• 20 جولائی, 2025

حضرت سردار مصباح الدین صاحب

حضرت سردار مصباح الدین صاحب
سابق مبلغ انگلستان

اىک بىٹے کے لئے اپنے باپ کى کامىابى نام اور مقام بہت معنى رکھتے ہىں۔ اسى طرح مىں سامى صاحب کو دىکھتى تھى کہ وہ اپنے والد صاحب سے کتنے مُتا ثر تھے۔ سامى صاحب کے ساتھ جتنى بھى مىں نے زندگى گزارى اُن کو اسلام، احمدىت،خلىفہ وقت اور جماعت کے ساتھ گندھا ہوا پاىا وہ خود بھى اپنى مثال آپ تھے۔ ہر جگہ دىن کى خدمت کى۔ کراچى، پشاور، لندن جہاں بھى رہے زندگى کے آخرى سانس تک خلافت کے ساىہ تلے جماعتى خدمات کرتے ہوئے خدا تعالىٰ کے حضور حاضر ہوئے الحمد للّٰہ۔ سامى صاحب اپنے والد صاحب کو اپنا آئىڈىل مانتے تھے۔ اُس کى چھوٹى سى مثال مىں دىتى ہوں کہ سامى صاحب نے ا مام مسجد لندن محترم عطاء المجىب راشد کے ساتھ ان کے آفس مىں بىٹھ کرقرىباً 14 سال کام کىا اور ہمىشہ اس بات پر خوشى کا اظہار کرتے کہ مىں جس دفتر مىں بىٹھتا ہوں وہاں مىرے سامنے اىک گروپ فوٹو لگا ہوا ہے جو لندن کا ہے۔ اس مىں خلىفہ ٔوقت کے ساتھ اباجى مرحوم بھى موجود ہىں۔ کہتے تھے جب اُس گروپ فوٹوکو دىکھتا ہوں تو کام کرنے کا جذبہ بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالىٰ دونوں باپ بىٹوں کے درجات بلند فر مائے اور اُن کى نىکىوں کو قبول فر مائے آ مىن۔

سامى صاحب مرحوم نے اپنے والد حضرت سردار مصباح الدىن مرحوم کى ’’سوانح حىات‘‘ لکھى تھى۔ زندگى نے اُن کو مہلت نہ دى کہ شائع کروا سکتے۔ ان کى تحرىرات مىرے پاس موجود ہیں کچھ حصہ مىں نے اپنى کتاب ’’مىرى پونجى‘‘ مىں شامل کىا تھا۔ اب کچھ حصہ اور پىش کرتى ہوں۔ اللہ تعالىٰ مجھے اور مىرى سارى نسلوں کو خلافت کى مضبوط ڈور سے باندھے رکھے اور ہم سب کو اپنى حفظ و امان میں رکھے۔ آ مین

 حضرت اباجى سردار مصباح الدىن غفر اللّٰہ، اکتوبر 1899ء کو پىدا ہوئے (حوالہ وصىت 12263) اباجى نے ابتدائى تعلىم اپنے گاؤں مىں حاصل کى۔ مزىد تعلىم حاصل کرنے کے لئے گاؤں مىں کوئى مدرسہ نہىں تھا لىکن تعلىم کا بہت شوق تھا، ىہى شوق اُ نہىں سىا لکوٹ شہر لے آىا۔ بچپن سے چونکہ نماز اور عبادت کى عادت تھى سىا لکوٹ آکر بھى اُنہىں کسى مسجد کى تلاش ہوئى اور ىہى تلاش اُنہىں کبوتروں والى مسجد مىں لے آئى۔ جہاں اس مسجد کے امام حضرت مولوى فىض الدىن ؓ سىالکوٹى تقوىٰ شعار اور مر نجان مرنج بزرگ تھے۔ ان کے آ باؤ اجداد بلاد عرب سے تھے۔ حافظ قرآن تھے عربى، فارسى اور حدىث پر بھى عبور رکھتے تھے۔ بہت شفىق انسان تھے۔ حضرت مولوى صاحب کى نظر اس نىک خصلت نووارد نوجوان پر پڑى تو اس کے اخلاص کو دىکھ کر اُس کى دىکھ بھال اور تر بىت کو اپنى نگرانى مىں لے لىا۔ اس طرح اُن کا ہمہ وقت حضرت مولوى صاحب کى صحبت مىں گزرنے لگا۔ جنہوں نے ان کى سعادت مندى اور دىنى شغف کو دىکھتے ہوئے اپنا شاگرد رشىد بنا لىا۔ اس طرح اللہ تعالىٰ نے اپنے فضل سے اىسا وسىلہ پىدا کر دىا کہ اُن کى صحبت مىں رہ کر جہاں دىنى اسباق سىکھنے لگے وہاں اُس کے ساتھ ساتھ روحانى فىض سمىٹنے کا موجب بن گئے کہ اُنہوں نے حضرت مولوى صاحب کى صحبت مىں رہ کر حضرت امام مہدى ؑ کے ظہور کى اطلاع پالى۔ اس طرح حضرت اباجى سردار صاحب سىدنا حضرت اقدس مىرزا غلام احمد قادىانى علىہ السلام کے دعوىٰ مامورىت پر اىمان لے آئے۔ جب آپ کو ىہ علم ہوا کہ حضرت اقدس امام مہدى ؑ نہ صرف ىہ کہ پانچ سال کا عرصہ سىالکوٹ مىں تشرىف فر مار ہے بلکہ بعد مىں بھى متعدد بار تشرىف لاتے رہے تو دل پر بے حد اثر ہوا کہ کاش مجھے بھى خبر ہوتى اس شہر مىں ہوتا اور حضرت اقدس امام مہدى ؑ کے روئے منور کو دىکھ پاتا۔ ىہ حسرت ان کے دل مىں ہمىشہ اىک خلش بن کر چبھتى رہى۔

دور خلافت اولىٰ اور وُرودِ قادىان

 حضرت مولوى فىض الدىن سىالکوٹى ؓ نے محترم اباجى کے دىنى جذبہ اور شوق کو دىکھتے ہوئے۔ اُ نہىں حضرت امام وقت مولانا نور الدىن ؓ خلىفہ المسىح الا وّل کى خدمت مىں بھجوانے کا پروگرام بناىا تا کہ وہاں جا کر وہ سلسلہ کے مفىد وجود بن سکىں۔ ىہ تجوىز محترم اباجى کے لئے بہت خوشى اور انبساط کا موجب ہوئى۔ چنانچہ وہ 1910ء کے لگ بھگ قادىان کے لئے روانہ ہو گئے ْ قادىان پہنچ کر حضرت خلىفۃ المسىح اوّل ؓ کى خدمت مىں حاضر ہوئے اور دستى بىعت کا شرف حاصل کىا۔

اُس وقت کے قادىان کے ماحول کے ذکر پر محتر م اباجى بتاىا کرتے تھے کہ سىد نا اقدس مسىح موعود علىہ السلام کى وفات کو ابھى چند سال ہى گزرے تھے، جب مىں قادىان پہنچا ىہاں آکر مجھے اىسے لگا جىسے کھانے کى مىز پر دستر خوان بچھا ہوا ہے اور مہمان بھى سبھى موجود اپنى اپنى نشست پر بىٹھے ہىں اور معزز مىزبان اىسے لگتا تھا کہ ابھى ابھى اُٹھ کر باہر گئے ہوں اور اُن کى نشست خالى ہے۔ آہ! بانى سلسلہ حضرت اقدس مسىح موعود علىہ السلام اگرچہ خودموجود نہىں تھے مگر آپؑ کے صحابہؓ کى موجودگى کى وجہ سے ان کى محفل کى رونق اور گہما گہمى مىں وہى ولولے، وہى جوش اور جذبے کار فرما نظر آتے تھے۔ اُن کى اپنى تحرىر کے مطابق، عمر شعور کو پہنچنے پر اىسا ماحول پاىا کہ احِىائے دىن کے چرچے سے فضابھرى ہوئى تھى۔انصار دىن خدمت دىن کے لئے زندگى وقف کىے ہوئے تھے اور والہانہ طور پر اس پر جان و دل لگائے ہوئے تھے۔ اس منظر سے متاثر ہو کر بے اختىار ىہى جذبہ اُبھرنے کے ساتھ ہى ىہ دُعا بھى کان مىں پڑ گئى اور اس انداز سے دل مىں اتر گئى کہ وفور شوقِ طلب سے ہر آن وردِ زبان ہو گئى۔

اَ للّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَّصَرَ دِىْنَ مُحَمَّدٍﷺ

قادىان پہنچنے پر حضرت خلىفۃ المسىح الاوّل ؓ نے ازراہِ شفقت تدرىس و تعلىم کے لئے تعلىم الاسلام ہائى اسکول مىں انتظام فر مادىا۔ اس طرح تعلىم کا سلسلہ شروع ہو گىا اور صحبت صالحىن بھى مىسر ہو گئى اور حضرت خلىفۃ المسىح الاوّل نور الدىن ؓ کى مجالس درس القرآن سے بھى فىض پانے لگے۔ اسکول مىں حضرت خلىفۃ المسىح ؓکے صاحبزادے مىاں عبد الحئى کے ہم مکتب ہوئے اور رفتہ رفتہ ىہ تعلق گہرى دوستى مىں بدل گىا۔ اسى ناطے حضرت خلىفہ اوّل ؓ کے گھر آنا جانا روز مرہ کا معمول بن گىا اور حضرت خلىفہ اول ؓ اور حضرت اماں جى ؓ کى شفقت کے اس قدر زىر ساىہ آ گئے کہ اُنہوں نے اُنہىں اپنے بىٹے کا شرف عطا فرماىا۔ کئى بار اُ نہىں اىسى سعادت بھى حاصل ہوئى کہ حضورؓ جب درس کے لئے مسجد اقصىٰ تشرىف لے جاتے تو قرآن پاک اُٹھا کر ساتھ چلتے۔ غرضىکہ حضرت خلىفۃ المسىح الاوّلؓ کى شفقت کى نظر تا حىات رہى جسے آپ کے بعد بھى آپ کى اولاد نے نبھاىا اور اس روحانى تعلق کو قائم رکھا۔ عجىب اتفاق تھا جب 1947ء مىں ہجرت قادىان کا وقت آىا تو خطرات کے پىش نظر اُ نہىں اپنے گھر واقع باوىاں سے نکل کر قادىان حضرت خلىفۃ المسىح الاوّل کے مکان مىں ہى منتقل ہونا پڑا جہاں سے پھر انہوں نے پاکستان کے لئے ہجرت فر مائى۔ ربوہ مىں بھى حضرت اماں جىؓ سے جب ملنے جاتے تو وہ اپنے بچے کى طرح شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھىرتى تھىں اور کچھ نقدى بھى ان کے ہاتھ پر رکھ دىتىں۔ حضرت اماں جى حرم حضرت خلىفۃ المسىح الاوّلؓ کى وفات ہوئى اور جنازہ گھر سے اُٹھاىا گىا تو اُن کى چار پائى کو اُن کے بىٹوں کے ساتھ اباجى حضرت سردار مصباح الدىن بھى کندھا دے کر باہر لائے۔

