• 20 جولائی, 2025

ربط ہے جان ِمحمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 2)

ربط ہے جان ِمحمدؐ سے مری جاں کو مدام
غیر مسلم عادل حکومت کی پناہ اور تعریف

قسط 2

’’تم لوگ حبشہ چلے جاؤ۔ کىونکہ وہاں پر اىسا بادشاہ ہے جو کسى پر ظلم نہىں کرتاوہ ارضِ حق ىعنى سچائى والى زمىن ہے‘‘

(سىرۃ ابنِ ہشام جلد اول صفحہ 321)

 مکہ مىں مسلمانوں پر مسلسل ظلم و ستم سے عرصہء حىات تنگ ہوگىا تو آنحضرت ﷺ نے حبشہ کى طرف ہجرت کرنے کا ارشاد فرماىا۔ ہجرت کے لئے ارضِ حبشہ کے انتخاب کى وجہ کىا تھى ؟

 حبشہ کا بادشاہ نجاشى مسلم نہىں تھا لىکن ان مىں اىسى صفات موجود تھىں جو اسلام کى تعلىم سے مطابقت رکھتى تھىں وہ رحم دل اور عادل تھے آپؐ کو توقع تھى کہ مسلمان وہاں سکون سے رہىں گے۔ اس لئے آپؐ نے ان کا انتخاب فرماىا۔اور انہىں تعرىف سے نوازا۔

دوسرے آپؐ نے اىران کے بادشاہ نوشىرواں کى تعرىف فرمائى اس کى وجہ بھى اس کا عدل تھا۔

’’پىغمبر اسلام نے نو شىرواں عادل کے عہد سلطنت مىں ہونے کا ذکر مدح اور فخر کے رنگ مىں بىان فرماىا ہے‘‘

تحرىر على الحائرى شىعہ عالم (موعظہ تحرىف قرآن 72 از على الحائرى 1932ء)

ان دونوں غىر مسلم بادشاہوں سے آپ ؐ نے کوئى مالى منفعت حاصل نہىں کى۔ جہاں اچھائى دىکھى تعرىف فرمائى حکمت مومن کى مىراث ہے۔آپؐ کا غىر مسلم مگر عادل رعاىا کى سلطنت مىں ہونے کا مدح اور فخر سے ذکر فرمانا آپؐ کى ذات کے غىر جانبدار عادل ہونے کى بہت بڑى مثال ہے۔

 ىہاں حسنِ خلق کى قدردانى کى اىک دلفرىب مثال کے طور پر اىک واقعہ مختصراًپىش ہے۔ قبىلہ طَے کے کچھ جنگى قىدى آپ ﷺ کى خدمت مىں پىش ہوئے جن مىں حاتم طائى کى بىٹى بھى تھى۔ اس نے آگے بڑھ کر آپؐ سے پوچھا:

آپ جانتے ہىں مىں کون ہوں؟

رسولِ کرىم ﷺ نے فرماىا نہىں مىں نہىں جانتا۔

اس لڑکى نے کہا مىں اس باپ کى بىٹى ہوں جس کى سخاوت کے ذکر سے سارا عرب گونج رہا ہے۔

رسولِ کرىم ﷺ نے فرماىا اس کا باپ محسن تھا اور وہ دنىا کے ساتھ نىکى کا سلوک کرتا تھا، ہم اىسے باپ کى لڑکى کو قىد کرنا نہىں چاہتے، چنانچہ آپؐ نے اسے آزاد کر دىا۔ اور اس کى درخواست پہ اس کے سارے قبىلے اور مفرور بھائى کو بھى آزاد کردىا۔

 حاتم طائى کا اسلام پر کوئى احسان نہىں تھا، وہ صرف اپنے علاقہ مىں سخاوت کے لئے مشہور تھا محمد رسول اللہﷺ اور آپ کى جماعت کے لئے اس نے کوئى کام نہىں کىا تھا۔

 آپؐ نے صرف اس وجہ سے کہ وہ غرىبوں پر احسان کىا کرتا تھا اس کے سارے قبىلے کو معاف کر دىا ۔

آپؐ نے فرماىا۔ ہم اىسے شخص کى قوم کو قىد نہىں کرسکتے جو اپنى زندگى مىں غرىبوں پر احسان کىا کرتا تھا۔

 (خلاصہ ازتفسىر کبىر جلد10 صفحہ374 )

ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ﴿ۚ۶۱﴾

(الرحمن: 61)

حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے عہد مبارک سے پہلے بر صغىر پر سکھوں کا راج تھا جو اسلام کے مخالف تھے اور دشمنى مىں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ آواز اذان کى بھى برداشت نہ تھى مساجد پر بے جواز قبضہ کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ Sir Lepal Griffin کى ’’رنجىت سنگھ‘‘ نامى کتاب جو کہ ’S Chand & Co‘ کى طرف سے دہلى مىں شائع ہوئى، اس کے صفحہ 84 پر لکھا ہے ’’اس زمانے مىں سکھ فوج کو باقاعدہ تنخواہ کا کوئى نظام نہىں تھا۔ وہ اپنے گرو سے اجازت لے کر کوئى نہ کوئى شہر لوٹتے تھے۔ جب تک ذاتى دفاع کى طاقت نہ ہو تو نہ کسى کى زمىن، گھوڑا ىہاں تک کہ بىوى بھى محفوظ نہىں۔‘‘

