رحم کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کے بڑے بڑے حوصلے چاہئیں۔ ان کی ہر ایک حرکت اور ہر ایک ارادہ صبر اور بُردباری کے رنگ سے رنگین ہونا چاہئے سو جو تعلیم خدا نے ہمیں قرآن شریف میں اس بارے میں دی ہے وہ نہایت صحیح اور اعلیٰ درجہ کی حکمتوں کو اپنے اندر رکھتی ہے جو ہمیں صبر سکھاتی ہے۔
(روحانی خزائن جلد13 صفحہ389)
ہم نے بارہا پادریوں کے مکر کا ذکر کیا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ دلوں پر اس کا کیا ا ثر ہو گا۔ پس یاد رکھو کہ ہمارا ان کلمات سے یہ مطلب نہیں کہ بدی کا بدلہ بدی کے ساتھ لیا جاوے بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کے ایذا پر صبر کریں اور بدی کا نیکی کے ساتھ معاوضہ دیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں صبر کے لئے حکم فرمایا ہے اور فرمایا کہ جب تم اہل کتاب سے دکھ دیئے جاؤ تو صبر کرو۔ پس جو شخص صبر نہ کرے اس کو ایمان سے بہرہ نہیں ہے۔ سو تم صبر کرو اور مقابلہ سے بچو۔ جب گالیاں سنو تو گا لی مت دو۔
(نجم الہدی، روحانی خزائن جلد14 صفحہ100)
جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کارؔ بند ہو رہے ہیں۔ یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں۔ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کرکے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اورصبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا۔ اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شرّ کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیرخوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تما م نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سیدو مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسااوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کوشکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی ؔ طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے۔ بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے۔
(روحانی خزائن جلد17 صفحہ10)
(مدثر ظفر)