دورِ خلافت ثانِىہ

1914ء مىں جب حضرت خلىفة اوّلؓ کى وفات ہوئى تو حضرت سردار صاحب ابھى عہد طالب علمى مىں سے گزر رہے تھے اور اسکول کى ہائى کلاس تک پہنچے تھے۔ حضرت اباجى بىان فر ماتے ہىں کہ 1915 ء مىں حضرت خلىفة  المسىح الثانى ؓ نے خطبہ جمعہ مىں خدمت دىن کے لئے زندگى وقف کرنے کى تحرىک فر مائى۔اس پر اسکول کے کئى ساتھىوں نے تحرىک پر لبىک کہنے کى سعادت پائى۔ ىوں عہد شعور کى نکلى ہوئى وہ معصومانہ دعا جوذوق و شوق سے دل سے اُٹھى تھى بارگاہ اىزدى مىں قبولىت پا گئى اور کىا ہى خوش نصىبى تھى۔ جلد ہى اس جذبہ کے پورا ہو جانے کى خوشى بھى مىسر آ گئى۔ جىسے کام کرنے والى عمر کو پہنچا جماعت کے خادمىن ِدىن کے دستہ مىں شامل ہونے کى سعادت بھى پالى، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس تحرىک مىں نام تو کئى دوستوں نے پىش کئے تھے مگر جس دستے کو ضرورى تر بىت دے کر جلد کام پر لگانا مقصود تھا، وہ کوئى درجن کے قرىب تھے۔

حضرت خلىفة المسىح الثانى ؓ نے وقف زندگى کى اس پہلى تحرىک پر فورى لبىک کہنے والے طلباء کا انتخاب فرماىا اور ہمارى کلاس بنادى جس مىں ہمىں تعلىمى، تربىتى اور تبلىغى علوم دىنے شروع کر دئے۔ دو چار اسباق کے بعد حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ نے (خاکسار) سردار مصباح الدىن اور مولوى حکىم فضل الرحمٰن صاحب کو دوسرے طلباء سے مستثنىٰ کر کے فر ماىا کہ تم دونوں کو تو مىں جلدى ہى کام پر لگانا چاہتا ہوں، چنانچہ ہم دونوں کے لئے کچھ مزىد دىنى کورس تجوىز فر مائے اور اساتذہ مقرر فر مادىے۔ قرآن شرىف کے لئے مکرم مولوى رفىع الدىن صاحب، بخارى شرىف کے لئے حضرت مولوى غلام نبى صاحب مصرى، عربى صرف و نحو کے لئے مکرم ارجمند خان صاحب، بىاض نورالدىن مکرم مولوى حکىم غلام محمد صاحب (جانشىن طب نور الدىن)، مىزان الطب حضرت مولوى عبىداللہ صاحب بسمل،معلومات عىسائى مذہب مکرم شىخ عبد الخالق صاحب، ڈسپىنسنگ مکرم حشمت اللہ خان صاحب (نور ہسپتال)۔

 ىہ کورس زىادہ وقت کا متقاضى نہ تھا۔ مناسب حد تک جب کورس عبور ہو چکا تو حالات کے تقاضوں سے باہر بھىجنے کے فىصلہ ہونے تک چار سال لگ گئے۔ آخر وہ وقت بھى آ گىا جبکہ ہم مىں سے اىک با ہمت سپاہى حضرت حکىم فضل الرحمن صاحب قرآن کے دلائل علمىہ اور تاثرات روحانىہ کے ہتھىار پہن کر 1922ء کو عازم گولڈ کوسٹ ہو کر فتح افرىقہ کے لئے گھر سے نکل پڑے۔ قادىان سے روانگى بہت سادہ اور خاموش سى تھى۔ قلعى گر مکرم على گوہر صاحب کے تانگہ پر سوار ہو کر ىہ خاکسار سردار مصباح الدىن اور مکرم ماسٹر حسن محمد صاحب تاج اپنے مجاہد بھائى کو چھوڑنے کے لئے بٹالہ تک ہمراہ گئے۔ وہاں سے اُنہوں نے تھرڈ کلاس مىں بمبئى تک سفر کىا جہاں سے کسى معروف سوارى کے جہاز مىں نہىں بلکہ چھ سات ہزار ٹن کے کار گو بوٹ (مال بردار جہاز) پر بحرى سفر کىا۔ راستہ مىں جب جہاز مصر پہنچاتو وہاں شىخ محمود احمد عرفانى صاحب سے جا ملے جو لوائے احمدىت لہرانے کےلىے مصر پہنچ چکے تھے۔ مکرم حکىم فضل الرحمن صاحب 27 جولائى 1922ء کو گولڈ کوسٹ پہنچے جہاں ان دِنوں حضرت عبد الرحىم نىر صاحب کام کر رہے تھے اور وہاں پر اىک مبلغ کى ضرورت تھى۔

حضرت سردار مصباح الدىن صاحب
کى انگلستان کےلئے روانگى

والد بزرگوار سردار مصباح الدىن صاحب کا نام ان کے والدىن نے چراغ دىن رکھا تھا۔ اس نام کے متعلق مکرم نسىم سىفى صاحب الفضل 7 نومبر 1994ء کى اشاعت مىں لکھتے ہىں کہ حضرت خلىفۃ المسىح الثانى ؓ کو جب اُ نہىں انگلستان بھجوانا مقصود تھا تو ان کا نام بدل کر مصباح الدىن رکھ دىا۔ معنى کے لحاظ سے دونوں کا اىک ہى مطلب بنتا ہے، اس طرح حضرت خلىفتہ المسىح الثانى ؓ نے چراغ دىن کو مصباح الدىن بنا کر ان کے نام مىں اىک انقلاب بر پا کر دىا۔ اسى طرح جب اىک اور شخص آئے جن کا نام رحىم بخش تھا لىکن جب انگلستان بھجوانا مقصود تھا انکا نام رحىم بخش سے عبد الرحىم رکھ دىا جو درد کے نام سے مشہور ہوئے اور سلسلہ کى عظىم خدمات کى وجہ سے بہت عزت پائى۔

 14 اگست1922ء کو حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ نے مکرم سردار مصباح الدىن صاحب کو لندن مشن مىں کام کرنے کىلئے قادىان سے روانہ فر ماىا۔ (’’شىخ‘‘) سردار مصباح الدىن صاحب لندن مىں تجارتى صىغہ مىں کام کرنے کے لئے روانہ ہوگئے، اخبار الفضل قادىان دارالامان۔ 14۔ اگست 1922ء) ان دنوں لندن مىں مکرم مولوى مبارک على صاحب بنگالى امام مسجد اور مبلغ انچارج کام کر رہے تھے۔ حضرت خلىفۃ ا لمسىح الثانىؓ کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تعىناتى آرڈر لے کر لندن پہنچے اس آرڈر مىں مبارک على صاحب کے لئے جرمنى جانے کا ارشاد شامل تھا۔ پس خدمت دىن کے لئے ىہ اُن کى پہلى تعىناتى تھى جس کے تحت وہ لندن مشن کے انچارج ہوئے۔

(تارىخ مسجد فضل لندن مرتبہ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعىل  مطبوعہ دسمبر1927ء بمقام قادىان)

 مىں انگلستان کے ابتدائى مبلغىن کے ناموں کى فہرست مىں مکرم سردار صاحب کا نام چھٹے نمبر پر ہے۔حضرت فتح محمد صاحب سىال ؓ اس دوران انگلستان دوبارہ تشرىف لائے جس کى شائع شدہ تفصىل درج ذىل ہے۔

1۔ چوہدرى فتح محمد صاحب اىم اے۔ 2۔ قاضى عبداللہ صاحب بى اے بى ٹى۔ 3۔ مفتى محمد صادق صاحب۔4۔ چوہدرى فتح محمد صاحب اىم اے۔

5۔ مولوى مبارک على صاحب بى اے بى ٹى۔ 6۔ مصباح الدىن صاحب۔7۔ مولوى عبدالرحىم نىر صاحب۔ 8۔ مولوى محمد دىن صاحب بى اے۔ 9۔ مولوى عبد الرحىم صاحب درد اىم اے۔ 10 ملک غلام فرىد صاحب اىم اے۔

