• 29 اپریل, 2024

’’نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دوسرے سے ہمدردی اور شفقت کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر مَیں دیکھتاہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے‘‘

(ملفو ظات جلد4 صفحہ438-439 ایڈیشن 2003ء)

(یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ خبر گیری کی جائے، اُن کا تو مذاق اُڑایا جاتا ہے، ٹھٹھے کئے جاتے ہیں۔)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑدے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔ انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جبتک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ216-217 ایڈیشن 2003ء)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی خوبی بیان کرتے ہوئے، مسلمانوں کی خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’قرآنِ شریف نے جس قدر والدین اور اولاد اور دیگر اقارب اور مساکین کے حقوق بیان کئے ہیں مَیں نہیں خیال کرتا کہ وہ حقوق کسی اور کتاب میں لکھے گئے ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۷﴾ (سورۃالنساء: 37) تم خدا کی پرستش کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ، اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور اُن سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں۔ (اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتے دار آ گئے) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علمِ دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ208-209)

پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’اُس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو۔ اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو وہ اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ … بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ اُن کی تحقیر۔ اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خودنمائی سے اُن کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ11-12)

پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کے افراد کے لئے تعلیم اور دلی کیفیت کا اظہار ہے تا کہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے سامنے ایک پاک نمونہ قائم کرنے والے ہوں بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے والے بھی بن جائیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا۔ تم اہلِ زمین پر رحم کرو۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

(سنن الترمذی کتاب البر والصلۃباب ماجاء فی رحمۃ المسلمین حدیث: 1924)

پس جب ہم اللہ تعالیٰ کا رحم مانگتے ہیں، اُس سے اُس کی رحمت کے تمام چیزوں پر حاوی ہونے کا واسطہ دے کر اُس سے دعا مانگتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی ہمدردیٔ خلق کے جذبے کو بھی پہلے سے بڑھ کر دکھانا ہو گا، اُس میں بھی وسعت دینی ہو گی۔

(خطبہ جمعہ یکم جون 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع 2021ء مجلس انصار اللہ نیدرلینڈ (ہالینڈ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 نومبر 2021