اس کے بر عکس انگرىزوں نے انصاف کا بول بالا کىا جس سے معاشرتى گھٹن سے نجات اور مذہبى آزادى حاصل ہوئى۔ کسمپرسى کى حالت مىں رہنے سے کمزور مسلمانوں کى دىنى حمىت کو بھى نقصان پہنچا تھا انگرىزوں کى انصاف پسندى دىکھ کر مختلف ادىان سے لوگ اور عام مسلمان حتىٰ کہ بعض علمائے اسلام بھى عىسائىت مىں پناہ ڈھونڈنے لگے اىسے مذہب تبدىل کرنے والے مرتدىن سے عىسائىوں کى تعداد ستائىس ہزار سے پانچ لاکھ تک پہنچ گئى تھى۔ ان لوگوں نے نہ صرف مذہب تبدىل کىا بلکہ اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالىٰ اس کے رسول ﷺ قرآن پاک اور اسلامى شعائر کى بے حرمتى اور گستاخى مىں کوئى کسر اْٹھا نہ رکھى اور انگرىز حکومت کى خوشامدانہ تعرىف و توصىف مىں بڑھ چڑھ کر حصہ لىا مالى فوائد کى بھىک بھى مانگى۔ ان حقىقى گستاخ مرتدىن نے اسلام پر معاندانہ حملے کىے۔ جبکہ حضرت اقدسؑ نے حکومت کى اعتدال پسندى کى اعتدال کے ساتھ تعرىف فرمائى۔

’’ىہ حکومت اگرچہ اىمانى فضىلتوں اور برکتوں کو اپنے ساتھ نہىں رکھتى تاہم ہىروڈىس کے عہدِ حکومت سے جس کے ساتھ مسىح ابن مرىم کا واسطہ پڑا تھا بدرجہا بہتر اور حال کى اسلامى رىاستوں سے بلحاظ امن اور عام رفاہىت کے پھىلانے اور آزادى بخشنے اور حفاظت اور تربىت رعاىا اور انتظام قانون معدلت اور سرکوبى مجرموں کے بدرجہا افضل ہے۔‘‘

 (فتح اسلام، روحانى خرائن جلد3 ص15،14حاشىہ)

اپنى اس قدردانى کى توجىہہ آپؑ کے الفاظ مىں:
’’ىہ دعا گو جو دنىا مىں عىسى مسىح کے نام سے آىا ہے اسى طرح وجود ملکہ معظمہ قىصرہ ہند اور ان کے زمانے پر فخر کرتا ہے جىسا کہ سىد الکونىن حضرت محمد مصطفى ﷺ نے نوشىرواں عادل کے زمانہ سے فخر کىا تھا

 (تحفہ قىصرىہ، روحانى خزائن جلد 12 صفحہ255)

’’ىہ اللہ تعالى کافضل اور احسان ہے کہ ہم اىک اىسى سلطنت کے نىچے ہىں جو ان تمام عىوب سے پاک ہے ىعنى سلطنت انگرىزى جو امن پسندہے جس کو مذہب کے اختلاف سے کوئى اعتراض نہىں۔ جس کا قانون ہے کہ ہر اہل مذہب آزادى سے اپنے مذہبى فرض ادا کرے چونکہ اللہ تعالى نے ارادہ فرماىا ہے کہ ہمارى تبلىغ ہر جگہ پہنچ جاوے اس لئے اس نے ہم کو اس سلطنت مىں پىدا کىا۔جس طرح آنحضرت ﷺ نوشىرواں کے عہد پر فخر کرتے تھے اسى طرح پر ہم کو اس سلطنت پر فخر ہے۔ىہ قاعدے کى بات ہے کہ مامور چونکہ عدل اور راستى لاتا ہے اس لئے اس سے پہلے کہ وہ مامور ہوکر آئے عدل اور راستى کا اجرا ہونے لگتا ہے۔‘‘

 (لىکچر لدھىانہ، روحانى خزائن جلد20 صفحہ268)

 حضرت اقدس مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں:
’’اس عاجز نے جس قدر حصہ سوم کے پرچہ مشمولہ مىں انگرىزى گورنمنٹ کا شکر ادا کىا ہے وہ صرف اپنے ذاتى خىال سے ادا نہىں کىا بلکہ قرآن شرىف اور حدىث نبوى کى ان بزرگ تاکىدوں نے جو اس عاجز کے پىش نظر ہىں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کىا‘‘

 (براہىن احمدىہ، روحانى خزائن جلد۱ صفحہ316)

خلاصہ کلام ىہ کہ جس کام کا محرک قرآن شرىف اور احادىث نبوى ہوں جو خود آنحضرت ﷺ نے کىا ہو اور جس مىں کوئى مالى طمع ىامنافع کى لالچ نہ ہو اس پر اگر کم نظر معاند معترض ہوں تواس کى کوئى اہمىت نہىںسراجِ منىر اور اس سے بدرکامل مىں منعکس ہونے والى روشنى پھىلتى رہے گى

کَانَ خُلُقُہُ حُبَّ مُحَمَّدِ وَاَتِّبَاعُہُ عَلَىْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہونے والا بزدل ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 نومبر 2021