لندن مىں تبلىغى مساعى

محترم اباجى سردار مصباح الدىن صاحب اىک جگہ لکھتے ہىں کہ:۔ مبلغىن کرام اس سے پہلے جو اقدام عمل مىں لا چکے تھے ان کو ہى آگے بڑھاىا گىا۔ متعارف افراد سے مزىد رابطہ کے لئے مشن ہاؤس مىں ہفتہ وار اجلاس کا سلسلہ جارى تھا۔ اسوقت جماعت کا لٹرىچر بھى اسقدر موجود نہ تھا اس لئے ىہى اجلاس دعوت پہنچانے کا بہترىن ذرىعہ تھے۔ دوسرى صورت ذاتى طور پر مل کر دعوت کا ذکر کىا جاتا تھا۔ ہائڈ پارک مىں تبلىغى کوششوں کو جارى رکھا گىا۔ اس کے علاوہ بھى دعوت پہنچانے کے مواقع کے حصول کى طرف دھىان لگا رہتا۔ پس اىسا ہى اىک سنہر ى موقع مىسر آ گىا جبکہ اُردن کے شاہ عبداللہ پاشا لندن تشرىف لائے۔ اخبار مىں ىہ خبر پڑھ کر ان سے ملاقات کى خواہش کا اظہار کىا، تو اُ نہوں نے بصد خوشى ملاقات کا وقت دے دىا۔ اس وقت اِس سر زمىن مىں مشن سے وابستہ ہم صرف پانچ فرد تھے۔۔ مکرم عزىز دىن صاحب سىالکوٹ کے تىار کردہ کھىلوں کے سامان کے مىنىجر تھے۔ دوسرے حضرت نواب محمد على صاحب ؓ کے صاحبزادے مىاں عبد الرحىم صاحب خالد (طالب علم) تىسرے مکرم سىٹھ عبداللہ الہ دىن صاحب سکندر آباد کے صاحبزادے على محمد عبداللہ (طالب علم) چو تھے راجہ محمد احمد جنجوعہ (طالب علم) سمىت ہم پانچ پر مشتمل وفد لے کر دعوت سلسلہ پہنچانے کے لئے اردن کے حکمران کے ہاں پہنچے۔ وہ والہانہ انداز سے ملے۔ اُسى وقت عربى مىں اىک تقرىر تىار کر لى۔ اس مىں حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى آمد اور آپ کى صداقت کے دلائل بىان تھے۔ مىاں عبد الرحىم خالد صاحب چونکہ وفد مىں تھے اس لئے خصوصىت سے حضرت اقدسؓ کے نشان کا ذکر کىا جو اُن کے وجود سے متعلق تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! شاہ اُردن نے حضرت اقدسؓ کے ذکر سے روحانى اثر لىا اور اظہار ِخوشى کىا زبانى گفتگو مىں بھى جماعت کے خصوصى کوائف اور اس کے پىغام کى وسعت کا ذکر کىا۔ اس موقع پر حضرت اقدس مسىح موعود علىہ السلام کى کتب اعجاز احمدى اور الاستفتاء موجود تھىں جو اُن کى خدمت مىں پىش کردى گئىں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اس تقرىب مىں اىک عرب حکمران کو دعوت سلسلہ پہنچانے کى توفىق مل گئى۔

 کرنل ڈگلس کى درىافت

 محترم اباجى سردار صاحب تحرىر فرماتے ہىں کہ، لندن مىں رىٹائرڈ سول سروس کى اىک اىسوى اىشن جس کے ممبر ان کى ملن پارٹى ہوتى رہتى تھى۔ مکر م مولوى مبارک على صاحب مبلغ انگلستان بھى سىنئر سروس کے ارکان مىں سےتھے۔ اىک موقع پر اىسى ہى ملن پارٹى مىں مولوى مبارک على صاحب جس مىز پر بىٹھے تھے اُن کى ساتھ کى مىز پر دو رىٹائرڈسول سروس آفىسر بىٹھے ہوئے تھے۔ ان کى مىز مکرم مولوى صاحب کے اتنى قرىب تھى کہ ان کى بات چىت بخوبى سماعت مىں آ رہى تھى۔ اِن مىں سے اىک نے اس واقعہ کى تفصىل بىان کرنا شروع کى جس کا تعلق عىسائىوں کى طرف سے حضرت مسىح موعودؑ کے خلاف مقدمہ ٔ قتل سے تھا۔ مکرم مولوى صاحب پورى توجہ سے ان کى گفتگو سنتے رہے جس سے وہ اچھى طرح جان گئے کہ ىہ واقعہ بىان کرنے والے کون ہو سکتے ہىں۔ خورو نوش کا وقت ختم ہوا تو اُن سے پوچھا کہ کىا آپ کرنل ڈگلس ہىں؟ اُنہوں نے جواباً بتاىا کہ ہاں مَىں کرنل ڈگلس ہوں۔ اُس پر مکرم مولوى صاحب نے اپنا تعارف کراىا اور ان کا پتہ حاصل کىا لىکن ان سے رابطہ نہ کر سکے جبکہ ستمبر 1922ء کو لندن مشن کا چارج خاکسار (سردار مصباح الدىن) کو دے کر جر من مشن کا چارج لىنے کے لئے تشرىف لے گئے اور جاتے ہوئے نہ صرف ىہ قصہ سنا کر گئے بلکہ کرنل ڈگلس کا مکمل اىڈرىس بھى دے کر گئے۔ جىسے ہى مىں نے لندن مشن کا چارج سنبھالا کرنل ڈگلس سے رابطہ کى کوشش شروع کر دى جس مىں بفضلِ تعالىٰ کامىابى ہوئى اور کرنل ڈگلس نے مشن ہاؤس آنےکى دعوت بھى قبول فر مالى۔ ىہ پہلا موقعہ تھا کہ کرنل ڈگلس مشن ہاؤس تشرىف لائے اور لندن مشن سے متعارف ہوئے۔ ان دنوں ہمارا مشن ہاؤس اىک وِلا ہى تھا۔ ساتھ وسىع زمىن تھى اور اس مىں پھل دار درختوں کا باغ تھا۔مشن ہاؤس کے ڈرائنگ روم مىں بىٹھ کر چائے پى، پھر باغ مىں ٹہلنے کو نکلے اور ساتھ ساتھ پرانے واقعات کا جس رنگ مىں تذکرہ جارى تھا کہ وہ اس بات کى غمازى کر رہا تھا کہ ان کے دل پراىک خاص اثر تھا۔ جماعت احمدىہ کا برطانىہ پہنچنا اور تبلىغى مشن کا قىام، ىہ سارے استعجاب ان کے چہرے سے نماىاں طور پر ان کى کىفىت اور حىرت کا پتہ دے رہے تھے۔ کرنل ڈگلس ٹہلتے ٹہلتے اىک جگہ رک گئے اور مىرى طرف نظر اُٹھا کر بولے :

O, you people have reached here and have acquired a landed property?

O,it is simply an astonishing and wonderful thing that a person appeared in my court as an accused one, his followers in a short span of time, having crossed over oceans, have reached to convert Great Britain and Europe in Islam?

تر جمہ:۔ اوہ! آپ لوگ ىہاں پہنچ گئے ! اور عمار ت بھى حاصل کر لى! اىک آدمى جو مىرى عدالت مىں اىک ملزم کے طور پر پىش ہوا تھا، اس کے ماننے والے اتنے تھوڑے عرصہ مىں سمندروں کو چىرتے ہوئے گرىٹ برٹن اور ىورپ کو اسلام سے روشناس کروانے ىہاں تک آ گئے۔

 حضرت مسىح موعودؑ کى شبىہ مبارک اپنے تصور مىں لاتے ہوئے مجھ سے پھر مخاطب ہوا :۔

Listen moulaawi Sahib, from the first moment I saw his face, it has remained before my eyes At this moment when I am talking about him, I feel that he is as in person before my eyes .

ترجمہ :۔ سنو مولوى صاحب! جب سےمىں نے ان کا چہرہ دىکھا ہے ا ن کى تصوىر مىرى آ نکھوں کے سامنے رہتى ہے اب بھى جب کہ مىں آپ سے مخاطب ہوں محسوس ہوتا ہے کہ مىں انہىں بنفسِ نفىس اپنى آ نکھوں کے سامنے دىکھ رہا ہوں۔

پھر آگے حضرت اباجى سردار صاحب لکھتے ہىں کہ:
’’جب تک مَىں انگلستان رہا اُ نہوں نے مشن ہاؤس سے اپنے تعلق کو قائم رکھا۔ اس دوران دوبار مشن ہاؤس آئے اور خطاب بھى کىا۔ مىرے قادىان چلے جانے کے بعد مىرے ساتھ خط وکتابت بھى رکھى۔ اکثر اپنى بىمارى روماٹزم کا ذکر لکھتے رہتے اور ہندوستان سے حاذق طبىب سے دوائى کے لئے بھى لکھتے رہتے۔ ان کا مشن ہاؤس سے تعلق اسقدر پختہ ہوگىا تھا کہ بزرگ حضرت مولوى عبدالرحىم صاحب دردؔ۔ حضرت مولوى شىر على صاحب ؓ اور حضرت چودھرى سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ کے ساتھ بڑے قرابت کے تعلقات ہو گئے۔ حضرت مولوى شىر على ؓ صاحب کے ساتھ تو تصوىر بھى اتروائى۔ غرضکہ وہ ان بزرگوں کى محبت مىں پروئے جا چکے تھے اور حضرت اقدس مسىح موعودؑ کى صداقت ان کے دل مىں اُتر چکى تھى اور اچھل کر زبان پر بھى آ چکى تھى۔ مکرم چودھرى محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ اور مکرم عبد الرحىم صاحب درد کا بىان ہے کہ انہوں نے ہمارے سامنے آ نحضرتﷺ کى رسالت اور حضرت مسىح موعودؑ کى صداقت پر اىمان کا اظہار کردىا تھا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْہُ

(حضرت شىخ مبارک احمد صاحب رسالہ المصلح 28ستمبر 1953ء مىں بھى اىک مضمون شائع کر چکے ہىں کہ کرنل ڈگلس حضرت مسىح موعودؑ سے متاثر تھے)

اور اسى طرح حضرت مولانا جلال الدىن شمس صاحبؓ کے دور مىں کرنل ڈگلس متعدد مرتبہ مسجد لندن مىں تشرىف لائے اور جماعتى اجلاسات مىں تفصىلى تقارىر مىں حضرت مسىح موعودؑ کا واقعہ بىان فرماىا۔ ان مىں سے بعض کا تذکرہ خالداحمدىت مولانا جلال الدىن شمس صاحب ؓ کے حالات ِ زندگى۔ ’’حىات شمس‘‘ مىں بىان کىا گىا ہے۔

کرنل ڈگلس کے قبول اسلام کے تذکرہ مىں جو کچھ بىان ہوا ہے اس سے ظاہر ہے ان کے اس انجام کو پہنچنے مىں سراسر بارى تعالىٰ کا تصرف تھا کہ حضرت اقدس مسىح موعودؑ کا چہرہ مبارک دىکھتے ہى ىہ بات اُن کے دل مىں اُتر گئى کہ ىہ راستباز اور صادق کا چہرہ ہے۔ پھر ىہ بھى تصرف الہٰى ہوا جو اُنہىں اىک اىسى مجلس مىں لے گىا جہاں حضرت اقدس ؑ کے اىک غلام مکرم مولوى مبارک على صاحب کے قرىب بىٹھنے کا موقعہ مل گىا اور عاجز کو ىہ توفىق ملى کہ وہ اُ نہىں دارلامان پہنچانے کا موجب بن گىا۔ الحمد للّٰہ۔

ڈاکٹر سلىمان صاحب کا احمدىت قبول کرنا

ڈاکٹر سلىمان صاحب کاذکر کرتے ہوئے حضرت ابا جى سردار صاحب ىوں بىان کرتے ہىں کہ : ڈاکٹر صاحب کىپ ٹاؤن، جنوبى افرىقہ کے اىک مسلمان تاجر کے بىٹے تھے۔ مشہور لىڈر گاندھى جى کا ان سے اىک گو نہ ىگانگت کے درجہ کا تعلق تھا۔ گاندھى نے اپنے اس دوست کو مشورہ دىا کہ وہ اپنے نوزائىدہ بچے کو کم سنى مىں ہى لندن بھىج دىں تا کہ وہ کسى انگرىز گھر مىں انگرىز بچے کى طرح پرورش پائے۔ سوائے نسلاً اور شکلاًاِن مىں اور کسى انگرىز مىں کوئى فرق نہ تھا۔ تعلىم مىں مىڈىکل لائن اختىار کى اور ڈاکٹر کہلائے ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا شعور حاصل تھا کہ وہ اىک مسلمان گھر کے چشم و چراغ ہىں اس فطرى طلب کى تسکىن کے لئے وہ کسى مسلمان سے ملنے کا تردّد کر لىا کرتے تھے۔ اس سلسلہ مىں ممکن ہے کہ ان کا ووکنگ سے بھى رابطہ ہوا ہو لىکن جب مجھ سے تعلق پىدا ہوا تو اُ نہوں نےحضرت قاضى محمد عبداللہ صاحب ؓ سے اپنى ملاقات کا ذکر کىا اور بتاىا کہ ان کى نىک دلى کا اُن پر بہت اثر ہوا۔

 ىہاں مشن ہاؤس مىں ہفتہ وار اجلاس کا طرىق رائج تھا۔ اىسے مىں سلىمان صاحب بھى اىک روز اجلاس مىں آن شامل ہوئے۔ مىرا اپنا علم بھى اُس وقت محدود تھا انگرىزى زبان پر قدرت نہ ہونے کى وجہ سے بلا تکلف رواں نہ بول سکتا تھا مگر خدائى تصرف تھا اور روح کو روحانىت سے اىک فطرى مىلان تھا کہ وہ مىرى سادہ وضع اور سادہ بىانى سے اىسے متاثر ہوئے کہ تقرىر کے بعد مىرے پاس آئے اور اپنے نام سے متعارف کرواىا۔ ان کے انداز سے ان کى نىاز مندى اور ارادے اىسے جھلک رہے تھے جىسے اىک شاگرد اپنے استاد محترم سے ملنے پر ا ظہار کرتا ہے ىا جىسے اىک مرىد اپنے پىر سے عقىدت اور ارادات سے ملتا ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے اسى انداز سے ملے اور خواہش ظاہر کى کہ مىں انہىں اپنى شاگردى مىں لے لوں اور دىن اسلام کى عام تعلىم اور جماعت احمدىہ کى خصوصىات سے آ گاہى کى تعلىم دوں۔ چنانچہ وفور شوق مىں ىہ ان کا معمول ہو گىا کہ وہ کسى دن مىرے پاس مشن ہاؤس ٹھہرتے اور اپنے دل کى تسکىن کرتے رہتے۔ وقفہ وقفہ پر آنا اىک عادت بن گىا اور حضرت مسىح موعودؑ کى صداقت اىسے انداز سے دل مىں اتر گئى کہ نہ صرف ىہ خود احمدىت مىں داخل ہوئے بلکہ ان کى اىک بہن اور بہنوئى بھى جماعت مىں داخل ہو گئے اور تىنوں نے اکٹھے حج بھى کىا۔ اسى سال چوہدرى ابو الہاشم صاحب بنگالى بھى حج پر گئے ہوئے تھے۔انہوں نے ان سے ملاقات کا حال بتاىا کہ بہن اور بہنوئى کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا چھوٹا بھائى عمر سلىمان بھى جماعت مىں شامل ہو گىا ہے۔

 حضرت اباجى سردار صاحب لکھتے ہىں کہ:
’’عمر سلىمان لندن تعلىم کے لئے گئے تو اُس نے وہاں پہنچتے ہى مجھے اىک خط لکھا کہ مىں ىہ خط اس جذبہ سے سرشار ہو کر لکھ رہا ہوں کہ آپ کے ذرىعہ ہمارے گھر مىں احمدىت کا نور داخل ہوا۔ عمر سلىمان نے بھى ڈاکٹرى کى تعلىم حاصل کى اور اىک ڈچ عورت سے شادى کر لى اور مشن ہاؤس کے قرىب ہى رہائش اختىار کر لى۔ ان کى اہلىہ اس انداز کى دىندار تھىں کہ گوىا وہ کسى احمدى گھرانے کى صوم وصلوٰةکى پابند بى بى ہوں۔ وہ ربوہ بھى آئىں اور دو ماہ تک محترمہ فر خندہ شاہ اہلىہ محترم سىد محمود اللہ شاہ صاحب کے ہاں قىام کىا۔ ڈاکٹر عمر سلىمان کى وفات ہوئى تو اىک احمدى ڈاکٹر عبد الحمىد صاحب کى زوجىت مىں آ گئىں۔ ڈاکٹر سلىمان صاحب نے حج ادا کىا اور پھر قادىان بھى آئے۔ قادىان مىں مىرے علاوہ حضرت مولوى شىر على صاحب ؓسے نىاز مندى تھى جبکہ وہ لندن مىں اُن سے فىوض حاصل کرتے رہتے تھے۔ ان کے علاوہ مکرم سىد محمود اللہ شاہ صاحب ؓ سے بھى ان کى لندن سے ملاقات تھى اور رشتہ محبت قائم تھا۔ ڈاکٹر صاحب جتنے دن بھى قادىا ن رہے اس سر زمىن پر عاشقانہ فدائىت کے ساتھ وقت گزارا۔ ىوں بھى ڈاکٹر صاحب فدائىت کا اىک نمونہ تھے اور اس فدائىت مىں ہى سارى زندگى گزار دى۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ىہ عاجز اىک پورے کنبہ کے جماعت حضرت مسىح موعود ؑ مىں شامل ہونے کا ذرىعہ بن گىا‘‘

1922ء کا تارىخى سال

 حضرت اباجى سردار صاحب تحرىر فر ماتے ہىں کہ:۔
’’مىرے قىام لندن مىں سال 1922ء بڑااہم اور جماعت کے لئے اىک عظىم تارىخى واقعہ کے ظہور کا سال تھا۔ حضرت نىر صاحب ؓ اور خاکسار حسبِ توفىق تگ ودو اور جدوجہد کر رہے تھے کہ اس سال کے موسم خزاں مىں وىمبلے کانفرنس ہونے کاذکر چل نکلا۔ نمائش کے منتظمىن نے جہاں جسمانى ضرورىات اور دلچسپى کا سامان اس مىں مہىا کرنے کے پروگرام کا اہتمام کىا وہاں روحانى ضرورت کا بھى خىال کر کے اىک مذہبى کا نفرنس منعقد کرنے کا پروگرام بھى رکھا۔ مذہبى مرکز کے طور پر اس وقت ہمارا مشن تعارف مىں آ چکا تھا، اس لئے مذہبى پروگرام کے انچارج نے ہم سے بھى رابطہ کىا اور پروگرام مىں حصہ لىنے کى دعوت دى۔ جس وقت ىہ تجوىز ہمارے پاس پہنچى اس وقت مکرم ملک غلام فرىد صاحب جرمنى سے لندن آ چکے تھے۔ اسى طرح ان کے بھائى ملک نواب دىن صاحب قادىان سے تجارتى صىغہ مىں کام کے لئے آ چکے تھے۔ ىوں ہم اس وقت دو طالب علم ملا کر سات افراد ِجماعت تھے۔ مذہبى پروگرام پىش کرنے والوں کى اس تجوىز پر ہم نے اپنى بساط پر نظر ڈالى تو ىوں لگا کہ تصرف الٰہى کام کر رہى ہے۔ اس وقت حضرت نىر صاحب کے سامنے ىہى آىا کہ اسلام کى نمائندگى جىسے اہم موقع کے لئے خود ان سے ىا ان کے ساتھىوں سے کہىں بہتر حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ  کا وجود ہے اس لىے تجوىز ہوئى کانفرنس کے منتظمىن سے کہا جائے کہ وہ حضرت امام جماعت احمدىہ کو دعوت دىں۔ ىہ ہمارے دل کى آواز تھى اس کے بارے مىں ىہ بھى ضرورى سمجھا گىا کہ اپنے رفقاء سے مشورہ ہونا چاہئے۔ مشورہ لىا تو بعض کى رائے موافق نہ پائى گئى۔ اس تجوىز کے حق مىں چونکہ ہم دىوانگى کى حد تک قائم تھے اور ادھر تصرف الہٰى بھى کام کر رہا تھا اس لئے ہمارے رفقاءکى اکثرىت ہمارى مؤىد ہو گئى اس طرح فرزانگى مات کھا گئى۔ تارىخ بتلاتى ہے کہ بعض اوقات دىوانگى اىسے اىسے کارنامے سر انجام دىتى ہے کہ انسان حىرت مىں ڈوب جاتا ہے بالکل اىسا ہى کانفرنس کے موقع پر ظہور مىں آىا جس کے نتىجہ مىں حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ کى خدمت مىں دعوت بھىجنے کى تجوىز کا فىصلہ ہو گىا۔ ادھر مرکز نے بھى ىہاں سے معلومات حاصل کىں جس سے حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ  کى انگلستان آنے کى تفصىلات طے پا گئىں۔

 لندن مىں حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ  کا ورود مسعود

 مورخہ 22۔ اگست 1924ء کو جماعت احمدىہ کے اُولواالعزم خلىفہؓ نرالى شان سے اپنے بارہ حوارىوں کے ساتھ لندن تشرىف لائے جہاں ان کے استقبال کے لئے حضرت مولوى عبدالرحىم نىر مشنرى انچارج، حضرت چودھرى محمد ظفراللہ خان صاحبؓ خاکسار سردار مصباح الدىن، مکرم غلام فرىد صاحب اور 300 کے قرىب احباب وکٹورىہ اسٹىشن پر موجود تھے۔ حضورؓ کى آمد سے قبل پبلک اور پرىس مىں اس کا تذکرہ ہو چکا تھا۔ اس لئے جونہى آپ نے مسىحى شان سے اس ملک مىں قدم رکھا تو پرىس پہلے ہى منتظر تھى۔ آپؓ کى آمد پرىس کى خاص توجہ کا مرکز بنى۔ استقبال مىں کئى معزز شخصىات نے حصہ لىا پرىس کے مقامى اخبارات کے علاوہ ملک کى رواىات کے آئىنہ دار اخبار ٹائمز، ڈىلى ٹىلىگراف اور مارننگ پوسٹ نے بھى حضور کى آمد کى وجہ سے وسىع پىمانے پر پورے انگلستان مىں عوام کے سامنے ہمارے مشن کا تعارف کرواىا اور ان اخبارات کى بدولت دوسرے مغربى ممالک مىں بھى حضورؓ کى آمد کى خبر اور جماعت کا تعارف پہنچ گىا۔ خاص طور پر کانفرنس کے موقع پر حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ کے پڑھے گئے مضمون کى مقبولىت ہوئى۔ اس موقع کا آنکھوں دىکھا تبصرہ حضرت چودھر ى محمد ظفراللہ خان صاحب نے اپنى کتاب تحدىثِ نعمت مىں کىا ہے کہ کىا نظارہ تھا۔ اس کے علاوہ حضور ؓ کے قىام کے دوران جن افراد کو ملاقات کا موقع ملا ان پر حضور ؓ کى شان، مرتبہ اور مقام کا جو اثر ہوا وہ دىر تک قائم رہا۔‘‘

 ویمبلے کانفرنس کے موقع پر حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ کے ساتھ جو ىاد گار تصوىر اُتارى گئى تھى اس مىں حضرت سردار مصباح الدىن صاحب، حضور کى دائىں جانب حضرت بھائى عبدالرحمنؓ قادىانى اور حضرت حشمت اللہ خان صاحب ؓ کے درمىان کھڑے ہىں۔ تارىخ احمدىت جب مرتب کى جارہى تھى تو اس ىادگار گروپ کے ممبران کى نام بنام پہچان مىں محترم سردار صاحب نے مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد، مورخ احمدىت کى مدد فر مائى تھى۔

 مسجد فضل لندن کا سنگِ بنىاد

 محترم اباجى سردار صاحب مزىد تحرىر فر ماتے ہىں کہ:
حضرت خلىفۃ المسىح الثانى ؓ کا اس موقع پر لندن تشرىف لاکر ویمبلے کانفرنس مىں شرکت فرمانا اس لحاظ سے بھى بابرکت ثابت ہوا کہ اسى دوران حضورؓ کے مرکز سے آنے اور اپنے ہاتھ سے لندن مسجد کا سنگِ بنىاد رکھنے کا تارىخى واقعہ ظہور مىں آ گىا۔ اس تقرىب سے دوررَس اثرات مرتب ہوئے۔ بعض ممالک کے سفراء اور پبلک کے نامور مشاہىر شامل ہوئے اور پرىس مىں خوب تبصرہ ہؤا۔

’’مسجد فضل لندن کے قىام سے جو برکتىں حاصل ہوئىں وہ ىورپ اور دنىا کے دىگر ممالک مىں تعمىر ہونے والى مساجد کا محرک بھى ہوئىں مسجد فضل لندن کى تعمىر سے پہلے ہمارے کام کى صورت اىک پائنىر کى تھى تا ہم مسجد کى تعمىر سے مشن کى شہرت سطح زمىن سے اُچھل کر فضا مىں آ گئى اور دنىا مىں پھىل گئى اس طرح سارى دنىا سے ہمارے رابطہ ہوگئے۔ اس مشن کى ترقى موجودہ صورت کى وجہ سے لندن مشن جماعت احمدىہ کے لئے اىک اىسى مرکزى حىثىت اختىار کر چکا ہے جو دنىا بھر مىں اشاعت اسلام کے لئے اور حضرت اقدس مسىح موعود ؓ کى تبلىغ کے لئے مرکز بن چکا ہے۔ جبکہ حضرت خلىفتہ المسىح الرابع اىدہ اللہ تعالىٰ بھى ہجرت کر کے اسى جگہ قىام بخىر ہىں۔ىہ سب مسجد فضل لندن کى برکت ہے جس کىلئے 1924 ء مىں الٰہى تصرف سے اىک واقعہ رونما ہوا تھا جو جماعت کى آئندہ پىش آ نے والى اہم ضرورىات کے لئے تھا۔‘‘

حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ کى قادىان واپسى

 محترم ابا جى سردار صاحب تحرىر فر ماتے ہىں کہ:
’’مسجد فضل لندن کے سنگِ بنىاد کى بابرکت تقرىب، ویمبلے کانفرنس مىں تارىخى خطاب اور اپنے قىام کا تبلىغى مشن پورا کرنے کے بعد حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ نے واپسى کا پروگرام بنا لىا اور حضرت مولوى عبد الرحىم نىر صاحب ؓ اور (خاکسار سردار مصباح الدىن) کو اپنے ساتھ واپس وطن جانے کا ارشاد فرماىا۔ اس طرح سوا دو سال بطور مبلغ انگلستان خدمت کى سعادت پانے کے بعد حضور کا ہم سفر ہو کر قادىان واپس آ گىا‘‘۔

 حضرت بھائى عبد الرحمن قادىانى صاحب ؓ ’’اپنى کتاب سفر ىورپ1924ء مىں تحرىر فرماتے ہىں کہ:
’’از مقام پىرس: مورخہ 30 اکتوبر 1924ء بعد روانگى ڈاک‘‘

آج کى اذان مسجد پىرس مىں پہلى اذان اور آج کى نماز اس مسجدمىں پہلى نماز جو سىدنا محمود موعود نے کہلوائى اور پڑھائى۔ اذان کے معاً بعد دعائے اذان سے فارغ ہو کر حضور قبلہ رو محراب مسجدمىں کھڑے ہوئے۔ تکبىر اولىٰ کہى گئى اور نماز قائم ہوئى۔ حضور نے ىکے بعد دىگرے دونوں نمازىں جمع کرا کے پڑھائىں۔ خدام ذىل شرىک نماز تھے۔

1۔ عبدالرحمن قادىانى۔ 2۔ چودھرى محمد ظفراللہ خان صاحب۔ 3۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب۔ 4۔ چوہدرى على محمد صاحب۔5۔ مولوى عبد الرحىم صاحب۔6۔ ملک نواب دىن صاحب۔7َ۔ شىلدرک خالد صاحب۔8۔ مولوى سردار مصباح الدىن صاحب۔9۔ خلىفہ تقى الدىن صاحب۔ 10۔ حافظ روشن على صاحب۔ 11۔ شىخ ىعقوب على صاحب عرفانى۔ 12۔ ذوالفقار على خان صاحب۔13۔ حضرت مىاں شرىف احمد صاحب۔ 14۔ شىخ عبدالرحمن صاحب مصرى۔ 15۔ چوہدرى فتح محمد خان صاحب۔ 16 چوہدرى محمد شرىف صاحب۔ 17 مولوى عبدالرحىم صاحب نىر۔18۔ ملک ڈاکٹر محمد اسماعىل صاحب۔ ان سترہ بزرگوں اور خادم قادىانى نے سىدنا حضرت اقدس محمود اىدہ اللہ الودود امام و مقتدا کى اقتدا مىں ىہ دو نمازىں مسجد پىرس مىں ادا کىں۔‘‘

 (سفر ىورپ 1924ء صفحہ409)

 سامى صاحب تحرىر فرماتے ہىں کہ حضرت اباجى سردار صاحب کے قلم مىں بہت روانى تھى، زور تھا۔ تصوىر کشى تھى۔ انہوں نے زندگى بھر اپنے قلم سے بھر پور کام لىا۔ علمى،مضامىن بھى لکھے۔ قدم قدم پر جدائى کا داغ دىنے والے دوست احباب اور بزرگوں کى ىادوں اور ان کى شخصىت کے ہو بہو خاکے قرطاس پر کھىنچے اور جہاں تک ممکن ہوا انہىں الفضل کى زىنت بھى بناىا۔ اُن کے اولىن محسن اور احمدىت سے روشناس کروانے والے بزرگ حضرت حافظ محمد فىض الدىن صاحبؓ سىالکوٹى صحابى حضرت مسىح موعود ؑ کا خاندانى تعارف اور سىرت بھلا حضرت اباجى سردار صاحب سے زىادہ کون جان سکتا تھا۔ ڈاکٹر عبد الرحمن کامٹى صاحب نے حضرت اباجى سے خواہش کى کہ وہ حضرت حافظ صاحب کے حالات زندگى لکھ کر دىں۔ اُ نہوں نے لکھ کر اس عاجز (مرتب) کو بھجوائے۔ اس مسودہ کو ڈاکٹر کامٹى صاحب نے حضرت مولانا عبد المالک خان صاحب کے سپرد کر دىا جو حضرت اباجى کے شاگردوں مىں سے تھے تاکہ اسے مرتب کر کے چھپوا دىں چنانچہ انہوں نے اس سارے مواد کو مناسب رنگ مىں ڈھال کر ’’حىات فىض‘‘ کے نام سے شائع کر وادىا۔

حضرت خلىفۃ المسىح الثانى ؓ کا درس القرآن

 8اگست تا 8ستمبر 1928ء کے ىادگار اىام مىں حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ نے قرآنى علوم و معارف اور اسرار ونکات پر مشتمل مسجد اقصىٰ قادىان مىں سورة ىونس سے سورة کہف تک درس دىا۔ اس درس کو محفو ظ کرنے کے لئے حضور نے جن جىد علماء اور زود نوىسوں کى جماعت متعىن فر مائى اُن مىں حضرت سردار مصباح الدىن صاحب کا نام بھى شامل ہے۔

(بحوالہ اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ54 طبع اول)

 تعىناتى بطور اسسٹنٹ پرائىوىٹ سىکرٹرى

وقت پر پىدا ہونے والى ضرورىات کے مطابق سلسلہ کى مختلف ذمہ دارىاں ادا کر رہا تھا کہ مکرم صوفى عبدالکرىم صاحب پرائىوىٹ سىکرٹرى صاحب 17اکتوبر 1226ء سے فارغ ہو گئے تا کہ وہ تبلىغى فرائض کى سر انجام دہى کے لئے تىارى کرىں اور مکرم شىخ ىوسف على صاحب بى اے کو قائم مقام پرائىوىٹ سىکرٹرى مقرر کىا گىا اور سردار صاحب کو شىخ صاحب موصوف کى جگہ اسسٹنٹ پرائىوٹ سىکر ٹرى مقرر کىا گىا۔

(بحوالہ احمدىہ گزٹ قادىان مورخہ 26،اکتوبر 1926ء)

 ادھر حضرت خلىفتہ المسىح الثانى ؓ کے دفتر کى ضرورىات بڑھىں اور دفتر کا کام دو حصوں مىں بٹ گىا۔ دفتر اور حضور کا کام پرائىوىٹ سکرىٹرى کے پاس رہا اور جماعت کى آمدہ ڈاک کى تعمىل کا کام حضرت اباجى سردار صاحب لکھتے ہىں اس عاجز کے سپرد ہوا۔

 اسى سال اگست مىں حضور ڈلہوزى کے سفر پر تشرىف لے گئے۔ حضرت ام المومنىن ؓبھى ہمراہ تھىں۔ اس سفر مىں عاجز کو بھى قافلہ مىں شمولىت کا شرف حاصل ہوا۔ سردار صاحب لکھتے ہىں۔
’’اىک روز دفتر سے سىر کے لئے چھٹى ملى۔ اس قافلہ کے ہم دو افراد خوبصورت پہاڑوں کى سىر کو نکل کھڑے ہوئے اور چلتے چلتے دور نکل گئے کہ واپسى کا راستہ بھول گئے۔ پہاڑوں جنگلوں مىں اىسے گُم ہوئے کہ دن ڈھل گىا مگر ہمىں قىام گاہ کا راستہ نہ ملا۔ بھٹکتے بھٹکتے دور سے اىک چھوٹى سى بستى پر نظر پڑى جہاں سے اپنے راستہ کى راہنمائى حاصل کى اس طرح صبح کے بھولے شام ڈھلے اپنى قىام گاہ پر پہنچے۔ اس دوران حضور بہت پرىشان رہے اور اِدھر اُدھر تلاش کے لئے خدام کو دوڑاىا۔ حضرت ام المومنىن ؓ کا بھى فکر کے مارے بُرا حال تھا بار بار پوچھتىں تھىں کہ کچھ پتہ چلا۔ قىام گاہ پہنچتے ہى ہم نے فوراً حضرت ام المومنىن ؓ کى خدمت مىں اطلاع دى تو آپ کمال شفقت سے پىش آ ئىں اللہ تعالىٰ کا شکر بجا لائىں اور اپنى فکر مندى اور بے چىنى کا اظہار فرماىا۔‘‘

ہوسٹل جامعہ احمدىہ کے سپر نٹنڈنٹ

محترم حضرت سردار صاحب پہلے سپر نٹند نٹ ہوسٹل جامعہ احمدىہ مقرر ہوئے۔ بعد مىں 1947ء کے عرصہ مىں شىخ محبوب عالم صاحب خالد، صاحبزادہ مولوى ابو الحسن قدسى صاحب اور مولوى خان ارجمندخان صاحب مقرر ہوئے۔

(بحوالہ تارىخ احمدىت جلد پنجم صفحہ108)

 حضرت اباجى سردار صاحب کى کسر صلىب کانفرنس مىں شرکت

 1978ء لندن مىں صلىب کانفرنس ہوئى اس تارىخى تقرىب مىں حضرت اباجى کو بھى شمولىت کى سعادت حاصل ہوئى۔ تارىخى اعتبار سے ىہ حقىقت تھى کہ حضرت چوہدرى محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور حضرت سردار مصباح الدىن صاحب غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ، ىہ اس وقت صرف دو اىسے زندہ وجود تھے جو 1924ء مىں وىمبلے کانفرنس مىں بھى شامل تھے اور 1978ء مىں صلىب کانفرنس مىں بھى شامل تھے۔ مسجد فضل لندن کے سنگِ بنىاد کے بعد ىہ پہلا موقع تھا کہ حضرت اباجى سردار صاحب انگلستان تشرىف لائے۔ اور تبلىغ اسلام کے جہاد مىں انقلاب برپا کر دىنے والى اس مسجد کو تعمىر شدہ حالت مىں بھى اپنى آ نکھوں سے دىکھا۔ مىرے اىک بھائى ناصر الدىن احمد سامى اىک عرصہ سے مرى مىں مقىم تھے اور وہ وہاں کے صدر جماعت احمدىہ بھى تھے۔ اس لئے مىرے محترم ابا جى سردار صاحب بھى گرمىوں مىں اکثر مرى تشرىف لے جاتے تھے اور گرمىوں مىں حضرت خلىفۃ المسىح الثالثؒ بھى وہاں قىام فر ما تھے حضور انور نے مىرے بھائى ناصرالدىن کو فر ماىا کہ بشىر الدىن کو لندن لکھو کہ سردار صاحب کو صلىب کانفرنس کے موقع پر بلائے اس طرح حضور کے ارشاد پر حضرت اباجى کو صلىب کانفرنس مىں شمولىت کا شرف حاصل ہوگىا۔ حضرت خلىفۃ المسىح الثالثؓ کے ہمراہ اس سفر مىں حضرت مولانا چودھرى ظہوراحمدصاحب سابق ناظردىوان صدرانجمن احمدىہ ربوہ بطور پرائىوىٹ سىکرٹرى تشرىف لائے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو خاص طور پر ىہ بىان کىا کہ کانفرنس کے موقع پر جو انگلش فلمساز مقرر تھا اُس نے خاص طور پر استفسار کىا کہ ہز ہولىنس کے علاوہ سفىد پگڑى مىں کون بزرگ تھے جو سر ظفراللہ خان صاحب سے بھى بڑى عقىدت سے ملے اور ہز ہولىنس کے ساتھ تو ملتے ہوئے بہت ہى عقىدت سے جھکے ہوئے اور ہاتھ چومتے ہوئے اس فلم مىں رىکارڈ ہوئے ہىں۔ حضرت چودھرى صاحب نے بتاىا کہ مىں نے حضرت سردار صاحب کا تعارف پىش کرتے ہوئے بتاىا کہ ىہ 1924ء مىں اس مشن ہاؤس مىں مبلغ تھے اور مىرے استاد بھى رہے ہىں۔

قلمى جہاد

رىوىو آف رىلىجنز مىں اُن کے رشحاتِ قلم شامل ہىں، خاص طور پر 1928ء کى اشاعت مىں ان کے شذرات کا کالم باقاعدگى سے چھپتا رہا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ہمعصر دانشوروں سے قلمى جہاد کا سلسلہ جارى رکھا۔ جس کسى نے بھى احمدىت کى مخالفت مىں قلم اُٹھاىا اور اُن کے قلم کى زد سے نہىں بچ سکا۔ مخالفىن کے نظرىات کے جوابات کو احمدىت کے اعتقادات، قرانى دلائل اور بُرہان سے سجا کر قلمى جہاد کى نذر کرتے چلے جانا ىہ اُن کى حس مىں شامل تھا۔ ان کے قلمى معرکوں مىں مولانا مودودى صاحب کا نام بھى شامل ہے۔ جنہوں نے ان سے اىک مرتبہ تحرىرى معذرت کر لى تھى کہ مىں آپ سے کسى قسم کى بحث مىں نہىں اُلجھنا چاہتا۔ اسى طرح اىک موقع پر جناب جسٹس قدىر الدىن احمد صاحب نے اخبار جنگ مىں اىک مضمون آ نحضرت ﷺ بحىثىت تکمىل ِمظہرِ نبوة و رسالت کے عنوان شائع کىا۔ حضرت اباجى سردار صاحب نےىہ مضمون ذوق اور جذبہ سے پڑھا اور اُس پر تقرىباً سو صفحات پر مشتمل نہاىت جامع تبصرہ لکھا (اس کا مسودہ مرتب کے پاس محفوظ ہے) اس کا جواب در اصل جسٹس صاحب کے احمدىت کے متعلق ان کے اظہار خىال پر مبنى تھا اور ىہى حصہ اس تفصىلى وضاحت کا موجب بھى بنا۔ حضرت اباجى سردار صاحب نے جسٹس صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے جو انداز تحرىر اپناىا، اس کى اىک جھلک ملاحظہ فرمائىں۔ لکھتے ہىں کہ رسول کرىم ﷺ کى شان ارفع و اعلىٰ کے متعلق اىک دہقان بھى حب رسولؑ کے جذبہ سے کچھ زبان پر لائے تو بھى محاسن نبوىؑ سے معمور ہوتا ہے تو اىک مولوى علم و عر فان سے شان رسولﷺ پر اظہار کرے گا تو وہ ىقىناً وہ شان ارفعِ رسول کرىم ﷺکا مظہر ہى ہوگا۔ ہاں! اپنا تائثر ىہ ہے کہ جو کچھ آپ کے قلم اور زبان سے نکلا ہے ذہنى کاوش کى درىافت نہىں ہے۔ ىہ حاصل تدبر فى القرآن ہے۔ اس تمہىد کے بعد احمدىت کے سو سالہ تارىخ کے دوران ملاؤں کے غىظ و غضب بھرى قلم و زبان نے جو مسلسل زہر اُگلا، اس کے حوالہ سے جماعت احمدىہ کے مؤ قف کو قرآنى معارف اور احادىث کى روشنى مىں بالوضاحت پىش کر کے حضرت سردار صاحب نے پاکستان کى عدالت عالىہ تک سىدنا حضرت اقدس مسىح موعودؑ کا پىغام پہنچا کر حجت تمام فرمائى۔

اسى عرىضہ مىں آگے چل کر خلافت منہاج نبوت کے ذکر مىں حضرت اقدس مسىح موعود ؑکى متابعت مىں جسٹس صاحب کو پُر شوکت الفاظ مىں لکھتے ہىں کہ ہم حضرت اقدس مسىح موعودؑ کى خلافت کو على منہاج نبوت ہى مانتے ہىں اور اس خلافت کے ظہور مىں آج نوّے (بوقتِ تحرىر) برس کا عرصہ ہمارے سامنے گزر چکا ہے۔ اس عرصہ مىں اس خلافت کے ظہور مىں آنے کا منہاج اور مساعى جمىلہ کى شان، اُس کے ثمرات اور اثرات جو ہمارے سامنے آ چکے ہىں وہ اس امر پر برہان برہنہ و مبىنہ ہىں کہ ىہى خلافت على منہاج نبوت ہے جس کا ذکر حدىث مىں بزبان نبوىﷺ ہؤا۔ اس خلافت کى نوّے سالہ تارىخ کے سامنے ہوتے ہوئے کوئى بھى سلىم الطبع، ذى حواس صحىحہ، ذرہ بھر بھى تو دل مىں شبہ نہىں لا سکتا کہ ىہى وہ خلافت على منہاج نبوت ہے جس کا امت کى عمر مىں بزبان نبوىﷺ پانچوىں دور پر شروع ہونے کا ذکر ہوا ہے۔

ہمىں است، ہمىں است، وہمىں است!

حضرت اباجى سردار صاحب وسىع مطالعہ رکھتے تھے۔ مختلف کتب، رسائل اور روز مرہ کے اخبارات انگرىزى اور اردو کا مطالعہ ان کى روح کى غذاتھى۔ اخبارات باقاعدگى سے خود جا کر لاتے اور صفحہ بہ صفحہ پڑھتے۔ جہاں کوئى اچھا مضمون ىا شعر پسند آ جاتا اس کا تراشہ رکھ لىتے اور مضمون نگار کو اپنے تاثرات بىان کرتے ہوئے لکھتے ہىں۔ اپنى سخن ورى پر مىرى سخن شناسى بھى دىکھ لىں کہ جىسے شعراء اپنى نظم مىں اىک شعر ىا مصرع کو نظم کى جان قرار دىتے ہىں فرعون نمبر مىں آپ کا ادارىہ اس نمبر کى جان ہے اگلى اىک نہاىت ضرورى بات کے ذکر مىں لانے سے پہلے گفتہ آ ىد درحدىث دىگراں کے ذىل آپ کى مہارت سخن گوئى کے ضمن مىں بتلاتا جاؤں۔ مفتاح کے نام سے ہى آپ نے ضىاء کى جماعت احمدىہ کے ساتھ ظالمانہ روش کا کھل کر ذکر کر دىا ہے۔ اور جىسا کہ آپ نے اظہار کىا ہے ان شاء اللہ جماعت تو سلامت درىا پار ہو جائے گى۔ مگر فرعون غرق ہو کر رہے گا۔

 اگلى بات تقاضے کے بعد “کراچى مىں قىامت صغرىٰ” نمبر مىں قادىانىوں کا کلمہ کے تحت جو حافظ مبارک على قاسمى کے خط اور اُس پر جو کچھ لکھا ہے۔ اظہار کىا ہے اس سے وہ بات ابھرى ہوئى ہے۔ اور آپ تصور نہىں کر سکتے کہ اس بات کے سامنے آنے پر مىرے دل مىں ىہ دعا ڈالى گئى ہے اور جس احساس سے اللہ کے حضور کرنے لگ گىا ہوں۔ وہ دُعا اور مىرے انداز دعا کے اثر سے خالى رہنے والى نہىں۔۔۔ آگے چل کر مدىر اعلىٰ صاحب کو اىک اىک حقىقت کى طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہىں۔ اللہ تعالىٰ کى طرف سے کسى صداقت کا نزول ہو تو خدا تعالىٰ کا ارشاد ہے :۔

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡىُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡىَکۡفُرۡ ۙ

(سورہ الکہف آىت30)

ترجمہ۔ اور کہہ دے کہ وہى حق ہے جو تمہارے رب کى طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ اىمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔

لىکن قبول کرنے والوں پر صرف اس حق کو خود قبول کرنے ہى کا حکم ہے۔ بلکہ ىہ بھى کہ اس حق کے پھىلانے دوسروں تک پہنچانے، دوسروں کے قبول کروانے مىں اس مامور من اللہ کى طرف مکلّف ہوتے ہىں کہ اس حق کى اشاعت ان کى زندگى کا نصب العىن ہو جائے۔ ىہ جو کچھ ہم پر ظاہر ہے کہ حق کو قبول کرنے کے بعد مومن خود مبلغ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے دوسروں کو حق کے قبول کرنے کى دعوت دىنے والے کے عمل اور قبول کرنے کى دعوت دىنے والے کے عمل اور قبول سے عىاں ہوتا ہے کہ وہ سب کى نگاہ مىں خود اس صداقت پر اىمان لانے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہے۔ ىہ حق کو قبول کرنے والوں کا اصل مقام ہوتا ہے۔ لىکن اللہ تعالىٰ جو انسانوں کا خالق ہے اُس کى کمزورىوں سے بھى آگاہ ہے کہ بعض اىسے بھى ہوتے ہىں وہ حق کو قبول کر تو لىتے ہىں لىکن کچھ اىسى کمزورىاں ان سے لا حق ہوتى ہىں کہ وہ قبولىت ِ حق کا دوسروں کے سامنے اظہار نہىں کرتے۔ تو اللہ تعالىٰ نے اىسى پوزىشن کو بھى کچھ شرائط کے ساتھ روا رکھا ہے۔ جىسا کہ سورة مومن کے چوتھے رکوع کے شروع مىں اللہ تعالىٰ نے فر عون کے دربارىوں مىں سے اىک مومن کا ذکر کىا ہے۔ جس کے متعلق الفاظ استعمال فر مائے ہىں۔ ىَکتُمُ اِ ىْمَا نَہُ۔ جو اپنے اىمان کو چھپائے ہوئے تھا۔

 وہ حضرت موسىٰؑ پر اىمان لا چکا تھا لىکن دوسروں پر ظاہر نہىں کىا تھا۔ لىکن وہ اُن کو کہتا ہے کہ دىکھو تم موسىٰ کے قتل کے درپے ہو گئے ہو حالانکہ وہ خدا کى طرف سے آنے کے متعلق نشان تمہارے سامنے لا چکا ہے۔ جسے تم سمجھتے ہو وہ کاذب ہے تو اُس کے درپئے آزار ہونے سے جو وبال ہے وہ تم پر وارد ہو جائے گا۔ ىہ کہنے کے ساتھ اُن کو وعظ کىا ہے اور خوفِ خدا رکھنے کا کہا ہے۔ تو اس مومن کے نمونہ سے اللہ تعالىٰ نے ان معذورِحال بندوں کو جو اىمان کے اظہار کى قدرت نہىں پاتے ان کے لئے ىہ رواہے وہ اپنا اىمان ظاہر نہ کرىں لىکن ان کا عمل اور قول اىسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا مظہر ہو کہ لوگ اسے بھى اپنے مىں سے ہى ہونے والا شمار کر لىں۔ ان کا کوئى عمل اور کوئى قول ہر گز ہر گز اىسا نہ ہو جو اس کى طرف سے انکار کا تصور دے دے۔ اس تفصىلى وضاحت کے بعد مدىر موصوف کو توجہ دلاتے ہىں کہ آپ نے حافظ مبارک على قاسمى کے الزام کہ قادىانى حضرات مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ قرار دىتے ہىں۔ اُس کے جواب مىں لکھ دىا ’’دىکھنے کى ىہ بات ہے کہ مرزا صاحب نے خود کو محمد رسول اللہ قرار دىا ؟ہمىں اعتراف ہے کہ احمدىہ فرقے کا لٹرىچر ہمارى نظر سے نہىں گزرا۔ اس لئے اس بارے مىں کوئى رائے نہىں دے سکتے۔‘‘

حضرت اباجى سردار صاحب مدىر موصوف کے ان دو فقرات کے سٹىنڈ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہىں۔ ’’اس الزام کے درست ہونے ىا نہ ہونے کے متعلق کوئى سٹىنڈ لىنے کے لئے احمدىہ لٹرىچر کا نظر سے گزرنا ضرورى نہىں۔ کسى حقائق آگاہ ذہن ودہن سے نکلنا تو درکنار کسى گڈرىا کے ذہن مىں بھى نہىں گزر سکتا۔ سو سال سے جب سے جماعت احمدىہ کا وجود نمود مىں آىا ہے ذى علم طبقہ کا ذکر، گڈرىا جىسا فہم و ادراک والا طبقہ جماعت گردو پىش چلا رہا ہے انہوں نے جماعت احمدىہ کےلٹرىچر کا اىک حرف بھى نہىں پڑھا اور وہ پورے شعور سے اس الزام کى تردىد کر دے گاکہ احمدىوں کے ساتھ زندگى گزارنے کے،علم و شعور سے بلا روک ٹوک کہے گا کہ احمدى مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ نہىں قرار دىتے۔ آپ کا تو معىار ِعلم بلند ہے۔ کہ آپ صحافى ہىں۔ اخبار نوىس ہىں۔ جن کى نگاہ حال تک محدود نہىں ہوتى وہ ماضى اور مستقبل پر نگاہ رکھنے والے ہوتے ہىں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ جماعت احمدىہ حضرت مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ نہىں قرار دىتى۔ اس بے خبرى کى وجہ سے آپ کوئى رائے نہىں دے سکتے۔ احمدىہ لٹرىچر کے نظر سے نہ گزرنے کے باوجود کم سے کم آپ اپنے علم کى آگاہى سے ہى پرُ زور انداز سے کہہ دىتے ىہ الزام ہى سراسر افتراء ہے۔‘‘ ىہ وہ چند رشحاتِ قلم کے چند نمونے ہىں جس نہج پر انہوں نے زندگى بھر اپنے قلمى جہاد کو جارى و سارى رکھا۔

بىعت حضرت مرزا ناصر احمد خلىفة المسىح الثالث ؒ

 8نومبر 1965 ءکو حضرت خلىفۃ المسىح الثانىؓ کا انتقال پُر ملال ہوا۔ جونہى ىہ افسوسناک خبر حضرت اباجى سردار صاحب کو پہنچى تو سب افراد خانہ کو اکٹھا کىا اور فر ماىا مىں دعا کرتا ہوں اور آپ بھى سب مىرے ساتھ ہاتھ اُ ٹھا کر دعا کرىں کہ اللہ مىاں ! ہم تىرے سہارے بڑھ رہے ہىں تو ہمارا مدد گار ہو اور ہمىں نئى خلافت کے لئے اپنى رہنمائى کىساتھ مدد کرنا اور ہم مىں نفاق پىدا نہ کرنا۔ اس دعا کے بعد سب اہل خانہ سمىت ربوہ پہنچے اور حضرت خلىفتہ المسىح الثالث ؒ کے دست مبارک پر شرفِ بىعت حاصل کىا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

پاکستان آنے کے بعد چنىوٹ مىں سکونت

 قادىان سے ہجرت کے بعد محترم اباجى سردار صاحب نے اپنى فىملى کے ساتھ فىصلہ کىا کہ چونکہ اُن کى زندگى شروع سے ہى مرکز سے وابستہ رہى ہے اس لئے بقىہ زندگى بھى مرکز مىں ہى گزارىں گے۔ اور مرکزِقادىان کا قافلہ جہاں بھى ڈىرہ ڈالے گا وہىں کے ہو رہىں گے۔ ىہ محض جذباتى بات نہ تھى بلکہ اىمان تھا کہ مرکز سلسلہ سے وابستگى کے بغىر زندگى نہىں ہے۔ چنانچہ اىسا ہى کىا۔ جىسے ہى مرکز سلسلہ نے ہجرت سے قادىان کے بعد لاہور سے منتقل ہو کر چنىوٹ مىں پڑاؤ ڈالا وہ بھى مع اہل و عىال چنىوٹ منتقل ہو گئے۔دىکھتے ہى دىکھتےچنىوٹ مىں مرکزى دفاتر اور ہائى سکول کھل گئے اور مرکزى مفکر، علماء، مدرس، مبلغىن، بزرگان ِ دىن اور صحابہ حضرت مسىح موعودؑ چنىوٹ کى گلى کوچوں مىں چلتے پھرتے نظر آنے لگے۔ حضرت مفتى محمد صادق صاحب ؓ نے چنىوٹ کا کوئى کوچہ نہىں ہوگا جسے اپنے بابرکت قدموں سے نہ چھوا ہو۔ چنىوٹ (محلہ گڑھا) مىں مندر والى گلى بہت معروف تھى جہاں ہمارے اباجى اور فىملى کا مسکن تھا۔ اس گلى مىں حضرت مفتى صاحب ؓکا اکثر گزر رہتا تھا۔ ہمارى والدہ مرحومہ کو ہر چند فکر رہتى کہ حضرت مفتى صاحب گزر رہے ہوں تو کوئى ہمسائى چھت کے پرنالے سے گندہ پانى نہ بہادے۔ محلہ کى سب عورتىں چونکہ ہمارى والدہ صاحبہ کى بہت عزت کرتى تھىں اس واسطہ سے اور حضرت مفتى صاحب کى سبز پگڑى کى وجہ سے اُن کى پہچان رکھتى تھى اور احتىاط کرتى تھىں۔

ربوہ کے شبِ وروز کے حوالہ سے انکى دلچسپىاں، اُن کے شوق، اُن کى فدائىت کے رنگ، اُن کے جذبے اور والہانہ پن دىوانگى کى حد تک اُن مىں کار فر ما تھے۔ جب حضرت خلىفتہ المسىح الثانى ؓنے ربوہ کا افتتاح فر ماىا اس تارىخى موقع پر اُ نہوں نے اپنے کنبے کو خاص اہتمام سے اکٹھا کىا اور تانگہ کى سوارى سے ربوہ پہنچے اور افتتاحى تقرىب مىں شمولىت کى سعادت پائى۔ اسى طرح جب مسجد مبارک کا سنگِ بنىاد رکھا جارہا تھا اس موقع پر بھى سارے کنبہ کو ساتھ لىا اور دعا مىں شامل ہوئے۔ اس موقع پر حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے اس بابرکت تقرىب کے شرکاء کے نام ا کٹھے کئے تھے اور وہ تارىخ کا حصہ ہىں۔ جس سال حضرت اُم المومنىن ؓکى وفات ہوئى خاکسار (مرتب) ان دنوں لاہور مىں نوکرى کے لئے سر گردان تھا۔ کہ مجھے والد محترم کا اىک دستى رقعہ ملا جس مىں ىہ پىغام تھا کہ حضرت اماں جانؓ کى آخرى گھڑى آن پہنچى ہے اس لئے جىسے تىسے بن پڑے کسى سے کراىہ مانگ کر فوراً ربوہ پہنچو۔ مکرر تاکىد ہے کہ اس موقع کو ضائع نہ کرنا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس تاکىدى ارشاد پر تعمىل کى توفىق بھى مل گئى۔

ہجرت کا دور چنىوٹ مىں ہى گزرا لىکن اس رنگ مىں گزرا کہ اگر صبح ىہاں تو شام ربوہ مىں کم دن ہوں گے کہ اُنہوں نے ربوہ کى گہماگہمى کو چھوڑا ہو۔ ربوہ کى ہر خوشى، اُن کى خوشى۔ربوہ کا ہر دُکھ ان کے سىنے کا دُکھ تھا سالہاسال اُ نہوں نے کوئى جمعہ نہىں چھوڑا جو انہوں نے ربوہ مىں نہ پڑھا ہو۔اُن کا ىہ معمول تھا کہ کہ جمعہ کى ادئىگى کے بعد اپنے ہر ملنے والے کے گھر جاتے حال احوال درىافت کرتے، ہر بىمار کى خبر گىرى

فر ماتے۔ شادى بىاہ، بچوں کى پىدائش دىگر چھوٹى بڑى خوشىوں مىں گرم جوشى سے شرکت فر ماتے۔ تحفہ تحائف دىتے۔ ربوہ سے چھ مىل دور رہتے ہوئے بھى جبکہ اُ نہىں سوارى کى کوئى سہولت مىسرنہىں تھى اور نہ ہى اُن کے پاس کوئى پىسہ ہوتا تھا پھر بھى ناجانے کىسے اللہ تعالىٰ اُن کى مدد فر ماتا اور وہ ربوہ ہر جنازہ مىں شرکت کرتے تدفىن مىں حصہ لىتے۔ اکثر ربوہ کى دھول مىں تىز تىز چلتے۔ تىز چلنا اُن کى عادت تھى۔ ىہ سب خلافت اور مقام خلافت کى محبت تھى جو اُنہىں اِس صحرانوردى پر ہر دم اُکساتى رہتى تھى۔ وہ اپنے دل مىں اسى لىلىٰ کو چھپائے اس رىگزار مىں خاک چھاننے پر مجبور تھے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھے۔

ہمارى والدہ مرحومہ ىہ کہتے کہتے اِس دنىا سے رخصت ہو گئىں کہ آپ اپنى صحت کا خىال رکھىں۔ لىکن اُن کے معمول مىں کوئى فرق نہ پڑا اىک روزحسبِ معمول شدىد گرمى اور بلا کى تپش مىں اُنہىں اىک دوست نے مسجد اقصىٰ جاتے ہوئے دىکھا تو اپنى سائىکل پر پىچھے بٹھا لىا۔ جونہى وہ مسجد اقصىٰ کے قرىب پہنچے تو پتھرىلى زمىن پر سائىکل سے اس بُرى طرح گرے کہ اُن کے کولہے کى بوڑھى ہڈىاں چکنا چور ہو گئىں، اُسى وقت فىصل آباد ہسپتال لے کر گئے آپرىشن ہوا لىکن اُس کے بعد وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوسکے۔ حضرت اباجى کا عمر کے اس آخرى حصہ مىں چنىوٹ مىں رہنا مشکل ہو گىا تھا کہ سىڑھىوں والا گھر تھا لىکن اباجى ربوہ سے دور جانا نہىں چاہتے تھے کہ اىسا نہ ہو کہ کوچ کا وقت آ جائے اور وہ خاک جس خاک سے ملنے کى آرزو دىتى ہے وہ کسى مسافت کى وجہ سے اِدھر اُدھر ہو جائے۔ با امر مجبورى بڑے بىٹے سردار عبد السبحان مرحوم کے پاس کراچى چلے گئے۔ آخر اللہ تعالىٰ کى طرف سے بلاوا آ گىا ىوں ہمارے دروىش صفت والد صاحب جنہوں نے وقفِ زندگى دىن کے لئے اپنے آپ کو ہمىشہ ہر قربانى کے لئے تىار رکھتے ہوئے گزارى۔ اللہ تعا لىٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَىۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

بلانے والا ہے سب سے پىارا، اسى پہ اے دل تو جاں فدا کر۔

 مىت حسبِ وصىت بہشتى مقبرہ ربوہ پہنچائى گئى۔ 3اگست 1988ء کو بعد نماز عصر مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد، مورخِ احمدىت نے نماز جنازى پڑھائى اور مکرم نسىم سىفى صاحب نے قبر تىار ہونے پر دعا کروائى۔

 مَىں اپنے تمام مرحومىن کے لئے جو اس دنىا سے اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو چکے ہىں۔ اُن سب کے لئے دُعائے خىر مانگتى ہوں اللہ پاک اپنے فضلوں اور رحمتوں سے اِن سب کو غرىق رحمت فر مائے اور اعلىٰ علىىن مىں جگہ دے۔ اللہ تعالىٰ ہم سب کو توفىق عطا فر مائے کہ ہم اُن کى نىکىوں کو آگے لے کر چلنے والے ہوں، سارى نسلىں دىن اور خلافت کے جھنڈے تلے زندگى بسر کرنے والے ہوں۔ آ مىن ىَا رَبَّ الْعٰلَمِىْنَ۔

(صفیہ بشیر سامی۔لندن حال کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہونے والا بزدل ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 نومبر 2021